مولانا محمد یوسف اصلاحی کی قرآنی خدمات

نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے جہد مسلسل

ابوفہد، نئی دلی

 

ہندوستان میں مدرسۃ الاصلاح کو قرآنی خدمات کے حوالے سے امتیازی شان حاصل ہے۔ فکر فراہی سے وابستہ خادمانِ قرآن کی پوری ایک کہکشاں ہے جس کی نورانی کرنوں سے پوری بیسویں صدی منور ہوئی ہے۔ اس کہکشاں میں ایک بڑی شخصیت مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم کی ہے۔
مولانا اختر احسن اصلاحی کے تعلق سے مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کا کہنا تھا کہ وہ یوں تو ان کے ہم درس تھے مگر قرآنی علوم وفنون پر ان کی گہر نظر ہونے کے باعث وہ ان کے لیے استاد جیسا مقام رکھتے تھے۔ مولانا اختر احسن اصلاحی علامہ حمید الدین فراہی کے شاگردوں میں سب سے زیادہ ذہین اور با صلاحیت طالب علم تھے جنہیں علامہ سید سلیمان ندوی نے بجا طور پر اپنے دور کا ابن تیمیہ قرار دیا ہے۔
اصلاحی علماء کی اسی روشن کہکشاں میں ایک اہم نام مولانا محمد یوسف اصلاحی کا بھی ہے۔ مولانا محمد یوسف اصلاحی نے کم وبیش تین سال کی طویل مدت تک مولانا اختر احسن اصلاحی کی خدمت میں رہ کر تفسیر قرآن کے اسرار ورموز سیکھے ہیں اور اس طرح وہ فراہی مکتبہ فکر سے بالواسطہ طور پر منسلک ہوگئے ہیں۔مولانا نے 9 جولائی 1932 کو اس عالم نا پائیدار میں آنکھیں کھولیں۔ ابتدائی تعلیم اور حفظ وتجوید کے بعد بریلی اسلامیہ انٹر کالج سے ہائی اسکول پاس کیا پھر اپنے والد ماجد شیخ الحدیث مولانا عبدالقدیم خانؒ کی خواہش کے مطابق مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور میں داخل کیے گئے جہاں سال دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ آگئے جہاں مولانا اختر احسن اصلاحی کی زیر تربیت رہے اور امتیازی نمبروں سے سند فضیلت حاصل کی۔
مدرسۃ الاصلاح سے فراغت کے ساتھ ہی جماعت اسلامی ہند کے رکن بن گئے، اس وقت ان کی عمر 25 برس کی رہی ہوگی اور اسی وقت سے دعوت وتبلیغ، تصنیف وتالیف اور تعلیم وتربیت کے میدان سے ہمیشہ کے لیے وابستہ ہوگئے۔ مولانا نے اپنی اسی علمی وابستگی کے باعث 1972 میں اردو زبان میں شہر رام پور، یو پی سے ماہنامہ ’’ذکریٰ‘‘ کا اجرا کیا جو اِدھر ایک دہائی سے بھی زائد عرصے سے ’’ماہنامہ ذکریٰ جدید‘‘ کے نام سے انہی کی ادارت میں نئی دہلی سے پابندی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ آپ کی نگرانی میں کئی فلاحی اور تعلیمی ادارے بھی چل رہے ہیں جن میں ایک عالم اسلام کا معروف ومقبول ادارہ ’جامعۃ الصالحات ‘بھی ہے جو تقریباً نصف صدی سے مسلمان بچیوں اور عورتوں کی دینی وعلمی رہنمائی اور تربیت کے میدان میں بڑا کام کر رہا ہے۔
مولانا نے لکھنے لکھانے کا مشغلہ اپنی چھوٹی سی عمر ہی سے شروع کر دیا تھا۔ جب وہ اپنی سب سے معروف و مقبول تصنیف ’آداب زندگی‘ لکھ رہے تھے اس وقت شاید انہیں اندازہ بھی نہیں رہا ہوگا کہ وہ اپنی پہلی ہی تصنیف سے اس قدر شہرت و پہچان حاصل کرلیں گے، اس وقت ان کی عمر بیس بائیس برس رہی ہو گی۔ یہ کتاب اگرچہ عمر کے اس حصے میں لکھی گئی تھی جو لکھنے پڑھنے کی عمر ہوتی ہے مگر اس کتاب نے کامیابی کے کئی ریکارڈ بنائے اور تصنیف وتالیف کے میدان میں اپنی خاص پہچان اور جگہ بنائی، جو آج تک بھی قائم اور باقی ہے۔ مولانا کا بنیادی موضوع قرآن کریم ہے۔ قرآنی موضوعات پر آپ کی کئی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں جن میں ایک اہم اور ضخیم کتاب ’قرآنی تعلیمات‘ ہے۔
مولانا محترم کی گراں قدر تصنیف ’’قرآنی تعلیمات‘‘ پر تبصرہ ان شاء اللہ اس مضمون کے آخر میں کیا جائے گا۔ اس سے قبل تذکیرالقرآن پر مولانا کی تین مستقل تصنیفات ’’تفسیر سورۂ یٰسین ‘، ’’تفسیر سورۃ الصف‘‘ اور ’’درس قرآن‘‘ نیز مزید ایک دو مختصر رسائل کا تذکرہ کرتے چلیں۔ مولانا نے ماہنامہ ذکریٰ میں اس کی اشاعت کی ابتدا ہی سے جو تفسیری سلسلہ شروع کیا تھا جب اس کو عوام وخواص میں بہت پسند کیا گیا حتیٰ کہ بعض مستقل سورتوں کی تفاسیر کو الگ سے کتابی شکل میں شائع کرنے کے مطالبات زور پکڑنے لگے تو مولانا نے متعلقہ سورتوں کا از سر نو مطالعہ کیا اور ذکریٰ میں اس حوالے سے جو کچھ بھی سلسلہ واولر سپرد قلم کیا تھا اس کا از سر نوجائزہ لیا۔ اس جائزے کے بعد مولانا نے دوچند اضافے کیے، ان سے ان کتابوں نے مستقل تصنیفات کی شکل اختیار کرلی۔
تفسیر سورۂ یٰسٓ:
مولانا کی کتاب تفسیر سورہ یٰسٓ درمیانی سائز کے دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، مصنف کے مختصر سے پیش لفظ کے بعد پہلے مکمل سورہ یٰسٓ مع ترجمہ دی گئی ہے۔ اس کے بعد آیت در آیت ترجمہ وتفسیر ہے۔ تفسیر ی نکات پر ذیلی عناویں لگائے گئے ہیں جو تعداد میں سو سے زائد ہیں۔
تفسیر سورۃ الصف:
اس کتاب کے مضامین بھی ابتداً ماہنامہ ذکریٰ میں سلسلہ وار شائع ہوئے تھے جو بہت ہی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھے گئے تھے پھر احباب کے مشورے سے ان مضامین کو یکجا کرکے ان پر نظر ثانی کی گئی اور بیش قیمت اضافے کیے گئے اور پھر ان مجموعہ مضامین کو الگ سے کتاب کی صورت میں پیش کیا گیا۔ اس کتاب میں بھی تفسیر سورہ یٰسٓ والا طریقہ اپنا یاگیا۔
درس قرآن:
ماہنامہ ذکریٰ میں ’تذکیر القرآن‘ والے کالم کے تحت بعض اوقات منتخب آیات کی ترجمانی اور تشریح و توضیح بھی پیش کی جاتی رہی تھی جسے ذکریٰ کے با ذوق قارئین کی طرف سے خاصی پذیرائی ملتی تھی۔ اسی پذیرائی اور افادہ عام کی غرض سے ان منتخب آیتوں کی تشریح وترجمانی کو کتابی شکل میں شائع کیا گیا تاکہ قرآن سے شغف رکھنے والے حسب توفیق استفادہ کر سکیں۔ ان مستقل تصنیفات کے علاوہ بعض مختصر رسائل بھی ہیں جو اس طرح ہیں:1۔ مطالعہ قرآن کیوں اور کس طرح؟ 2۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھیے 3- قرآن کیوں پڑھیں اور کیسے پڑھیں؟
مولانا کا اسلوبِ تحریر:
آگے بڑھنے سےقبل بہتر ہوگا کہ مولانا کے اسلوب تحریر کا بھی کچھ تذکرہ کر لیا جائے۔ مولانا کا اسلوبِ تحریر سادہ، سلیس اور برجستہ ہے، نہ بہت زیادہ اختصار ہے کہ بات سمجھنا مشکل ہو جائے اور نہ ہی بے جا طوالت ہے کہ قاری اکتاہٹ محسوس کرنے لگے۔ یہ فی الحقیقت ایجاز واطناب کے درمیان ہے۔ نہ ایجاز مخل ہے اور نہ اطناب ممل۔ مولانا نے اپنے اسلوب تحریر کے لیے ظاہری طمطراق، گھن گرج اور رعب ودبدبے والی لفظیات اور لب ولہجے کے بجائے سادہ وسہل لفظیات اور محبت آمیز طرزِ ادا واظہار کو ترجیح دی ہے اور اس کا انہیں خوب فائدہ بھی ملا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی تصانیف خاص وعام سب کے کے لیے یکساں طور پر مفید بن گئیں ہیں۔ ان کی بیشتر کتابوں کے دس دس بارہ بارہ اور بعض کے تیس سے بھی زائد ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ مولانا کی بعض کتابوں کو پڑوسی ملک کے بعض پبلشرز نے بھی شائع کیا ہے اور وہاں بھی ان کے کئی کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔مولانا کو قرآن کی دعوت دیتے ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ ملک وبیرون ملک دیے گئے ان کے دروس قرآن کے سیکڑوں آڈیوز اور ویڈیوز منظر عام پر آچکے ہیں، ان میں سے بہت سارے یوٹیوب کے علاوہ دیگر سوشل سائٹس اور ویب پورٹلز پر موجود ہیں اور ان سے بہت زیادہ تعداد میں ان کے دروسِ قرآن ہنوز کیسٹس اور سی ڈیز میں محفوظ میں ہیں۔ ماہنامہ ذکریٰ جدید میں ان کے دروسِ قرآن کو کیسٹس اور سی ڈیز سے نکال کر گزشتہ چار پانچ سالوں سے ذکریٰ جدید کے مستقل کالم ’’تذکیرالقرآن‘‘ کے تحت ہر ماہ پابندی سے شائع کیا جا رہا ہے۔
جب مولانا نے ماہنامہ ذکریٰ میں تفسیر قرآن کا سلسلہ شروع کیا تھا تو ان کے پیش نظر خاص طور پر بلکہ ایک طرح سے منضبط منصوبہ بندی کے تحت سر تاسر قرآنی دعوت کا ابلاغ ہی تھا۔ تفسیر قرآن کے سلسلے میں ان کا مطمح نظر نکتہ رسی کا یا تحقیق وتدقیق کا کبھی نہیں رہا اور خصوصی طور پر انہوں نے اس رجحان وفکر سے دوری بنائے رکھی جو برصغیر کے اکثر وبیشتر مکاتب فکر کا عمومی طور پر ذہن رہا ہے اور جس کی وجہ سے قرآن کی دعوت اور تعلیمات کہیں پیچھے چلی جاتی ہیں اور مسلک ومشرب اور تنظیمی و تحریکی افکار ورجحانات کی تبلیغ فرنٹ پر آجاتی ہے۔ مولانا اگرچہ ابتدا ہی سے تحریکی آدمی رہے ہیں اس لیے انہوں نے زندگی کے پہلے پڑاؤ پر ہی جماعت اسلامی سے وابستگی اختیار کرلی تھی اور تاحال اس وابستگی کو بحسن وخوبی نبھا رہے ہیں تاہم، جہاں تک قرآنی خدمات کا تعلق ہے تو انہوں نے اس کے تذکیری پہلو کو ہی سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ بے شک دعوت قرآنی کے حوالے سے ان کی قلمی کاوشوں میں بعض جگہ تحریکی مزاج دیکھنے کو ملتا ہے مگر یہ غالب رجحان نہیں ہے، اس کے برعکس غالب رجحان تذکیر ہی ہے۔ مولانا نے قرآن کو تحریک کے نشانے پر رکھنے کے بجائے خود تحریک کو قرآن کے نشانے پر رکھنے کی کوشش کی ہے، یعنی خود قرآن کو ایک تحریک کی حیثیت سے پیش کرنے کی سعیِ مسعود کی ہے۔
تفہیمِ قرآن سے متعلق مولانا کی اہم ترین تصنیف ’’قرآنی تعلیمات‘‘ ہے جو ساڑھے پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں قرآن کی اکثر ہدایات اور تعلیمات کو تصنیفی اندازِ ترتیب کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں سات ابواب ہیں۔ جو اس طرح ہیں: ۱۔ ایمانیات ۲۔ تزکیہ نفس ۳- عبادات ٤۔ حسن اخلاق ۵۔ حسن معاشرت ٦۔ معاملات ۷۔ تبلیغ دین۔
اس کتاب کے بیشتر مضامین ماہنامہ ’زندگی‘ رامپور میں قسط وار شائع ہوئے تھے جو شوق ودلچسپی کے ساتھ پڑھے گئے۔ اس میں قرآنی آیات کی مختصر مگر دلنشیں تشریح کی گئی ہے۔ بعض ذیلی عناوین کے تحت صرف ایک یا ایک سے زائد آیات درج کی گئی ہیں۔ گویا عنوان ہی آیت کے معانی کی وضاحت ہے اور بعض آیات کے تحت چند سطور میں یا زائد از چند سطور میں ان آیات کے مفاہیم اور تفسیر کو سپرد قلم کیا گیا ہے۔ بعض ابواب میں تیس یا ان سے زائد، بعض میں کچھ کم یا زیادہ مرکزی عناوین ہیں جن کے تحت مزید ذیلی عناوین قائم کیے گئے ہیں۔ مثلاً بابِ اول ’ایمانیات‘ کے تحت ایک مرکزی عنوان ہے ’’انکارِ آخرت کے اسباب‘‘ پھر اس کے تحت چار ذیلی عناوین اس طرح ہیں: 1۔ کوتاہ فکری ۲۔ قدرت الٰہی کا ناقص تصور ۳۔ دنیا پرستی ٤۔ دولت کی بدمستی۔ ان میں سے ہر ایک کے تحت ایک دو آیات ہیں جو عنوان میں قائم کیے گئے مدعا کو واضح کر رہی ہیں۔ اور اس طرح نتیجےکے طور پر جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ انکار آخرت میں مذکور ہ چار چیزوں یعنی کوتاہ فکری، قدرت الٰہی کا ناقص تصور، دنیا پرستی اور دولت کی بدمستی کا بڑا عمل دخل ہے اور گویا یہ ایک طرح کے حجابات ہیں جو اللہ کی معرفت کے حصول میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر یہ حجابات اٹھ جائیں تو کچھ بعید نہیں کہ آدمی کلمہ حق تک رسائی حاصل کرنے میں کامیابی پاسکے۔
یہ کتاب قرآن کو خود قرآن سے اور احادیثِ نبویہ سے سمجھنے اور سمجھانے کی بہت ہی مبارک کوشش ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے قرآن حکیم کی تمام بنیادی تعلیمات پر ایک طائرانہ نگاہ پڑ جاتی ہے اور طالب علم کو ان سے کماحقہ واقفیت ہوجاتی ہے اس لیے یہ کتاب قرآن کے طالب علموں کے لیے اور قرآن سے متعلق کسی بھی موضوع پر ریسرچ کرنے والوں کے لیے بھی مفید ہے۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ٢٠١٧ تک اس کتاب کے سولہ ایڈیشن نکل چکے تھے اور فی الحال ابھی یہ کتاب آؤٹ آف پرنٹ ہے۔ کتاب کا انگریزی ترجمہ خود انہی کے صاحبزادے ڈاکٹر سلمان اسعد نے ’’ٹیچنگس آف دی ہولی قرآن‘‘ کے نام سے کیا ہے اور اپنے ہی پبلیکیشن ’’اسرا‘‘ سے شائع کیا ہے۔ اس انگریزی نسخے کے بھی کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں اور اس کی وجہ صاحب تصنیف کا قرآن کریم کے ساتھ قلبی تعلق، حسن نیت، اخلاص وللٰہیت اور سب سے بڑھ کر قرآن کی تعلیمات کو عام لوگوں تک پہنچانے کا شدید جذبہ اور داعیہ ہے۔
ذیل میں ہم اس کتاب سے صرف ایک مختصر سا اقتباس نقل کرنے پر اکتفا کر رہے تاکہ طوالت سے بچا جاسکے۔ پہلے باب میں اللہ تبارک وتعالی کے وجود کی دلیل کے طور پر چند دلکش سطور اس طرح سپر دقلم کی ہیں:
’’اللہ کا وجود ایک ایسی روشن اور کھلی ہوئی حقیقت ہے جو کائنات کے ذرے ذرے سے عیاں ہے۔ غیر محدودد کائنات میں انسان کا ننھا سا وجود اور اس ننھے وجود میں کائنات کو مسخر کرنے کا عزم۔ دیکھنے، سننے، سوچنے، سمجھنے اور غور وفکر سے زبردست نتائج نکالنے کی غیر معمولی صلاحیتیں، یہ حسین وجمیل کائنات، یہ زمین و آسمان میں رزق رسانی اور پرورش کا بے مثال نظام، یہ روشن سورج، یہ چمکتا چاند، حسین تارے، یہ اتھاہ سمندر، یہ لہلہاتے کھیت۔ یہ پھلوں سے لدے باغ، یہ دن کی ہماہمی، یہ رات کا سکون، یہ صبح کی شگفتگی، یہ شام کی دل آویزی، ہر چیز پکار پکار کر اللہ کے وجود کی گواہی دے رہی ہے اور ایک ایک چیز اس حقیقت کی واضح نشانی ہے کہ اس کائنات کا ایک بہترین خالق اور بے مثال رب ہے‘‘ (صفحہ نمبر: 57)
اگر یہ مختصر مضمون اس کا متحمل ہوتا کہ اس کتاب کے مزید اقتباسات پیش کیے جاسکتے تو ہم مزید اہم اقتباسات نقل کرتے۔ تاہم یہ چند اقتباسات یہ بتانے کے لیے شاید کافی ہیں کہ تفسیر قرآن میں مولانا کا منہج کیا ہے اور وہ قرآن کے کس پہلو کو ترجیحی بنیاد پر لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں اور یہ کہ مولانا کا اسلوب تحریر اور انداز بیان کیسا ہے، اس میں کیسی روانی اور سلاست ہے، وہ کس حد تک عام فہم ہے اور ایک کم پڑھے لکھے اور ایک متوسط ذہنیت کے حامل قاری کے لیے کتنا مفید ہے اور ان کے لیے وہ اپنے اندر کیسی کیسی ترغیبات اور اثر آفرینی رکھتا ہے۔ اسی طرح ابلاغ اور تذکیر ان کے بیانیے میں کس طرح اپنے عروج تک پہنچے ہوئے ہیں۔عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ قلم کار اپنے مذہبی ودینی بیانیے میں بھی فصاحت و بلاغت کی فروانی، حکمت بالغہ تک رسائی، ہمہ دانی کے زعم کے جا وبے جا اظہار اور نکتہ رسی وافلاطونی پراسراریت پر، ترسیل و ابلاغ کو قربان کر دیتے ہیں اور ایسا کئی بار اکثر قلم کار جانتے بوجھتے بھی کرتے ہیں۔ شاید انہیں یہ پسند ہوتا ہے کہ لوگ ان کی تحریروں میں نادیدہ بلکہ ناپید لعل وگہر کی تلاش میں غوطہ زنی کرتے رہیں اور قلم کار کی بے مثال صناعی، اعلیٰ درجے کی کاری گری اور گہری تہہ میں چھپاکر رکھی ہوئی دانش وری اور حکمت کی تلا ش میں سرگرداں رہیں اور اس کے لیے قلم کار کے دامن میں داد وتحسین کے ڈونگرے انڈیلتے رہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا محترم نے جانتے بوجھتے اس نوعیت کی دیدہ وری اور پرتکلف کاری گری سے دوری بنائے رکھنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکا ہے۔
***

مولانا کوقرآن کی دعوت دیتے ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ ملک وبیرون ملک دیےگئے ان کے دروس قرآن کے سیکڑوں آڈیو اور ویڈیو منظر عام پرآچکے ہیں، ان میں سے بہت سارے یوٹیوب کے علاوہ دیگر سوشل سائٹس اور ویب پورٹلز پر موجود ہیں اور ان سے بہت زیادہ تعداد میں ان کے دروسِ قرآن ہنوز کیسٹس اور سی ڈیز میں محفوظ میں ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020