مہاراشٹر:نوزائیدہ بچیوں کے قتلکی دل دہلانے والی واردات
ہاسپٹل کے گوبر کے گڑھے میں انسانی کھوپڑیاں اور ہڈیاں ملنے سے سنسنی
ایم، آئی، شیخ۔لاتور
مفلسی اور مہنگی شادیاں ایسے قبیح فعل کی بنیادی وجہ ۔ یونیسکو کی رپورٹ
مہاراشٹر میں ایک بار پھر بارہ نو زائیدہ بچیوں کے قتل کی واردات کے انکشاف سے ہلچل مچ گئی ہے۔ ضلع وردھا ،اروی گاؤں کے کدم اسپتال میں یہ انتہائی گھناونا فعل سر انجام دیا گیا ہے ۔ پولیس نے گوبر اور گھاس کے گڈھے سے بارہ انسانی کھوپڑیاں اور 54ہڈیاںبرآمد کیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر ریکھا کدم، ڈاکٹر نیرج کدم، ڈاکٹر کمار سنگھ کدم اور شیلجا کدم کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ڈاکٹر نیرج کدم کو گرفتار کر لیا گیا ہے جو مقامی سرکاری ہسپتال میں گائناکالوجسٹ کے طور پر کام کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ڈاکٹر ریکھا کدم کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ باقی ڈاکٹرز مفرور بتائے جاتے ہیں۔
پولیس ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ یشونت سولنکی نے میڈیا کو یہ معلومات دیں۔ ان چار ڈاکٹروں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 409، میڈیکل کونسل ایکٹ کی 52 اور میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی ایکٹ 1971 کی 15، ایٹموسفیئر پریزرویشن ایکٹ 1986 اور ڈرگس ایکٹ 1940 کی دفعہ 27 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں دور دور سے لوگ اسقاط حمل کے لیے آتے ہیں۔ برآمد شدہ ہڈیوں کو فارینسک جانچ کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ 2018 سے اسپتال میں یہ گھناؤنا کام انجام دیا جا رہا تھا۔ اس کام میں مدد کرنے والی دو نرسوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔جن کے نام سنگیتا کاٹھے اور پونم دہت ہیں۔ اس سے قبل ضلع بیڑ کے پرلی میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا جس نے پوری ریاست میں خوف و ہراس پھیلا دیا تھا۔ تب سے حمل ساقط کرنے والی ادویات صرف سرکاری ہسپتالوں میں فراہم کی جا رہی تھیں۔ چونکہ ڈاکٹر نیرج کدم ایک سرکاری ڈاکٹر تھے، اس لیے پولیس کو شبہ ہے کہ انہوں نے اس گھناؤنے فعل کو انجام دینے کے لیے یہ ادویات تیار کی ہوں گی۔
2011 کی مردم شماری ہمیں بتاتی ہے کہ ہندوستان میں ہر ہزار مردوں کے مقابلے میں صرف 940 خواتین ہیں۔اسے انگریزی میں سیکس ریشو (جنسی تناسب) کہتے ہیں۔ جہاں تک ریاستوں کے حالات کا تعلق ہے تو کیرالا واحد ایسی ریاست ہے جہاں ہر ہزار مردوں کے مقابلے میں 1084 خواتین ہیں۔
باقی تمام ریاستوں میں عورتوں کی شرح مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔ جیسا کہ مہاراشٹر میں یہ 925، تامل ناڈو میں 996، پنجاب میں 995 اور دہلی میں 868 ہے۔ 0 سے 6 سال کی عمر کے ہر ہزار لڑکوں کے لیے لڑکیوں کا تناسب، جو کہ 1981 سے 2011 کے درمیان ریکارڈ کیا گیا تھا وہ بھی لڑکیوں کی تعداد مسلسل کم دکھاتا ہے۔
ہر سال لڑکیوں کا تناسب گھٹتا ہی گیا ہے۔ یہ 1981 میں 962، 1991 میں 945 تھی۔ 2001 میں 927، پھر 2011 میں یہ 919 تک گیا۔ اس تناسب میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ظاہر ہے رحم مادر میں لڑکیوں کا قتل ہے۔ تاہم مہاراشٹر حکومت نے اس معاملے میں بہت سخت کارروائی کی ہے۔ قانون کو بھی سخت کر دیا گیا ہے۔ کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ان سب کے باوجود مہاراشٹر میں چوری چھپے اسقاط حمل کا سلسلہ جاری ہے۔
حمل کو میڈیکل ٹرمینینس آف پریگننسی ایکٹ کے سیکشن 4 (1) (b/c) کے تحت "زندگی کا آغاز حمل کے 97 ویں دن سے پیدائش تک” کے طور پر کیا گیا ہے، لہذا، اس وقت کے دوران، حمل گرانا غیر قانونی ہے۔ .
یونیسیف کی ایک رپورٹ جو انٹرنیٹ پر دستیاب ہے بتاتی ہے کہ دنیا کے ان علاقوں میں جہاں لڑکوں کو لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، وہاں لڑکیوں کا حمل گرانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ویسے تو دنیا میں ہر 100 لڑکوں کے مقابلے 105 لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں۔
لیکن بھارت میں یہ تناسب ہر 100 لڑکوں کے لیے 93 ہے۔ بھارت میں گزشتہ کئی سالوں سے تقریباً 5 کروڑ لڑکیاں اور خواتین لاپتہ ہیں، جن کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔
یہ تو ہوئی صورت حال اور پولیس کی کارروائی کی روداد۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس میں معاشرے کی ذمہ داری کیا ہے؟ کیونکہ جب تک معاشرہ اس میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرے گا یہ ذلت آمیز اور مکروہ کھیل جاری رہے گا۔
بر صغیر ہندوپاک میں بالخصوص یہ گھناؤنا عمل دو وجوہات کی بنا پر انجام دیا جاتا ہے۔ ایک مفلسی، دوسری وجہ مہنگی شادیاں ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’اپنی اولاد کو افلاس کے خوف سے قتل نہ کرو‘‘۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ اس آیت کے ذیل میں مولانا مودودی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’ یہ آیت معاشی بنیادوں کو قطعی منہدم کر دیتی ہے جس پر قدیم زمانے سے آج تک مختلف ادوار میں ضبط ولادت کی آوازاٹھتی رہی ہے۔ افلاس کا خوف قدیم زمانے میں قتل اطفال اور اسقاط حمل کا محرک ہوا کرتا تھا۔ اور آج وہ ایک دوسری تدبیر یعنی مانع حمل کی طرف دنیا کو دھکیل رہا ہے۔ لیکن منشور اسلامی کی یہ دفعہ انسان کو ہدایت دیتی ہے کہ وہ کھانے والوں کو گھٹانے کی تخریبی کوشش چھوڑ کر ان کی تعمیری مساعی میں اپنی قوتوں کو صرف کریں جن سے اللہ کے بنائے ہوئے قانون فطرت کے مطابق رزق میں افزائش ہوا کرتی ہے۔ اس دفعہ کی رو سے یہ بات انسان کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے کہ وہ بار بار معاشی ذرائع کے تنگی کے اندیشے سے افزائش نسل کا سلسلہ روک دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ یہ انسان کو متنبہ کرتی ہے کہ رزق رسانی کا انتظام تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ بلکہ اس خدا کے ہاتھ میں ہے جس نے تمہیں زمین میں بسایا ہے۔ جس طرح وہ پہلے آنے والوں کو روزی دیتا رہا ہے، بعد کے آنے والوں کو بھی دےگا۔ تاریخ کا تجزیہ بھی یہی بتاتا ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں کھانے والی آبادی جتنی بڑھتی گئی ہے اتنا ہی بلکہ اس سے کہیں زیادہ معاشی ذرائع بھی ویسے ہی بڑھتے چلے گئے ہیں۔
لہذا خدا کے تخلیقی انتظام میں انسان کی بے جا دخل اندازیاں حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ نزول قرآن کے دور سے لیکر آج تک کسی دور میں بھی مسلمانوں کے اندر نسل کشی کا کوئی عام میلان پیدا نہیں ہو پایا‘‘
مسلمانوں کے درمیان شادیوں کو سادہ بنانے کی تلقین بارہا کی جاتی ہے۔ آل اندیا مسلم پرسنل لا بورڈ کئی برسوں سے اصلاح معاشرہ کی مہم کے طور پر آسان نکاح کی مہم کر کے سماج میں بیداری کا کام کر رہا ہے۔ لیکن افسوس کہ شادیوں میں فضول خرچی سے بچنے کے بجائے مسلمانوں میں شادیوں میں بے تحاشا اسراف کرنے کا رواج روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں میں شادیاں مہنگی اور پیچیدہ ہو گئی ہیں۔ ہمیں اس جانب مکمل توجہ دینے کی ضرورت ہے ،ورنہ لڑکیوں کے حمل ساقط کرنے کی وبا ہمارے بیچ بھی پھوٹ سکتی ہے۔ اللہ امت مسلمانوں کو اس آزمائش میں نہ ڈالے۔
(کالم نگار ریٹائرڈ پولیس انسپکٹر ہیں)
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 فروری تا 26فروری 2022