مولانا ریاض احمد خان کی رحلت سے تحریک اسلامی میں زبردست خلا
مولانا کی وفات سے محبین اور متوسلین میں غم کی لہر۔ تحریک اسلامی کے ایک عہد کی تاریخ کا چراغ گُل
ابو حمدان ندوی
گزشتہ سال ملت اسلامیہ کو جس قسم کی شخصیات سےجدائی کا غم سہنا پڑا اس کی مثال ماضی قریب میں کم ہی دیکھنے کو ملی ۔ رواں سال بھی ملت کی عظیم ہستیاں ہم کو داغ مفارقت دے کر سفرآخرت پر روانہ ہو گئیں۔ گزشتہ دنوں عروس البلاد ممبئی میں تحریک اسلامی ہند سے وابستہ معروف ملی قائد وسربراہ مولانا ریاض احمد خان کا انتقال اس قبیل کا ایک بڑاخسارہ ہے۔ قحط الرجال کے اس دور میں ان کا انتقال صرف حلقہ جماعت اسلامی ہی کا نہیں بلکہ پوری ملت کا نقصان ہے۔امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی کے بقول مولانا مرحوم صرف جماعت اسلامی ہند کی محفل کوروشن کرنے والے چراغ نہیں تھے بلکہ ہندوستان میں سرمایہ ملت کے نگہبان بھی تھے۔ وہ ممبئی کی بے شمارملی،دینی،اصلاحی، فلاحی وتعلیمی تحریکوں کے روح رواں تھے جن سے کئی نسلوں نے بردباری،اعتدال اور جہد و عمل کے اسباق سیکھے تھے۔امیر جماعت کے بقول جن بزرگان نے ان پر اپنی علمی بصیرت ، تحریکی زندگی کے گہرےاثرات مرتب کیے ان میں مولانا ریاض خان بطور خاص شامل تھے۔ان کی شخصیت کا تعارف کراتے ہوئے مختلف لوگوں نے انہیں حالات پر گہری نظر رکھنے والی اور جدید علمی تحقیقات و اکتشافات سےباخبر رہنے والی شخصیت قرار دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے دروس اور تقریریں علمی گہرائی اور نکتہ رسی کے لیے معروف تھیں۔ انہوں نے اپنی تصنیفات کے ذریعہ بھی تحریک کو درپیش اہم مسائل پر ٹھوس علمی طریقے سے گفتگو کی ہے۔ انکی شخصیت کے شش جہت پہلووں پر بات کی جاتی ہے تو کہا جا تا ہے کہ ان کے روابط بہت وسیع تھے اورملت کے ہرحلقے میں ان کا بڑا احترام تھا۔وہ دینی،اصلاحی، فلاحی، سیاسی ہر محاذ پراثرانداز ہونے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔
امیر حلقہ، جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر رضوان الرحمٰن خان نے بتاتے ہیں کہ انہوں نے فکر مودودیؒ کو اپنے دل و دماغ میں مکمل طور پر بسا لیا تھا۔ الیکشن سے متعلق جماعت کی پالیسی کےبارے میں انہوں نے مولانا مودودی سے راست ملاقات کر کے کافی معلومات حاصل کی تھیں اگر کوئی اس کے بارے میں جاننا چاہتا تو اس معاملے میں اس کو بڑی رہنمائی ملتی تھی۔ مولانا کی صفات و خصوصیات پر گفتگو کرتے ہوئے رضوان صاحب بتاتے ہیں کہ مولانا کی سب سے بڑی خدمت کئی ملی تعلیمی اداروں کا قیام ہے۔ ممبئی میں مختلف ٹرسٹوں کے تحت مولانا نے ۲ کالجز، ۵ ہائی اسکولس اور بچیوں کے لیے ۳ دینی مدارس قائم کیے۔ بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر ممبئی میں پھوٹ پڑنے والے فسادات کے بعد مولانا نے ریلیف اور باز آباد کاری کا عظیم الشان کام انجام دیا۔ مولانا نے علما کونسل قائم کر کے ممبئی میں مسلکی اختلافات کو ختم کرانے میں بہت اہم رول ادا کیا۔ مولانا ریاض صاحب کے بہت ہی قریبی رہے تحریک اسلامی کے معروف قلمکار ڈاکٹر سلیم خان نے ان کے انتقال کے دکھ کو اپنے والد کے انتقال سے تعبیر کیا ہے ۔ ڈاکٹر سلیم خان نے قرآن سے مولانا کے شغف کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کو قرآن سے بے پناہ تعلق تھا ، صرف آیت کا مفہوم بولنے پر آیت کی نشاندھی کر کے مولانا اپنی یاد داشت کا ثبوت فراہم کرتے تھے۔ وہ بھی ایک ایسے وقت جب مواد کی تلاشی کے لئے گوگل کی سہولت نہیں تھی مولانا اپنی ذہانت سے وہ سارے مسائل چٹکی میں سلجھاتے تھے۔ عموما آج کے معاشرے میں نوجوانوں اور بوڑھوں کے درمیان فکری ہم آہنگی کے باوجود خیالات میں بڑا تفاوت ہوتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ بعض مرتبہ نوجوانان تحریک بزرگ ارکان سے کم ہی بے تکلف ہوپاتے ہیں لیکن مولانا ریاض خان مرحوم میں یہ عجیب خوبی تھی کہ ان کی خوش خلقی اور دلنواز شخصیت نے نوجوانوں کوبھی مولانا کا گرویدہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ عمومی طور پر اس طرح کی ہر دلعزیزی کے بعد کوئی کسی بڑےعہدے پر برقرار رہنا چاہتا ہے تاکہ اپنا ایک اسٹیٹس باقی رہے لیکن ریاض صاحب کے جاننے والوں نے بتایا کہ ان کو جماعت مختلف ذمہ داریوں پر فائز اور سبکدوش کرتی رہی لیکن اس کا ان کی مربیانہ حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ یقینا یہ بہت بڑے پن کی دلیل تھی ۔ اسی طرح ملت کے اندر بھی ان کا وقار کسی عہدے کا محتاج نہیں تھا ۔ مولانا ریاض صاحب کے جنازے میں شریک بیشترلوگ ان سے بہ نفسِ نفیس استفادہ کرنے والے تھے۔ ان کے چہروں کی اداسی، دل کے گہرے زخموں کی عکاسی کر رہے تھے۔ ان کے تعلق سے ڈاکٹر سلیم خان نے لکھا ہے کہ ’’مسلم پرسنل لا بورڈ ہو یا علما کونسل ان کو وہاں جماعت کے ذمہ دار کی حیثیت سے نہیں بلکہ ان کی اپنی خوبیوں اور خدمات کے سبب یاد کیا گیا۔ریاض صاحب کے حسن اخلاق کی خوشبو اپنے آپ چہار سو بکھر جاتی تھی۔ وہ روشنی کا ایسا مینار تھے جس کی شعائیں راہگیروں کو راستہ دکھاتی تھیں۔ مجھ جیسے سیکڑوں لوگ اس سے رہنمائی حاصل کر کےاپنی زندگی کا رخ طےکرتے تھے۔ ریاض صاحب اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے مگر وہ نور ہنوز موجود ہے جس سے خود ان کی زندگی منور تھی اور یہ نور آگے بھی اپنی شعائیں بکھیرتا رہے گا۔‘‘ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی ہند کی طلبہ تنظیم ایس ائی او اور دوسری ملی طلبہ تنظیم ایس ائی ایم دونوں سے وابستہ نوجوان مولانا کو اپنا مانتے تھے۔ ایک تحریکی بزرگ نے ایس آئی ایم کی دوسری کل ہند کانفرنس میں مسلسل تین دنوں تک ان کی شرکت کو دیکھ کر بتایا کہ بغیر کسی ذمہ داری کے تین دنوں تک مسلسل نوجوانوں کی بزم میں ایک عمر رسید ہ شخص کا شریک ہونا گویانوجوانوں سے متعلق ان کی فکر کی سب سے بڑی دلیل تھی ۔ اورآج جب اس کے بارے میں غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ’ہم نے اپنے آپ کو تحریک کے بجائے تنظیم بلکہ شعبوں میں محصور کرلیا ہے‘
بالعموم سب ہی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مولانا ریاض احمد خان صاحب مرحوم نہایت خلیق و شفیق اور اخلاص کا پیکر تھے۔ وہ ہر ایک سے بے انتہا محبت اور شفقت سے ملتے تھے۔ کسی کو تکلیف میں مبتلا دیکھ کر پریشان ہو جانا اور اس کے لیے دعا بھی کرنا اس کی خبر گیری کرنا مولانا کی عادت بن گئی تھی۔ آپ کے دروس قرآن کے حلقے میں سینکڑوں کا مجمع ہوتا اور لوگ نہایت دلچسپی اور دلجمعی کے ساتھ آپ کا درس سنتے۔ بڑے اجتماعات میں مطالعہ قرآن کے کئی حلقے مختلف علماء کی نگرانی میں ہوتے لیکن شرکا کی خواہش یہی ہوتی کہ انہیں مولانا ریاض صاحب کے حلقے میں بیٹھنے کا موقع ملے جہاں علم کے بے شمار اور بے دریغ موتی برس رہے ہوتے تھے۔ مولانا نے ہمیشہ اتحاد بین المسلمین پر زور دیا۔ آج کے اس دور میں جب ملت کا ایک طبقہ دوسرے طبقے کو برداشت نہیں کرتا لیکن یہ مولانا کی خوبی تھی آپ کے حلقہ احباب میں بریلوی ،دیوبندی، شیعہ، اہل حدیث سبھی شامل ہوتے تھے۔ آپ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اسلام کی دعوت عام کرنے کے لیے قائم کیے گئے اسلامک مراٹھی پبلیکیشنز ٹرسٹ میں آپ نے 20 برس تک وائس چیرمین کی حیثیت سے کام کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے کتابچوں اور کتابوں سے ملی اتحاد اور دعوت کے کاموں میں خوب راہ نمائی ملتی ہے۔ آپ نے قرآن کی دعوت کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا اسی لیے اداراہ دعوت القران کے ذمّہ دار اور فاؤنڈر کی حیثیت سے بھی آپ نے اپنی خدمات انجام دیں ۔ریاض احمد خان صاحب جماعت اسلامی ہند کے نہ صرف بزرگ رکن تھے بلکہ، معاون امیر حلقہ، آل انڈیا علماء کونسل ممبئی کے صدراور بہت ساری ملّی، دینی وسماجی سرگرمیوں اور تنظیموں کے روح رواں تھے۔ آپ کئی تعلیمی اداروں، مدارس، ملّی تنظیموں کے لیے کام کیا۔ نوجوانوں کو اسلام کے کاز کے لیے حوصلہ دیتے، ان کی رہنمائی اور تربیت فرماتے تھے۔اپنی بیش بہا علمی و دعوتی و تربیتی خدمات کی چھاپ چھوڑ کر مولانا ریاض احمد خان نے خموشی کے ساتھ دنیا کو الوداع کہ دیا ۔ خیال رہے کہ ۳ مارچ ۲۰۲۱ کو مولانا ریاض احمد خان صاحب کا ۸۵ سال کی عمر میں ممبئی میں ہی انتقال ہوا،اور۴ مارچ کو بعد نماز فجر چار بنگلہ قبرستان، اندھیری، ممبئی میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
اللہ رب العزت ان کی قبر کومنور کرے۔ حسنات کو قبول فرمائے اور سیئیات سے درگزر کرے اورملت اسلامیہ بالخصوص تحریک اسلامی کو ان کانعم البدل عطا فرمائے۔آمین
***
عموما آج کے معاشرے میں نوجوانوں اور بوڑھوں کے درمیان فکری ہم آہنگی کے باوجود خیالات میں بڑا تفاوت ہوتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ بعض مرتبہ نوجوانان تحریک بزرگ ارکان سے کم ہی بے تکلف ہوپاتے ہیں لیکن مولانا ریاض خان مرحوم میں یہ عجیب خوبی تھی کہ ان کی خوش خلقی اور دلنواز شخصیت نے نوجوانوں کوبھی مولانا کا گرویدہ بنا کر رکھ دیا تھا۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 مارچ تا 20 مارچ 2021