اسانغنی مشتاق رفیقیؔ،وانم باڑی
’موت سے خوف نہ کھانے اور تقدیر پر کامل یقین رکھنے والوں کو جب موت کے ڈر کی وجہ سے ویکسن کا انکار کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے تو ہنسی آتی ہے یہ کیسے لوگ ہیں جو بیماری اور علاج کے فرق کو نہیں سمجھ رہے ہیں۔ ان کا ایمان کیا سچ مچ خدا پر اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ وہ انسانو ں کو زندگی اور موت کا مالک سمجھ بیٹھے ہیں۔ جس طرح اونٹ کی رسی کو مضبوط جگہ باندھ کر اللہ سے اس کی حفاظت طلب کر نا توکل ہے اسی طرح بیماری میں ماہرین کی تجویز کردہ دوائی لے کر اللہ سے شفا کی امید رکھنا عین ایمان ہے۔ موت کا خوف اگر کسی کو ویکسین لینے میں مانع ہورہا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کا اس کا ایمان بہت کمزورہے۔‘
موت کا خوف ایک ایسا خوف ہے جو دنیا میں بسنے والے ہر انسان کے دل میںکسی نہ کسی حد تک پایا جاتا ہے۔ لیکن ہم مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ موت سے خوف کھانا ہماری فطرت میں نہیںاور یہ بات سچ بھی ہے ،ہمارے اس دعوے کی دلیل میں تاریخ کے کئی صفحات پیش کئے جاسکتے ہیں لیکن اب وہ بات نہیں رہی۔ یہ دعویٰ صرف زبانی جمع خرچ بن کر رہ گیا ہے۔ موت کا خوف بہت بری طرح ہمارے دلوں پر چھاگیاہے کہ ہم ہر نئی چیز کو اپنے دجود کے خلاف سازش کہہ کر اس سے یا تو فرار اختیار کرلیتے ہیں یا اس کے خلاف نفرت کا بازار گرم کرنے میں لگ جاتے ہیںیہ سمجھے اور جانے بغیر کہ جس چیز سے ہم فرار اختیار کررہے ہیں یا جس چیز کے خلاف افواہیں اور نفرت پھیلا رہے ہیں اس میں ہمیں نقصان پہنچانے کی کوئی سکت ہے بھی کہ نہیں ۔ ہم مسلمانوں میں موت سے اس قدر خوفزدہ ہونے کے بہت سارے عوامل ہیں ۔ سب سے بڑی وجہ دنیا سے والہانہ لگاؤ اور پرستش کی حد تک محبت ہے۔ جس ایمان کی بدولت موت سے بے خوفی پیدا ہوتی تھی وہ ایمان، قرآن و سنت اور غور و فکر سے دوری، اندھی تقلید اور روایت پرستی کی وجہ سے قصہ ء پارینہ بن چکا ہے۔ بظاہر تو ہر طرف دین داری کا چرچا ہے لیکن دین کا مطلوب انسان کہیں نظر نہیں آتا۔ موجودہ دور انسانی تاریخ کے سب سے بڑے بحران کا دور ہے۔ کورونا وائرس نامی وبا کی وجہ سے دنیاکا سارا نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ لگ بھگ دیڑھ سال سے انسانوں کی آبادی اس خطرناک نظر نہ آنے والے وائرس سے بر سرپیکار ہے اور پتہ نہیں کتنے دن یہ جنگ جاری رہے گی۔ لاکھوں انسان اس وبا کی لپیٹ میں آکر ملک عدم سدھار چکے ہیں۔ تالہ بندی کی وجہ سے معیشت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ لیکن ان سے بے پرواہ اپنے حال میں مست ، ہم مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس وبا کو بھی اپنے خلاف ایک سازش بتا کر عجیب عجیب کہانیاں تراشنے میں لگی ہوئی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایسے لوگ جن کا ایمان ہے کہ کائنات کے ہر چیز کا خالق مطلق اللہ ہے، وہ انسانوں کو کسی چیز کا خالق مان رہے ہیں اور اس بات کو بھی جھٹلارہے ہیں کہ صحت اور بیماری سب اللہ کی ہی دین ہے اور اللہ نے کوئی بیماری ایسی نہیں پیدا کی جس کا علاج پہلے ہی سے دنیا میں نہ رکھ دیا ہو لیکن یہ انسانوں پر منحصر ہے کہ وہ کب اور کیسے اس کو تلاش کرتے ہیں۔
کورونا بحران نے جہاں دنیا کے بہت سارے غباروں کی ہوا نکال دی ہے وہیں ہم مسلمانوں کا یہ چہرہ بھی سب کے آگے پیش کر دیا ہے کہ ہم لوگ اپنی اصل سے کتنی دور نکل چکے ہیں۔ کائنات میںغور و فکر اور اس کے سر بستہ رازوں کی تلاش اہل ایمان کے لئے ضروری ہے مگر اس سے اتنی بے پروائی کہ اُس کے انکار کا پہلو نکلے، کیا ایک مومن کی شان ہوسکتی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جیسے ہی انسانوں پر وبا کی یہ افتاد پڑی مسلمان سامنے آتے ، اس کی تحقیق میں لگتے اور اُس کا علاج تلاش کرتے۔ لیکن افسوس صدیاں گذرگئیں، مسلمان اپنا یہ منصب کھو چکے ہیں۔اب کم از کم اتنا تو کر سکتے کہ جو لوگ اس پر تحقیق کر کے اس کا علاج دریافت کر رہے ہیں ان کی تائید میں کھڑے ہوتے ، ان کی تحقیقات کی جانکاری حاصل کر کے ان کی ہمت افزائی کرتے اور اس وبا کو ختم کرنے کی ان کی کوششوں میں ممکن حد تک ان کا ہاتھ بٹاتے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے، اُلٹا، پہلے تو وبا کو ہی ایک سازش بتا کر اس کا مذاق اڑایا گیا ، جو لوگ وبا کو لے کر احتیاط برتنے کی بات کر رہے تھے انہیں تقدیر کا مُنکر گردانا گیا۔ اب ، جب کہ وبا کی شدت میں کئی گناہ اضافہ ہوکر لاکھوں لوگوں کو لقمہء اجل بنتے دیکھا تو بس اتنا بدلاؤ آیا کہ وبا کو وبا ماننے لگے ہیں۔
ٹیکہ لگوانا ، وبائی بیماریوں کو جڑ سے ختم کرنے کا ایک کامیاب اور موثر علاج مانا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پولیو، چیچک وغیرہ موذی بیماریوں کوکیسے ٹیکہ لگوا کر دنیا سے ختم کیاگیا۔ کورونا کے لئے بھی ماہرین نے ٹیکہ لگوانے کو اس سے بچنے کا آخری اور واحد طریقہ قرار دے دیا ہے۔ ایسے میں یہ ضروری ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم اس ٹیکہ لگوانے کے عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں کیونکہ زندگی اللہ کی ایک نعمت ہے اور اس کی حفاظت ہمارا فرض۔ لیکن پتہ نہیں ہمارے نام نہاد دانشوروں کو یہ کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ ٹیکہ کاری بھی درحقیقت مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے اور یوں وہ اپنے لاؤ لشکر سمیت مسلمانوں کو اس سازش سے بچانے کے لئے میدان میں کود پڑتے ہیں۔ ایسی ایسی کہانیاں اور قصے گڑھے جاتے ہیں کہ جن کو پڑھ کر شیطان بھی شرما جائے کہ ’’ہائے، جھوٹ پھیلانے میں، میں بھی ان سے مات کھا گیا ۔‘‘موت سے خوف نہ کھانے اور تقدیر پر کامل یقین رکھنے والوں کو جب موت کے ڈر کی وجہ سے ویکسن کا انکار کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے تو ہنسی آتی ہے یہ کیسے لوگ ہیں جو بیماری اور علاج کے فرق کو نہیں سمجھ پارہے ہیں۔ ان کا ایمان کیا سچ مچ خدا پر اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ وہ انسانو ں کو زندگی اور موت کا مالک سمجھ بیٹھے ہیں۔ جس طرح اونٹ کی رسی کو مضبوط جگہ باندھ کر اللہ سے اس کی حفاظت طلب کر نا توکل ہے اسی طرح بیماری میں ماہرین کی تجویز کردہ دوائی لے کر اللہ سے شفا کی امید رکھنا عین ایمان ہے۔ موت کا خوف اگر کسی کو ویکسین لینے میں مانع ہورہا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کا اس کا ایمان بہت کمزورہے۔
موت کا ایک وقت معین ہے، اس کو جب آنا ہے وہ آکر رہے گی لیکن زندگی کی حفاظت کرنا ہر مومن کا فرض ہے ، کورونا وائرس ایک وبائی بیماری ہے ، جیسے اور بھی بہت ساری وبائی بیماریاں دنیا میں آتی رہی ہیں۔ خالق کائنات نے جیسے ہر بیماری کا علاج اسی کائنات کے اندر پوشیدہ رکھا ہے ویسے ہی اس وبائی بیماری کا علاج بھی موجود ہے جو اس وقت ویکسین کی شکل میں دستیاب ہے۔ بحیثیت اُمت رحمت العالمین ﷺ ہم مسلمان کا فرض ہے کہ ہم ساری انسانیت کو اس وبا سے بچائیں ، اس کے لئے قدرت نے جو راستے مہیا کئے ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے دنیا کے لئے ایک نمونہ بن کر دکھائیں۔ خود بھی ویکسین لیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دے کر اس وبا کودنیا سے ختم کرنے میں اپناکردار ادا کریں۔
مومن کے بارے میں مشہور قول ہے کہ وہ ایک سوراخ سے دوبارہ ڈسا نہیں جاتا۔ وطن عزیز میں آج کل جس قسم کی سیاست چل رہی ہے اس سے یہ بالکل بعید نہیں کہ فاشسٹ طاقتیںویکسین لینے میں ہماری ٹال مٹول اور انکار کو لے کر ایک ایسا ماحول بنا ئےجس سے اکثریت کے دلوں میں ہمارے خلاف نفرت پیدا ہو ، فساد کا ماحول بنے،جیسا کہ پہلے بھی ہوا ہے اور یہ فاشسٹ طاقتیں آنے والے دنوں میں اس کا فائدہ اٹھائیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا سب سے زیادہ نقصان ہمیں ہی اٹھانا پڑے گا۔ اس لئے حالات کو سمجھیں، اللہ پرمکمل توکل کرتے ہوئے ویکسین لگواکر اپنی دو ر اندیشی کا ثبوت دیں۔
***
حال ہی میںٹوئٹر پر ایک پوسٹ نظر سے گذری جس میں ایک برادر وطن کی طرف سے شکایت بھرے لہجے میں کہا گیا تھا کہ عام مسلمان ہی نہیں پڑھے لکھے مسلمان بھی ویکسین لینے سے انکار کر رہے ہیں ، اور غلط باتیں پھیلا رہے ہیں ، ایسا کیوں ہے کہ یہ لوگ ہر چیز کو اپنے خلاف ایک سازش کے طور پر دیکھتے ہیں ، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اور برادروطن نے لکھا کہ حکومت کیوںایسے لوگوں کو جو اس معاملے میں بھی مذہبی بنیاد پرستی دکھاتے ہیں ویکسین پر زور دے رہی ہے ، جو لوگ لے رہے ہیں انہیں لینے دیں اور جو نہیں لے رہے ہیں انہیں بیماری میں مبتلا ہو کر تکلیف اُٹھانے دیں، اس پر پھر تبصرہ کرتے ہوئے پہلے والے برادر وطن نے لکھا کہ ٹھیک ہے جو ویکسین لیں گے وہ محفوظ رہیں گے لیکن اگر یہ نہ لینے والے جو پنکچر اور ترسیل کے شعبوں سے جڑے ہوئے ہیں جن سے ہمارا واسطہ پڑتا رہتا ہے اگر ہمارے گھر آکر ہمارے معمر افراد کویہ بیماری لگا دیں تو۔اس مکالمے سے ایک بات اچھی طرح واضح ہورہی ہے کہ آئندہ جب بھی یہ وبا پھیلے گی ویکسین نہ لینے کی وجہ بتا کر اس کا ٹھیکراکس کے سر پھوڑا جانے والا ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021