سمیہ آفاقی
کئی دفعہ کوشش کی کہ امّی کی یاد میں کچھ لکھوں لیکن جب بھی قلم ہاتھ میں اٹھاتی میری ساری ہمّت جواب دے جاتی۔ میرا ذہن الفاظ کو ترتیب دینے سے انکار کر دیتا۔ امّی کے گزرنے کے اتنے سالوں بعد ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ دل کو کچھ صبر آگیا ہے لیکن کچھ دنوں سے امّی سے بچھڑنے کا غم پھر سے تازہ ہونے لگا تھا۔ جانتی ہوں کہ یہ نا ممکن ہے لیکن پھر بھی بار بار یہ خیال آ رہا ہے کہ کاش کہیں سے امّی آجائیں اور میں ان سے لپٹ جاؤں۔ محبتوں کو وصول کرنے کے معاملے میں مَیں بہت خوش قسمت رہی ہوں۔ امّی بابا کے جانے کے بعد جہاں میری بہنوں نے مجھے کبھی امّی کی کمی محسوس ہونے نہیں دی، وہیں بھائیوں نے بھی بہت خاموشی سے میرے لیے بابا کی جگہ لے لی جو میری چھوٹی سی تکلیف پر تڑپ اٹھتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ہمیشہ یہ خیال آتا رہا کہ گھر میں سب سے چھوٹے ہونے کا یہ نقصان ہوتا ہے کہ آپ اپنے بڑے بہنوں بھائیوں کے مقابلے میں اپنے ماں باپ کے ساتھ زندگی کا کم عرصہ گزار پاتے ہیں۔
میری امّی بہت ظرف والی باہمّت خاتون تھیں مشکل سے مشکل حالات میں بھی میری امّی نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ امّی کہتی تھیں کہ اپنی پریشانیوں کا ذکر کبھی کسی سے نہ کرنا ورنہ تم اپنی وقعت کھودوگے۔ جب کبھی مشکلات کا مقابلہ کرنےکے لیے میں اپنے آپ کو مضبوط کر کے اپنے پیر جمانے کی کوشش کرتی ہوں زندگی اتنی ہی سفّاکی سے میری انا اور غرور کو زخمی کر دیتی ہے اس وقت محسوس ہوتا ہے کہ اب صبر کی طنابیں ہاتھوں سے چھوٹنے لگی ہیں تب امّی کی آواز کانوں میں گونجنے لگتی ہے کہ تھوڑی ہمّت اور! سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اور میں پھر سے مطمئن ہوجاتی ہوں۔ امّی کو ہمیشہ ہمارے آرام کا خیال رہتا تھا اکثر امّی کو پیروں میں درد رہتا تھا اور یہ تکلیف راتوں کو شدّت اختیار کر لیتی تھی اپنی تکلیف کے باوجود امّی کو اس بات کی فکر رہتی تھی کہ ان کی بے چینی کی وجہ سے کہیں ان کے بچوں کی آنکھ نہ کھل جاۓ۔ ہر بچے کی پسند کا خیال، ہر ایک کی صحت کی فکر، میرے بھائی جب کبھی دوسرے شہر جاتے تو ان کے گھر واپس آنے تک امّی کی زبان ان کے لیے حفاظتی دعائیں مانگنے میں مصروف ہو جاتی۔ مجھے یاد ہے کہ بھائی جان نے دبئی سے فون کیا تھا اور ڈرائیونگ لائسنس ملنے کی خوشخبری سنائی تھی امّی یہ سن کر خوش تو ہوئیں لیکن فون رکھتے ہی ان کے ہاتھ پھر دعا کے لیے اُٹھ گئے کہ دبئی کی سڑکوں پر ان کا بیٹا محفوظ رہے۔ ماں باپ کے چھن جانے کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی دُعاؤں کے حصار میں محفوظ کرنے والا اب کوئی نہیں ہوتا۔جس وقت بابا اپنی آخری سانسیں لے رہے تھے تب وہ بے حد تکلیف میں تھے اس وقت بابا نے امّی کو آواز دی امّی نے لپک کر بابا کا ہاتھ تھام لیا اور دونوں بہت خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے دونوں کے منھ سے ایک بھی لفظ نہیں نکلا میں بابا کے بستر کے کنارے کھڑی تھی۔ یہ لمحہ میری زندگی کا یادگار لمحہ بن گیا میرے لیے وہ محبت اور وفاداری کا ایسا منظر تھا جسے کسی لفظ کی محتاجی نہیں تھی۔ ایسے معلوم ہو رہا تھا جیسے بغیر کچھ کہے ہی بابا نے امّی کو بتا دیا کہ اب جانے کا وقت آگیا ہے اور ساری ذمّہ داریاں امّی کے حوالے کردیں اور بنا کچھ سنے ہی امّی بابا کی بات سمجھ بھی گئیں اور قبول بھی کرلیا اور کچھ دیر بعد بابا مطمئن ہو کر اس دنیا سے چلے گئے۔
بابا سے بچھڑنے کا غم ہم سب کو اتنا زیادہ تھا کہ ہم سمجھ ہی نہیں سکے کہ بابا کی موت کے بعد امّی نے بھی جینا چھوڑ دیا ہے۔ بابا کے بعد میں نے امّی کو پھر کبھی کھل کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ بابا کی یاد میں امّی اکثر روتی ہوئی اپنے ہاتھ مَلا کرتیں اور اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے اپنے آپ سے کہتیں کہ ایک نایاب چیز میرے ہاتھوں سے پھسل گئی۔ اپنے نقصان کا غم ان کو اتنا زیادہ تھا کہ انہوں نے زندگی جینے سے ہی انکار کر دیا۔ میری امّی بہت ہمت والی تھیں لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بابا جاتے جاتے امّی کی ساری ہمّت اپنے ساتھ لے گئے تھے شاید اسی لیے امّی اتنی کمزور ہو گئیں کہ کینسر جیسے مہلک مرض کا شکار ہو گئیں۔
بابا سے ملنے کی خواہش میں امّی بھی بابا کے راستے پر نکل پڑیں، ایسا راستہ جہاں سے واپسی نا ممکن تھی۔ میری امّی میرے لیے دنیا کی خوبصورت ترین خاتون تھیں۔ اکثر یہ خیال آتا ہے کہ کیا میں یہ خوبصورت چہرہ پھر کبھی دیکھ پاوں گی۔ اللہ سے ہر بار یہی دعا کرتی ہوں کہ مجھے پھر ایک بار امّی سے ملادے اور میں امّی کی گود میں سر رکھ کر ان سے کہوں کہ بس! اب پھر کبھی مجھے خود سے دور مت کرنا۔۔۔۔