مہرولی کی چھ سو سالہ قدیم منہدم مسجد میں عید کی نماز کی اجازت دینے سے ہائی کورٹ کاانکار

نئی دہلی، 8 اپریل :۔

دہلی ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس منموہن کی قیادت والی بنچ نے مہرولی کی منہدم شدہ چھ سو سال پرانی آخوند جی مسجد میں رمضان اور عید کے موقع پر نماز پڑھنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ جب ایک رکنی بنچ نے ایک ماہ قبل کوئی راحت نہیں دی ہے تو ڈویژن بنچ فی الحال کوئی عبوری حکم جاری نہیں کر سکتی۔

درخواست مدرسہ بحر العلوم و قبرستان کی انتظامیہ کمیٹی نے دائر کی تھی۔ درخواست میں کہا گیا کہ رمضان کا مہینہ ختم ہورہا ہے، عید آنے والی ہے اس لیے نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ یہ عرضی ایک رکنی بنچ کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے دائر کی گئی تھی، جس میں جسٹس پشپیندر کوروو کی ایک رکنی بنچ نے شب برات کے موقع پر نماز پڑھنے اور قبرستان جانے کی بلا روک ٹوک اجازت دینے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔

عدالت نے کہا تھا کہ مسجد فی الحال دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے قبضے میں ہے اور اس معاملے سے متعلق اہم مقدمہ ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔ اس معاملے کی سماعت 7 مئی کو ہائی کورٹ میں ہونے والی ہے۔ ایسی صورتحال میں اس درخواست پر کوئی حکم جاری نہیں کیا جا سکتا۔

اس معاملے کی سماعت کے دوران، 2 فروری کو، عدالت نے ڈی ڈی اے سے پوچھا تھا کہ کیا اس نے مہرولی میں چھ سو سال پرانی آخوند جی مسجد کو منہدم کرنے سے پہلے کوئی قانونی نوٹس جاری کیا تھا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران ڈی ڈی اے کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل سنجے کٹیال نے کہا تھا کہ مذہبی کمیٹی نے 4 جنوری کو مسجد کو منہدم کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس سفارش کی بنیاد پر مسجد کو مسمار کر دیا گیا۔

کٹیال نے کہا تھا کہ 4 جنوری سے پہلے مذہبی کمیٹی نے دہلی وقف بورڈ کے سی ای او کو اس معاملے پر اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا تھا۔ اس پر شمس خواجہ نے کہا کہ مذہبی کمیٹی کو مسجد گرانے کا حکم دینے کا کوئی حق نہیں۔ تب عدالت نے ڈی ڈی اے سے کہا کہ وہ بتائیں کہ کیا مسجد کو گرانے سے پہلے کوئی جائز نوٹس جاری کیا گیا تھا یا نہیں۔