نئی تعلیمی پالیسی 2020اور مدارس اسلامیہ

پالیسی کے کئی نکات پر باریکی سے غوروفکر کی ضرورت

انعام اللہ فلاحی، دہلی

نئی تعلیمی پالیسی 2020 کابینہ سے منظور ہو کر منظر عام پر آچکی ہے۔ واضح رہے کہ تعلیمی پالیسی کوئی قانون نہیں ہے بلکہ تعلیم کے فروغ اور نظام تعلیم کے استحکام کے لیے ایک رہ نما خطوط اور جامع فریم ورک ہے جس کی روشنی میں تعلیمی ڈھانچہ اور نصاب تعلیم کے خدوخال(NCF) تیار کیے جاتے ہیں، عملی منصوبہ (action plan) بنتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری قوانین وضع کیے جاتے ہیں۔

آزادی سے قبل انگریزوں نے اپنے دور اقتدار میں اس وقت کے نظام تعلیم کو بدل کر اپنے افکار و نظریات اور مقاصد کے حصول کے لیے نیا نظام تعلیم نافذ کیا تھا۔ ان کا مقصد حکومت کے کام کاج چلانے کے لیے افراد سازی تھا جس کی سربراہی لارڈ میکالے نے کی تھی۔  آزادی کے حصول کے بعد سماجی ثقافت و کلچر سے ہم آہنگ ملکی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی سسٹم وضع کیا گیا۔ جس کے روح رواں آزاد بھارت کے اولین وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد تھے۔ 1948ء میں ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کی صدارت میں یونیورسٹی تعلیمی کمیشن تشکیل دیا گیا جس کے ذریعے اعلیٰ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی کوشش ہوئی۔  ہمارے ملک کی پہلی تعلیمی پالیسی 1968ء میں اندرا گاندھی کے دور اقتدار میں ڈاکٹر ڈی ایس کوٹھاری کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں تیار ہوئی۔ جبکہ دوسری تعلیمی پالیسی راجیو گاندھی کے دور حکومت میں 1986ء میں وجود میں آئی۔  2014ء میں این ڈی اے کی حکومت برسراقتدار آئی اسی وقت سے تیسری نئی تعلیمی پالیسی کا ذکر شروع ہو گیا تھا۔ چناںچہ ای ایس سبرامنیم کی صدارت میں ایک کمیٹی قائم کی گئی جس نے مئی 2016ء میں اپنی رپورٹ جمع کی لیکن شاید یہ مسودہ حکومت کی امیدوں کے موافق نہیں تھا، چنانچہ 2017ء میں ڈاکٹر کستوری رنجن کی صدارت میں قومی تعلیمی پالیسی کے لیے ایک اور کمیٹی بنائی گئی ۔31 مئی 2019ء کو اس کمیٹی کی جانب سے فروغ انسانی وسائل کی وزارت میں 468 صفحات پر مشتمل تعلیمی پالیسی کا مسودہ جمع کیا گیا۔ اس کو تجاویز اور مشورے کے لیے عام کیا گیا، پورے ملک سے تقریباً ڈھائی لاکھ تجاویز اور مشورے بھیجے گئے، جن لوگوں کی طرف سے یہ تجاویز اور مشورے بھیجے گئے تھے انہیں دیکھنا ہے کہ کس حد تک اس کو قبول کیا گیا۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان تجاویز اور مشوروں کو ایک طرف رکھ کر نئی تعلیمی پالیسی 2020 ترتیب دی گئی جسے عوامی بحث ومباحثے اور پارلیمنٹ میں پیش کیے بغیر کابینہ میں منظور کر کے نافذ کر دیا گیا۔

 نئی تعلیمی پالیسی ایک جائزہ

نمایاں امور:

٭ نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعے ۲ کروڑ تعلیم سے باہر طلبہ کو تعلیم سے جوڑا جائے گا۔

٭ اسکولی تعلیم میں تین سالہ پری پرائمری تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اب اسکولی تعلیم کا نظام 5+3+3+4 کا ہوگا۔ اس طرح اب اسکولی تعلیم ۱۲ سال سے بڑھا کر ۱۵ سال کر دیا گیا ہے۔ پہلے پانچ سالہ بنیادی تعلیم کا مرحلہ (Foundation Stage) یہ بھی دو حصول میں منقسم ہوگا۔

 تربیت اطفال ۳ سال (Pre1Primary) اس کے بعد دو سال درجہ اول اور درجہ دوم کے ہوں گے۔ اس طرح (3+2) 5 سال کا فاؤنڈیشنل مرحلہ ہوگا اس کے بعد ۳ سال تیاری کا مرحلہ (preparation stage) اس کے بعد تین سال کا مڈل اسکول کا مرحلہ کلاس(6-8) (middle stage) اس کے بعد چار سال ثانوی کا مرحلہ (9-12) (secondary stage) ہوگا۔

٭ ابتدائی کلاسز میں بچوں کو کھانے کے علاوہ ناشتہ بھی دیا جائے گا۔

٭ بچپن کے شروع کی عمر میں دیکھ بھال اور تعلیم ایک نئے نصاب پر مشتمل ہوگا جس میں کھیل کود اور سرگرمیوں پر مبنی دلچسپ مزید طریقے سے تعلیم فراہم کی جائے گی۔

٭ مڈل اسکول میں (6-8) پیشہ وارانہ تعلیم کا آغاز کیا جائے گا۔

٭تعلیم کا انحصار رٹنے کے بجائے بنیادی حقائق کو ذہن نشین کرانے، تجرباتی، تخلیقی، اختراعی اور فہم پر مبنی ہوگا۔

٭ اساتذہ کی تیاری کے لیے چار سالہ انٹیگریٹیڈ بی ایڈ کورس(integrated B.A. course) شروع کیا جائے گا۔

٭ اعلی تعلیم میں ایک سے زیادہ انٹری اور انخلا کی متبادل سہولت ہوگی۔

٭ اعلی تعلیم میں جی ای آر(Gross Enrollment Ratio) 2035 تک 25.8 فی صد سے بڑھا کر 50 فی صد کیا جائے گا۔

٭ تمام یونیورسٹیوں کو 2040 تک کثیر الشعبہ بنایا جائے گا۔

٭ تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے عالمی سطح کی 100 ٹاپ غیر ملکی یونیورسٹیز کو ملک کے اندر کیمپس کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔

٭ فاصلاتی تعلیم اور آن لائن تعلیم کو فروغ دیا جائے گا۔

٭ تعلیم میں ٹکنالوجی کے استعمال پر زور دیا جائے گا۔

٭ تعلیم پر جی ڈی پی کا 4.67 سے بڑھا کر 6 فی صد کیا جائے گا۔

٭ طلبہ کو ہم جہت ترقی پر مشتمل کارڈ (ہولسٹک پروگریس کا رڈ )holistic progress cardدیا جائے گا۔

تجزیہ

بظاہر پالیسی میں خوش نما الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے اور بہت اچھے اسلوب میں مرتب کیا گیا ہے لیکن بعض باتیں بین السطور میں کہی گئی ہیں، اس لیے ان الفاظ سے کیا مقصود و مطلوب ہے اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے دور رس اثرات پر بھی غور وفکر کرنا چاہیے۔

وہ الفاظ اس طرح ہیں:

خود مختار ی، پیشہ ورانہ کورسز، بھارتی علوم (indian knowledge)، بھارتی اقدار(Indian values)، بھارتی تہذیب و تمدن (Indian Culture)، بھارتی تاریخ (Indian History)، ڈیجٹیل تعلیم

 (Digital Education)، ہمہ جہت شخصیت کی تعمیر (holistic personality building)، روٹ لرننگ(route learning)، مربوط مضامین پر مشتمل بی ایڈ (Integrated B.Ed.)، تنقیدی اور اختراعی سوچ، مادری زبان میں تعلیم، مڈل اسکول میں پیشہ وارانہ نصاب، ایک سے زیادہ انٹری ایک سے زیادہ انخلاء، تمام یونیورسٹیز کو ۲۰۴۰ تک کثیر الشعبہ بنانا، بظاہر یہ اچھے الفاظ اور جملے ہیں لیکن ان کی تعبیر و تشریح کے الگ الگ پیمانے ہو سکتے ہیں ان کے پیچھے ایک خاص نظریہ کے مقاصد کا حصول بھی ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ جن ریاستوں میں ماضی میں ان کی حکومت رہی ہے (مثلاً مدھیہ پردیش اور راجستھان) وہاں پورے تعلیمی نظام کو ایک خاص رنگ میں رنگ دیا گیا تھا۔ بعض دیگر ریاستوں میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب اس تعلیمی پالیسی کی روشنی میں پورے ملک میں اس کا امکان ہے کہ پوری تعلیم کو زعفرانی رنگ میں رنگ دیا جائے گا۔

٭ اس تعلیمی پالیسی کے بارے میں یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ڈھائی لاکھ لوگوں کی تجاویز اور مشورے کے بعد منظر عام پر آئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کو پارلیمنٹ میں بحث ومباحثہ کے لیے کیوں نہیں پیش کیا گیا؟ پالیسی کو کیوں صرف کابینہ سے منظور کروا کے عام کر دیا گیا؟

قومی تعلیمی پالیسی کے لیے لازم ہے کہ وہ آئین کے مقاصد کے تابع ہو۔ دستور ہند نے جس سیکولر طرز زندگی کو اپنایا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ تعلیم بھی سیکولر بنیادوں اور جمہوری خطوط پر ہو۔ ہر ایک کی اس تک رسائی ہو، سماجی اور معاشی مساوات پر مبنی سماج کی تشکیل میں وہ معاون و مددگار ہو۔ اس میں بلا لحاظ مذہب، ذات، رنگ و نسل اور زبان و علاقہ سب کے لیے برابری کا موقع ہو۔  اقلیتوں کے تعلیمی حقوق کے تحفظ کا ذکر دستورکے دفعہ ۲۹،۳۰ اور ۳۱ میں ہے کہ اقلیتوں کو اپنی پسند کی تعلیم دینے اور تعلیمی ادارے قائم کرنے کا حق دیا گیا ہے اس پر یہ پالیسی خاموش ہے۔ ریزرویشن کا بھی ذکر اس میں نہیں ہے اس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ اقلیتوں اور پس ماندہ طبقات کا تحفظ اور ترقی ان کے پیش نظر نہیں ہے یا انہیں قصداً نظر انداز کیا گیا ہے، بلکہ ان طبقات کو جو حقوق دستور نے دیے ہیں انہیں کسی نہ کسی طرح اس تعلیمی پالیسی کے ذریعہ کم زور اور بے اثر کرنا ہے۔

اس تعلیمی پالیسی میں 3 سال سے 18 سال یعنی پوری اسکولی تعلیم (5+3+3+4) کے بچوں کی ہمہ گیر تعلیم universalisation کی صرف کوشش کا تذکرہ ہے۔ اس کو حق تعلیم کے قانون کے تحت لانے کا ذکر نہیں ہے۔ جب کہ کستوری رنجن نے جو مسودہ پیش کیا تھا اس میں اس بات کی سفارش کی گئی تھی کہ قانون حق تعلیم (RTE) میں نظر ثانی کرکے پری پرائمری سے بارہویں تک پوری اسکولی تعلیم کو اس میں شامل کیا جائے۔ قانون کے بغیر یہ مقصدحاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حالاں کہ RTE قانون کے باوجود ایک جائزے کے مطابق صرف 12 فی صد ہی اس پر عمل ہو سکا ہے۔ اب بغیر قانون کے یہ مقصد کیسے پورا ہو سکے گا؟

٭ اس پالیسی میں چھٹی جماعت سے پیشہ وارانہ تعلیم بڑھئی گیری، بجلی کا کام، باغبانی، مٹی کے برتن کا کام وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ بظاہر یہ بات نہایت خوش آئند معلوم ہوتی ہے کہ طلبہ جہاں اپنے گھر کے چھوٹے موٹے کام خود کر سکتے ہیں، وہیں اگر کسی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکیں تو وہ اپنی روزی روٹی اس ہنر سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ غریب اور پس ماندہ طبقات کے طلبہ کے درمیان ڈراپ آوٹ کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ وہ ہنر حاصل کرکے ملازمت اور کاروبار کی طرف راغب ہو جائیں گے اس سے اعلیٰ تعلیم صرف مالدار اور اونچے طبقے کے لوگوں کے لیے خاص ہو جائے گی جس کے نتیجے میں سماج میں طبقاتی نظام کو بڑھاوا ملے گا اور امیر وغریب کے درمیان خلیج مزید گہری ہو جائے گی۔

٭ ای لرننگ مواد کی تیاری کے ضمن میں اس بات کا ذکر ہے کہ درسی مواد تمام علاقائی زبانوں میں تیار کرایا جائے گا۔ وزیر تعلیم نے سوال و جواب کی نشست میں صرف آٹھ زبانوں کا ذکر کیا ہے اس میں اردو زبان کا ذکر نہیں ہے۔ جب کہ اردو زبان ساتویں نمبر پر آتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو زبان کے بارے میں حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔

٭ اس پالیسی میں غیر ملکی زبانوں کا ذکر کیا گیا ہے اس میں ایسی زبانوں کا بھی ذکر ہے جس کو ہندوستان میں بہت ہی کم لوگ بولتے، پڑھتے اور جانتے ہیں جب کہ عربی زبان خلیج کے سارے ملکوں کی زبان ہے۔ جہاں ہمارے ملک کے بہت سارے لوگ کام کرتے ہیں۔ عربی زبان ہمارے ملک کے یونیورسٹیز میں پڑھائی جاتی ہے۔ بہت سارے کالجوں میں بھی داخل نصاب ہے۔ اس کا ذکر نئی تعلیمی پالیسی میں ملکی زبانوں کی فہرست میں نہیں ہے۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ انصاف کے رویے کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے۔

مدارس اسلامیہ

نئی تعلیمی پالیسی 2020 مدارس اسلامیہ کے موضوع پر خاموش ہے، ہو سکتا ہے کہ alternative center کے تحت اس طرح کے تعلیمی ادارے پیش نظر ہوں۔ ایکشن پلان تیار ہوگا تو اس میں توقع ہے کہ اس کے بارے میں تفصیلات کا ذکر کیا جائے۔ اس تعلیمی پالیسی کے ذریعہ ایک نئے بھارت کا خواب دیکھا گیا ہے، بلکہ اس کو وشو گرو بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ اس لیے اس کے اثرات پورے ملک پر پڑیں گے اور سماج کے ہر طبقے پر اس پالیسی کے اثرات مرتب ہوں گے۔ مدارس اسلامیہ اس سماج کا حصہ ہیں اس لیے ان پر بھی اس کے گہرے اثرات پڑ سکتے ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مدارس کن پہلوؤں سے متاثر ہوں گے یا اس کی روشنی میں مدارس خود سے اپنے تعلیمی نظام کو کتنا بہتر بنا سکتے ہیں۔

اس پالیسی میں اس بات کا ذکر ہے کہ پری پرائمری کا (Curriculum) بناتے وقت کھیل کود اور مختلف النوع سرگرمیوں پر مشتمل دل چسپ اور مزیدار نصاب تیار کیا جائے گا۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ دیو مالائی کہانیوں، مشرکانہ عقائد، نغمے، گانے، ڈانس اور میوزک وغیرہ پر مشتمل ہو۔

مسلمانوں کے 96 فی صد بچے سرکاری اسکولوں اور عصری درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ان بچوں کو اس طرح کی بدعقیدگی سے کیسے محفوظ رکھا جا سکے گا، اسلامی اخلاق واقدار اور مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت سے انہیں کس طرح واقف کرایا جائے گا؟ دوسری طرف 4 فی صد بچے جو مکاتب اور مدارس میں پڑھتے ہیں ان کے لیے پری پرائمری درجات کی کتابیں اور درسی مواد اور سرگرمیوں پر مشتمل مواد تیار کرنے کی ضرورت ہوگی جو NCF سے ہم آہنگ بھی ہو اور اسلامی اقدار پر مبنی بھی۔ یہ مسئلہ بھی مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔

٭ چھوٹے بچوں کو کھانے کے ساتھ ناشتہ دینے کی بات بھی اس پالیسی میں ذکر کی گئی۔ ہمارے مکاتب اور درس گاہیں عام طور پر رجسٹرڈ نہیں ہے اور نہ ہی ان کے پاس منظوری (recognition) ہے ایسی صورت میں شاید ان مکاتب اور اداروں کو اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔

٭ اس پالیسی میں تعلیم میں ٹکنالوجی کے استعمال (use of technology in teaching and learning) اور آن لائن ڈیجیٹل ایجوکیشن پر بہت زور دیا گیا ہے۔ مدارس اسلامیہ پر اس کے کیا اثرت پڑ سکتے ہیں یا مدارس اس سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں اس پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔

 نئی تعلیمی پالیسی میں ہندی زبان پر بھی خاصا زور دیا گیا ہے۔ اس کے اثرات پورے ملک پر پڑنے والے ہیں اور اس بات کا امکان ہے آئندہ ہمارے سماج کا ہندی کرن ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں مدارس اسلامیہ میں اگر ہندی زبان کی تعلیم پر خصوصی توجہ نہیں دی گئی تو مدارس سے نکلنے والے طلبہ سماج میں زبان کے اعتبار سے اجنبی ہو جائیں گے۔ وہ نہ ملک کی زبان سمجھ سکیں گے اور نہ ہی اپنے مشن اور پیغام کو عوام تک منتقل کرنے کے اہل ہوں گے۔   نئی تعلیمی پالیسی میں یہ اور اس طرح کے دیگر بہت سارے امور ہیں جن پر بہت باریکی سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تعلیمی پالیسی کے منفی اثرات سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا ہے، مثبت امور سے اہل مدارس فائدہ اٹھا کر خود سے ایسی راہیں تجویز کرنی ہیں جو مدارس کے حق میں بہتر ہوں اور مدارس سے نکلنے والے افراد کے مستقبل کے لیے بھی مفید ہوں۔ مدارس اسلامیہ کے پیش نظر بہت عظیم مقصد ہے اور وہ دعوت دین اور تبلیغ دین کا ہے۔ اس کام کے لیے جن صلاحیتوں اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل افراد کی ضرورت ہے اپنے نصاب اور نظام کو اس سے ہم آہنگ کرنا ہے تاکہ ان خوبیوں کے حامل افراد تیار ہو سکیں۔ اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ اس کے ذریعے مدارس اسلامیہ اس تعلیمی پالیسی کے منفی پہلوؤں کا تدارک بھی کر سکیں گے۔