میڈیا راونڈ اپ: دلی تشدد، سی اے اے اور این پی آر پر بھارت کو بین الاقوامی سطح پر سخت تنقید کا سامنا
جاوید اختر
(اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ جرنلزم، کے بی یو، گلبرگہ)
سوشل میڈیا پر لگاتار نفرت رسانی اور ٹی وی پر ہندو مسلم مباحثوں نے دلی کے ماحول کو دردناک نتائج سے دوچار کر دیا ہے۔ تشدد برپا کرنے سے قبل ہی تشدد کے لیے ماحول بنانے کی کوشش شروع ہوچکی تھی۔ بی جے پی کے کئی لیڈروں کے علاوہ اس ’کھیل‘ میں مندر کا ایک پجاری بھی حصہ دار نظر آتا ہے۔معروف نیوز پورٹل دی کوینٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دلی کے مشرق میں یو پی کی سرحد کے قریب غازی آباد کے داسنا مندر کے ایک پْجاری نے اپنا اشتعال انگیز اور نفرت سے بھرا ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر کے کس طرح دلی میں تشدد کے لیے فسادیوں کو اْکسانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ پْجاری نرسنگھ نند سرسوتی نے اپنے ویڈیو میں اکثریت طبقے کو اشتعال دلاتے ہوئے کہا تھا "جب تک اسلام کا خاتمہ نہیں ہوتا ہندووں کا وجود ممکن نہیں ہے‘۔ داسنا میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن نرسنگھ نند سرسوتی یہاں ہندتوا ماحولیاتی نظام (ایکو سسٹم) کی ایک چبھتی اور چیختی ہوئی مشتعل آواز ہے جس نے شمال مشرقی دلی کے ماحول کو خراب کرنے میں بڑا رول ادا کیا ہے۔
دی کوینٹ کی ایک دوسری رپورٹ میں دلی پولیس کے ایک افسر نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں فسادیوں کے خلاف فوری کارروائی کی اجازت نہیں ملی۔ افسر کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے پولیس اہلکاروں کے ساتھ تیار تھے اور فساد کو روکا جا سکتا تھا لیکن پولیس نے 25 فروری تک کوئی کارروائی نہیں کی۔
"گلف نیوز” کی ویب سائٹ پر 4 مارچ 2020 کے ایک مضمون میں بھارت میں مسلمانوں پر حملوں کے تعلق سے کئی سوال کھڑے کیے گیے ہیں۔ وہیں "نیویارک ٹائمز” کے ویب سائٹ پر کالم نگار ہرتوش سنگھ بل لکھتے ہیں کہ فساد میں ملوث پولیس افسروں کو اس بات کی امید ہے کہ انھیں مودی حکومت کی جانب سے انعام و اعزاز سے نوازا جائے گا۔ ان کو یہ بھی امید ہے کہ جس طرح 1984 میں سکھوں کے قتل عام میں ملوث پولیس افسروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ان کے خلاف بھی نہیں ہوگی۔
پولیس کی اسی سوچ نے دلی فساد کو شدید تر بنا دیا ہے۔ اس اثناء میں بھارت کی مذمت بھی دنیا بھر میں شروع ہو چکی ہے۔ ترکی اور ایران نے دلی تشدد پر کھل کر بھارت کی تنقید کی ہے۔ حال ہی میں ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام سے دنیا بھر کے مسلمان غم زدہ ہیں۔ بھارت کی حکومت شدت پسند ہندووں اور اس طرح کی سوچ رکھنے والی پارٹیوں کے خلاف اقدامات کرے ورنہ بھارت مسلم دنیا سے الگ تھلگ پڑ جائے گا۔
ابھی دلی فساد پر بحث چل ہی رہی تھی کہ وزارت اطلاعات ونشریات نے تشدد کی خبر کی رپورٹنگ کو لے کر جمعہ کو دو ملیالم ٹی وی چینلوں پر 48 گھنٹوں کے لیے پابندی کا اعلان کیا تھا۔ ایشیا نیٹ اور میڈیا ون نیوز چینلوں پر کیبل ضابطوں کی خلاف ورزی کا ’بہانہ‘ بنا کر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن سوشل میڈیا پر حکومتی اقدام کی مذمت ٹرینڈ کرنے لگی۔ اسی دوران ایشیا نیٹ کے نمائندے وزارت اطلاعات سے رجوع ہوئے۔ جس کے بعد دونوں چینلوں کی نشریات اگلے ہی دن دوبارہ شروع ہوئی۔ واضح رہے کہ کیرالا یونین ورکنگ جرنلسٹ نے پابندی کی مذمت کرتے ہوئے اسے پریس کی آزادی پر حملہ قرار دیا تھا۔ یہاں قابل ذکر یہ بھی ہے کہ مودی حکومت اس سے قبل این ڈی ٹی وی پر 24 گھنٹوں کی پابندی لگا چکی ہے۔
ایک طرف حکومت پارلیمنٹ میں دلی فساد پر بحث کرانے سے کترا رہی ہے تو دوسری جانب ایمانداری سے رپورٹنگ کرنے والے چینلوں پر پابندی بھی لگا رہی ہے۔ حکومت کا یہ رویہ دراصل اس کی گھبراہٹ اور پریشانی کی عکاسی کرتا ہے۔
فسادات کے ذریعہ جہاں ملک کی عوام کو بانٹنے کی کوششیں کی جارہی ہے وہیں کئی ایسی خبریں بھی ہیں جن سے امید کی کرنیں پھوٹتی نظر آ رہی ہیں۔ معروف نیوز پورٹل دی وائر کی ایک تازہ پورٹ میں بدر پور کے موہن اسٹیٹ کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی کہانی نے پیار ومحبت اور بھائی چارے کی ایک مثال قائم کی ہے۔ یہاں کے عالی گاوں میں دلی تشدد کی وجہ سے خوف وڈر کا ماحول بن گیا تھا۔ یہاں جب بی ایس ایف اور پولیس اہلکاروں کی تعیناتی شروع ہوئی تو مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا اور وہ گاوں چھوڑنے کے بارے میں سوچنے لگے۔ اسی وقت گاوں کے ہندووں نے مسلمانوں کو بھروسہ دلایا کہ ان کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوگا اور وہ لوگ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ ہندووں نے اپنے مسلمان پڑوسیوں کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کا یقین دلایا۔ جس کے بعد مسلمانوں نے راحت کی سانس لی۔ آخری خبر ملنے تک یہاں کسی بھی طرح کے نا خوشگوار واقعہ کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
نفرت اور اشتعال انگیزی ابھی بھی جاری ہے۔ لیکن میڈیا کو ملک کا یہ گھناونا چہرہ نظر نہیں آرہا ہے۔ پرائیم ٹائم مباحثوں میں جن مسائل کو اٹھانا چاہیے ان سے گریز کیا جا رہا ہے۔ لیکن کئی ایسے آن لائن میڈیا ہاؤس ہیں جو لگاتار ملک کے اصل مسائل کو عوام کے سامنے لا رہے ہیں اور اپنی صحافتی ذمہ داری کو ادا کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔