ڈاکٹر سید معراج الدین احمد صدر جامعۃ البنات حیدرآباد کی اطلاع کے بموجب مولانا نصیر الدین ؒ کے حق میں زوم ایپ کے ذریعہ تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے حافظ رفیق احمد صاحب ماہر تعلیم و رکن عاملہ جامعہ نے کہا کہ مولانا سادگی اور خلوص کا پیکر تھے۔ وہ پیشہ سے میکانک تھے لیکن درحقیقت ملت کے روحانی اور نفسیاتی امراض کے میکانک تھے ۔ وہ ہر ملی و ملکی مسئلہ پر متحرک ہوجاتے اور بڑے بڑے مسائل کو بہ آسانی حل کرتے۔ انہیں قرآن سے غیر معمولی شغف تھا اور تقریباً 40سال تک رمضان المبارک میں بعد نماز تراویح ایک پارہ کی تشریح پیش کرتے۔ انہوں نے امیر جماعت اسلامی ہند سکندرآباد کی حیثیت سے بھی کارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔ مولانا عمر احمد صاحب نے کہا کہ مولانا بے کار گفتگو سے پرہیز کرتے تھے حتیٰ کہ شادی بیاہ کی تقریب میں کچھ وقت مل جاتا تو وہاں بھی دینی و ملی موضوعات ہی پر تبادلہ خیال کرتے۔ مولانا نے کہا کہ حدیث کے مطابق سب سے زیادہ آزمائش انبیاء پر پھر صالحین پر آتی ہیں اور مولانا نصیر الدین کی پوری زندگی آزمائش میں گزری جو ان کے صالح ہونے کی علامت ہے۔ دبئی سے جناب عبدالعزیز نے کہا کہ مولانا مسلکی و جماعتی تعصب سے بالاتر تھے۔ مولانا مرحوم کی دختر محترمہ آنسہ سمیہ نے جو جامعہ کی صدر معلمہ بھی ہیں بادیدہ نم خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے زندگی کے مختلف مراحل پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا مختلف قراء کرام کی تلاوت بڑے انہماک سے سنتے‘ گھر میں قرآن مجید کے ترجمہ و تفسیر کا مستقل اہتمام کرتے۔ آخر وقت میں تلاوت کی سماعت کی‘ ذکر و اذکار میں مشغول رہے‘ بے شمار مرحومین کو یاد کرکے اور پھر تمام امت کے حق میں پھر اپنے حق میں دعائے مغفرت کی۔ اس طرح سفر جاوداں کا آغاز کیا۔ محترمہ آنسہ نے کہا کہ عام طور پر دینی‘ سیاسی‘ سماجی مصروفیات کی حامل شخصیتوں کے گھروں میں رعب ہوتا اور وہ گھر کی تربیت سے غافل ہوتے ہیں لیکن مولانا محترم گھر کے ہر فرد کے لیے دوست کی طرح تھے۔ ان کی بھرپور اسلامی تربیت پر توجہ دیتے رہے۔ وہ تنگ نظر نہیں وسیع النظر تھے۔ انہوں نے مولانا کے چھوٹے فرزند رضی الدین ناصر کی جیل سے رہائی کے لیے دعاوں کی بھی سبھی سے درخواست کی۔مولانا عبدالفتاح عادل سبیلی مدرس جامعہ نے کہا کہ مولانا نصیر الدینؒ کو یاد کرتے ہی تقویٰ و طہارت‘ سچائی و دیانت‘ صبر و تحمل اور امت کی فکر کا خاکہ نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔مفتی حبیب الرحمن صاحب کی دعاء پر تعزیتی نشست اختتام کو پہنچی۔
یہ بھی پڑھیں