نئی تعلیمی پالیسی اور دینی مدارس (مدت تعلیم، مراحل تعلیم، اور تعلیم کے مضامین سے متعلق ایک تجویز)
تجویز نگار: محی الدین غازی
(ملکی نئی تعلیمی پالیسی کے تناظر میں ایک تجویز تیار کرکے ملک کے مختلف اہل علم ونظر کے پاس بھیجی گئی، ان کے تبصروں سے ساتھ یہ تجویز پیش کی جارہی ہے، تاکہ اس موضوع پر غور وفکر اور تبادلہ خیال کا سلسلہ آگے بڑھے۔ ادارہ)
ہندوستان کے دینی مدارس مدت تعلیم اور اس کی مراحل تعلیم میں تقسیم پر باہم قریب تو رہے ہیں مگر متفق نہیں رہے ہیں، مختلف مدارس میں مختلف مدت تعلیم رائج ہے۔ مدارس میں رائج مدت تعلیم کی ملک میں نافذ مدت تعلیم سے بھی کوئی ضروری مناسبت نہیں ہوتی ہے۔
درج ذیل ٹیبل سے مشہور مدارس عربیہ کی مدت تعلیم اور مراحل تعلیم کا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ تخصص اور تکمیلات کے درجات کا یہاں تذکرہ نہیں ہے۔
ملک کی نئی تعلیمی پالیسی میں مدت تعلیم کو تبدیلی کے لیے خصوصیت کے ساتھ موضوع بنایا گیا ہے، اور ملک کی سابقہ مدت تعلیم جو۱۰+۲+۳ (دس سال میں ہائی اسکول، دو سال میں انٹر میڈیٹ، اور تین سال میں بی اے) اسے ۵+۳+۳+۳+۴ +۴ میں تقسیم کردیا گیا ہے،(جس میں تین سال کے بعد درجہ اول شروع ہوتا ہے، اور آٹھویں کلاس کے بعد چار سال کا سیکنڈری، اور چار سال کا بی اے ہے) آسانی سے سمجھنے کے لیے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تین سال اطفال کے بعد آٹھ سال ہیں، پھر چار سال سکینڈری کے اور چار سال گریجویشن کے ہیں جو بعض حالات میں تین سال بھی ہوسکتے ہیں۔
شروع (نرسری اور کے جی) کے تین سال جنھیں ہم اطفال کہہ سکتے ہیں اگر ہم شمار نہ کریں تو دو زائد تین زائد تین یعنی آٹھ سال ہوتے ہیں، پھر چار سال اور چار سال ہوتے ہیں۔
اس نئی تعلیمی پالیسی میں سات سال کی عمر میں درجہ اول شروع ہوگا۔
TABLE————————————————————————
سرکاری مدت تعلیم سے ہم آہنگ کرنے کی اہمیت وافادیت
مدرسے کی مدت تعلیم کو نئی تعلیمی پالیسی کی مدت تعلیم سے ہم آہنگ کرنے اور اس کے ساتھ ہی دینی مدارس کے باہم ایک مدت تعلیم اور یکساں مراحل تعلیم پر متفق ہوجانے کی افادیت اب زیادہ محسوس کی جانے لگی ہے۔
اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ درمیان تعلیم کسی ایک مدرسے سے دوسرے مدرسے میں منتقلی کا عمل آسان ہوجاتا ہے۔ بسا اوقات یہ منتقلی بوجوہ ضروری ہوجاتی ہے۔
دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اسکول کے کسی مرحلے سے مدرسے کی طرف منتقلی یا اس کے برعکس عمل میں دشواری نہیں ہوتی ہے۔
تیسرا اہم اور عمومی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مدارس کی سند کو اسکول یا یونیورسٹی کی سطح پر تسلیم کرانے میں ٹیکنیکل دشواریاں کم ہوجاتی ہیں۔
طالب علم کے حقوق اور ان کے تقاضے
ایک طالب علم کو یہ حق حاصل رہنا چاہیے کہ وہ اگر چاہے تو دینی تعلیم کا پورا کورس مکمل کرے، اور چاہے تو درمیان کے کسی مرحلے سے وہ عصری تعلیم کی طرف آسانی سے منتقل ہوجائے۔
ایک طالب علم کو یہ حق بھی حاصل رہنا چاہیے کہ وہ دینی تعلیم حاصل کرتے ہوئے عصری علوم کی تعلیم بھی ممکن حد تک حاصل کرتا ہے۔
دینی مدرسے کے طالب علم کو عصری تعلیم کی مرحلہ وار وہ اسناد حاصل ہوتی رہیں جن کی بنیاد پر وہ اپنے تعلیمی سفر کو اعلی ترین سطح تک جاری رکھ سکے۔ (اوپن اسکول اور اوپن یونیورسٹی کے ذریعے یہ سہولت حاصل بھی ہے)
اس حقیقت کا بھی ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ روزگار اب عصری تعلیم اور اسکولی اسناد سے بہت زیادہ مربوط ہوچکا ہے، اس لیے دینی تعلیم حاصل کرتے ہوئے بہتر روزگار کے مواقع کھلے ملنے کا حق ان طلبا کا بھی ہے جو دینی مدارس میں زیر تعلیم ہیں، خواہ اپنے شوق سے یا اپنے والدین کے شوق سے۔
مدارس کے بہتر مستقبل کے لیے
مادیت کا روز افزوں رجحان، ضرورتوں کا بڑھتا ہوا دباؤ ملت اسلامیہ ہند کے نونہالوں کو دینی مدارس کے بجائے اسکولوں کی طرف لے جارہا ہے۔
دینی مدارس میں کچھ ضروری تبدیلیاں کرکے ملت کے نونہالوں کا رخ مدارس کی طرف زیادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح دینی تعلیم کو زیادہ فروغ حاصل ہوگا، اور دینی مدارس کی عظیم الشان عمارات اور انتظامات ملت میں عمومی تعلیم کو بڑھانے میں بھی زیادہ بڑا رول ادا کرسکیں گے۔
عصری تعلیم کو شامل کرکے دینی مدارس طلبا سے مناسب فیس بھی لے سکتے ہیں یہ انتظام مدارس کے لیے قابل لحاظ ذریعہ آمدنی ہوگا۔
تجویز
مذکورہ بالا تمام امور کے پیش نظر دینی مدارس کی مدت تعلیم، مراحل تعلیم نیز اجمالی طور پر نصاب تعلیم سے متعلق ایک تجویز پیش ہے، امید ہے اسے غوروفکر اور گفتگو کو موضوع بنایا جائے گا۔
(الف) پہلا مرحلہ (ماقبل عالمیت وفضیلت)
عربی درجات سے پہلے مدارس میں آٹھ سال کی تعلیم ہو، یا کہیں اور آٹھ سال تک تعلیم حاصل کرچکے طلبا کو عربی درجات میں داخلہ دیا جائے۔ (اس مرحلے میں اسکول کے وہ تمام مضامین پڑھائے جائیں جو اسکولوں کے لیے حکومت کی طرف سے طے کیے جائیں، ساتھ ہی دینی واخلاقی تعلیم کا بھی بہتر انتظام کیا جائے)۔
امکانی راہیں تلاش کی جائیں کہ اس مرحلے کا امتحان دے کر طالب علم سرکاری طور پر تسلیم شدہ سرٹیفیکٹ حاصل کرلے۔
(ب) دوسرا مرحلہ (عالمیت)
اس مرحلے کی مدت چار سال ہو۔
اس مرحلے میں تعلیمی مواد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے، پچاس فی صد اسکول کی تعلیم اور پچاس فی صد مدرسے کی عالمیت کی تعلیم۔
اس مرحلے کے دوران اور آخر میں اوپن اسکول نظام کے تحت اسکول کا امتحان بھی دلایا جائے۔
اس مرحلے سے فراغت کے وقت طالب علم کے پاس عالمیت کی سند بھی ہو اور سیکنڈری (بارہویں جماعت) کا سرٹیفکیٹ بھی۔
اس مرحلے میں عربی زبان اور شرعی علوم کو اتنا پڑھایا جائے کہ طالب علم عربی اور شرعی علوم کی سادہ کتابوں کی طرف رجوع ہونے کی صلاحیت پیدا کرلے۔ قرآن وسنت سے راست استفادہ کرسکے۔
اس مرحلے میں تعلیمی مواد میں دو امور کا خاص طور پر لحاظ کیا جائے، آسان ہونا اور مناسب زمانہ ہونا۔ علاوہ ازیں نصاب تعلیم اور نظام تربیت میں شخصیت سازی کے پہلو پر خصوصی توجہ دی جائے۔
(ج) تیسرا مرحلہ (فضیلت)
اس مرحلے کی مدت بھی چار سال ہو۔
اس مرحلے میں تعلیمی مواد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے، پچاس فی صد یونیورسٹی کی تعلیم اور پچاس فی صد مدرسے کی فضیلت کی تعلیم۔
یونیورسٹی کے مضامین میں زبانیں اور انسانی علوم جیسے سیاسیات معاشیات سماجیات نفسیات تاریخ وغیرہ لینا بہتر اور آسان ہوگا۔
اس مرحلے کے دوران اور آخر میں اوپن یونیورسٹی نظام کے تحت یونیورسٹی کا امتحان بھی دلایا جائے۔
اس مرحلے سے فراغت کے وقت طالب علم کے پاس فضیلت کی سند بھی ہو اور گریجویشن کا سرٹیفکیٹ بھی۔
اس مرحلے میں عربی زبان اور شرعی علوم کو اتنا پڑھایا جائے کہ طالب علم عربی اور شرعی علوم میں تحقیق کی صلاحیت پیدا کرلے۔
اس مرحلے میں تعلیمی مواد میں بنیادی مراجع اور فنی کتابوں کی تعلیم خصوصیت کے ساتھ شامل رہے، ساتھ ہی شرعی علوم کی عصری پیش رفت سے بھی ربط رہے۔
مجوزہ مدت تعلیم کے حق میں
چار سالہ عالمیت اور چار سالہ فضیلت کی تقسیم کے درج ذیل فائدے ہیں:
طلبا کو عالمیت اور فضیلت کے دوران اسی کے متوازی عصری تعلیم حاصل کرنے کا موقع رہے گا۔
چار سالہ عالمیت کے بعد چونکہ چار سالہ فضیلت مع گریجویشن کا باقاعدہ انتظام ہوگا اس لیے امید کی جاتی ہے کہ بڑی تعداد میں طلبا فضیلت میں داخلہ لیں گے اور یکسوئی کے ساتھ مزید چار سال کی تخصصی تعلیم حاصل کریں گے۔
جو طلبا سیکنڈری کے بعد کسی دوسری تعلیمی لائن میں جانا چاہیں، انھیں اتنی عربی زبان اور شرعی علوم کی تعلیم حاصل ہوجائے گی کہ وہ دینی رہ نمائی خود حاصل کرسکیں، اور دین کی صحیح ترجمانی کریں۔
جو طلبا دینی علوم میں مہارت کا درجہ حاصل کرنے کے آرزومند تو نہیں ہیں، لیکن دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ طویل مدت تعلیم کے بجائے چار سال کی مناسب مدت تعلیم پوری کرکے جاسکیں گے۔
جو طلبا دینی علوم میں مہارت حاصل کرنے کے آرزومند ہیں صرف وہی طلبا مزید چار سال یکسوئی کے ساتھ فضیلت کی تکمیل کریں گے۔
یہ بھی پیش نظر رہے کہ مدارس کی موجودہ مدت تعلیم اور نصاب تعلیم ان طلبا میں تفریق نہیں کرتا ہے جو دینی تعلیم کے حصول کے بعد کسی اور میدان میں جانا چاہتے ہیں، اور وہ طلبا جو دینی علوم کے میدان میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔ عالمیت کی چار سالہ مدت تعلیم اور اس کا آسان نصاب ان طلبا کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے جو دوسرے میدانوں میں جانا چاہیں، جب کہ اس کے بعد فضیلت کی چار سالہ مدت تعلیم اور اس کا تحقیق رخی تخصصی نصاب ان طلبا کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے جو دینی علوم سے اپنے آپ کو وابستہ رکھنا چاہیں۔
امت کی عمومی ضرورت کے لیے
واقعہ یہ ہے کہ ملت اسلامیہ ہند کے بہت کم نونہال دینی مدارس سے وابستہ ہوکر دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں، اور ان طلبا کی دینی تعلیم کی ضرورت تو پوری ہوتی ہے، مگر تمدنی ضروریات کی تکمیل کے لیے جو تعلیم درکار ہے وہ حاصل نہیں ہوپاتی ہے۔ دوسری طرف دینی مدارس، کی مدت تعلیم، مراحل تعلیم اور ان کا نصاب اس کی گنجائش نہیں رکھتا کہ جو بچے تمدنی ضروریات کے لیے تعلیم حاصل کرنا چاہیں وہ ان مدارس سے ہوکر گزریں۔
اس لیے بھی مدت تعلیم، مراحل تعلیم اور نصاب تعلیم کے ایسے نمونے (ماڈل) کی ضرورت ہے جو اپنے اندر ملت کے زیادہ سے زیادہ نونہالوں کو سمیٹ سکے، اور جسے پوری ملت میں پھیلایا بھی جاسکے، تاکہ ملت کے تمام نونہالوں کے پاس دینی وعصری تعلیم حاصل کرنے کا موقع رہے۔
ہمارا خیال ہے کہ مذکورہ بالا تجویز سے یہ مقصد کسی قدر حاصل ہوسکے گا۔
اللهم اهدنا لأقرب من هذا رشدا
ڈاکٹر محمد فہیم اختر ندوی
( صدر شعبہ اسلامک اسٹڈیز، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی، حیدر آباد)
یہ بات درست ہے کہ دینی مدارس میں تعلیمی دورانیہ کا یکساں نظام نافذ نہیں ہے۔ ان میں باہم اس حد تک فرق اور تفاوت ہے کہ طلبا وطالبات کو نہ صرف آئندہ اعلیٰ عصری تعلیم سے جڑنے میں غیر ضروری دقتوں بلکہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ ایک مدرسہ سے دوسرے مدرسہ منتقلی میں بھی تعلیمی دورانیہ کا یہ فرق الجھنیں پیدا کرتا ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ تعلیم کی مدت کا نظام جس آسانی کے ساتھ یکساں ہو سکتا تھا، اسی قدر یہ پہلو بے توجہی کا شکار بنا ہوا ہے۔مدت تعلیم سے جڑ کرملنے والی اسناد کے ناموں میں بھی باہم بے تحاشہ فرق ہے، چنانچہ ایک ہی سند مثلاً فضیلت کی سند کسی جگہ کچھ مدت تعلیم پر دی جاتی ہے اور دوسری جگہ دوسری مدت تعلیم پر۔ یہی صورت حال عالمیت کی سند اور دیگر اسناد کی ہے۔ مدارس کی اسناد کو یونیورسٹیوں کے اندر منظور کراتے ہوئے اس پہلو کی غیر سنجیدگی مضحکہ خیز صورت اختیار کر لیتی ہے، اور یہ سمجھانا مشکل ہو جاتا ہے کہ عالمیت یا فضیلت یا تخصص کی سند کا کیا مطلب ہے، اور کتنے برسوں کی تعلیم پر ان میں سے کوئی سند دی جاتی ہے؟ اب جب کہ معروف دینی مدارس سے آزاد ہو کر علاحدہ علاحدہ دینی مدارس کثرت سے قائم ہو رہے ہیں، اور اسی طرح مختصر مدتی عالم کورس اور طالبات کے لیے مختصر نصاب پر مشتمل عالمیت اور فضیلت کے کورس کرائے جا رہے ہیں ، تو یہ دشواری مزید پیچیدہ اور الجھن کا باعث بنتی جا رہی ہے۔
اس تناظر میں تعلیم کی مدت کا دورانیہ یکساں انداز سے متعین کرنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ ہماری تعلیمی منصوبہ بندی کی سنجیدگی کا اولین تقاضا ہے۔ ہماری اسناد ایک اسٹنڈرڈ معیار رکھتی ہوں، اور پورے ملک کے لیے یہ بات یکساں طور پر قابل فہم ہو کہ عالمیت کی سند ایک مخصوص مدت کی تعلیم کے بعد ہی دی جائے گی، اور وہ مدت ہر مدرسہ میں یکساں ہو گی۔ اس سے نہ صرف طلبا وطالبات موجودہ تیز رفتار منتقلی کے زمانہ میں بہ آسانی مختلف جگہوں پر تعلیم حاصل کر سکیں گے، خود ارباب مدارس کے لیے بھی ایسے طلبا کو داخل کرنا آسان ہوگا، بلکہ تعلیمی دنیا میں یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکے گی کہ عالمیت کی سند کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اور فضیلت کی سند کتنی مدت کی تعلیم کے بعد ملتی ہے؟ اور یقینی طور پر یہ یکسانیت دینی مدارس کی اسناد کو مزید اعتبار و وقار بخشے گی ۔ یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ تعلیمی دورانیہ کا ایک ایسا اسٹنڈر ڈطریقہ جسے تمام دینی مدارس اپنا رہے ہوں کسی بھی تعلیمی تصور اور منصوبہ بندی کی بنیادی ضرورت ہو گئی ہے۔ لہٰذا اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
البتہ اس تجویز کا یہ پہلو کہ فضیلت کے اس مرحلہ میں آدھا نصاب شرعی علوم پر مشتمل ہو اور آدھا عصری تعلیم کے مضامین مثلا لسانیات، سماجیات، معاشیات، سیاسیات اور تاریخ وغیرہ پڑھائے جائیں، یہ زیادہ قابل عمل محسوس نہیں ہوتا۔ کیوں کہ شرعی علوم کے متخصصین اور شریعت کے ماہرین پیدا کرنا ان دینی مدارس کا ایک اہم مقصد ہے، اور ایسے متخصصین اور ماہرین ملت مسلمہ کی ناگزیر ضرورت ہیں۔ انھیں کے دم خم سے علوم شریعت کی بقاء اور مستند طریقہ پر شریعت سے وابستگی کی فضاء قائم ہے۔ اگر وہ نہ ہو ںتو نہ صرف یہ بڑا نقصان بلکہ بڑے خطرہ کی گھنٹی ہوگی۔ اور ایسے متخصصین اور ماہرین شریعت کی تیاری کا انتظام فی الحال ملک کے اندر صرف دینی مدارس کے ذریعہ موجود اور ممکن ہے۔ اور یہ بات اسی وقت ممکن ہوگی جب پوری یکسوئی کے ساتھ تعلیم کے اس اعلیٰ مرحلہ میں شرعی اختصاص کی تعلیم دی جائے۔ اس لیے فضیلت کی چار سالہ تعلیم صرف شرعی علوم کے لیے ہونی چاہیے۔ یہ مدت کم بھی رکھی جا سکتی ہے۔
اس تجویز پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں اس پہلو پر بھی توجہ دینا چاہیے کہ تعلیم کے ان تینوں مراحل کے لیے دینی مضامین اور عصری مضامین کی درجہ وار تفصیل کا خاکہ کیا ہو؟ بہتر ہوتا کہ اس بابت بھی کوئی نمونہ پیش کیا جاتا ، تاکہ غور وفکر اورعملی اقدام آسان ہوتا۔ راقم محسوس کرتا ہے کہ عصری مضامین میں چونکہ سرکاری نصاب کی کتابیں ہی شامل درس ہوں گی ، یا پھر ان کتابوں کے خلاصے تیار اور اختیار کیے جائیں گے ، او ر امتحان کے موقع پر ان ہی مضامین کے امتحانات ہوں گے،تو اس سمت میں رہ نمائی بڑی حد تک واضح ہے۔ جہاں تک دینی اور شرعی علوم کے مضامین کا تعلق ہے ، تو ان میں مختلف حلقوں کے دینی مدارس کے لیے اپنی پسند اور اختیار کی گنجائشیں ہوں گی، اور مدت تعلیم کی یکسانیت کے بعد نصابی مضامین اورکتابوں کے فرق سے زیر گفتگو تجویز کی افادیت پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر وارث مظہری
(اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ہمدرد)
مدارس کے نصاب ونظام تعلیم کوزمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پرمدتیں گزریں لیکن سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے پرتوجہ مرکوز نہیں کی گئی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کو روشن خیالوں اور جدیدیت پسندوں کے خانے میں ڈالیے لیکن مولانا مناظراحسن گیلانی کوجدیدیت پسندی سے ’’متہم‘‘ نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے وحدت تعلیم کا نظریہ پیش کیا جس کے مطابق یہ دینی اور عصری یا دنیاوی کے نام سے جوہمارا نظام تعلیم دو لخت ہوکر رہ گیا ہے، اس کوختم کرنا چاہیے ورنہ ان کے الفاظ میں ’’مسٹر‘‘اور ’’ملا‘‘ کے دومتوازی طبقات کے درمیان کش مکش جاری رہے گی۔ ’’ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت ‘‘ میں مولانا نے اس موضوع پرتفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے۔
دینی مدارس کا نصاب ونظام ملک کی آزادی کے بعد بالخصوص تجدید ونظرثانی کا محتاج تھا لیکن یہ ضرورت اس وقت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ جس کے نقصانات اب اتنے عیاں ہیں کہ اس کے لیے دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا احساس اب بھی ہمارے حلقوں میں بہت کم ہی پایا جاتا ہے۔
مجھے اس تجویز سے بہت حدتک اتفاق ہے۔ اس کی اسپرٹ زمانے کے تقاضوں کے عین مطابق اور اسلامک ایکٹیوزم کو ملک میں مضبوط کرنے کے لیے بہت اہم ہے۔ البتہ اس کی ساخت میں کچھ تبدیلیوں پرغور کیا جاسکتا ہے۔
میں تجویز کی ایک شق میں معمولی تبدیلی کی درخواست کروں گا۔ تجویز میں چارچارسال عالمیت اور فضیلت کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اور دونوں کے دورانیے میں عصری اور دینی علوم کا تناسب نصف نصف رکھا گیا ہے۔ میرے خیال میں ہونا یہ چاہیے کہ:
سکنڈری میں زیادہ بڑا حصہ عصری تعلیم پر مشتمل ہونا چاہیے(۶۰۔۷۰ فیصد)
عالمیت میں دینی اور عصری تعلیم کا نصاب مساوی (۵۰۔۵۰فیصد)
اورفضیلت میں دینی اور عصری تعلیم کے نصاب کا تناسب ۷۵ فیصد (دینی علوم) اور۲۵فی صد (عصری علوم) ہونا چاہیے۔
فضیلت کا مطلب یہ ہے کہ یہ اختصاصی مرحلہ ہے۔ اس مرحلے میں دینی علوم میں اختصاص کی سطح پر زیادہ ارتکاز ہونا چاہیے۔ دونوں علوم کے نصاب میں مساوی تقسیم اس کے مقصد کے حصول میں مشکلات پیدا کرے گی۔
ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی
( مدیر ماہنامہ ندائے اعتدال)
مدت تعلیم میں یکسانیت ضروری ہے البتہ اس کی تقسیم پر مزید گفتگو کی جاسکتی ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ مدرسہ کی مرحلہ وار اسناد کے ساتھ عصری سرٹیفکیٹ کا حصول ممکن بنایا جائے اور اس طرح مدارس کی تعلیم کو ملکی نظام سے جوڑ کے فوائد کو دوبالا کردیا جائے۔
آپ کی تجویز مبصرانہ جائزے اور دردمندانہ جذبہ کے بعد وجود میں آئی ہے، ناچیز کو بڑی حد تک اس کے مشتملات سے اتفاق ہے، مدت تعلیم کے علاوہ دیگر نکات اکثر ہماری تحریروں اور گفتگو کا حصہ بنتے رہے ہیں، اس لیے یہاں دوہرانے کے بجائے آپ سے مکمل اتفاق کے اظہار پر اکتفا کررہا ہوں۔
مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی
( سیکرٹری جماعت اسلامی ہند)
مدرسوں کے نظام تعلیم کو ایسا بنایا جائے کہ وہاں کا طالب علم بیک وقت دینی اور عصری دونوں علوم میں دسترس حاصل کرلے، یہ ایک خوش کن آرزو رہی ہے۔ عملاً ایسا ہونا بہت دشوار لگتا ہے۔ پہلے سے موجود نصاب تعلیم میں بعض جزوی تبدیلی کردینے سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ ایک ایسا جدید نصاب تعلیم مرتب کرنے کی ضرورت ہے، جس میں دونوں کے تقاضوں کو باریک بینی کے ساتھ مدنظر رکھا گیا ہو۔
مسئلہ صرف نصاب تعلیم سے حل نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے ایسے اساتذہ درکار ہوں گے، جو طے شدہ خاکوں میں رنگ بھرسکیں۔ ان اساتذہ کی الگ سے خصوصی تربیت کی ضرورت ہوگی۔
تمام مکاتب فکر کے مدارس کا ایک نصاب تعلیم پر متفق ہونا ممکن نہیں ہوگا۔ اصولی موقف سے اتفاق کے باوجود ان کی اپنی اپنی مجبوریاں ہوں گی۔ ہوسکتا ہے بعض مدارس کے تجربے کے بعد وہ اس جانب اور قریب آئیں۔ ویسے مقاصد اگر حاصل ہو رہے ہوں تو نصاب میں بعض جزوی تبدیلیوں کی گنجائش رہنی چاہیے۔
مفتی صباح الدین ملک قاسمی
(استاذ جامعۃ الفلاح)
عصری و تمدنی نظامِ تعلیم انسان کی دو بنیادی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ ایک، اپنے تمدن کے انسانی معاشرے میں زندگی گزارنے لائق بنانا اور دوسرے، کسبِ معاش کرنے کے لائق بنانا۔ یہ دونوں ضرورتیں ہر انسان کے ساتھ خاص، ناگزیر اور لابدی ہیں۔ انہیں نظر انداز کرنا غیر انسانی اور مجرمانہ فکر و عمل ہے، بلکہ گناہ ہے۔
دینی تعلیم، تمدنی تعلیم سے زائد شے ہے۔ دینی تعلیم، انسان کو اس کی روح، قلب، ذہن اور اخلاق کے اعتبار سے ‘انسان’ بنانے کا عمل ہے، جو کہ زمین پر انسانی امتحان کا مقصود ہے۔ لیکن اس کے مقصود بلکہ زندگی کا مقصود ہونے کے باوجود، انسان کی مذکورہ بالا دو وجودی ضرورتوں کو نظر انداز کرنے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ جو ایسا کرتا ہے وہ اس فرد اور پوری قوم و ملت کے ساتھ ظلم کا ارتکاب کرتا ہے۔ فاتقوااللہ۔
اسی لیے ضروری ہے کہ متمدن انسانی دنیا نے جو نظامِ تعلیم بلوغ کی عمر تک کے لیے، تشکیل دیا ہے، اسے خاندانِ انسانی کے مشترکہ تجربوں کا حاصل سمجھ کر قبول کیا جائے۔ اسی کے ساتھ مل کر امت کا دینی نظامِ تعلیم بنایا جائے، تاکہ امت، پوری انسانی برادری کا حصہ بن سکے، ان کے درمیان اجنبی بن کر نہ رہ جائے نیز دنیا میں رزق کے خدائی دسترخوان سے اپنا حصہ وصول کر سکے، دنیا میں مفلوک الحال قوم بن کر نہ رہ جائے۔
اسی کا ایک پہلو یہ ہے کہ شہری زندگی کے مختلف مواقع پر، متعدد ضرورتوں کے لیے تعلیمی سرٹیفکیٹ کی حاجت۔ ملک کے شہری( ناگرک) کے طور پر قدم قدم پر انسان کو ہائی اسکول کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ملکی انتظام کا حصہ ہے۔ اور ہمیں ملکی انتظام کا حصہ بننا چاہیے۔
موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ مدارس کا موجودہ نظامِ تعلیم، دین کے نام پر نوجوان سے لقمہ حیات چھین لیتا ہے۔ نتیجتاً اس کی خودداری کی موت ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے کو معاشرے میں اجنبی محسوس کرتا ہے۔ وہ دنیاوی اعتبار سے اپنے کو نا اہل پاتا ہے۔ حالانکہ دین نے اس کو داعی اور رہ نما کا مقام دیا تھا۔
مناسب ترین طریقہ یہ ہے کہ "تمدنی نظامِ تعلیم” میں ابتدا سے انتہا تک عمر اور درجات کے اعتبار سے جو "تعلیمی مراحل” طے کیے گئے ہیں، انہیں قبول کیا جائے اور اپنے طالب علم کو ساری سندیں فراہم کی جائیں۔
مولانا عمر اسلم اصلاحی
( استاذ مدرسۃ الاصلاح)
ملک کی نئی تعلیمی پالیسی کا اطلاق آیا صرف سرکاری تعلیمی اداروں پر ہوتا یا تمام ملکی تعلیمی اداروں پر؟ شاید اس پر اظہار خیال قبل از وقت ہوگا لیکن وابستگان مدارس اگر اس تعلیمی پالیسی سے اپنے ہاں جزوی تبدیلی لا کر مستفید ہو سکیں تو نہ صرف یہ کہ کوئی مضائقہ نہیں بلکہ لازماً مستفید ہونا چاہیے۔ اس تعلیمی پالیسی سے استفادہ کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں۔
1۔ ایک مدت تعلیم اور یکساں مراحل تعلیم
2۔ مدارس میں بھی جدید علوم کی شمولیت
باقی مضامین کی تقسیم ان کے پیریڈ کا تعین اور اپنی ترجیحات سے تمسک وغیرہ میں کوئی دشواری نہیں ہے اور نہ ملکی نئی تعلیمی پالیسی سے ان کا کوئی تصادم ہے۔ اس لیے اس تعلیمی پالیسی سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں۔
1۔ مدارس کو اپنے بنیادی مضامین سے کسی بھی طرح سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ مدارس کے بنیادی مضامین میں بھی مضامین کو ان کی اہمیت اور حیثیت کے لحاظ سے ترجیح حاصل رہنی چاہیے۔
2۔ ہمارے مدارس کے نظام میں ریاضی، سائنس، تاریخ، سیاسیات و معاشیات کے لیے بھی گنجائش ہونی چاہیے۔
3۔ نئی تعلیمی پالیسی کے لحاظ سے پہلا مرحلہ اطفال کا تین سال کا ہے، اس میں عموما مدارس میں دو سال اطفال کے پہلے سے ہیں، ایک سال اور بھی دیا جاسکتا ہے۔ اس مرحلے میں دینی تربیت اور دیگر بنیادی استعداد بہم پہونچائی جاسکتی ہے۔
4۔ دوسرا مرحلہ اس مرحلہ میں کل آٹھ سال ہیں۔ اس میں مکتب اور ثانوی کو ایک ساتھ ملایا جاسکتا ہے اور جہاں پانچ سال کے کورس کے بعد عربی درجات شروع ہوجاتے ہیں وہ ایک ایسا نصاب ترتیب دے سکتے ہیں کہ اس میں آٹھ سال میں مکتب اور ابتدائی عربی درجات کی تعلیم دی جا سکے۔
5۔ تیسرا مرحلہ چار سالہ سکینڈری کا ہے اسے مدارس عالمیت کا مرحلہ قرار دے سکتے ہیں۔ جب ابتدائی بنیادی عربی کی تعلیم سکینڈری سے پہلے کے مرحلے میں دے دیں گے تو اس چار سالہ مدت میں عالمیت کی تعلیم دی جا سکتی ہے۔
6۔ چوتھا مرحلہ جو چار سالہ گریجویشن کا ہے اس میں فضیلت کے ساتھ یونیورسٹی کے مضامین بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔ ہمارا جو مرحلہ فضیلت دو سال لیتا ہے اگر اسے چار سال ملتے ہیں تو دونوں طرح کے مضامین چاروں سالوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔
7۔ اس کے بعد کسی خاص موضوع پر تخصص یا پی ایچ ڈی ممکن ہے۔ جب حکومت خود یہ تعلیمی پالیسی بنا رہی ہے تو میرا خیال ہے کہ وہ اس کے امکان پیدا کرے گی۔ مدارس کو اس سلسلہ میں اجتماعی کوشش کرنی ہوگی۔
8۔ تمام مدارس دینیہ اپنے اپنے اختصاصات کو باقی رکھتے ہوئے مدت تعلیم اور مراحل تعلیم نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق کر سکتے ہیں اور انہیں اس سلسلے میں مذاکرہ بین المدارس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اور اجتماعی موقف اختیار کرنا چاہیے۔
9۔ ہر مرحلہ کو سند کا مرحلہ قرار دینا چاہیے تاکہ جس مرحلہ سے بھی کوئی کسی اور جانب جانا چاہے جاسکے۔ کیوں کہ آگے کے مرحلہ میں قانونی چیز طالب علم کے لیے مفید نہیں ہو سکتا ہے۔
10۔ مدارس میں کچھ اس طرح کا بھی انتظام ہونا چاہیے کہ اگر جدید تعلیمی اداروں سے کوئی مدارس کی طرف رخ کرتا ہے تو اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ جو شعور کے ساتھ جہت تبدیل کرتا ہے وہ اتنی ہمت اور حوصلہ رکھتا ہے کہ کم سے کم وقت میں وہ تلافی ما فات کر سکے۔
11۔ مدارس کا ایک وفاق ہونا چاہیے اس کے لیے اپنے اپنے اختصاصات کو قربان کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف انا اور ناممکن کے احساس کو شکست دینے کی ضرورت ہے۔
12۔ ذمہ داران مدارس کو نئی حکومتی تعلیمی پالیسی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس کے ممکنہ مضر اثرات کا جائزہ لینا چاہیے اور یکسانیت کے امکان پر غور کرنا چاہیے۔
13۔ مدت تعلیم و مراحل تعلیم میں یکسانیت کی صورت میں ہر مرحلہ کی سندوں کو منظور کرانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے تاکہ ملازمت کے امکانات پیدا ہو سکیں۔
14۔ مدارس کو فوری غفلت سے بیدارہونا چاہیے اور جمود کو توڑنا چاہیے۔ ساتھ ہی آئندہ کے لیے ٹھوس حکمت عملی بھی تیار کرنی چاہیے۔ مصیبت آنے کے بعد اس سے مقابلہ کرنے کے بجائے پیش بندی کا وطیرہ اپنانا چاہیے۔ بیماری سے لڑنے کے بجائے پیشگی بچاؤ کی تدبیر کرنی چاہیے۔■