میثاق:9نکاتی عہد نامہ جس پر عمائدین نے دستخط کیے
ہندستان کے موجودہ حالات ہر شخص کے سامنے ہیں۔ ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے عوام وخواص سب کے دلوں میں بے شمار اندیشے اور مستقبل کے متعلق مختلف خدشات ہیں۔ ہر شخص خوف وہراس کی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ ملک کے مستقبل کے متعلق بے یقینی کی کیفیت طاری ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب کیا ہو جائے؟ موجودہ حکومت جس مضبوطی کے ساتھ قائم ہوئی ہے اُسی مضبوطی کے ساتھ وہ اپنے عزائم کو بروئے کار لارہی ہے۔ متنازع طلاق ثلاثہ بل کو اصرار کے ساتھ منظور کرا لینا اور آئینی تقاضوں کو نظرانداز کر کے جموں وکشمیر سے دفعہ 370 ہٹا لینا، غیر جمہوری طریقے سے CAA کو لاگو کرنا اس کی واضح مثالیں ہیں۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے بدترین اثرات ہندستانی معیشت پر ظاہر ہونے لگے ہیں۔ اوپر سے موب لنچنگ اور کھلے عام غنڈہ گردی نے ماحول میں مزید دہشت پھیلا دی ہے۔ صوبائی حکومتوں کو پریشان کرنے اور انہیں غیرقانونی طور پر گرانے کی مذموم روایت مضبوط کی جارہی ہے۔ گاندھی، امبیڈکر، بھگت سنگھ اور آزاد جیسے عظیم قومی رہنماؤں کو اپنے حلقے میں دکھانے اور نہرو کی تحقیر وتخفیف کے ساتھ ساورکر اور گوڈسے جیسے لوگوں کو ہیرو بناکر پیش کرنے کا رویہ کل کے ہندستان کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ تاریخ کی نصابی کتابوں میں تبدیلیاں کی جارہی ہیں اور پورے ملک کو من مانی تاریخ پڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دلتوں اور پسماندہ طبقات کے ریزرویشن ختم کرنے کی منصوبہ بند کوشش ہورہی ہے۔ اقلیتوں کو دوسرے تیسرے درجے کا شہری بنانے کی پالیسی اختیار کی جارہی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آئین کو عملاً بے اثر کرنے اور اس کے لیے عدم اعتماد کی فضا بنائی جارہی ہے۔ تمام تر جمہوری ادارے عملاً غیر مؤثر ہو کر رہ گئے ہیں۔ کورونا سے پیدا شدہ حالات میں کئی جہات سے منظرنامے کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ان حالات کا سب سے خطرناک پہلو یہی ہے کہ ملک کا آئین خطرے میں ہے۔ آئین کی تمہید میں جو باتیں نہایت جامعیت کے ساتھ کہی گئی ہیں، ان کو بے اثر وبے معنی بنانے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ ایسے حالات میں ہر ذمے دار ہندستانی کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیسا ہندستان چھوڑ کر جا رہا ہے؟ اگر ان حالات میں منظم طور پر جامع حکمت عملی تیار نہیں کی گئی تو شاید آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
فراست ایمانی کی ضرورت
البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ تبدیلی دنیا یا ہندستان میں واقع ہونے والی پہلی تبدیلی نہیں ہے بلکہ انسانیت کے ہر دور میں مسلسل بڑے بڑے انقلابات رونما ہوتے رہے ہیں۔ یہ انقلابات سیاسی، سماجی، ثقافتی، اقتصادی اور معاشرتی، غرض یہ کہ تمام سطحوں پر واقع ہوئے ہیں۔ ان انقلابات کے درمیان اپنی جگہ کا تعین کرنا اور قائدانہ مقام حاصل کرنا ہی اصل کام ہے۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے مالٹا کی قید سے واپس آنے کے بعد ایک مرتبہ بڑی دردمندی کے ساتھ کہا تھا:
’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے۔ ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا۔ دوسرے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اسی کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم لفظاً ومعناً عام کیا جائے۔ بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب بستی بستی قائم کیے جائیں۔ بڑوں کو عوامی درس کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیم پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے اور مسلمانوں کے جنگ جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ یہ کلمات آج بھی ہمیں عظیم درس دے رہے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ حالات کی شدید خرابی کے باوجود ہماری حرکت وعمل سے ابھی تک تو ایسا محسوس نہیں ہوا کہ ہم ٹھوس بنیادوں پر حالات کی بہتر تبدیلی چاہتے ہیں۔ اب ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو حالات اس مرحلے تک پہنچ جائیں گے جس کے بعد حالات کو کنٹرول کرنا ناممکنات میں سے ہو جائے گا۔ ہم عزم وہمت اور جرأت سے بھری ہوئی تاریخ رکھتے ہیں۔ ہماری تاریخ ہمیں دبنا اور پیچھے ہٹنا نہیں سکھاتی۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں ہمارے بزرگوں نے کبھی پسپائی یا مایوسی اختیار نہیں کی بلکہ امت کو ہمیشہ عزم وحوصلے کا قابل تقلید درس دیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم لوگ باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔ لہٰذا آج ایک بار پھر ہمیں اپنی تاریخ کو دہرانا ہوگا۔ جذباتیت دشمن کو تقویت پہنچاتی ہے جب کہ فراست اسے کم زور کرتی ہے۔ لہٰذا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم فراست سے کام لیں، حالات کو سمجھیں، زمانے کی نبض ٹٹولیں اور وقتی جذباتیت سے بچتے ہوئے سنجیدہ بنیادوں پرملک کی ترقی، سلامتی اور ملت کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں۔
مایوس اور پریشان نوجوان
موجودہ حالات میں کرنے کا ایک بہت اہم کام یہ ہے کہ نئی نسل کو مایوسی اور پست حوصلگی سے نکال کر امید وحوصلے کے ساتھ جینے کے لیے تیار کیا جائے۔ یوں تو پورے ملک پر مایوسی کی کیفیت طاری ہے لیکن اس کیفیت کا سب سے زیادہ شکار ہمارے نوجوان ہیں۔ خاص کر مسلم نوجوان۔ ملک کی برباد ہوتی معیشت، ملازمتوں کے بحران، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ملک میں پھیلی ہوئی ہنگامہ خیزی نے انہیں اپنے مستقبل کے متعلق غیر یقینی حالت میں ڈال دیا ہے۔ اگر نوجوانوں کو اس کیفیت سے نہیں نکالا گیا تو ملک کا مستقبل نہایت تاریک ہو جائے گا۔
علم پر مبنی انقلاب
اسی طرح ہمیں یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ دنیا میں ہونے والی نتیجہ خیز تبدیلیاں ہمیشہ علم کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ وہ علم، جس کا مقصد انتشار اور ذاتی مفاد ہوتا ہے اس کی بنیاد پر آنے والی تبدیلی دنیا کو انتشار اور افراتفری دیتی ہے۔ اس کے برعکس وہ علم، جس کی بنیاد انسانوں کی بھلائی اور مفاد ہوتا ہے وہ ہمیشہ امن وآشتی اور سکون واطمینان کا باعث ہوتا ہے۔ اس علم کی روشنی میں کسی انسان کو حقیر نہیں سمجھا جاتا۔ امن وانصاف، عدل ومساوات اور خیرخواہی کے جذبات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ علم کی یہ اہمیت اور اس کی بنیاد پر رونما ہونے والے انقلابات کی حقیقت سمجھنا ہمارے لیے نہایت ضروری ہے۔ لہٰذا کرنے کا دوسرا اہم ترین کام یہ ہے کہ پورے ملک میں ایک تعلیمی تحریک برپا کی جائے۔ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے کہ آنے والے تیس برسوں کے بعد ملک کا کوئی شہری اور خاص کر کوئی مسلمان بے پڑھا لکھا نہ رہ جائے۔ وہ جو بھی تعلیم حاصل کرنا چاہے کرے، لیکن ہر حال میں تعلیم حاصل کرے۔ علم میں دین ودنیا کے فرق کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور بلاتفریق مسلک وفرقہ تمام تعلیمی وعلمی اداروں کا حتی الامکان تعاون کیا جائے۔
کرنے کے کام
موجودہ حالات کے تناظر میں یہ بھی نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سردست آئین، شہریوں کی آزادی، برابری، انصاف، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، جمہوریت اور سیکولر نظام حکومت کو بھی بچانے کے لیے مشترکہ ومتحدہ جدوجہد کی جائے۔ ان حالات اور بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ باہمی اتحاد اور آپسی مشورے کے ساتھ مختلف میدانوں میں سنجیدگی کے ساتھ قدم بڑھائے جائیں۔ ملک میں کہیں بھی کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جس کا تعلق مسلمانوں کی شناخت یا شعار سے ہو تو شریعت کی حفاظت، آئینِ ہند کے تحفظ اور انصاف پسندی کے جذبات کو فروغ دینے کے مقصد سے اِن واقعات پر سنجیدہ اور عملی انداز سے مشترکہ طور پر توجہ دی جائے۔ اس طور پر کہ تین سے پانچ افراد متعلقہ مقام پر پہنچ کر مسئلے کو سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کریں۔
اس کے لیے ضروری ہو گا کہ ایک طرف کلمۂ طیبہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی بنیاد پر اتحاد بین المسلمین کی راہ ہموار کی جائے تو دوسری طرف واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا کو بنیاد بنا کر قرآن کریم سے کسبِ نور کرنے اور زندگی کے تمام اہم گوشوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کی جانب قدم بڑھایا جائے۔ اس کے بعد سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہو گی کہ کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر کو سامنے رکھتے ہوئے تمام برادرانِ وطن کی خیرخواہی کا اہتمام کیا جائے اور ان کی فلاح وبہبود کی فکر کی جائے۔
غرض یہ کہ ہندوستان کے موجودہ حالات جس قدر قابل تشویش ہیں، وہ ہر شخص پر واضح ہے، ۱۸۵۷ء اور ۱۹۴۷ء کے بعد شاید ایسی صورت حال کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ ان حالات کے مقابلہ کے لیے ایک تو عارضی تدبیریں ہیں، جو سیاسی سطح پر یا عدالتی چارہ جوئی کے ذریعہ کی جارہی ہیں، اور ان کو جاری رہنا چاہیے لیکن طویل مدتی منصوبہ بندی بھی ضروری ہے جس کے ذریعہ مثبت، دور رس اور دیرپا تبدیلی آئے۔ یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام باشندگان ہند کے مفاد میں ہے اور ہم سب کی متحدہ اور مشترکہ جدوجہد ہی ایسے منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021