نئی تعلیمی پالیسی( NEP) : سوالات کے گھیرے میں

حکومت لازمی تعلیم سے خود کو پیچھے کرتے ہوئے خانگی تعلیمی ادارہ جات کے فروغ کے لیے کوشاں

فاروق طاہر،حیدرآباد

 

مرکزی کابینہ کی جانب سے گزشتہ ماہ کی 29تاریخ کو ڈرافٹ نیو ایجوکیشن پالیسی کومنظوری دے دی گئی ۔ حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ اس کا مقصد تعلیم تک ہر کس و ناکس کی رسائی اور مساوات کو فروغ دیناہے لیکن پالیسی کے متن اور مشمولات کا باریک بینی سے جائزہ لینے سے حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ قوی احتمال ہے کہ منظور شدہ نئی تعلیمی پالیسی(NEP) سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ طبقات کی پسماندگی میں میں مزیداضافے، طبقاتی کشمکش اور سماجی تفریق و تفاوت کو فروغ دینےکا ایک مذموم وسیلہ بن جائے گی۔کہا جارہا ہے کہ نیشنل ایجوکیشن پالیسی (NEP)وزیراعظم کے بلند بانگ اور مقبول و معروف نعرے ’’خودمکتفی بھارت‘‘ (آتم نربھربھارت) کے بنیادی اصول پر مبنی ہے۔پالیسی میں پیش کردہ اغراض و مقاصد اور اصول و طریقہ کار کو وضع کرتے وقت زمینی حقائق ، ملک کی سماجی، معاشی اور طبقاتی صورتحال سے مکمل انحراف کیا گیا ہے۔حقائق پر مبنی اصول، اغراض و مقاصد اور عملی طریقہ کار کے بجائے صرف تخیلاتی نظریات پرمبنی ناقابل عمل افسانوی طریقہ کارکو بڑی شد ومد سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کا مسودہ جو کہ 480 صفحات پر مشتمل ہے اور منظورہ شدہ پالیسی جو کہ 60صفحات پر مشتمل ہے، ان دونوں کے مطالعے سے یہ حقیقت صاف طور پر عیاں ہوجاتی ہے کہ حکومت تعلیم کی یقینی فراہمی کے عمل سے خو د کو پیچھے کرتے ہوئے خانگی اور پرائیوٹ تعلیمی ادارہ جات کے فروغ کے ذریعے ملک کو تعلیمی تجارت کے ایک مرکز کے طورپر فروغ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ منظورہ شدہ نئی تعلیمی پالیسی کے مطالعے سے معلوم ہوگا کہ حکومت خانگی تعلیمی اداروں کو اپنے من پسند طریقے سے چلانے کی طاقت، توانائی اور قانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں متعدد اخراجی نظام(Multiple Exit Points)کے انوکھے سیلنگ پوائنٹ کے ذریعے تبدیلی (پیراڈم شفٹ) کی بات زور و شور سے پیش کرتے ہوئے معصوم عوام کو دام فریب میں گرفتار کرنے کی کوشش کررہی ہے۔اس سے صرف عدم مساوات کو فروغ ملنے کےعلاوہ اور کچھ نہیں ملے گا۔یہ پالیسی جہاں غریبوں اور کمزور طبقات کو حصول علم سے باز رکھتے ہوئے انہیں تعلیمی دائرے سے بے دخل کرنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے وہیں مرفع حال اور اہل ثروت طبقے کو تعلیم کی تکمیل کا مواقع فراہم کرنے میں پیش پیش دکھائی دیتی ہے۔ایک جانب جہاں نئی تعلیمی پالیسی نصاب کی یکسانیت (ہم آہنگی و یکجہتی) مشترکہ امتحانات(Common Public Examination) اور انتظامیہ پر مرکز ی حکومت کے کنٹرول کی بات کرتی ہے وہیں دوسری جانب سرکاری اور خانگی تعلیمی اداروں کو عوام کا مالی استحصال کرنے کی مکمل آزادی فراہم کرتی دکھائی دیتی ہے۔نئی تعلیمی پالیسی میں بیان کردہ اسکولوں اور اعلیٰ تعلیم دونوں میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ (شراکت داری) کا دلفریب اصول عوام کو گمراہ کرنے کی سوا کچھ نہیں ہے اس طرح کے طرز عمل سے صرف نجی و خانگی تعلیمی اداروں کو فروغ حاصل ہوگا جسے حکومت فروغ دینے کے لیے کوشاں دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح کے اصول و ضوابط مدون کرنے کا صاف مطلب ہے کہ سماجی انصاف کو یقینی بنانے کے لیے حکومت خانگی اور سرکاری اداروں کو جوابدہی کے کٹہرے میں لانے سے روکنے کی کوشش کررہی ہے۔نئی تعلیمی پالیسی میں طلبہ تنظیموں کے پرزور مطالبے اور تحریکوں کے باوجود خانگی تعلیمی ادارہ جات میں آئین کی جانب سے فراہم کردہ لازمی تحفظات(ریزرویشن) کی ضرورت اور ریزرویشن پالیسیوں کو نافذ کرنے کے مثبت اقدامات کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا۔نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعے آئین کے وفاقی ڈھانچے پرشب خون مارا گیا ہے۔تعلیم چونکہ آئین کی متوازی فہرست(Concurrent List)میں شامل ہے ۔یہ شق بے شک مرکز اور صوبائی حکومتوں کے مابین مشاورت اور ہم آہنگی کا مطالبہ کرتی ہے لیکن ملک کے طول و عر ض میں اس کے یکساں نفاذ سے مرکزی حکومت کو باز بھی رکھتی ہے۔ مرکزی حکومت نے اس نکتہ پر کسی قسم کی توجہ نہ دے کر دستور کے وفاقی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں ڈیجیٹل اور آن لائن ایجوکیشن اور ٹیکنالوجی کے فروغ کی بات ضرورکی گئی ہے لیکن ٹیکنالوجی کے فروغ ،اس کی وسعت پذیری اور طلبہ کی ٹیکنالوجی تک رسائی جیسے اقدامات کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی ہے۔ملک کی اولین تعلیمی پالیسی(کوٹھاری کمیشن1968) کی تدوین سے آج تک بجٹ کا 6فیصدجی ڈی پی(GDP)تعلیمی اخراجات کے لیے مقرر کرنے کے مطالبات کئے جارہے ہیں۔اس حکومت نے بھی اس طرح کا دعویٰ کیا ہے وہ بھی ایسے حالات میں جب کہ ملک اپنی تاریخ کے بدترین معاشی و مالی دور سے گزر رہا ہے۔حکومت کے اس مالی اعانت کے دعوؤں کی قلعی بھی اس بات سے کُھل جاتی ہے کہ تعلیمی سرمایہ کاری اور اخراجات کا بوجھ ’’خانگی -مخیر‘‘اشتراکیت
(Private-Philantrophist Partnership) کی صورت عوام کے کندھوں پر ڈال کر حکومت اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کررہی ہے۔اس تناظر میں حکومت کا تعلیمی اخراجات کی مد میں 6فیصدGDP خرچ کرنے کا دعویٰ صرف زبانی جمع خرچ ہی معلوم ہوتا ہے۔پرائیویٹ ،فلنٹرافسٹ پارٹنر شپ پروگرام اسکولی اور اعلیٰ دونوں جدید تعلیمی پالیسی کی آڑ میں نفع خور، عوام کا خون چوسنے والے کارپوریٹ اداروں کے قبضے میں دینے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ اسکول اور اعلیٰ تعلیم کے بنیادی قومی شعبوں کو خانگی و نجی اداروں کے حوالے کرتے ہوئے اور خانگی تعلیمی نظام کو فروغ دیتے ہوئے حکومت اپنے فرائض کی ادائیگی سے پہلو تہی کررہی ہے۔
اسکولی تعلیم
NEP موجودہ اسکولی تعلیم کے+2 10 ڈھانچے کو "ایک نئے درسیاتی ، تدریسی اور نصاب کی تنظیم نو” کے ذریعے+3+3+4 5 ڈھانچے میں تبدیل کردے گی۔ یہ نیاڈھانچہ 3سال سے لے کر 18سال کے طلبہ کا احاطہ کرے گا۔ نئی تعلیمی پالیسی کے مدوین کا خیال ہے کہ موجودہ 10+2کا ڈھانچہ3سے 6سال کی عمر کے بچوں کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کا متحمل نہیں ہے۔ چونکہ بچوں میں رسمی تعلیم کا باضابطہ آغاز اول جماعت 6سال کی عمر سے ہوتا ہے۔موجودہ پالیسی میں ابتدائی تعلیم (چھ سال سے کم عمر کے طلبہ کی تعلیم )کا کوئی باضابطہ نظام موجودہ نہیں ہے۔لہذا نیاتعلیمی ڈھانچے+3+3+4 5 میںای سی سی ای ،ارلی چائلڈ ہڈ کیراینڈ ایجوکیشن
(Early Childhood and Education-ECCE)کے ذریعے 3سال سے6 سال تک کی عمر کے بچوں کی دیکھ بھال اور انھیںحصول تعلیم کا مواقع مہیاکرتا ہے۔موجودہ نظام میںECCE کی ذمہ داری آنگن واڑی مراکز کے تحت ہے جسے نئی تعلیمی پالیسی میں برقرار رکھا گیا ہے۔آنگن واڑی ورکرس /ٹیچرس کوتربیت سازی ،اعلیٰ معیاری انفراسٹرکچر اورکھیل کے سامان کی فراہمی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔10+2اور اس سے زیادہ کی قابلیت رکھنے والے آنگن واڑی ورکرس /اساتذہ کو ای سی سی ای میں 6ماہ کا سرٹیفکیٹ پروگرام کی تربیت کی فراہمی کی بھی بات کی گئی ہے۔مذکورہ تعلیمی قابلیت سے کم قابلیت کے حامل ورکرس و اساتذہ کو ایک سال کے ڈپلومہ پروگرام کے ذریعے تربیت فراہم کرنے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔بچوں میں فاصلاتی تعلیم کے فروغ کو یقینی بنانے کے لیے ڈی ٹی ایچ(DTH)چینلس اور اسمارٹ فونس کے استعمال کی بھی بات کی گئی ہے۔لیکن نئی تعلیمی پالیسی میں آنگن واڑی مراکز پر کنڑایکٹ /اعزازیہ کی بنیاد پرخدمات انجام دینے والے ملازمین کو مستقل طورپر تعینات کرنے کا کوئی تیقن یا تذکرہ نہیں دیا گیا ہے۔مستقل ملازمت تو درکنا کم سے کم اجرت کی بھی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی گئی ہے۔تعلیم کے ڈیجٹالائزیشن پر نئی تعلیم پالیسی کچھ نہیں کہتی کہ کس طرح طلبہ تک ڈیجیٹل رسائی میں اضافہ کیا جائے خاص طور پر ایسے طلبہ جن کے پاس ٹی وی نہیں ہے،بغیر رکاوٹ کے بجلی کی فراہمی،انٹرنیٹ ،اسمارٹ فونس یا الکٹرانک گیاٹ گیجس تک جن کی رسائی نہیں ہے۔آج بھی ملک کے 40فیصدعوام کو ہی انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے ۔یہ حالت دیہی علاقوں میں مزید ابتر اور ناقابل بیان ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی ’’مقامی و غیر مقامی تربیت یافتہ رضاکاروں اورسابقہ طلبہ کے ذریعے شخصی تدریس (one on one peer tutoring) اضافی سیشنس کے علاوہ کیرئیر سازی، طلبہ کی رہنمائی و رہبری اور درس تدریس و اکتساب سے متعلق دیگر امور تربیت یافتہ اساتذہ کی نگرانی میں بچوں کی حفاظت اورنگہداشت کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے انجام دینے کی پرزور وکالت کرتی ہے ۔بچوں کی تعلیم وتربیت اور درس و اکتساب کی ذمہ داریوں کو رضاکار افراد و اداروں کے کندھوں پر ڈالتے ہوئے حکومت بچوں کے لازمی حقِ تعلیم کو سلب کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی لازمی تعلیم کو یقینی بنانے سے پہلو تہی اور اپنی ذمہ داریوں سے دستبرداری اختیار کررہی ہے۔حکومت کسی بھی طور عوام کی تعلیم و تربیت ،معیاری اور سستی تعلیم کی فراہمی کے اپنے فرض منصبی سے فرار اختیار نہیں کرسکتی۔
حکومت کی فرض منصبی اورذمہ داریوں سے پہلو تہی و فرار کی حکمت عملی
نئی تعلیمی پالیسی میں لفظ خانگی (نجی/پرائیوٹ) کے بجائے عوامی فلاحی شراکت
Public – Philantrophist Partnership استعمال کرتے ہوئے حکومت عوام کو گمراہ کررہی ہے ۔اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ عوام اور رضاکار مخیر افراد و اداروں کے سر منڈھتے ہوئے حکومت اپنی ذمہ داریوں و فرض منصبی سے نہ صرف پہلوتہی بلکہ فرار اختیار کررہی ہے۔ اس قسم کی فرائض اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی ملک کی آزادی سے لے کر آج تک کسی حکومت کے دور میں دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔مودی حکومت عوامی فلاحی شراکت داری کی آڑمیں اسکولوں کے معیار انفراسٹرکچر کو یقینی بنانے سے مجرمانہ فرار اختیار کررہی ہے ۔ پبلک ،فلانٹرافسٹ پارٹنر شپ کے نام پر اسکولوں و اسکولی تعلیم کو چند پیسوں والے افراد کی صوابدید پر چھوڑدینے کی کوشش یقینا قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے۔اس طرح کا کوئی بھی قدم ملک کے اسکولی تعلیمی نظام کو کارپویٹ سیکٹر اوراورنجی افرادکے حوالے کرتے ہوئے غریب طلبہ کے حصولِ تعلیم و ترقی کے خوابوں کی تکمیل کو چکنا چور کرنے کے مترادف ہوگا۔اس طرح کے اقدامات سے تعلیمی تجارت کو فروغ ملے گا اور تعلیم ایک بکاؤ جنس بن کر رہ جائے گی۔غریب اور پسماندہ خاندان کے بچوں کے لیے اس طرح کی حکمت عملیاں انہیں تعلیم کے حصول سے یکسر محروم کردیں گی۔ملک کی تقدیر اور سرمایہ پہلے ہی چند افراد تک محدود ہے یہ پالیسی ان کی اجارہ داری کو مزید تقویت دے گی۔غریب اور پسماندہ خاندانوں کی زندگیاں جہالت اور علم کی کمی کی باعث ظلمتوں کی نذر ہوکر مزید اجیرن ہوجائیں گی۔
دوسری کلاسیکی زبانوں پر سنسکرت زبان کی بالادستی قائم کرنے کی مذموم کوشش:
مودی حکومت کا سنسکرت کو ملک کی دیگر کلاسیکی زبانوں کے مقابلے میں فوقیت دینا،سنسکرت کوقومی زبان کے طور پر ترقی و ترویج دینے کے عزائم کا مظہر ہے۔ اگرچہ نئی تعلیمی پالیسی میں دوسری زبانوں کی بات ضرورکی گئی ہے لیکن سنسکرت پر زیادہ زور دینے سے حکومت کی ترجیحات کا پتہ چلتاہے۔اس کے علاوہ حکومت کی تمام تر توجہ ہندوستان کے قدیم تعلیمی نظام اور طریقہ تعلیم پر مرکوز کرنے کی کوششوں سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ مختلف ادوار و مراحل میں تیارکردہ و ترقی یافتہ تعلیمی تجربات و طریقوں کو حکومت یکسر نظر انداز اور مسترد کرتے ہوئے تعصب کا اظہار کررہی ہے۔تعصب اور علم دشمنی پر مبنی اس طرح کی پالیسوں سے ملک کو شدید نقصان پہنچے گا۔
جہاں کہیں ممکن ہو،کم سے کم پنجم (پانچویں جماعت) لیکن ترجیحی بنیادوں پر آٹھویں جماعت اور اس سے آگے تک ذریعے تعلیم گھر کی زبان/مادری زبان/مقامی زبان/علاقائی زبان میں فراہمی کی بات کہی گئی ہے۔یہ ذریعہ تعلیم کے نظام میں ایک بڑی تبدیلی کا باعث ہوسکتا ہے ۔اس تبدیلی پر کئی اندیشے اور سوالات سر اٹھارہے ہیں جو کہ حق بجانب اور زمینی حقائق پر مبنی ہیں۔یک لخت ذریعہ تعلیم کی تبدیلی کے کیا ہم متحمل ہیں؟ اساتذہ اور معیاری تعلیمی موادکی دستیابی اور اس پر عمل درآمد پر کیسے ہوگا ؟اس طرح اور کئی سوالات سراٹھارہے ہیں۔سرکاری و خانگی مدارس میں کیا مادری زبان میں تعلیم کی فراہمی ممکن ہو پائے گی؟ کیا یہ صرف ایک اشارہ ہے کہ مادری/مقامی زبان میں پانچویں جماعت تک تعلیم دی جانی چاہئے۔کیا اسے ایک قانون کی شکل میں نافذ کیا جائے گااور جس پر عملدرآمد کو لازمی قرار دیا جائے گا؟کیا سرکاری مدارس میں بھی تین سال کی عمر کے بچوں کی تعلیم کے نظم کاآغاز ہوگا؟اگر ہوگا تو کیا یہ مادری زبان میں ہوگا یا پھر انگریزی زبان میں ہوگا؟آندھراپردیش حکومت نے انگریزی میڈم کو تمام مدارس میں متعارف کروانے کا عزم کیا ہے ۔کیا اب ایسی کوششوں پر پابندی عائد کی جائے گی؟نئی تعلیمی پالیسی کے مسودے میں بتایا گیا تھا کہ بچوں میں زبانیں سیکھنے کی صلاحیت دس سال کی عمر تک بہت زیادہ ہوتی ہے۔پنچم جماعت تک کے بچے جو دس سال تک کی عمر کے ہوتے ہیں کیا ان کو صرف ایک زبان سیکھنے تک محدود کردینا ،زبان سیکھنے کے عالمی اصولوں اور خود مذکورہ پالیسی کے اصولوں کے مغائر نہیں ہے۔ دس سال کی عمر تک بچوں کو صرف ایک زبان سکھانے سے کیا آگے کے سالوں میں بچوں میں انگریزی و دیگرزبانوں کو سیکھنے کی صلاحیت و رفتار سست بلکہ تباہ نہیں ہوجائے گی؟
چین ،جنوبی کوریااور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ تعلیم انجینئرنگ،میڈیسن ان کی اپنی مقامی زبانوں میں دستیاب ہے۔ہمارے ملک میں اگر نیٹ(NEET)،آئی آئی ٹی (IIT)جے ای ای (JEE)جیسے امتحانات انگریزی میں منعقد کئے جاتے ہیں تو کیا والدین اپنی مادری زبان میں بچوں کو پڑھانا پسند کریں گے؟ اس طرح کے کئی سوالات و اندیشوں کے جوابات اگر یہ پالیسی نہیں دے سکتی ہے تو کیا پھر اسے صرف کھوکھلے مثالی پن کے دعویداری کی ایک علامت سمجھاجائے؟
سرکاری اسکولوں کو بند کرنے کی کوشش NEP میں گروہی تنظیم جیسے اسکول کمپلیکس کے نام پر بہت ہی منظم طریقے سے سرکاری اسکولوں کو بند کرنے کی کوششوں کو راہ دی گئی ہے۔اکثر کم انرولمینٹ کی شرح(بچوں کے کم شرح داخلہ) اور معاشی مسائل کوسرکاری مدارس بند کرنے کی وجوہات میں نمایاں کرکے بتایا جاتا ہے۔جبکہ ہر کوئی اس حقیقت کو جانتا ہے کہ سرکاری مدارس میں طلبہ کی شرح داخلہ میں کمی کی اصل وجہ حکومت کی جانب سے خانگی اداروں کی حوصلہ افزائی اور ان کے فروغ کے لیے ساز گار حالات فراہم کرنا ہے۔سرکاری مدارس میں تعلیمی سہولتوں پر فنڈس و سرمایہ لگانے سے حکومت کا گریز و اجتناب سرکاری مدارس کے معیار اور مقبولیت میں کمی کی سب سے اہم وجہ ہے ۔ نقائص و جھول کو دور کرنے کے بجائے NEPسرکاری اسکولوں کے عمل کو مزید تیز تر کردے گی۔
نجی(خانگی) اسکولوں کواستحصال کی مکمل آزادی:NEP تعلیمی اداروں کے سلف ریگولیشن یا الحاق کی منظوری کے سلسلے میں تعلیم نظام کے تمام مراحل منجملہ پری اسکول کی تعلیم سے لےکر دیگر سطحوں پر پرائیویٹ پبلک فلن ٹرافسٹ طریقے کو رائج کرنے کی تجویز پیش کرتی ہے تاکہ معیار کے ضروری تقاضوں کی تکمیل کو یقینی بنایا جاسکے۔ ریاست میں اسٹیٹ اسکول اسٹینڈرڈز اتھارٹی (ایس ایس ایس اے۔SSSA) کے نام سے ایک آزاد ادارہ قائم کیا جائے گا۔ معیار کے حصول اور اسے یقینی بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے اٹھایا جانے والا یہ اقدام مدارس کو نجی شراکت داروں کی صوابدید پر چھوڑدینے اور ان امور سے حکومت گلو خلاصی حاصل کرتے ہوئے اپنا دامن جھاڑ لینے کی ایک مذموم کوشش ہے ۔یہ عمل بھی بالکل اسی عمل کی ایک کڑی اور تسلسل ہے جس طرح سے ملک کی معیشت کو مختلف شعبوں کا نجی کرن کرتے ہوئے تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔
اعلیٰ تعلیم:
تعلیمی امور کی (نصاب کی تیاری وغیرہ)آزادی میں یکسانیت اور مرکزیت ایک بڑی رکاوٹ:
تمام یونیورسٹیوں، کالجوں اور انسٹیٹیوٹ کے لیے نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کے ذریعہ امتحانات کے انعقاد کو سنٹرلائز کرنا اگرچہ مثالی معلوم ہوتا ہے لیکن یہ یونیورسٹیوں اور خود مختاری کے نظام کے تحت چلنے والے کالجوں/ یونیورسٹیوں کی خود مختاری کو تسلیم کرنے سے انکار کے مترادف ہے۔اگر چیکہ NEP تعلیمی امور ونصاب وغیرہ کے بوجھ کو کم کرنے کی بات کرتی ہے لیکن NEET اور دیگر تمام ریاستوں کے امتحانوں کے انعقاد کا معاملہ مرکزی ایجنسیوں( NTA) اور اس جیسی دیگر ایجنسیوں کو سپرد کرتے ہوئے پریشانیوں اور مسائل کے ایک نئے سیلاب کو دعوت دے رہی ہے۔
پبلک فنڈیڈ یونیورسٹیز اور کالجس کا خاتمہ:NEP اسکولی تعلیم کی طرح بڑی کثیر جہتی(Multi Disciplinary)یونیورسٹیز،کالجس اور ایج ای آئی(Higher Educational Institutions- HEI) اور نالج ہبس جیسے کلسٹرس اور علمی مراکز کے قیام کی تجویز پیش کرتی ہے جہاں 3000 اور اس سے زیادہ طلبہ کو داخلہ دیا جائے گا۔اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ چھوٹی یا درمیانہ درجے کی سرکاری فنڈز سے چلنے والی یونیورسٹیوں / کالجوں یا انسٹیٹیوٹ کو بڑی کثیر جہتی یونیورسٹیوں کے قیام کے نام پر بند کردیا جائے گا۔ انتہائی متعصب انداز میں اس پالیسی کے ذریعہ بڑی جامعات کی تعمیر کے نام پر کالجوں کو بند کرنے کے لیے نالندا(Nalanda)اور تکشاشیلہ(Taksashila) جیسے ناموں کے ذریعے اپنی بدنیتی کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔تنظیم نو کے نام پر فنڈس کی مسدودی اورنجی کرن کی کوشش:تمام اعلیٰ تعلیمی ادارے(HEI’s)ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف انڈیا (HECI)کے زیر انتظام ہوں گے۔HEI’sسے متعلق امور کی نگرانی کے لیے HECIکے تحت کئی ضمنی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اعلیٰ تعلیم کے تمام شعبے بشمول اساتذہ کی تعلیم و تربیت سوائے قانون اور میڈیسن کی تعلیم کی نگرانی کا کام انجام دینا والا نیشنل ہائیر ایجوکیشن ریگولیٹری کونسل (NHERC) واحد نگران ادارہ (Single Point Regulator) ہوگا۔نیشنل ایکریڈیشن کونسل (NAC)تعلیمی اداروں کو منظوری و الحاق فراہم کرنے والا دوسرا ادارہ ہوگا۔ہائرایجوکیشن گرانٹس کونسل (HEGC) تیسرا ادارہ ہوگا جو مالی امور (فنانسنگ) کی انجام دہی کرے گا۔تعلیمی معیار کی نگرانی کے لیے جنرل ایجوکیشن کونسل (GEC) چوتھا ادارہ ہوگا۔اس طرح کے کئی شعبوں اور اداروں کے قیام کا تکنیکی طور پر یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ سرکار یو جی سی (UGC) اور اس جیسے موجودہ کئی اداروں کے وجود کو ختم کرتے ہوئے اپنی سیاسی طاقت ،زور اور توانائی کے ذریعے ملک کے کثیر جہتی تعلیمی نظام کوصرف اپنے نظریات کے مطابق بنانا چاہتی ہے۔ HEI’sکی نگرانی و سربراہی کا فریضہ بورڈ آف گورنرس (BoG)انجام دیں گے۔BoGکو فیس ،اسٹاف کی تقرری بشمول HEI’s کے سربراہ (صدر) کی تقرری اور تعلیمی ادارجات کے انتظام اور دیگر امور پر فیصلہ سازی جیسے معاملات کے اختیارات حاصل رہیں گے ۔ حکمرانی کے اس ماڈل کی وجہ سے موجودہ خود مختا ر ادارے مرکزیت (Centralisation) کی بھینٹ چڑھ کر اپنی تعلیمی فضیلت کو گنوا بیٹھیں گے۔
مختلف سرکاری اداروں جیسے ڈپارٹمنٹ آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی (DST)، محکمہ جوہری توانائی (DAE)، شعبہ بایو ٹکنالوجی (DBT)، انڈین کونسل آف اگریکلچر اینڈ ریسرچ(ICAR) ،انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (ICMR) ،انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ (ICHR)اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC)کی مالی اعانت کے لیے ایک قومی تحقیقی فنڈ(National Research Fund) قائم کیا جائے گا۔ یہ تمام اقدامات ،ادارہ جات میں ربط ضبط و ہم آہنگی کی بات صرف اور صرف تعلیم کے لیے مختص خود مختار فنڈنگ نظام کو سیاسی کنٹرول فراہم کرنے کے لیے کئے گئے ہیں۔اس طرح کے اقدامات سے پہلے ہی سے سیاسی و سرکاری رشوت خوری کی وجہ سے ادھ مرا نظام مزید کرپشن کا شکار ہوکر سماجی اضطراب کا باعث بدترین نمونہ بن جائے گا۔NEPکے مطابق خانگی اور سرکاری اداروں میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔اس اعلان سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ حکومت سرکاری تعلیمی ادارجات کو دی جانے والی مالی اعانت سے دستبرداری کا اشارہ دے رہی ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق ایک خود مختار ڈگری دینے والا کالج (Autonomous College-AC) جو انڈر گریجویٹ ڈگری دیتا ہے اور بنیادی طورپر انڈر گریجویٹ تعلیم پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا ایک اعلیٰ تعلیم کے بڑے کثیر جہتی ادارے کے مماثل ہوگا۔اس پر کسی قسم کی بندش و تحدید ات عائد نہیں کی جائیں گی۔یہ ادارہ ایک عام یونیورسٹی سے چھوٹا ہوگا۔
روہت ویمولا قتل اوراس طرح کے متعدد واقعات سامنے آنے کے باوجود NEP 2020 ہندوستانی تعلیمی نظام میں پائے جانے والے امتیازی سلوک کے وجود کو تسلیم کرنے سے قاصرہے۔ اس مسئلے کوNEP صرف پسماندہ طلبہ کے تال میل (ایڈجسٹمنٹ) کے ایک چھوٹے مسئلے کے طور پر دیکھتی ہے۔معاشرتی تفریق اور انصاف کے فقدان کے باعث ادارہ جاتی قتل کے وارداتیں بھی ہمارے تعلیمی نظام میں ایک ناسور کے طور پر پھیلتے ہی جارہی ہے ۔NEP2020کی اس اہم مسئلے سے روگرانی تشویش کا باعث ہے۔
درجاتی عدم مساوات (Graded Inequality) اور زبردستی ترک تعلیم (Forced Drop Out) کا فروغ؛
NEPکاچارسالہ کثیر الجہتی ییچلر پروگرام ناکامی سے دوچار ہوگا جس کا عملی مشاہدہ سارے ملک نے دہلی یونیورسٹی میں FYUPنظام کی شکل میں کیا ہے۔یہ چار سالہ کورس نہ صرف طلبہ کی جانب سے ہدف تنقید بنا بلکہ اساتذہ نے بھی اس کی پرزور مخالفت کی ہے۔آخر کار انتظامیہ کو تعلیم فراہم کرنے میں ناکام ہونے کی وجہ سے کورس سے دستبردار ہونا پڑا۔اعلیٰ تعلیم میں متعدد داخلہ/اخراج کا لازمی مطلب یہ ہوگا کہ صرف اچھی مالی حالت کے حامل طلبہ ہی اپنی ڈگری مکمل کرسکیں گے۔غریب طلبہ کو صرف ڈپلومہ پر اکتفاء کرنا پڑے گا۔ نیز ایک سال میں سرٹیفکیٹ،دوسال میں ڈپلومہ،تین سال میں ڈگری عطا کرتے ہوئے ڈگری کو بے وقعت کیا جارہاہے ۔ان ڈگریوں کو جو بھی شخص حاصل کرے گا اسے ایک ڈراپ آؤٹ ہی تصور کیا جائے گا۔اگر یہ کورسز الگ الگ نہیں ہیں اور چارسالہ کورس کے ایک بڑے ماڈیول کا حصہ ہی ہیں تو اس طرح کی ڈگری کے حامل افراد کا علم بھی انتہائی محدود اور غیر معیار ی ہوگا۔
نجی یونیورسٹیوں کو فروغ دینے اور فنڈس دینے کی پالیسی: NEP 2020 میں بار بار تعلیم میں نجی سرمایہ کاری اور انسانی سخاوت(Philanthropist) کی ’اہمیت‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔یہ نجی اورکاروباری اداروں کو ہائر ایجوکیشن میں اپنے کاروبار کو وسعت اور فروغ دینے کا ایک واضح پیغام ہے۔ بلکہ حکومت کی جانب سے ان کی مالی اعانت کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ یہ مخیر وحضرات کون ہوں گے۔ یہ اعلیٰ تعلیم کو کارپوریٹ اور نجی کنٹرول میں دینے کی ایک شاطرانہ چال کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ایک طرف الحاق و معیار کے نام پر عوامی فنڈز سے چلنے والی جامعات کو بند کرنے کا NEPایک ڈیزائن بناتی ہے وہیں دوسری جانب یہ نئے ہائر ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ کو کھولنے کے لیے بہت ہی کم اصول و ضوابط کا وعدہ کرتی ہے۔اس دوغلی اور منافقانہ پالیسی سے صاف عیاں ہے کہ اصول و ضوابط کو کم کرتے ہوئے نئے ادارہ جات کو اجازت دے کر معیار کی برقراری اور اس کی دیکھ بھال نہ کرنے کا حکومت ایک مذموم ارادہ رکھتی ہے۔اس طرح کی پالیسی سے فیس میں بے تحاشہ اضافہ ہوگا ۔یہ پالیسی تعلیمی مافیا کے لیے سونے کا انڈا دینے والی مرغی سے کم نہیں ہوگی۔NEPواضح طور پر اعلیٰ تعلیم میں فیس کے اضافے کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کے حصول سے پسماندہ اور غریب عوام کو دانستہ طور پر محروم کررہی ہے۔خود مختاری کے نام پر فیسوں میں اضافے اور سیلف فائنانسنگ کا نفاذ: کالجوں اور یونیورسٹیوں کی خودمختاری کا انحصار ان کی گریڈڈ درجہ بندی پر ہوگا۔ اس طرح کی درجہ بندی سے ان اداروں کو اپنی فیس میں اضافے کا موقع ملے گا جس کی وجہ سے غریب معیاری تعلیم سے محروم ہوجائیں گے۔ بعض یونیورسٹیوں کی جانب سے چلائے جانے والے سیلف فائنانسنگ کورسز اس طرح کی محرومی و بے بسی کی منہ بولتی تصویر پیش کررہے ہیں جو ہمیں درس عبرت دے رہی ہیں۔
نجی یونیورسٹیوں کو استحصال کی آزادی: سیلف ریگولیشن سسٹم نجی یونیورسٹیوں پر حکومت کرے گا جہاں انسٹیٹیوشنزکو تدریسی، تعلیمی، انفراسٹرکچر، فیس اور دیگر تفصیلات کے معیار کے بارے میں صرف ایک اقرار نا مہ داخل کرنا کافی ہوگا۔اس طرح کے عمل سے سرکاری قواعد و ضوابط کا کردار یک لخت ختم ہوکر رہ جائے گاجس سے اعلیٰ تعلیم تباہی و بربادی سے دوچار ہوجائے گی۔ نجی اداروں کی جانب سے فیس میں اضافے سے غریبوں اور پسماندہ افراد میں ترک تعلیم کا رجحان بھی عام ہوجائے گا۔
آن لائن تعلیم کے نام پر ڈیجیٹل تقسیم اور ترک تعلیمNEP کے ذریعے 100 اعلیٰ یونیورسٹیوں میں آن لائن تعلیم شروع کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ یہ پسماندہ اور غریب طبقات کو تعلیمی عمل سے بے دخل کرنے کی ایک شاطرانہ چال ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی انٹرنیٹ کی رسائی و فروغ پر کوئی بات نہیں کرتی ،ڈیجیٹل تفریق و تفاوت کو کم کرنے اور اس کی فراہمی پر بھی یہ خاموش ہے جس کے ذریعے تعلیم کے معیار کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔فاصلاتی تعلیم پر حددرجہ زور تعلیم کے بنیادی نظریات کے مغائر ہے۔
اسکول اور اعلیٰ تعلیم دونوں کی طرح تعلیم، جانچ، تشخیص، منصوبہ بندی اور انتظامیہ وغیرہ کی بہتری کے لیے NEP ایک خود مختار ادارہ نیشنل ایجوکیشنل ٹیکنالوجی (NEFT) کی تخلیق و تشکیل کی بات کرتی ہے۔ تاہم ڈیجیٹل تقسیم کو کم کرنے اور اس کے خاتمہ کے لیے کوئی ٹھوس تجاویز پیش نہیں کئے گئے ہیں۔آن لائین تعلیم کے فروغ میں معاون انٹرنیٹ ،گیاٹ گیجس تک عام طلبہ کی رسائی اور مالی اعانت کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں پیش کی گئی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے طلبہ معاشی و ذہنی خلفشار سے دوچار ہوں گے۔تعلیمی تجارت و نجی کاری کو NEPکی آڑ میں ایک محفوظ راستہ فراہم کیا گیا ہے۔ ایم فل کورس کو ختم کرنا اورانٹگریٹیڈ پروگرام میں ایم اے کی میعاد کو کم کرنے کی پالیسی کو تیار و منظور کرنے والوں کی ریسرچ و تحقیق کے بارے میں فکر و فہم کی اور لیاقت پر سوالیہ نشان ابھرنے لگے ہیں۔ ایم فل ایک تربیتی میدان ہے جس سے تحقیقی جذبے کو فروغ ملتا ہے۔ ایم فل کے خاتمے سے حکومت نے ہندوستان میں تحقیق کے لیے فنڈز اور امداد میں تخفیف کا واضح اشارہ دیا ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی بنیادی طور نصاب کو بہتر بنانے، بہترین تدریسی مواد کو تیار کرنے اور عمدہ و بہتر اساتذہ کی تیاری میں ممدو معاون ہوتی ہے جس کے تحت اساتذہ نئے رجحانات و نظریات سے متصف ہوکر سماج کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرتے ہیں لیکن جب ترقی و تعمیر کے آڑمیں تخریب کو جگہ دی جاتی ہے، عوام کے ارمانوں و آرزوؤں کا گلا گھونٹ کر خواص کے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے وہاں اضطراب، بے چینی اور غم و اندوہ کے علاوہ کوئی دوسری چیز فروغ نہیں پا سکتی۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے دل کو لبھانے والے نعرے کے پردے میں جب سب کا ساتھ بعض کا وکاس ہوگا تو پھر قوم ایسے گناہ گاروں کو کبھی معاف نہیں کرسکتی ۔نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے قبل اسے پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہوئے تمام کی آراء حاصل کرتے ہوئے نقائص کو دور کیا جاسکتا ہے اور یہ ہی دستوری عمل ہے جس سے مکمل اعراض کرتے ہوئے آئین کی توہین کی گئی ہے۔نئی تعلیمی پالیسی کو آئین کی روح کے مطابق اور ہندوستان کے کثرت میں وحدت کے نظریے کے مطابق عوام دوست بنایا جائے تاکہ ایک جدید، خوش حال، مستحکم اور طاقت ور بھارت کی تعمیر میں مزید کوئی تاخیر نہ ہونے پائے۔
****

نئی تعلیمی پالیسی میں گروہی تنظیم جیسے اسکول کمپلیکس کے نام پر بہت ہی منظم طریقے سے سرکاری اسکولوں کو بند کرنے کی کوششوں کو راہ دی گئی ہے۔اکثر کم انرولمینٹ کی شرح(بچوں کے کم شرح داخلہ) اور معاشی مسائل کوسرکاری مدارس بند کرنے کی وجوہات میں نمایاں کرکے بتا یا جاتا ہے۔جبکہ ہر کوئی اس حقیقت کو جانتا ہے کہ سرکاری مدارس میں طلبہ کی شرح داخلہ میں کمی کی اصل وجہ حکومت کی جانب سے خانگی اداروں کی حوصلہ افزائی اور ان کے فروغ کے لیے ساز گار حالات فرہم کرنا ہے۔