ابوالاعلی سید سبحانی
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اور ڈاکٹر عبدالحق انصاری مرحوم ثانوی درسگاہ کے اولین محرک اور طالب علم تھے اور مولانا حامد عبدالرحمن الکاف ثانوی درسگاہ کے آخری بیاچ کے فارغین میں سے تھے۔ ثانوی درسگاہ کے فارغین میں سے جو لوگ بہت نمایاں ہوئے ان میں الکاف صاحب کا نام بھی شامل ہے۔ ثانوی درسگاہ سے وابستہ یہ شخصیات الگ الگ میدان میں تخصص رکھتی تھیں، لیکن ان کے درمیان کچھ چیزیں مشترک تھیں، فکر اسلامی سے وابستگی اور اس کے فروغ کے لیے جدوجہد کرنا، قرآن مجید سے وابستگی اور قرآن مجید کو اپنے غوروفکر کاُ محور بنانا، عصر حاضر کے تناظر میں مختلف پہلووں سے شرعی رہنمائی کرنا۔
مولانا حامد الکاف کی فکری اور عملی زندگی کا رخ طے کرنے میں ثانوی درسگاہ رام پور کا بنیادی کردار رہا۔ ثانوی درسگاہ فکر مودودی اور فکر فراہی کا ایک حسین سنگم تھی۔ جہاں فکرمودودی کی بنیادیں مضبوط کرنے اور فکر فراہی کی عملی تعبیریں تلاش کرنے کے لیے مولانا صدر الدین اصلاحی، مولانا ابواللیث اصلاحی، مولانا اختر احسن اصلاحی اور مولانا جلیل احسن ندوی جیسے اکابرین رات دن مصروف رہا کرتے تھے۔ ثانوی درسگاہ کا سفر ایک بڑے وژن اور ایک اعلیٰ خواب کے ساتھ جاری تھا اور ملک بھر سے کچھ ذہین ترین نوجوان اس وژن اور خواب کو اپنے ذہن وفکر میں بسانے کی جستجو میں لگے ہوئے تھے۔ ثانوی درسگاہ سے ان نوجوانوں کی وابستگی نہ تو کسی مالی منفعت کے لیے تھی اور نہ کسی سند اور سرٹیفکیٹ کے لیے تھی، یہ وابستگی خالصتاً فکری اور تحریکی تھی جس نے تحریک اسلامی ہند کو مختلف میدانوں میں بہت ہی اعلیٰ قسم کی صلاحیتوں سے مالامال کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ ادارہ چند سال کے بعد بند ہوگیا۔ ثانوی درسگاہ کے احیاء کے سلسلہ میں اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح حامد الکاف صاحب بھی کافی فکرمند رہا کرتے تھے۔ مولانا کے خیال میں تحریک اسلامی ہند کو فکری سطح پر مضبوط کرنے اور مختلف میدانوں کے ماہرین اور متخصصین فراہم کرنے کے لیے ثانوی درسگاہ جیسے تجربے کو بڑے پیمانے پر اور مزید اہتمام اور توجہ کے ساتھ شروع کرنا ہوگا اور اس کے لیے کچھ شخصیات کو بہت ہی اخلاص اور سچی تڑپ کے ساتھ اپنے آپ کو وقف کردینا ہوگا۔
ثانوی درسگاہ سے فراغت کے بعد دوسرے سینئر ساتھیوں کی طرح الکاف صاحب نے بھی قرآنیات کے سلسلہ میں مزید استفادہ کے لیے مدرسة الاصلاح سرائے میر کے لیے رخت سفر باندھ لیا تھا۔ لیکن دوسرے ساتھیوں کے برخلاف انہوں نے فکر فراہی کا زیادہ توجہ کے ساتھ مطالعہ کیا اور پھر قرآن مجید کے نظم اور اس کے اسرار ورموز کی تلاش میں اپنی زندگی وقف کردی۔ انگریزی اور اردو زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ اور مختصر تفسیر کے علاوہ قرآنی موضوعات، خاص طور سے سورتوں کے درمیان نظم اور مناسبت پر بہت سے اہم مضامین لکھے۔ الکاف صاحب فکر مودودی اور فکر فراہی دونوں سے گہری وابستگی رکھتے تھے، ان کی گفتگو اور تحریروں میں اس کا خوب اظہار ہوتا تھا۔
الکاف صاحب کے تخصص کا ایک میدان معاشیات بھی تھا، انہوں نے معاشیات کے مختلف پہلووں کے سلسلہ میں اسلامی نقطہ کو پیش کرنے کے لیے کئی ایک اہم کتابیں تصنیف کیں۔ وہ عملی طور پر بھی اسلامی معاشیات کے میدان میں کافی سرگرم رہے۔ اسلامی بینکنگ اور اسلامی معاشیات پر ان کے کچھ خاص خیالات اور آراء بھی تھیں جن کا اظہار وہ مختلف مناسبتوں سے کرتے رہتے تھے۔
جامعة الفلاح میں دوران طالب علمی ماہنامہ ترجمان القرآن اور ماہنامہ زندگی نَو میں ان کی مختلف تحریریں نظر سے گزریں۔ اتفاق کہ چند سال کے بعد اللہ رب العزت نے مولانا سے ملاقات کی سبیل بھی پیدا کردی۔ وہ والد محترم مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی سے بہت ہی محبت و مودّت کا تعلق رکھتے تھے۔ حیدرآباد میں ہمارے عزیز دوست اور مولانا کے شاگرد بھائی عبدالسلام نے مولانا سے ملاقات کرائی، مولانا سے پہلی ملاقات بہت تفصیلی اور یادگار رہی، تعلیمی مصروفیات سے لے کر تحریکی دوڑ بھاگ تک ایک ایک چیز پر گفتگو ہوئی، مولانا نے مختلف پہلووں سے بہترین رہنمائی فرمائی۔ ادارت، تبصرہ نگاری، مطالعہ اور علم وتحقیق کے حوالے سے مولانا کی گفتگو کے مختلف نکات آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔
الکاف صاحب کے آخری دس سال خاص طور پر نوجوانوں کے درمیان گزرے۔ نوجوانوں کو جمع کرنا ان کی ذہن سازی کرنا ان کو قرآن مجید سے وابستہ کرنا ان کے درمیان غوروفکر اور تحقیق کا مزاج پروان چڑھانا۔ گہرے گہرے موضوعات پر ان کے ساتھ گفتگو کرنا اور ان کو اس میں شریک گفتگو بنانا اونچے خواب دیکھنا اور ان کو اس خواب کا حصہ بنانا الکاف صاحب کی خوبی تھی۔ انہوں نے آخری عمر تک کبھی اپنے آپ پر بڑھاپا سوار نہیں ہونے دیا، یہی وجہ ہے کہ مولانا کے شاگرد مولانا سے آخر عمر تک بہت زیادہ امیدیں رکھتے تھے، اور وہ پروانوں کی طرح مولانا کے ساتھ لگے رہتےتھے۔ الکاف صاحب کا فلیٹ نوجوانوں کی ایک تربیت گاہ تھی۔ مجھے بھی حیدرآباد کے مختلف اسفار کے دوران وہاں قیام کا موقع ملا۔ دن رات نوجوانوں کی آمد ورفت اور اخذ واستفادہ کا سلسلہ جاری رہتا۔
عرب بہاریہ کے دوران کئی بار میرا حیدرآباد جانا ہوا۔ مولانا عرب بہاریہ سے کافی توقعات رکھتے تھے اور اسے عالم اسلام کے مستقبل کے حوالے سے بہت اہم قرار دیتے تھے۔ اسلام پسندوں کے رول پر وہ اچھی گفتگو کرتے۔ ملوکیت اور جبروجمہوریت کی تائید کرنے اور اسے فروغ دینے والے دینی لٹریچر اور بعد کے زمانے کے سرکاری علماء پر وہ سخت تنقید کرتے۔ مولانا نے اس پر کئی اہم مضامین بھی تحریر کیے تھے۔ مولانا کے فلیٹ پر آنے جانے والے نوجوان جہاں قرآن سے گہری وابستگی رکھتے تھے، عربی زبان سیکھنے کا ذوق وشوق رکھتے تھے، وہیں وہ ملکی اور عالمی حالات سے بھی اچھی واقفیت رکھتے تھے۔
مولانا اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اپنے پیچھے ایک قابل ذکر علمی وفکری سرمایہ چھوڑ گئے ہیں۔ یہ سرمایہ نوجوانوں کی ذہن سازی اور تربیت کا کام کرتا رہے گا اور امید ہے کہ مولانا کے لیے توشہ آخرت میں اضافہ کا سبب بنے گا۔
***
***
مولانا اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اپنے پیچھے ایک قابل ذکر علمی وفکری سرمایہ چھوڑ گئے ہیں۔ یہ سرمایہ نوجوانوں کی ذہن سازی اور تربیت کا کام کرتا رہے گا اور امید ہے کہ مولانا کے لیے توشہ آخرت میں اضافہ کا سبب بنے گا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021