میرا قاتل ہی میرا منصف ٹھہرا: زیرحراست تشدداوراموات تشویشناک
جب امن وسلامتی کو نافذ کرنے والے ہی خطرہ بن جائیں
آسیہ تنویر، حیدر آباد
دنیا بھر میں پولیس، نظم و نسق کو قائم کرنے پر کاربند ہوتی ہے. مغربی ممالک سے لے کر مشرق وسطیٰ تک عوام کو پولیس پر مکمل اعتماد ہوتا ہے اور پولیس بھی اس اعتماد کو قائم رکھنے کے لیے ہمہ وقت چاق و چوبند رہتی ہے. لیکن ہماری پولیس آزادی کے بعد سے اب تک کے سب سے برے عدم اعتماد کے دور سے گزر رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ پولیس نے اس حد تک خوف کے ماحول کو بڑھاوا دیا ہے کہ عام انسان بھی پولیس سے پناہ مانگنے لگا ہے۔ پولیس کی جانب سے سڑکوں سے لے کر کی جیلوں تک بربریت کے مظاہرے روز افزوں جاری ہیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ پولیس کا ایک نیا سفاک چہرہ ابھر کر سامنے آتا ہے. جیسے محکمہ پولیس عوام کی خدمت گار نہیں بلکہ عوام اس کی محکوم ہے. ہر کس و ناکس کے ساتھ عدم تعاون ، ہتک آمیز رویہ، خواتین اور بچوں کے ساتھ بھی غیر انسانی سلوک، اختیارات کا بیجا استعمال، ایسے بے شمار واقعات ہماری زندگی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں ۔ پر امن سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران طلباء کے ساتھ پولیس کی زیادتی اپنی انتہائی سطح پر پہنچ چکی ہے جہاں معصوم طلباء کو سڑکوں پر بے انتہا زیادتی کا نشانہ بنا کر ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، وہیں دہلی میں کھلے عام فائرنگ کرنےوالوں کو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ دہلی فسادات میں سب نے دیکھا کہ کس طرح پولیس نے جنونی اشرار کو کھلے عام چھوٹ دے رکھی تھی، بلکہ اب تو ایسا لگ رہا وہ ان کا ایک حصہ تھی۔
سڑکوں پر پولیس کے بھیانک تشدد کی تازہ مثال حالیہ شمال مشرقی دہلی کے فسادات کے دوران بنی ایک ویڈیو میں سامنے آئی جب پولیس زخموں سے چور، چند لڑکوں پر لاٹھیاں برساتے ہوئے جبراً قومی ترانہ پڑھوا کر قومیت کا امتحان لی رہی تھی۔ زخموں سے چور نوجوان سڑک پر گر پڑتے ہیں ان میں سے ایک لڑکا فیضان دو دن بعد موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ بچ جانے والوں میں سے ایک لڑکا رفیق بی بی سی ہندی سروس کو اپنی بپتا سناتے ہوئے بار بار رو پڑتا ہے اور کہتا ہے ’’میں نے اپنی زندگی میں اتنا بھیانک منظر نہیں دیکھا۔ پولیس کا رویہ بے حد خوفناک تھا میں پولیس سے بار بار رحم کی التجا کر رہا تھا لیکن پولیس کا رویہ انتہائی بربریت کا اور اہانت آمیز تھا…. وہ ہم سے کہتے جاتے "آزادی چاہیے تمہیں؟ ….ابھی تو آدھی آزادی دی ہے اب تمہیں پوری آزادی دیں گے … اس کے بعد وہ لگاتار ہمیں مارتے جاتے” پولیس کے رویے نے رفیق کو اتنا خوفزدہ کر دیا ہے کہ بار بار ترغیب دلانے کے باوجود وہ علاج کے لیے باہر نکلنا نہیں چاہتا جبکہ کئی دن بعد بھی اس کا جسم زخموں سے چور ہے۔ سڑک پر پڑے زخمی لڑکوں میں سے نیلی شرٹ پہنا فیضان اس بھیانک تشدد کے دو دن بعد ہی موت کے منہ میں چلا گیا،انتہائی خوف اور مجبوری کے عالم میں اس گھر والے اربن ہاسپٹل سے رجوع ہوئے وہاں کے ڈاکٹر شیرانی کہتے ہیں "وہ لوگ علاج کے لیے گورنمنٹ ہاسپٹل جانا نہیں چاہتے تھے۔ میں نے دیکھا اس کی حالت انتہائی خستہ تھی پیٹھ، پیر، ہاتھ ہر جگہ مار پیٹ کے نشان تھے سر پر ٹانکے لگے ہوئے تھے لیکن وہ سرکاری ہاسپٹل جانے سے خوفزدہ تھے” جب اس ویڈیو کے بارے میں بی بی سی نے پولیس کے عہدیداروں سے رابطہ کیا تو انہوں نے کچھ کہنے سے انکار کر دیا۔ یہ سب ملک کی راجدھانی دہلی کے نظارے ہیں جس پر انٹرنیشنل مانیٹرنگ رہتی ہے تو تصور کیجیے کہ دور دراز یو پی اور ہریانہ کی جیلوں میں پولیس کا رویہ کیا ہوتا ہوگا۔
اتر پردیش کی پولیس کا تحویل میں تشدد اور اموات کا ایک طویل ریکارڈ ہے۔ مخالف سی اے اے مظاہروں کے دوران پولیس نے پُرامن مظاہرین کے ساتھ مار پیٹ کی خود ہی املاک کو نقصان پہنچاتی رہی . گھروں دکانوں میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کرتی رہی اور عوام کو چالان کا نوٹس بھجوایا۔ اناو میں عصمت ریزی کی شکار لڑکی کی شکایت پر اس کو اور اس کے خاندان کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ اس کے والد کی پولیس حراست میں موت ہو جاتی ہے، اور آخرکار اس لڑکی کا بھی خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔
جس وقت دہلی جل رہی تھی اس وقت جیل میں بند گورکھپور کے مشہور ڈاکٹر کفیل خان کی اہلیہ اپنے شوہر کی سلامتی کے لیے در در بھٹک رہی ہوتی ہیں۔ انہیں علی گڑھ میں سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں ممبئی سے جنوری میں گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن جس دن ڈاکٹر کفیل خان کو ضمانت ملی تھی اسی دن وہ دوبارہ این ایس اے کے تحت گرفتار کر لیے گئے۔ ڈاکٹر کفیل خان کی اہلیہ ڈاکٹر شبستہ خان نے کہا ہے کہ جیل کے حکام ڈاکٹر کفیل خان کے ساتھ مسلسل بد سلوکی کر رہے ہیں اور وہاں ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے اے این آئی کو مزید بتایا "ہم متھرا جیل میں ان سے ملاقات کے لیے گئے تھے وہاں انہوں نے مجھ
ظریات اور اصولوں سے وابستہ ہوتا ہے اس کے لیے ہمیں مناسب نظریات کو عام کرنے اور ان سے مطابقت رکھنے والی پارٹیوں کو منتخب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جن کے پاس جامع نظریہ موجود ہے یہی اس مسئلے کا واحد ہے ۔
ریٹائرڈ پولیس آفسر لاتور اور معروف کالم نگارنے بتایا کہ گرفتاری کے بعد جب انہیں جیل لایا گیا تو انہیں مسلسل پانچ دن تک کھانا نہیں دیا گیا تھا۔ اور جس بیرک میں ان کو رکھا گیا ہے وہ بہت چھوٹا ہے جس میں قریب ڈیڑھ سو افراد ایک ساتھ رکھے گئے ہیں جس سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ” ڈاکٹر کفیل خان کی اہلیہ ڈاکٹر شبستہ خان نے الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس گووند ماتھر کو خط لکھ کر ان سے اپنے شوہر کی حفاظت کو یقینی بنانے کی درخواست کی۔ اور کہا میرے شوہر کو ہر ضلع میں ہراساں کیا جارہا ہے، ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے اور ان کے ذاتی وقار کے حقوق کی پامالی کی جارہی ہے۔ ان دنوں اترپردیش کی جیلوں میں حراستی اموات عام ہوگئی ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ میرے شوہر کو بھی جیل کے اندر ہی قتل کردیا جائے گا۔ اور جیل انتظامیہ ایک بے قصور کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنی ذمہ داری سے دستبردار ہوجائے گی۔ مذکورہ بالا تمام معلومات میرے شوہر نے مجھے بتائیں اس صورت حال میں انہیں ان سخت گیر مجرموں سے دور رکھنےاور جیل میں بہتر تحفظ کی فراہمی میرے شوہر کی سلامتی میں معاون ہوگی. لہذا میں آپ سے گزارش کرتی ہوں کہ آپ میرے شوہر ڈاکٹر کفیل خان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے جیل سپرنٹنڈنٹ، متھرا کو ہدایت کریں۔ایسا معلوم ہوتا کہ ہے پولیس کسی بھی قانونی دائرہ کار سے آزاد ہے اور خود ہی من مانے طور پر اور چہرے دیکھ کر فیصلے کرنے کی مجاز ہوگئی ہے۔ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق جیلوں، پولیس کسٹڈی اور عدالتی حراست میں روزانہ اوسطاً پانچ لوگ مرتے ہیں۔ یہ اوسط پچھلے اوسط چار سے زیادہ ہے۔ 2001 تا 2010 کے درمیان14,231 حراستی اموات ہوئی ہیں۔ وزارتِ داخلہ کی اطلاع کے مطابق مارچ 2018 سے پہلے ایک سال کے دوران 1,674حراستی اموات 1,500عدالتی تحویل میں اور 174 اموات پولیس تحویل میں ہوئی ہیں۔ یہ اعداد وشمار عام اموات کے علاوہ غیر میعاری نگہداشت اور بدترین طبی سہولیات کے ساتھ ساتھ پولیس کے جبر و تشدد پر مبنی ہیں۔ قومی کرائم ریکارڈ بیورو ( این سی آر بی) کے اعداد وشمار کے مطابق 2017 میں پولیس تحویل میں سو کے قریب افراد کی تشدد اور ہراسانی کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ان میں سے 48 افراد ایسے تھے جو ریمانڈ پر بھی نہیں تھے۔ انہیں صرف گرفتار کیا گیا تھا اور عدالت میں پیش تک نہیں کیا گیا تھا۔ جبکہ 42 پولیس یا عدالتی ریمانڈ پر تھے۔ پولیس تحویل میں ہوئی مبینہ اموات کے دیگر 62 مقدمات میں صرف 33 پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا۔ 27 پر مقدمات درج ہیں ان میں سے چار پولیس والوں کو بری کردیا گیا یا چھٹی پر بھیج دیا گیا لیکن سزا کسی کو بھی نہیں سنائی گئی۔ پولیس حراست میں عصمت ریزی ایک اور بھیانک تصویر پیش کرتی ہے۔
جب ہم نے پولیس کے سابق عہدیدار اور موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر انویسٹگیشن لوک آیوکت آندھرا پردیش و تلنگانہ محمد تاج الدین سے پولیس کی بربریت پر حاصل قانونی سہولتوں سے متعلق سوالات کیے گئے تو انہوں نے بتایا کہ پولیس جب کسی سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو عمداً نقصان پہنچاتی ہے تو اس کے خلاف سیول کورٹ میں قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ جب پولیس کی جانب سے ملزم کے خلاف ہتک آمیز الفاظ استعمال کیے جائیں یا وہ کسی فرد کی اہانت میں ملوث ہو تب بھی سینئر عہدیدار کے پاس شکایت درج کی جا سکتی ہے۔ حراستی اموات دو طرح کی ہوتی ہیں ایک غیر ذمہ دارانہ دیکھ بھال اور دوسری تشدد اور ہراسانی۔ ان دونوں صورتوں میں ہرجانے کی رقم کا مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے اور متعلقہ پولیس افسر کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کی جاسکتی ہے۔ سڑک پر پولیس کی جانب سے مبینہ تشدد کے بعد اموات پر انہوں کہا کہ سڑکوں پر دو طرح سے پولیس کارروائی کرتی ہے ایک لا اینڈ آرڈر کو قائم کرنے کے لیے لاٹھی جارچ یا فائرنگ وغیرہ اس پر ہوئی اموات پر کوئی ہرجانہ دائر نہیں کیا جاسکے گا۔ لیکن اس کے بھی کچھ قاعدے ہیں اگر تشدد زیادہ ہوا جیسے دہلی کے فیضان کے ساتھ ہوا تب معاوضے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے فیضان کے کیس کو بہت باریک بینی کے ساتھ جائزہ لے کر آگے بڑھانے کی بات کہی۔
کیوں پولیس کی تحویل اور جیلیں غیر محفوظ ہو رہی ہیں اور کیوں آج کل پولیس کا رویہ مجرم اور جرائم کے ساتھ بہت دوستانہ ہو گیا ہے؟ کیا یہ سیاسی دباو اعلیٰ طبقات کا دباو یا پیسوں کا لالچ اس کی وجوہات سے ہوسکتی ہیں ۔۔۔۔ کیوں ہندوستانی پولیس کی ذہنیت انسانیت دشمن ہو گئی ہے؟ اس کے جواب میںPAAS نامی تنظیم کے کنوینئر اور سماجی جہد کار ڈاکٹر عبدالملک کہتے ہیں ہندوستان کی پولیس، مرکزی زیر انتظام ریاستوں کے ساتھ دہلی میں مرکزی حکومت کے وزرات داخلہ کے تحت کام کرتی ہے جبکہ ریاستوں میں ریاستی حکومتوں کے تحت کام کرتی ہے۔ پولیس کا ادارہ عدلیہ، آر بی آئی، الیکشن کمیشن وغیرہ کی طرح انفرادی حیثیت سے خود مختار نہیں ہے، لہذا ہم پولیس سے آزادنہ کارروائی کی توقع نہیں کر سکتے۔ پولیس کا ہر عمل ان کے سیاسی رہنماؤں کی پالیسی اور ن
ایم آئی شیخ سے جب ہم نے جیلوں کے اندر بڑھتی ہوئی حراستی اموات، پولیس کے جارحانہ رویے اور اس کے سدّ باب سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے بتایا "میرے تیس سال کے پولیس کیریر کے مشاہدے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ہندو سماج کے اعلیٰ طبقات میں مسلمانوں کے خلاف بنیادی نفرت کی آئیڈیالوجی کا احساس ہے وہی احساس پولیس میں آکر قوت پذیر ہوجاتا ہے۔ یعنی ہر علاقے کی پولیس میں وہاں کے اعلی طبقات کے افراد کی اکثریت ہوتی ہے جو کہ اپنی آئیڈیالوجی کو فروغ دیتے ہیں۔ جب وہ پولیس میں آجاتے ہیں تب تو ان کے ہاتھ میں لاٹھی اور کمر پر پستول آجاتا ہے جس سے وہ اپنی مزید طاقت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
پولیس اور ہندو سماج میں مسلمانوں کے خلاف پائی جانے والی غلط فہمی و نفرت کے رویہ کے سدّ باب کے لیے آئی ایم شیخ تین باتوں پر عمل آوری پر زور دیتے ہیں
سب سے پہلے ان کی نظر میں سماج کے سبھی افراد کے ساتھ گہرے روابط پیدا کرنا چاہیے اور باہمی تعلقات ومعاملات کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنا چاہیے۔ جس کی بناء پر مختلف مذاہب کے عوام کے درمیان اعتماد کی فضا سازگار ہوگی۔
دوسرا حل وہ خدمتِ خلق بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خدمتِ خلق کو بلا کسی تفریق کے اس قدر وسیع کردیا جائے کہ اس سے ہر خاص و عام مستفید ہوتے رہیں جیسے ہندوستان میں تبلیغ کے لیے آنے والے بزرگانِ دین کیا کرتے تھے۔ ان کے وسیع لنگر ہوا کرتے تھے، حکمت اور وظائف کے ذریعہ جسمانی اور روحانی علاج کیا کرتے تھے۔ اسی لیے ان کے عقیدت مندوں میں ہر مذہب کے ماننے والے موجود رہتے تھے۔ اس طرح سماج میں خدمتِ خلق اور خوش اخلاقی کے ذریعہ رواداری کی فضا ہموار کی جاسکتی ہے۔