مہاراشٹر میں وقف جائیدادوں کی زبوں حالی

ناجائز قبضوں کا شکار وقف بورڈ غیر فعال اور غیر منظم، نئے اقدامات سے نئی امید

افروز عالم ساحل

آزادی کے بعد سے ہمارے ملک میں وقف پر نا جائز قبضوں کی لڑائیاں مسلسل چلی آرہی ہیں۔ لیکن مہاراشٹر کا معاملہ تھوڑا الگ ہے۔ یہاں لڑائی اس بات پر ہے کہ وقف جائیدادوں کا فائدہ مسلم سماج کو حاصل ہو۔ وقف بورڈ کی آمدنی مسلمانوں کے ویلفیئر کے لیے استعمال ہو۔ اسی مقصد کے تحت جماعت اسلامی ہند، حلقہ مہاراشٹر کے شعبہ اوقاف کی طرف سے ایک وفد نے گزشتہ 12 نومبر کو ممبئی میں ’شعبہ وقف و اقلیتی فلاح و بہبود‘ کے وزیر نواب ملک سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں ایک یادداشت پیش کی۔

اس وفد میں شامل فہیم فلاحی بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں نواب ملک صاحب کا رد عمل کافی مثبت رہا۔ وہ بھی اس بات سے متفق نظر آئے کہ وقف بورڈ کی آمدنی بڑھنی چاہیے۔ اوقاف کا صحیح استعمال بھی ہونا چاہیے۔ انہوں نے وقف بورڈ میں عملہ بڑھانے کی ضرورت پر بھی توجہ دلائی۔ فہیم فلاحی جماعت اسلامی ہند، مہاراشٹر کے شعبہ اوقاف کے سکریٹری ہیں۔

اس سوال پر کہ آپ نے جو یادداشت پیش کی اس میں اہم مطالبات کیا تھے؟ اس پر فہیم فلاحی نے کہا کہ اس یادداشت میں ہمارے تین اہم مطالبے ہیں۔ پہلا مطالبہ وقف بورڈ میں عملے کی تقرری ہے۔ وقف بورڈ میں عملہ صرف 30 تا 35 افراد پر ہی مشتمل ہے۔ جس وقف بورڈ کے پاس قریب 93 ہزار ایکڑ زمین موجود ہے وہ اتنے کم اسٹاف کے ساتھ کیسے صحیح طریقے سے کام کر پائے گی؟ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ ضرورت کے مطابق جلد از جلد وقف بورڈ میں شفافیت کے ساتھ نئے اہل لوگوں کی تقرری کی جائے۔ اس کے لیے باضابطہ ایک سیلیکشن کمیٹی ہو جس میں وقف بورڈ کے لوگ بالکل بھی نہ ہوں۔ سال 2011 میں ایک جی آر کے ذریعہ حکومت مہاراشٹر نے ’مہاراشٹر اسٹیٹ وقف بورڈ‘ کے لیے 106 کارکنوں کی تقرری کی اجازت دی تھی۔ اسی جی آر کے ذریعہ مہاراشٹر بھر میں وقف بورڈ کے پانچ علاقائی (Regional) دفاتر قائم کرنے کی تجویز بھی منظور ہوئی تھی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس جی آر پر آج تک عمل نہیں کیا گیا۔

فہیم فلاحی کے مطابق ان کا دوسرا مطالبہ ان وقف جائیدادوں کے ضمن میں ہے جن کا کوئی متولی نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’مہاراشٹر میں بہت سارے مقامات پر ایسی جائیدادیں ہیں جو وقف بورڈ کی زیرِ نگرانی ہیں لیکن ان کا کوئی متولی نہیں ہے۔ ایسے میں بڑے پیمانے پر ان جائیدادوں پر ناجائز قبضے ہو جاتے ہیں جو آج بھی ہو رہے ہیں۔ ہم نے مہاراشٹر کے چار اضلاع ناندیڑ، پربھنی، جالنہ اور اورنگ آباد میں ایسی جائیدادوں کی شناخت کی ہے جو ابھی خالی پڑی ہیں اور ان پر ناجائز قبضوں کے خدشات بڑھ گیے ہیں۔ ایسے میں یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وقف بورڈ ایسی جائیدادوں پر مکانوں کی تعمیر کرواکر مساجد کے ایسے ائمہ اور معلمین کو فراہم کروا دے جو بے گھر بھی ہیں اور جن کی آمدنی کے ذرائع بھی محدود ہیں۔ حکومت انہی وقف کی خالی پڑی زمینوں پر اندرا آواس یوجنا کی طرز پر گھر بنا کر کرایہ پر ان خادموں کو دے تاکہ یہ زمینیں بھی محفوظ رہیں اور اس سے وقف کی آمدنی بھی بڑھے۔

فہیم فلاحی کے مطابق ان کا تیسرا مطالبہ وقف بورڈ کی آمدنی کا حصہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے سے متعلق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس وقف بورڈ کے پاس اتنے وسائل اور زمینات ہیں وہ ملت پر بوجھ بنا ہوا ہے جبکہ اس کو خیر کا ذریعہ بننا چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وقف بورڈ کی آمدنی کا ایک حصہ مسلمانوں کی فلاح و بہودپر خرچ ہو۔ بیواؤں کو وظیفہ دیا جائے اور پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے۔ یعنی بورڈ کی آمدنی ملت کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو جو وقف کا اصل مقصد ہے۔ ہمارے بزرگوں نے قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ہی تو اپنی جائیدادیں وقف کی تھیں۔

جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کے شعبہ اوقاف نے اس سے قبل اقلیتی فلاح و بہبود کے وزیر نواب ملک کو ایک یادداشت ڈویژنل کمشنر کی معرفت سے بھیج کر وقف بورڈ کی خراب صورتحال سے واقف کروایا تھا۔ جماعت اسلامی ہند کے حلقہ مہاراشٹر نے مطالبہ کیا تھا کہ مہاراشٹر وقف بورڈ کو برخاست کرکے ایک ایڈمنسٹریٹو کمیٹی بنائی جائے جس میں وقف کے تجربہ کار، باصلاحیت اور صاف و شفاف کردار کے مالک ریٹائرڈ افسروں کو شامل کیا جائے جنہیں وقف جائیداد سے متعلق امور کی مکمل معلومات اور وقف کے تمام معاملات سے واقفیت ہو۔

اس یادداشت کے سلسلے میں پوچھنے پر فہیم فلاحی مزید بتاتے ہیں کہ یادداشت کا اصل مقصد مسائل کی آگاہی اور ان کے حل سے اربابِ اقتدارکو واقف کروانا تھا۔ کیونکہ مہاراشٹر وقف بورڈ کی گزشتہ دس سال کی کارکردگی صفر رہی ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے شعبہ اوقاف نے اپنی یادداشت میں یہ بھی واضح کیا تھا کہ سابق حکومت نے وقف بورڈ کے اراکین اور چیئرمین مقرر تو کیے لیکن وہ بورڈ وقف کے تحفظ اور اس کے مقاصد کی حصول یابی میں پوری طرح سے ناکام رہے، وقف بورڈ کی کارکردگی بالکل معطل ہو کر رہ گئی جس کے نتیجے میں ہزاروں مقدمے جس میں رجسٹریشن، چینج آف رپورٹ، اسکیم کے مسائل وغیرہ پانچ تا دس برسوں سے التوا کا شکار ہیں۔

مہاراشٹر کے شہریوں کو درپیش پریشانیوں کے سلسلے میں فہیم فلاحی بتاتے ہیں کہ گزشتہ پانچ تا چھ برسوں کے دوران عام لوگوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ رجسٹریشن کے مسائل مسلسل زیرِ التواٗ رہے۔ وقف کے کام کے سلسلے میں لوگ 12 سے 14 گھنٹوں کا سفر کرکے بورڈ کے دفتر پہنچتے، لیکن یہاں آنے کے بعد ان کو کوئی جواب نہیں ملتا کیونکہ یہاں انہیں کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔

کیا یہ حالت صرف گزشتہ حکومت میں تھی یا اب بھی برقرار ہے؟ ہفت روزہ دعوت کے اس سوال پر فہیم فلاحی کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے بعض اچھے اقدامات ضرور کیے ہیں۔ ابھی انہوں نے سی ای او اور ڈپٹی سی ای او کو بھی بحال کیا ہے حالانکہ وہ بھی عارضی بحالی ہی ہے۔ ان عہدیداروں سے کہا گیا ہے کہ گزشتہ سات آٹھ سالوں کا جو بھی کام زیر التوا ہے اسے ایک سال میں مکمل کر لیا جائے۔ ساتھ ہی وقف بورڈ کے مرکزی آفس کو اورنگ آباد سے ممبئی منتقل کرنے پر بھی گفتگو ہوئی ہے۔ یہ منتقلی اس لیے ضروری بتائی جا رہی ہے کیونکہ موجودہ دفتر میں کرپشن کے زیادہ امکانات تھے، صدر دفتر ممبئی منتقل ہوتا ہے تو عملے پر نظر رکھنا آسان ہوگا۔ واضح ہو کہ گزشتہ دنوں مہاراشٹر کے اقلیتی بہبود کے وزیر نواب ملک نے اعلان کیا تھا کہ مہاراشٹر وقف بورڈ کے ہیڈ کوارٹرکو اورنگ آباد سے ممبئی منتقل کیا جائے گا جبکہ اورنگ آباد آفس ایک علاقائی دفتر کی حیثیت سے قریب کے آٹھ اضلاع کے دائرہ اختیار کے ساتھ کام کرتا رہے گا۔

کیا ہے جماعت اسلامی ہند کا شعبہ اوقاف؟

فہیم فلاحی کے مطابق جو لوگ پہلے سے وقف امور سے واقف تھے ان کو ساتھ لے کر ریاستی سطح پر ایک ’اوقاف کوآرڈینیشن کمیٹی‘ بنائی گئی ہے۔ اس میں الگ الگ شعبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف اضلاع کے کل 25 افراد ہیں۔فہیم فلاحی کہتے ہیں کہ ہماری وقف جائیدادوں کے معاملے میں جو دھاندلیاں و بدعنوانیاں اب تک روا رکھی گئی ہیں وہ اب نہیں چل سکیں گی۔ ان پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ یہ کمیٹی خاص طور پر مساجد و دیگر وقف اداروں کی معلومات جمع کر رہی ہے۔ وقف جائیدادوں پر کیے گئے سرکاری و غیر سرکاری قبضہ جات کی معلومات بھی جمع کیے جا رہے ہیں اور کوشش یہ ہے کہ وقف بورڈ اوقاف کے اغراض و مقاصد کے تحفظ کے لیے متحرک و سرگرم رہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’’ہماری کوشش ہے کہ حکومت کی جانب سے شروع کیے جانے والے وقف سروے میں ہر ممکنہ مدد کی جائے تاکہ وقف جائیدادوں کا صحیح اندراج ہو سکے۔ ضرورت مند متولیوں اور ٹرسٹیوں کی قانونی رہنمائی و مدد کی جائے۔ حسب ضرورت ہم عدالتوں میں مقدمات اور آر ٹی آئی داخل کریں گے۔ کوشش یہ بھی کی جا رہی ہے کہ مقامی جماعتوں کو اوقافی امور پر توجہ دلائی جائے تاکہ وہ اپنے اطراف میں موجود مساجد و دیگر اوقافی اداروں کے رجسٹریشن کروانے میں ملت کی رہنمائی و مدد کریں۔

عوام بیدار، حکومت سرگرم

جیسے جیسے مہاراشٹر میں وقف کے بارے میں عوام میں بیداری بڑھ رہی ہے، حکومت اور وقف بورڈ بھی سرگرم نظر آنے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر وقف بورڈ کی جانب سے وقف املاک لیز رولز 2014 (ترمیم 2020) کے تحت کرایہ بڑھانے کا کام جاری ہے۔ ساتھ ہی اس کام کے لیے ریاست میں تمام وقف جائیدادوں کے کرایوں کو باقاعدہ بنانے کے لیے وقف ضلعی افسران کی بھرتی کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ ان کا بنیادی کام وقف بورڈ کے تحت آنے والے تمام ٹرسٹوں کے ٹرسٹیوں سے ملاقات کرنا، کرایہ پر دی گئی جائیدادوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرنا اور متعلقہ جائیداد سے حاصل ہونے والے کرایوں کو یقینی بنانا ہے۔ فروری میں کی گئی ایک ترمیم کے مطابق اوقافی جائیدادوں کی کھلے مارکیٹ میں جو قیمت ہوگی اس کا ڈھائی فی صد تک کرایہ وصول کرنے کا حق وقف بورڈ کو حاصل ہو گیا ہے۔

اس فیصلے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے جنوبی ممبئی کے بھولیشور میں 292 مربع میٹر پر مشتمل وقف بورڈ کی ایک جائیداد ہے جس کو انڈین آئیل کارپوریشن کو لیز پر دیا گیا ہے اور جس کا ماہانہ کرایہ محض ڈھائی ہزار روپے تھا، اسے بڑھا کر اب ڈھائی لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ضابطے کے مطابق اس کے کرایہ میں ہر سال 5 فیصد اضافہ ہوگا۔ نواب ملک کے مطابق اس سے ٹرسٹ کی آمدنی میں زبردست اضافہ ہوگا اور اس رقم کو مسلم بچوں کی تعلیم سمیت مختلف سماجی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ نیز اس طرح کے نظر ثانی شدہ لیز معاہدے کی منظوری کے لیے حکومتی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔

مراٹھواڑہ میں اوقاف کی سرگزشت

اس سے قبل مہاراشٹر میں اوقاف کو چیریٹی کمشنر کے تحت رکھا گیا تھا۔ مراٹھواڑہ کی وقف جائیدادیں، وقف بورڈ کے تحت آتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خطہ مراٹھواڑہ سابق میں ریاستِ حیدرآباد کا جزو تھا۔ 1955میں جب ریاست حیدرآباد میں ’وقف قانون 1954‘ کا اطلاق ہوا تو اسی ریاستی وقف بورڈ کے تحت ایک کمیٹی مراٹھواڑہ علاقے میں بھی قائم کی گئی۔ یہاں واضح رہے کہ وقف ایکٹ 1954کے نفاذ کے وقت علیحدہ مہاراشٹر ریاست کی تشکیل نہیں ہوئی تھی۔

یہ علاقائی کمیٹی فروری 1960تک قائم رہی اور مراٹھواڑہ وقف بورڈ 1960میں تشکیل پانے پر یہ علاقائی کمیٹی ختم ہوگئی۔ اب مراٹھواڑہ وقف بورڈ کی تشکیل کے ساتھ حکومت نے وقف جائیدادوں کی شناخت اور سروے کے لیے ایک اسسٹنٹ کمشنر (سروے) مقرر کر رکھا ہے، جس کے ماتحت ایک معقول عملہ دیا گیا ہے۔ اس مراٹھواڑہ وقف بورڈ کا ہیڈ کوارٹر اورنگ آباد میں تھا اور اس میں صرف آٹھ اضلاع نانڈیڑ، لاتور، جالنہ، بیڑ، عثمان آباد، پربھنی، ہِنگولی اور اورنگ آباد شامل تھے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں صرف مراٹھواڑہ کے ان اضلاع میں وقف املاک 58,143 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی تھیں۔

وقف جائیدادوں کا سروے سال 1960سے 1971 تک ہوتا رہا۔ لیکن وقف امور پر کام کرنے والے جانکاروں کا ماننا ہے کہ مراٹھواڑہ وقف بورڈ شروع سے ہی بے توجہی کا شکار رہا۔ حکومت کے اہلکاروں نے اوقاف کے ساتھ حکومت کے دیگر محکموں کی مانند برتاؤ کرنا ضروری سمجھا ہی نہیں۔ ’’مراٹھواڑہ وقف بورڈ‘‘ 2002تک کارکرد رہا۔ سال 2002میں اس کا دائرہ بڑھا کر ’’مہاراشٹر وقف بورڈ‘‘ تشکیل دیا گیا۔ اس کے پہلے چیئرمین ڈاکٹر ایم اے عزیز (مرحوم) بنے، جو سال 2006 تک اس عہدے پر رہے۔ اس سے پہلے ہی چیئرمین پر یہ الزام لگا کہ ان کے رہتے سال 2002سے 2006کے دوران مہاراشٹر میں وقف کی زیادہ تر جائیدادوں پر یا تو سیاستدانوں نے قبضہ کر لیا یا پھر چیریٹی کمشنر آفس اور بلڈر لابی کے ساتھ ملی بھگت سے جائیدادوں کو فروخت کر دیا گیا۔

مہاراشٹر کی ریاستی حکومت نے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے ریٹائرڈ جج اے ٹی اے کے شیخ کی سربراہی میں سن 2008 میں ایک اعلیٰ سطح کی انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے سال 2013میں سابق چیئرمین اور بورڈ کے ملازمین پر لگے زیادہ تر الزامات کو صحیح پایا۔ اپنی رپورٹ میں ان پر قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ کچھ ملازمین کے خلاف کارروائی ہوئی لیکن وقف بورڈ کے ارکان کو چھوڑ دیا گیا۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ مشاہدہ درج کیا تھا کہ ’’وقف ایک بہت بڑا وسیلہ ہے جو مسلم معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن بدعنوانی ان کو گھن کی طرح کھاتی جا رہی ہے۔ وقف بورڈ کے ارکان اور عملے کے ساتھ ملی بھگت کر کے ایک منظم طریقے سے ان وقف جائیدادوں پر قبضے کیے گیے، جن کی ان کو حفاظت کرنی تھی۔ جب تک ریاست اور مرکز اس طرح کے غیر قانونی کاموں پر توجہ نہیں دیں گے وقف کا غلط استعمال اور ان پر ناجائز قبضے ہوتے رہیں گے‘‘۔

جسٹس اے ٹی اے کے شیخ کی رپورٹ اور ان کی سفارشات کے باوجود مہاراشٹر وقف بورڈ نے اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر میں وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضوں کی ہر روز ایک نئی کہانی سننے کو ملتی رہی۔ ہماری ایک آر ٹی آئی کے اعداد و شمار سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ 20جولائی 2020تک 3268 ناجائز قبضوں کے معاملے مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ ان میں سے 321معاملے وقف ایکٹ 1995کی دفعہ 54 کے تحت، 1854معاملے وقف ٹریبونل، 930معاملے ہائی کورٹ، 55معاملے سپریم کورٹ اور 108دیگر عدالتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار خود راقم الحروف نے آر ٹی آئی کے تحت حاصل کیے ہیں۔

***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020