مولانا نورعالم خلیل امینی:عظیم مفکر …باکمال ادیب

مولانا سیداحمد ومیض ندویؔ
استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد

 

اس وقت پوری دنیا کورونا کی لپیٹ میں ہے بالخصوص اس وبا نے وطن عزیز کو مکمل طور پر اپنے شکنجہ میں کس لیا ہے ۔ دوسری لہر پہلی لہر سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ پہلی لہر کی طرح دوسری لہر بھی عوام الناس کے ساتھ اہل علم کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ملک میں درجنوں علماء دنیا سے کوچ کر گئے۔ 3؍ مئی 2021ء کی تاریخ اس سلسلے کی ایک اندوہناک خبر لے کر آئی۔ ہند وپاک کے نامور عالم دین، عربی زبان کے مایہ ناز ادیب، بے مثال مفکر، اتالیق زماں، عظیم مصنف، استاذ الاساتذہ ، تاریخ ہند کا ایک عظیم سپوت اور نصف صدی تک اپنی تحریروں کے ذریعہ عالم عرب کو جھنجھوڑنے والا بے مثال قلم کار، ہزاروں شاگردوں اور سیکڑوں عقیدت مندوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔مولانا نور عالم خلیل امینی کا سانحہ صرف دارالعلوم دیوبند ہی کا نہیں بلکہ علم وادب کا خسارہ ہے۔ یہ پوری ملت اسلامیہ کا سانحہ ہے۔ اتنا ہی نہیں مولانا کی رحلت عالم عربی کا بھی خسارہ ہے کیوں کہ ان کی وفات سے عالم عرب ایک منفرد اور باکمال ادیب سے محروم ہو گیا۔مولانا کی ذات ان گنت کمالات کا حسین مرقع تھی، اس میں فکر وشعور کے جلوے بھی تھے اور زبان وادب کی ضو فشانیاں بھی، فن وادب کی رعنائیاں بھی تھیں اور شستگی وشائستگی کی لطافتیں بھی، اکابر واسلاف سے گہری عقیدت بھی تھی اور عشق رسولﷺ کی آتش فروزاں بھی۔ وہ اپنے تلامذہ کو صرف علم سے ہی آشنا نہیں کرتے تھے بلکہ انہیں حسن اخلاق، سلیقہ مندی اور شائستگی کا خوگر بناتے تھے۔ جو طالب علم خود کو ان کے حوالہ کر دیتا وہ کندن بن کر نکلتا تھا۔ طبیعت میں ایسی سحرکاری اور جولانی تھی کہ طلبہ ان کے گرویدہ ہو جاتے تھے۔
سوانحی خاکہ
مولانا نور عالم خلیل امینی کی ولادت 18؍ ڈسمبر 1952ء کو اپنے ننہیال ہرپور بیشی ضلع مظفر پور بہار میں ہوئی۔ ولادت کو تین ماہ کا عرصہ ہوا تھا کہ والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والد بزرگوار کی وفات کے بعد اپنی دادی مقیمہ خاتون کی کفالت میں آئے۔ آپ نے قاعدہ بغدادی کا آغاز اپنے نانا جان کے یہاں کیا۔ اس کے بعد مکتب کی تعلیم رائے پور میں مولوی ابراہیم سے حاصل کی۔ جون؍ 1960ء میں مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں داخلہ لیا۔ سات پارے حفظ قرآن کے بعد اسی ادارے کے درجہ ششم اردو میں داخل ہوئے ۔1964ء میں دارالعلوم مئو کے شعبۂ عالمیت کے درجہ اول عربی میں داخلہ لیا۔ 20؍ڈسمبر 1967ء میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لے کر اپنی علمی تشنگی کو دور کیا۔ مدرسہ امینیہ دہلی سے آپ نے سند فراغت حاصل کی۔
تدریسی خدمات
مولانا امینیؒ نے اپنی عملی زندگی کا بیشتر حصہ تدریسی خدمات میں صرف کیا۔ آپ کا تدریسی زمانہ قریب نصف صدی کو محیط ہے۔ آپ نے ہندوستان کے دو عظیم علمی مراکز میں خدمات انجام دیں۔ پہلے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں دس سال (1972ء تا 1982ء) تک مدرس رہے۔ پھر دارالعلوم دیوبند میں 1982ء سے تادم آخریں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ اس طویل عرصہ میں ہزاروں طلبہ نے آپ سے اکتساب فیض کیا۔ آپ کے تلامذہ ہندو بیروان ہند کے مختلف اداروں میں عظیم خدمات انجام دے رہے ہیں۔
تصانیف
مولانا امینیؒ کا اصل میدان تصنیف وتالیف تھا۔ آپ ایک کہنہ مشق اور باکمال مصنف تھے۔ تصنیفی سرگرمی آپ کے لیے غذا کا درجہ رکھتی تھی۔ طیبعت میں یکسوئی تھی۔ انتہائی کم آمیز واقع ہوئے تھے۔ بیشتر اوقات گوشۂ تنہائی میں تصنیف وتالیف میں مصروف رہتے تھے۔ ویسے گروہ علماء میں اہل تصنیف کی کمی نہیں ہے لیکن ایسے مصنفین خال خال ہی نظر آتے ہیں، جن کے اسلوب میں ادبی چاشنی کے ساتھ فکر کی گہرائی ہو اور جن کی تحریر تاثیر واثر انگیزی میں ’’ازدل خیزد بردل ریزد‘‘ کی مصداق ہو اور جو قلم کو خون جگر میں ڈبو کر صفحۂ قرطاس کو زینت بخشتا ہو۔ مولانا امینیؒ کا امتیاز یہ تھا کہ وہ بیک وقت اردو وعربی دونوں زبانوں کے ادیب باکمال تھے۔ ان کی اسلوبی خصوصیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ ایک صاحب طرز ادیب تھے۔ جس طرح مولانا دریابادیؒ اور شبلی نعمانیؒ جیسی شخصیات کا اپنا اسلوب تھا اسی طرح مولانا امینی کا بھی اپنا دل کش ودل نشین اسلوب تھا۔ اسی طرح مولانا نے
اردو سے عربی تراجم بھی کیے۔ ترجمہ نگاری ایک نازک فن ہے۔ ترجمہ نگار کو دونوں زبانوں میں کامل عبور ہونا ضروری ہے۔ مولانا امینیؒ کو فن ترجمہ نگاری میں بھی دست گاہ حاصل تھی۔ انہوں نے متعدد کتابوں کو عربی زبان میں نہایت سلیقہ مندی کے ساتھ منتقل کیا ہے، مولانا کی تصانیف کی قدر وقیمت کا اندازہ کا اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کی کتاب فلسطین فی انتظار صلاح الدین پر ابوالکلام نامی ایک اسکالر نے آسام یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔
صحافتی خدمات
مولانا نور عالم امینیؒ عام مؤلفین کی طرح محض ایک مصنف ہی نہ تھے بلکہ وہ عربی واردو کے ایسے باکمال صحافی بھی تھے کہ جن کی صحافت ادبی چاشنی سے بھر پور ہوتی تھی۔ مولانا نے عالم اسلام پر گہری نظر رکھنے والے ایک عظیم صحافی ومفکر کی حیثیت سے حالات کا بے لاگ تجزیہ کیا۔ مولانا کے ہر مضمون میں عالم اسلام کے تئیں فکر مندی اور اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کی امنگ کا اظہار نظر آتا ہے۔ وہ عالم اسلام کے خلاف ہونے والی صلیبی وصہیونی سازشوں کا نہ صرف گہرا ادراک رکھتے تھے بلکہ اس صورت حال پر نہایت متفکر بھی رہتے تھے۔ ویسے ملک میں روایتی صحافیوں کی کمی نہیں ہے لیکن مولانا امینی دل درد مند اور زبان ہوش مند کے حامل ایک ایسے صحافی تھے جن کا دل اسلام اور مسلمانوں کے لیے دھڑکتا رہتا تھا۔
ماہنامہ الداعی
مولانا کی صحافتی خدمات کا ایک روشن باب دارالعلوم دیوبند کاعربی ترجمان ماہنامہ ’’الداعی‘‘ تھا۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں دس سالہ خدمات انجام دینے کے بعد دارالعلوم دیوبند میں استاذ عربی ادب کی حیثیت سے آپ کا تقرر عمل میں آیا۔ ارباب دارالعلوم نے الداعی کی ادارت بھی آپ کے حوالہ کر دی۔ الداعی ابتداء میں پندرہ روزہ تھا جس کا پہلا شمارہ ممتاز عالم دین اور عربی کے نامور ادیب مولانا بدرالحسن قاسمی کی ادارت میں نکلا۔ مولانا امینی کی ادارت میں اکٹوبر 1982ء تا جولائی 1993ء پندرہ روزہ نکلتا رہا۔ پھر مولانا امینی نے اسے ماہنامہ کی شکل دے دی۔مولانا امینی کی بے پناہ صلاحیتوں اور ان کی شبانہ روز کاوشوں سے یہ مجلہ تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کرتا گیا تاآنکہ اس کا شمار ہندوستان کے صف اول کے ممتاز عربی مجلات میں ہونے لگا اور عالم عرب میں بھی اس کے معیار کو سراہا جانے لگا۔
سوانح نگاری
سوانح نگاری ادب کی ایک اہم صنف ہے جس کے اپنے شرائط والتزامات ہیں، ہر کوئی اس میدان کا شہ سوار نہیں ہو سکتا۔ سوانح نگاری میں اسلوب کے ساتھ صاحب سوانح کے حالات کو پوری تحقیق واحتیاط کے ساتھ قلم بند کرنا ہوتا ہے۔ غلو ومبالغہ اور افراط وتفریط سے اجتناب ضروری ہوتا ہے۔ مولانا امینی عظیم سوانح نگار تھے۔ دونوں زبانوں میں انہوں نے سوانح نگاری کا حق ادا کر دیا۔ امینی صاحب نے اپنے ہر دل عزیز استاذ مولانا وحیدالزمان کیرانویؒ کی سوانح لکھی جس میں انہوں نے نہایت البیلا اور اچھوتا اسلوب اختیار کیا۔ جب ان کی کتاب ’’وہ کوہ کن کی بات‘‘ منظر عام پر آئی تو علمی اور ادبی حلقوں میں اس کا خوب چرچا ہوا۔ سوانح پر ان کی دوسری کتابیں بھی کافی مقبول ہوئیں۔
تدریس کی انفرادیت
منفرد تدریسی صلاحیت مولانا امینی کی امتیازی شان کہی جا سکتی ہے۔ وہ روایتی مدرسی نظام کے برخلاف عربی زبان کو اس کے اصل مزاج ونہاد کے مطابق بولنے، پڑھنے اور لکھنے کی تاکید کرتے تھے اور اگر کسی نے بگڑے ہوئے لہجہ میں یا ہندوستانی آمیز لہجہ میں عبارت پڑھ دی تو کئی منٹ تک وہ مولانا کے عتاب شدید سے دو چار رہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں مولانا کے اسباق کی شگفتگی افادیت کی فراوانی مولانا کی استاذانہ فیاضی، ان کا دل نشین طرز تدریس وعطا ہر طالب علم کو ان کی کلاس تک کشاں کشاں لے جاتا۔ مولانا عربی زبان کی تدریس کے حوالہ سے درجہ اجتہاد پر فائز تھے۔ انہوں نے پیش پا افتادہ طریق تدریس کے برخلاف اپنے طلبہ کو زبان سیکھنے کی نئی راہیں سمجھائیں اور نئے اسالیب تفہیم سے روشناس کروایا۔ وہ کتاب پڑھانے سے زیادہ توجہ فن کو پڑھانے اور سکھانے پر دیتے تھے۔‘‘
وقت کی قدر شناسی
مولانا کی شخصی زندگی کا یہ ایک ایسا امتیاز تھا جو آپ کے ملنے والوں پر بخوبی واضح تھا۔ مولانا نے زندگی کے ایک ایک لمحہ کو خوب استعمال کیا۔ گپ شپ اور محفل آرائی سے کوسوں دور تھے، ان کے مزاج میں کم آمیزی کا عنصر غالب تھا۔ وہ بھیڑ بھاڑ اور جلسے جلوس سے کتراتے تھے۔ شاید وقت کی اسی قدر شناسی کا اثر تھا کہ ان کے اوقات میں اللہ نے بڑی برکت رکھی تھی۔ وہ درسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کے لیے کافی وقت نکال لیا کرتے تھے تب ہی تو انہوں نے اہل علم کے لیے اپنی قیمتی کتابوں کی شکل میں گراں قدر سرمایہ چھوڑا۔ اصول پسندی، نظم وضبط اور اوقات کی رعایت میں وہ حضرت تھانویؒ کو اپنا آئیڈل تصور کرتے تھے۔
مسئلہ فلسطین سے دلچسپی
مولانا امینیؒ بحیثیت ایک عالم، مفکر اور ادیب مسئلہ فلسطین کے حوالہ سے اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح محسوس کرتے تھے۔ ماہنامہ الداعی کے اداریوں کا جائزہ لیا جائے تو شاید ایک تہائی سے زائد اداریے بیت المقد س اور مسئلہ فلسطین سے متعلق ملیں گے۔ فلسطین کے خلاف ہونے والی صلیبی اور صہیونی سازشوں پر انہوں نے اس کثرت سے لکھا کہ سیکڑوں صفحات پر مشتمل کتاب وجود میں آئی ہے جو ’’فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظار میں‘‘ کے نام سے اہل علم واصحاب نظر کے درمیان معروف ہے۔ جب یہ کتاب زیور طباعت سے آراستہ ہوئی تو اس کا ایک نسخہ مولانا نے عاجز کے نام بھیجا۔ عاجز نے تعمیل حکم میں کتاب پر تبصرہ لکھ کر روزنامہ منصف میں شائع کروایا جسے مولانا امینی نے بے حد پسند فرمایا۔
آخری بات
مولانا امینی اپنی حیات مستعار کے لمحات گزار کر اپنے مالک حقیقی کے حضور پہنچ گئے لیکن ان کا چھوڑا ہوا علمی سرمایہ ان کے نام کو زندہ جاوید رکھے گا، نسلیں اس سے استفادہ کریں گی۔ یہ بات بلاکسی تردد کہی جا سکتی ہے کہ ہند وپاک میں مفکر اسلام مولانا علی میاں ندویؒ کے بعد اگر کسی نے عربی زبان میں سب سے زیادہ لکھا ہے تو شاید وہ مولانا امینی ہیں۔ مولانا امینی زود نویس بھی تھے اور خوب نویس بھی۔ زود نویسی کے ساتھ خوب نویسی بالعموم جمع نہیں ہوتی لیکن مولانا امینی میں یہ دونوں باتیں ایک ساتھ جمع تھیں۔ عربی زبان کے حوالہ سے ان کی گراں قدر خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت ہند نے انہیں صدر جمہوریہ ایوارڈ سے نوازا۔ مولانا امینی کے انتقال پر ملک کے مشاہیر نے اپنے غیر معمولی تأثرات کا اظہار کیا اور خراج پیش کیا لیکن ان کے لیے سب سے بڑا خراج تحسین یہ ہے کہ ان کے مشن کو آگے بڑھایا جائے۔ ان کی جو کتابیں غیر مطبوعہ ہیں انہیں منظر عام پر لایا جائے اور مناسب ہوگا کہ ایک اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا جائے جس کے تحت عربی زبان وادب کی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 29 مئی تا 05 جون 2021