موروثی سیاست اور قیادت کابحران

کانگریس اور بی جے پی۔۔ایک تجزیہ

شبیع الزماں، پونے

 

ہندوستان کا سیاسی نظام کثیر پارٹی نظام ہے۔ کسی بھی الیکشن میں کامیابی کے لیے پارٹی کی مضبوطی ضروری ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کی مضبوطی کا اندازہ تین باتوں سے لگایا جاتا ہے جن کی بنیاد پر وہ عوام میں مقبول عام بن سکتی ہے ۔
لیڈرشپ
تنظیم اور
آئیڈیالوجی
ان بنیادوں پر اگر ہم ہندوستان کی قومی سطح کی دونوں پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کانگریس اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے اور بی جے پی اپنی سیاسی تاریخ کے عروج پر ہے۔
مودی کی لیڈر شپ میں بی جے پی ایک مضبوط پارٹی کے طور پر ابھری ہے۔ قومی سطح پر مودی کے نمایاں ہونے سے پہلے بی جے پی کی ’’ایک مختلف پارٹی‘‘ (Party with difference) والی امیج بدل کر ’’خلفشار والی پارٹی‘‘ (Party with difference) ہو گئی تھی۔ پارٹی متواتر دو قومی انتخابات ہار چکی تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اٹل بہاری کے چلے جانے کے بعد بی جے پی اب کبھی اقتدار میں واپس نہیں آ پائے گی۔ لیکن قومی سطح پر مودی کے ظہور کے بعد یکایک صورتحال تبدیل ہو گئی اور بی جے پی ناقابل تسخیر نظر آنے لگی ہے۔ پچھلے پندرہ سالوں میں مودی کی امیج بنانے کی مستقل کوشش کی گئی ہے۔ اس کے لیے بڑے پیمانے پر پروفیشنلز ایجنسیز کو ہائر کیا گیا۔ مودی کو مستقل طور پر ایک ایسے لیڈر کے طور پر پیش کیا جاتا رہا جس نے غربت کو قریب سے دیکھا ہے، جو نیچے سے جدوجہد کرتا ہوا اوپر آیا، جو عام آدمی کے درد کو سمجھتا ہے، ملک کے لیے انتھک محنت کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اپنے آرام تک کی پروا نہیں ہے۔ جو سنسار کی موہ مایا سے بے نیاز ایک فقیر ہے، فیصلہ کن قوت ارادی رکھنے والا کرشماتی لیڈر ہے۔ جو ملک سے باہر اور ملک میں موجود ملک دشمن قوتوں سے ٹکر لے رہا ہے۔ ایک مضبوط قوت ارادی اور اعصاب والا شخص ہے جو دشمنوں کو گھر میں گھس کر مارنے کی قوت رکھتا ہے۔ Lutyens elites کے مقابلے ایک غریب چائے والا، نہرو-گاندھی خاندان کے بالمقابل عوامی لیڈر۔ بےضمیر، عیاش، کرپٹ اور بے حس کانگریس قیادت کے بالمقابل ایک برد بار، کلین امیج اور زمین سے جڑا ہوا نیتا، عوام سے جڑا ہوا لیڈر جو ان کے جذبات کو بہتر طور پر سمجھتا ہو۔
ہٹلر کا قریبی ساتھی گوبیلز کہا کرتا تھا کہ کسی جھوٹ کو بار بار دہراؤ تو وہ سچ بن جاتا ہے۔ یہی کچھ ہندوستانی عوام کے ساتھ ہوا۔ سوشل، الیکٹرانک اور بڑی حد تک پرنٹ میڈیا مسلسل یہ باور کراتا رہا کہ مودی ہی مسیحا ہے جو ان کے درد کا درماں کر سکتا ہے اور عوام نے اس فریب کو سچ مان لیا۔
پہلے 2014 میں اور پھر 2019 میں دونوں ہی الیکشن بی جے پی نے مودی ہی کے دم پر بلکہ اس کے بھروسے ہی جیتے ہیں۔ ہندوستانی سیاست میں شاید پنڈت نہرو اور اندارا گاندھی کے بعد مودی ہی وہ لیڈر ہوں گے جنہوں نے ووٹرس کو اس درجہ متاثر کیا۔ لوک نیتی- سی ایس ڈی ایس کے الیکشن کے بعد کے سروے کے مطابق 32 فیصد لوگوں نے بی جے پی کو صرف مودی کے سبب ووٹ دیا۔ اگر مودی وزیر اعظم کے امیدوار نہ ہوتے تو وہ بی جے پی کو ووٹ نہ دیتے۔ الیکشن کے دوران مودی نے 134 انتخابی حلقوں میں ریلیاں کی جن میں سے 99 میں بی جے پی کو کامیابی ملی۔ ایک سینئر بی جے پی لیڈر کے بیان کے مطابق ’’عوام جن بی جے پی نمائندوں کو ووٹ دے رہی ہے انہیں ان کے نام تک معلوم نہیں ہیں۔‘‘ اس بات کو سمجھنے کے لیے 2019 الیکشن کے نتائج کافی ہیں۔
2014 کے بالمقابل 2019 کے انتخابات میں مودی کی پوزیشن نازک تھی۔ 2014میں مودی کی امیج ایک غریب چائے والے کی تھی جو luteyans elite اور نہرو گاندھی خاندان کی وراثت سے لڑ رہا تھا۔ اس کے بر عکس 2019میں وہ ایک ہندوستان کا سپریم لیڈر تھا جو خود ایک لکژری لائف گزارتا ہے جو اپنے غیر ملکی دوروں، مہنگے کپڑوں اور بزنس فیمیلیز سے تعلقات کے لیے مشہور ہے۔ 2014 میں وہ ہر میدان میں حکومت کی ناکامیاں گنوا رہا تھا لیکن 2019 میں وہی سارے مسائل جن کی دہائی دیتے مودی اور بی جے پی تھکتے نہ تھے اب پہلے سے زیادہ سنگینی اختیار کیے ہوئے تھے۔ پہلے 15 لاکھ کے وعدے تھے اب نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسی حماقتوں کے بعد ہر روز گرتی معیشت تھی۔ ان سب کے باوجود مودی نے عوام کے اعتبار کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا۔ یہ مودی کی قیادت کا ہی جادو تھا۔
مودی کے بالمقابل کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی ہیں۔ راہل گاندھی کانگریس کے لیڈر کسی قابلیت کی بنا پر نہیں بلکہ خاندانی وراثت کی بدولت بنے ہیں۔ یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ راہل اگر نہرو گاندھی خاندان میں نہیں پیدا ہوتے تو کیا وہ اپنی قابلیت کی بنا پر کبھی کانگریس کی مرکزی قیادت میں مقام بنا سکتے تھے۔ اسی لیے مودی کے لیے راہل کو ٹارگٹ کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ نامدار بمقابلہ کامدار۔ دوسرے راہل گاندھی فی الواقع پپو نہیں ہے لیکن بی جے پی نے اب ان کی وہی امیج
بنا دی ہے۔ ہندوستان میں عوام کی رائے حقیقت کے اعتبار سے طے نہیں ہوتی بلکہ تاثر (perception) کے اعتبار سے بنتی ہے۔ ہندوستانی مزاج کے لیے یہ بات درست ہے کہ تاثر سچ سے زیادہ سچ ہوتا ہے (perception is truer than truth) تجربہ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ راہل گاندھی ہندوستانی سیاست کے لیے بالکل ناکارہ ہیں۔ ان کے بارے میں راج دیپ سردیسائی کا یہ تبصرہ بالکل درست ہے کہ ’’وہ موقع گنوانے کا کوئی موقع نہیں گنواتے‘‘
(He never misses an opportunity to miss an opportunity)
راہل گاندھی کسی اور زمانے میں کانگریس کے لیڈر بنتے تو شاید اتنے ناکام نہیں ہوتے۔ راہل کے سیاست میں شمولیت کے وقت ہندوستانی سیاست جس مقام پر کھڑی تھی اور ان کا مقابلہ نریندر مودی جیسے گھاگ سیاستدان سے تھا جو اپنی پارٹی میں ایک لمبی لڑائی لڑ کر اس مقام تک پہنچا تھا اور جس کے ساتھ سنگھ جیسی مکار، شاطر اور مضبوط تنظیم کھڑی تھی۔ ایسی صورت میں راہل گاندھی جیسے نا تجربہ کار اور غیر سیاسی شخص کو کانگریس جیسے ڈوبتے جہاز کا کپتان بنایا گیا۔ راہل گاندھی کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ عوامی زندگی سے ان کا کبھی واسطہ ہی نہیں پڑا تھا۔ وہ جانتے ہی نہیں ہے کہ ہندوستانی عوام کی نفسیات اور ان کے حقیقی مسائل کیا ہیں۔ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی ہلاکت کے سبب راہل گاندھی کے تحفظ کی خاطر انہیں بہت ہی محفوظ ماحول میں رکھا گیا جس میں انہیں زیادہ لوگوں سے ملنے نہیں دیا جاتا تھا یہاں تک کہ ان کا سر نیم بھی بدل دیا گیا تھا۔ اس پس منظر کے ساتھ راہل گاندھی کا مقابلہ مودی جیسے عوامی لیڈر سے ہے؟ اگر نتائج موجودہ صورت حال کے برعکس آتے تو شاید تعجب کیا جا سکتا تھا۔
دوسری چیز جو بی جے پی کو ایک مضبوط پارٹی بناتی ہے وہ اس کی تنظیم ہے۔ بی جے پی چونکہ سنگھ پریوار کی ذیلی تنطیم ہے اس لیے وہ بھی سنگھ کی طرح ہی کیڈر بیس پارٹی ہے۔ بی جے پی کی تنظیمی قوت پہلے سے مضبوط تھی لیکن امیت شاہ نے اسے مزید مضبوط کر دیا۔ 2014 میں جس وقت امیت شاہ بی جے پی کے صدر بنے اس وقت پارٹی ممبرس کی تعداد دو کروڑ کے قریب تھی 2019 میں الیکشن سے قبل پارٹی ممبرس کی تعداد گیارہ کروڑ تک پہنچ گئی تھی۔
امیت شاہ نے مختلف طریقوں سے کیڈر کو پارٹی میں زیادہ سرگرم کیا ہے۔ جیسے پنا پرمکھ، جسے ایک پنے یعنی صفحہ پر آگے اور پیچھے سے 30,30ووٹرس کے نام دیے جاتے اور وہ ان ووٹرس سے سال بھر جڑا رہتا۔ اسی طرح ایک پوسٹ لا بھارتی سمپارک پرمکھ کی بنائی گئی جس کا کام حکومتی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والے ووٹرز سےجڑے رہنا ہیں۔ وستارک ایک اور پوسٹ ہے جس کا کام پارٹی کو زمینی سطح پر مضبوط کرنا ہے۔امیت شاہ نے ہر ضلع میں ایک نئی پارٹی آفس قائم کی جس میں جدید ڈیجیٹل مشینیں ہیں۔اسی طرح ملک بھر میں 160 کال سنٹرز بنائے گئے جس سے الیکشن سے ایک سال قبل سے لوگوں کو ایس ایم ایس، وہاٹس اپ مسیجیز اور کال کرکے حکومت کی کامیابیاں اور اسکیموں سے لیے گئے فائدے یاد دلائے جاتے تھے۔ ان کال سنٹرس کا فائدہ بی جی پی کو 2019 الیکشن میں ہوا۔ بی جے پی کی سب سے بڑی قوت اس کے بوتھ ورکرز ہیں۔ ہندوستان میں کل بوتھ دس لاکھ کے قریب ہیں جس میں تقریبا ۸ لاکھ بوتھ ہندو اکثریتی علاقوں میں ہیں۔ ہر بوتھ کے لیے پندرہ سے بیس افراد کی ایک کمیٹی بنائی گئی تھی۔ اس طرح پانچ سے سات بوتھ ملا کر ایک شکتی کیندر بنتا ہے جو ضلعی سطح کے منڈل کو رپورٹ کرتا ہے۔ ہر بوتھ میں ساٹھ لوگوں پر ایک پنا پر مکھ ہوتا ہے۔پنا پر مکھ بوتھ انجارچ کو رپورٹ کرتا ہے۔
بی جے پی کے بالمقابال کانگریس کی سیاسی تنظیم راہل گاندھی نے ایک این جی او کی اسٹائل کی رکھی۔ راہل گاندھی کانگریس کلچر بدلنا چاہتے ہیں جس میں یورپ، امریکہ کی یونیورسٹی کے ٖفارغین کے لیے زیادہ مواقع تھے لیکن اس سیٹ اپ میں کانگریس کے پرانے منجھے ہوئے سیاستدانوں کے لیے کچھ زیادہ جگہ نہیں ہے۔ راہل کی ٹیم زیادہ تر ایسے لوگوں پر مشتمل ہیں جن کا راست سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ لوگ زمین سے جڑے ہوئے نہیں ہیں بلکہ زیادہ تر strategic consultant، منیجمنٹ گرو یا کارپوریٹ اسٹائل کے پلانر ہیں۔ یہ لوگ ملٹی نیشںل کمپنی تو چلا سکتے ہیں لیکن ہندوستانی سیاست ان کے بس کے بات نہیں ہے۔ اس کے برعکس مودی اور شاہ اس طرح کے لوگوں سے پرچار میں تو مدد لیتے ہیں لیکن ان کی پوری پلاننگ گھاگ سیاستدان ہی کرتے ہیں۔
راہل گاندھی کا سارا فوکس پروسس اور سسٹم پر رہتا ہے جبکہ سیاست میں نتائج کی زیادہ اہمیت رہتی ہے۔ راہل گاندھی جاپان کی ٹویوٹا کمپنی کے ماڈل پر کانگریس جیسی قدیم پارٹی چلانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے کئی لوگوں کو جاپان بھیجا کہ تاکہ وہ جائزہ لے کر آئے کہ کہ کس طرح ٹویوٹا کمپنی غلطیوں سے پاک کام کرتی ہے۔ راہل گاندھی یہ بات سمجھنے میں ناکام رہے کہ ایک کمپنی اور سیاسی پارٹی میں فرق ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں، ملٹی نیشنلز کارپوریشنز کی طرح کام نہیں کرتی ہیں۔ کمپنی میں آپ ہزاروں کلو میٹر دور رہ کر بھی چیزوں کو چلا سکتے ہیں لیکن سیاسی پارٹی میں آپ کو ہر وقت میدان میں رہنا پڑتا ہے۔
تیسری چیز جو کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے اہمیت کی حامل ہوتی ہے وہ پارٹی کی آئیڈیالوجی ہوتی ہے۔ کانگریس کی آفیشل آئیڈیالوجی تو سیکولرازم ہے۔ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی ہارڈ کور سیکولرزم میں یقین بھی رکھتے ہیں لیکن یہ بات کانگریس پارٹی کے بارے میں مکمل طور سے درست نہیں ہے۔ سیکولر قدروں سے کانگریس نے بہت پہلے اسّی اور نوّے کی دہائی میں ہی سمجھوتہ کر لیا تھا۔ آج ایک عام کانگریسی ورکر پارٹی آئیڈیالوجی کو لے کر خود کنفیوز ہے تو وہ اس کے لیے قربانیاں کیسے دے سکتا ہے۔ کانگریس کے بالمقابل بی جے پی ہندوتوا کی آئیڈیالوجی کو ڈیولپمنٹ ایجںڈے کے ساتھ بہت کامیابی سے پھیلا رہی ہے۔ بی جے پی کی کمزور طبقات بالخصوص دلت اور آدیواسیوں میں بڑھتی مقبولیت کو عظیم تر ہندوتوا اتحاد کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ جس کا خواب سنگھ اور بی جے پی ایک طویل عرصہ سے دیکھ رہے تھے اور اب وہ شرمندہ تعبیر ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے دین دیال اپادھیائے کو نقل کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی۔ پچاس سال پہلے دین دیال اپادھیائے نے کہا تھا کہ ’’مسلمانوں کی نہ منہ بھرائی کرے اور نہ انہیں چھوڑ دے بلکہ ان کی شدھی کرے۔ مسلمانوں کو نہ ووٹ کی منڈی کا مال سمجھو نہ نفرت انگیز شے بلکہ انہیں اپنا سمجھو۔‘‘ اس بیان میں پیغام بہت واضح تھا کہ مسلمان اب کسی خصوصی مراعات کی امید میں نہ رہے کیونکہ مودی لہر نے پرانی طرز کی کاسٹ، مذہب اور کمیونٹی کی بنیاد پر ووٹ بینک کی سیاست کا خاتمہ کر دیا ہے اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے کے تحت کسی کو بھی خصوصی توجہ نہیں دی جائے گی۔ یعنی اب مسلم ووٹ بینک کی سیاست کا خاتمہ ہو چکا ہے اور ہندوتوا ہی ہندوستان کی غالب آئیڈیالوجی ہے۔
ان بنیادوں پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ کانگریس نے بہت پہلے ہندوستان کی نیشلنسٹ پارٹی کی جگہ خالی کر دی تھی۔
بی جے پی اور کانگریس کے درمیان اس فرق کو واضح کرنے کے لیے ایک ہی مثال ہی کافی ہے۔ 2019 پارلیمنٹ الیکشن میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان 186 سیٹوں پر راست مقابلہ تھا جس میں سے بی جے پی 170 سیٹیں جیتیں اور جیت کا اوسط مارجن 23 فی صد سے زیادہ تھا۔ کانگریس نے اس ملک میں تقریبا 50 سال سے زائد عرصہ حکومت کی ہے لیکن اب کمزور قیادت، بکھری ہوئی تنظیم اور مدھم پڑ چکی آئیڈیالوجی کے سبب کانگریس مر چکی ہے اور فی الوقت اس کے دوبارہ جی اٹھنے کے امکانات کم ہیں۔یہ سوال کہ کیا کانگریس واپسی کر سکتی ہے تو اس کا سادہ جواب تو یہی دیا جا سکتا ہے کہ یہ دنیا امکانات کی دنیا ہے لیکن اس کے لیے کانگریس کو بھرپور لڑائی لڑنی ہوگی۔ اس کے لیے کانگریس کو کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے ہی ماضی سے سبق لینا چاہیے۔ موجودہ صورتحال میں اندرا گاندھی کی زندگی میں کانگریس کے لیے بڑی رہنمائی ہے۔ ایمرجنسی کے بعد ملی شکست کے بعد اندرا گاندھی کی تاریخی واپسی کے پیچھے وہ لڑائی کا جذبہ ہی تھا جس نے انہیں پھر میدان سیاست میں کامیابی دلائی۔ اس کی مثال بہار میں دلت خاندان سے ملنے کے لیے اندراگاندھی نے کیچڑ بھرے راستے کا تین گھنٹے سے زیادہ کا سفر ہاتھی پر بیٹھ کر طے کیا تھا جبکہ ان کی عمر اس وقت ساٹھ سال سے زیادہ تھی۔ لیکن یہی وہ لگن و محنت تھی جس نے اندرا گاندھی کو دو سال بعد پھر سے ہندوستان کا وزیر اعظم بنا دیا تھا۔ اگر کانگریس اسی حوصلے اور جذبے کا مظاہرہ کرتی ہے تو ہندوستانی سیاست میں اس کی واپسی ممکن ہے۔ لیکن موجودہ کانگریس کی صورتحال دیکھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ماضی سے کچھ سیکھنے کے موڈ میں ہے۔
***

ایمرجنسی کے بعد ملی شکست کے بعد اندرا گاندھی کی تاریخی واپسی کے پیچھے وہ لڑائی کا جذبہ ہی تھا جس نے انہیں پھر میدان سیاست میں کامیابی دلائی۔ اس کی مثال بہار میں دلت خاندان سے ملنے کے لیے اندراگاندھی نے کیچڑ بھرے راستے کا تین گھنٹے سے زیادہ کا سفر ہاتھی پر بیٹھ کر طے کیا تھا جبکہ ان کی عمر اس وقت ساٹھ سال سے زیادہ تھی۔ لیکن یہی وہ لگن و محنت تھی جس نے اندرا گاندھی کو دو سال بعد پھر سے ہندوستان کا وزیر اعظم بنا دیا تھا۔ اگر کانگریس اسی حوصلے اور جذبے کا مظاہرہ کرتی ہے تو ہندوستانی سیاست میں اس کی واپسی ممکن ہے لیکن موجودہ کانگریس کی صورتحال دیکھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ماضی سے کچھ سیکھنے کے موڈ میں ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021