مولانا عامر عثمانی ؒ : فکر اسلامی کی ’تجلّی‘بکھیرنے والی شخصیت

شعروادب، طنزوظرافت، نقد وتبصرہ اورعالمانہ مباحث میں یکتائے روزگار

ڈاکٹر عبید اقبال عاصم، علی گڑھ

 

بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتامیہ پر دیوبند کی قد آور علمی اور سیاسی شخصیت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے جس دن (۲۹؍نومبر ۱۹۲۰ء) دنیا سے رختِ سفر باندھا تو اللہ تعالیٰ نے اسی دن ’’امین الرحمٰن‘‘ کی شکل میں ایک نومولود دنیا میں بھیج کر اس کمی کو کافی حدتک پورا کر دیا جو بعد میں عامر عثمانی کے نام سے مشہور ہوئے۔
مولانا مطلوب الرحمن کے چھ بیٹوں اور چار بیٹیوں میں مولانا عامر عثمانی بہت مشہور ہوئے۔ مولانا کے تقریباً سبھی بہن بھائی مختلف النوع صلاحیتوں کے مالک تھے جن میں شعر و ادب سے لے کر شوقین مزاج کھیلوں تک سبھی چیزیں شامل تھیں۔ ۱۹۲۰ء میں جب کہ مولانا مطلوب الرحمن ضلع ہردوئی میں سرکاری ملازمت سے وابستہ تھے ان کے گھر میں امین الرحمٰن کا جنم ہوا، ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ کے محاورے پر صادق آتے ہوئے ان کی فطری صلاحیتوں اور خداداد ذہانت سے یہ ظاہر ہونے لگا تھا کہ یہ بچہ اپنے خاندان کا نام روشن کرے گا۔
محض اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے دارالعلوم دیوبند سے امتیازی نمبروں کے ساتھ سند فضیلت حاصل کرکے دیوبند کی سماجی تحریکات میں حصہ لینا شروع کیا۔ شعر و ادب کا میدان ہو یا محفلِ علم و قلم، قصبے کے سیاسی و سماجی جلوس ہوں یا محلہ کی سطح کے خانگی کھیل کود کے ذوق کی آبیاری۔ وہ ہر جگہ صفِ اوّل میں نظر آتے تھے۔
دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کے بعد وہ معاش کے لیے مختلف میدانوں میں ہاتھ پیر مارتے رہے، زندگی کے سرد و گرم کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا، پرچون کی دوکان سے لے کر ’’پتنگ فروشی‘‘ تک ہر میدان میں قسمت آزمائی، کامیابی نہیں ملی اور ملتی بھی کیوں جب کہ خلاّق عالم نے کاتبِ تقدیر کو اُن کی مخفی علمی و قلمی صلاحیتوں کو آشکار کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ بات شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ مولانا مرحوم نے ’’تجلّی‘‘ سے پہلے دارالعلوم دیوبند کے ترجمان ماہنامہ ’’دارالعلوم‘‘ کی ادارت سے وابستہ ہونے کی کوشش کی تھی جس میں انہیں کامیابی نہیں مل سکی، بالآخر انہوں نے اپنی قلمی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے ایک ماہنامہ ’’تجلّی‘‘ نکالنے کا فیصلہ کیا جسے اللہ تعالیٰ نے بے انتہا قبولیت سے نوازا، اس کے ذریعہ ان کے افکار سے بھی قارئین کو شناسائی ہوئی، ان کی قرآن فہمی، حدیث پر گہری نظر کا بھی اندازہ ہوا، سیاست و سماج کے بنتے بگڑتے ماحول پر اُن کی سخت گرفت کا بھی پتہ چلا۔ شعر و ادب کے میدان میں ان کی فکری وسعتیں بھی سامنے آئیں۔ طنز و مزاح میں ان کا ظریفانہ انداز اور اس کے ذریعہ مذہب کے عنوان سے سماج کو گرفت میں لینے والے کرتب بازوں کی عقدہ کشائی ایسی چیزیں تھیں جنہوں نے اس مذہبی رسالے کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اسی کی وساطت سے انہوں نے ’’مکتبہ تجلّی‘‘ شروع کیا جو مولانا مرحوم کے دیانت دارانہ، صاف ستھرے تجارتی اصولوں کو اپنانے کی وجہ سے نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ ملکی سطح پر بہت زیادہ مقبول ہوا۔ رسالے اور مکتبہ نے ان کے لیے اکلِ حلال کے دروازے پوری طرح کھول دیے۔ ماہنامہ ’’تجلّی‘‘ کے منفرد انداز کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ مکتبہ ’’تجلّی‘‘ بھی ملک و بیرونِ ملک کے معیاری مذہبی کتب خانوں میں شمار ہونے لگا۔ دیوبند کی مذہبی شناخت کو انہوں نے ایک نئے انداز سے پیش کیا۔ مذہبی عقیدت مندی جسے موجودہ دور میں ’’اندھ بھکتی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اس سے الگ ہٹ کر مرحوم نے بلا ’’خوف لومۃ لائم‘‘ جسے حق سمجھا اس کا برملا اعتراف کیا اور جسے غلط جانا اسے کسی کی بھی پروا کیے بنا نہایت جرأت و ہمت کے ساتھ غلط کہا، اس کی وجہ سے ان پر بہت سے الزامات بھی عائد ہوئے۔ دیوبند کے ایک مذہبی طبقہ نے ان کی تحریروں کا بائیکاٹ کیا۔ عالمی شہرت یافتہ ادارے پر مسلّط ایک گروہ نے اُن کا معاشی و سماجی بائیکاٹ کیا لیکن مخالفین نہ تو اُن کی علمی، فکری، مدلل تحریروں کی کاٹ کرسکے اور نہ ہی عامر عثمانی مرحوم کو اپنے نظریات سے ہٹا سکے۔
عامر عثمانی مرحوم نے ماہنامہ ’’تجلّی‘‘ کے ذریعہ جہاں اُس کی علمی حیثیت کو مستحکم و مضبوط کیا وہیں سماج میں پنپ رہے بدعقیدہ لوگوں کی برائیوں کو بھی منکشف کیا، جس کی وجہ سے اُن کا رسالہ نہ صرف یہ کہ اُن سے فکری عقیدت رکھنے والوں میں مقبول ہوا بلکہ وہ ان کے مخالفین میں بھی شہرت حاصل کیے رہا۔ ’’تجلّی‘‘ ہمہ جہت رسالہ تھا جس کے ’’دستک‘‘ ، ’’آغازِ سخن‘‘ ، ’’تجلّی کی ڈاک‘‘ ، ’’تفہیم قرآن‘‘ ، ’’تفہیم حدیث‘‘ ، ’’کھرے کھوٹے‘‘ اور مشہور زمانہ طنز و مزاح سے بھرپور ’’مسجد سے میخانے تک‘‘ وغیرہ وغیرہ اس رسالے کے مستقل عنوانات تھے۔ علاوہ ازیں غزلیں، قطعات اور رباعیات بھی قارئین کے شعری ذوق کو تسکین پہنچانے کے لیے موجود ہوتیں جس سے قارئین محظوظ ہوتے۔ حفیظ جالندھری مرحوم کی طرز پر مرحوم نے اسلامی تاریخ و سیرت کے واقعات کو منظوم ’’شاہنامہ اسلام‘‘ کی شکل میں رسالے کی معرفت قارئین تک پہنچا کر اپنی تاریخی معلومات و دینی و فکر کی داد وصول کی۔ رسالے کا بیشتر مواد بلکہ تقریباً تمام ہی مرحوم کا طبع زاد ہوتا، دوسرے مضمون نگاروں کا وہی مضمون شامل ہوتا جو تجلّی کے معیار کے مطابق ہوتا۔ یہی حال تجلی میں شائع ہونے والی منظوم اصنافِ سخن کا بھی تھا، البتہ اُن کے چچازاد بھائی مولانا شمس نوید عثمانی مرحوم کا مستقل عنوان ’’کیا ہم مسلمان ہیں‘‘ اکثر و بیشتر شامل رسالہ ہوتا۔ رسالے کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ رسالہ پریس سے آتے ہی مارکیٹ سے غائب ہو جاتا۔ ماہنامہ تجلی کی اُس وقت کی اشاعت ہزاروں میں تھی۔ اس کے بیش بہا علمی نمبرات مثلاً پرسنل لاء نمبر، نکاح نمبر، طلاق نمبر وغیرہ وغیرہ تو دسیوں ہزار شائع ہوئے اور کہاں چلے گئے پتہ ہی نہیں چل سکا۔ بعض بعض نمبر کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہوتے اور وہ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے۔
مرحوم کی تحریروں کی دھمک سرکاری دفاتر میں بھی محسوس کی جاتی تھی، جس کی وجہ سے وہ متعدد مرتبہ گرفت میں آئے لیکن اپنے قلم سے سمجھوتہ نہیں کیا، وہ اپنی ہی زبان میں ؎
وفا کے ایوانِ مرمریں پر، جلی قلم سے لکھا ہوا ہے
یہاں وہی سرفراز ہوگا جو سر کی بازی بھی ہار آئے
پر عمل پیرا رہے اور انہوں نے نہ تو دار و رسن کی کوئی پروا کی اور نہ ہی قید و بند کو خاطر میں لائے۔ عامر عثمانی مرحوم اپنی جس فکر کی تبلیغ کو اپنا مشن بنائے ہوئے تھے اس سے طاغوتی قوتوں کو تو فکر لاحق تھی ہی افسوس یہ کہ دیوبند کے کچھ مذہبی طبقے بھی انہیں اپنا فکری دشمن تصور کیے ہوئے تھے۔ دراصل اس طبقہ نے جن معروضات پر اپنے نظریات کی بنیاد رکھی تھی وہ عامر عثمانی مرحوم کی نظر میں سراسر باطل، سیاسی نظام پر مشتمل تھے۔ اسی فکری کشمکش نے عامر عثمانی مرحوم کو بہت سی مشکلات میں مبتلا کیا لیکن انہوں نے حق کی اطاعت اور باطل کے خلاف اعلانِ جنگ کے وطیرہ کو نہیں چھوڑا۔
نومبر ۱۹۴۹ء میں جاری ہونے والا ماہنامہ ’’تجلّی‘‘ مولانا عامر عثمانی کی حیات تک پابندی سے جاری رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو ادب اسلامی کی تاریخ نہ تو ’’تجلّی‘‘ کے تذکرے کے بغیر مکمل ہو سکتی اور نہ ہی مولانا عامر عثمانی کے ذکر کے بغیر اس باب کو بند کیا جا سکتا ہے۔
دارالعلوم دیوبند سے کسبِ فیض کے باوجود وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (جن کے مذہبی نظریات سے دیوبند کے چند مقتدر پیشوا علماء بے انتہا اختلاف رکھتے تھے) کی فکر سے کافی حد تک اتفاق رکھتے تھے لیکن جہاں کہیں ضرورت محسوس کرتے اس پر نقد و جرح بھی کرتے۔ البتہ جس طرح علماء کے ایک طبقہ نے دلائل سے بے پروا ہو کر ’’مخالفت برائے مخالفت‘‘ کا رویہ اپنایا اس سے وہ سخت نالاں تھے۔ حق گوئی و انصاف پسندی مولانا عامر عثمانی کی شان تھی۔ کسی کے علمی مرتبہ میں عقیدت کا چشمہ لگا کر ’’حد سے تجاوز کرنا‘‘ یا تعصب کی عینگ لگا کر حقائق سے منحرف ہونا ان کی جرأت و ہمت کو للکارنا تھا۔ اسی باعث ان کو دیوبند میں مولانا مودودی کا ہم نوا تصور کیا جاتا رہا حالاں کہ وہ جماعت اسلامی کے ابتدائی ممبر بھی نہیں تھے۔
ماہنامہ ’’تجلّی‘‘ کے علاوہ نثر و نظم دونوں ہی پیرایوں میں عامر عثمانی کی تصانیف منظرِ عام پر آئیں، ان میں کچھ تو وہی ہیں جو انہوں نے بذاتِ خود مستقل علمی مضامین و مقالات کی شکل میں مختلف اوقات میں تحریر کیں اور پھر انہیں یکجا کرکے کتابی شکل دے دی گئیں، جن میں ’’تفہیم القرآن پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں‘‘، ’’جماعت اسلامی کا جائزہ‘‘، ’’تجلیاتِ صحابہؓ‘‘، ’’خلافت و ملوکیت پر اعتراضات کا تجزیہ‘‘، ’’شاہنامہ اسلام‘‘ وغیرہ کے علاوہ ’’تجلّی‘‘ کے خاص ’’نکاح نمبر‘‘، ’’طلاق نمبر‘‘، ’’پرسنل لاء نمبر‘‘ وغیرہ بطورِ خاص قابل ذکر ہیں۔
مرحوم کے متعلقین و قائلین نے مرحوم کی علمی، ادبی تحریروں و شعری سرمائے کو یکجا کر کے کتابی شکل میں شائع کیا، ان میں ’’مسجد سے میخانے تک‘‘، ’’یہ قدم قدم بلائیں‘‘ وغیرہ جیسی کئی تصانیف ہیں، جنہیں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
حقیقت یہ ہے کہ دیوبند کا نام ملک و بیرون ملک جن وجوہات سے جانا جاتا ہے ان میں دارالعلوم دیوبند کے ساتھ ماہنامہ ’’تجلّی‘‘ اور اس کے مدیر مولانا عامر عثمانی بھی بطورِ خاص قابل ذکر ہیں۔
عامر عثمانی مرحوم کی زندگی نے وفا نہیں کی اور وہ صرف پچپن سال ہی دنیائے فانی میں رہ سکے لیکن اس کم عمری میں انہوں نے اپنے عالی افکار اور بلند اقدار سے جو شہرت حاصل کی وہ ان سے کہیں زیادہ عمر پانے والے بیشتر افراد کو نہیں مل سکی۔ وہ مصنف، محقق، مفسر، محدث، ادیب، شاعر، انشاء پرداز، مزاح نگار، نقاد، مبصر، مترجم، فاضل سبھی کچھ تھے اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ عام انسانوں کی طرح دیوبند کی سرزمین پر اُس کسر نفسی کے ساتھ جیتے تھے جس طرح جینا چاہیے بلکہ بسا اوقات وہ عوام تو کُجا خواص کو بھی یہ خیال نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ عالم دین ہیں۔ بچوں کے ساتھ بچوں کی طرح ہنسنا، کھیلنا شام کو بلا ناغہ دیوبند کی ایک سوڈے کی دوکان پر ایک ڈیڑھ گھنٹے بیٹھ کر سوڈا پینا، پتنگ بازی،شطرنج کے کھلاڑیوں، کبوتر اڑانے کا شوق رکھنے والے دسیوں کبوتر بازوں سے اس پرندے کی درجنوں اقسام پر بلا تکلف باتیں کرنا، گلّی ڈنڈا کھیلنے والے لڑکوں بلکہ معمر ترین افراد کے ساتھ گلّی ڈنڈا کھیلنا جیسے نہ جانے کتنے مشاغل تھے جن کو انجام دیتے ہوئے وہ سامنے والے کو یہ احساس ہی نہ ہونے دیتے کہ ان کا علم و عمل سے کوئی تعلق بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بے نفس بندے کو قیدِ حیات سے اس وقت رہائی عطا فرمائی جب وہ وطن سے سیکڑوں میل دور حالتِ سفر میں تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان کی مٹی ہی انہیں کھینچ کر پونا لے گئی تھی تو بے جا نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے عامر عثمانی مرحوم کی مغفرت کاملہ فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام، ان کی علمی، ادبی، ملّی، اسلامی ہر قسم کی مخلصانہ خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور ان کی خطاوں و لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ آمین
ابھی وہ عمر کی پچپن بہاریں بھی نہ دیکھ پائے تھے، اس وقت تجلّی کی اشاعت کے پچیس سال ہی پورے ہو پائے تھے کہ مولانا عامر عثمانیؒ کا وقت موعود آن پہنچا اور وہ اپنی بیماری کی پرواہ کیے بغیر ’’ قُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْدًا‘‘ پر عمل کرتے ہوئے اہل خانہ اور تمام اعزاء کے مشوروں کو درگزر کرکے پونا کے ایک مشاعرہ میں صرف اس وجہ سے شریک ہوئے کہ ان کے سامنے قولِ باری تعالیٰ ’’یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالاَ تَفْعَلُوْنَ‘‘ کی صداقت تھی، چونکہ وہ پونا والوں سے مشاعرہ میں شرکت کا وعدہ کر چکے تھے، اپنے وعدے کی پاسداری کے لیے وہ اس مشاعرہ میں شریک ہوئے اور اسٹیج پر اپنی مشہور غزل ؎
جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں کہاں گئی وہ نیند کی شراب ڈھونڈتا ہوں میں پڑھتے ہوئے ۱۲؍ اپریل ۱۹۷۵ء کی شب مشاعرے کے اسٹیج پر ہی جان کا نذرانہ جان آفرینی کے سامنے پیش کرکے دنیا ئے فانی سے رخصت ہو گئے لیکن اپنے انمٹ نقوش رہتی دنیا تک چھوڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت کاملہ فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
***

دیوبند کی مذہبی شناخت کو انہوں نے ایک نئے انداز سے پیش کیا۔ مذہبی عقیدت مندی جسے موجودہ دور میں ’’اندھ بھکتی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اس سے الگ ہٹ کر مرحوم نے بلا ’’خوف لومۃ لائم‘‘ جسے حق سمجھا اس کا برملا اعتراف کیا اور جسے غلط جانا اسے کسی کی بھی پروا کیے بنا نہایت جرأت و ہمت کے ساتھ غلط کہا، اس کی وجہ سے ان پر بہت سے الزامات بھی عائد ہوئے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 اپریل 2021