’موبوکریسی‘ کے خلاف جنگ کے بجائے لفظ ’ہجوم‘ پر بحث
جھارکھنڈ میں ہجومی تشدد کے خلاف قانون نہیں بن سکا
(دعوت نیوز ڈیسک)
ہجومی تشدد ایک الگ نوعیت کا جرم ہے، اس کے لیے الگ قانون کی ضرورت ہے: سپریم کورٹ
وزارت داخلہ (MHA) نے 2019میں پارلیمنٹ کو مطلع کیا تھا کہ آئی پی سی کے تحت لنچنگ کے واقعات کی کوئی الگ تعریف بیان نہیں کی گئی ہے بلکہ قتل سے متعلق آئی پی سی کی دفعہ 300 اور 302 کے تحت لنچنگ کے واقعات سے نمٹا جا سکتا ہے۔ وہیں 2017یں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) نے ہجومی تشدد، نفرت انگیز جرائم اور گائے کی حفاظت پر ڈیٹا اکٹھا کیا تھا لیکن اسے شائع نہیں کیا گیا کیونکہ ان جرائم کی تعریف متعین نہیں کی گئی ہے۔اب جبکہ ’ہجومی تشدد‘ کی اصطلاحی ولغوی تعریف کرنے سے مرکزی حکومت ہی کترا رہی ہے تو جھارکھنڈ کے گورنر رمیش بیاس کیوں نہ تذبذب کے شکار ہوں؟ لہٰذا انہوں نے جھارکھنڈ (پریوینشن آف ماب وائلنس اینڈ ماب لنچنگ) بل 2021 ریاستی حکومت کو واپس کر دیا ہے۔ اس بل کے کچھ نکات پر اعتراض کرتے ہوئے انہوں نے اس میں ترمیم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ گورنر نے بل کے ہندی اور انگریزی ورژن میں فرق کا بھی حوالہ دیا ہے۔ بل پر قانونی مشورہ لینے کے بعد گورنر نے اسے ریاستی حکومت کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق جھارکھنڈ کے گورنر نے سیکشن (1) کے سیکشن (6) میں دی گئی بھیڑ کی تعریف پر اعتراض کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہجوم کی یہ تعریف طے شدہ قانونی اصطلاحات کے مطابق نہیں ہے۔ دو یا دو سے زیادہ افراد کے گروپ کو پریشان کن بھیڑ نہیں کہا جا سکتا اور یہ کہ ہجوم کے معنی مشتعل لوگوں کے جم غفیر کو مانا جانا چاہیے جو اکثر بے قابو یا پرتشدد ہوتا ہے۔ گورنر نے ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ بھیڑ کی تعریف پر نظر ثانی کرے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ بل کے انگریزی ورژن میں گواہوں کے تحفظ کی اسکیم کا ذکر سیکشن (2) کی ذیلی دفعہ (1) کی ذیلی دفعہ (12) میں کیا گیا ہے۔ جب کہ بل کے ہندی ورژن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
واضح رہے کہ جھارکھنڈ میں ماب وائلنس اور ماب لنچنگ بل 2021 کے قانون بننے پر ماب لنچنگ کے قصوروار پائے جانے والوں کے لیے جرمانے اور جائیداد کی قرقی کے علاوہ تین سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا کا اہتمام کیا گیا ہے۔
جھارکھنڈ میں ماب لنچنگ کے واقعات 2019 میں اس وقت سرخیوں میں آئے جب 24 سالہ تبریز انصاری کو بائیک کی چوری کے شک میں سرائےکیلا کھرساواں ضلع میں بھیڑ نے کھمبے سے باندھ کر اتنا پیٹا کہ ان کی موت ہو گئی.
جھارکھنڈ اسمبلی نے ماب لنچنگ کے معاملوں سے سختی سے نمٹنے کے لیے 21 دسمبر 2021 کو ماب وائلنس اینڈ ماب لنچنگ بل 2021 صوتی ووٹ سے منظور کیا تھا۔ اس بل کو قانون بننے میں گورنر کی مہر لگنی باقی تھی۔
در اصل 2018 میں سپریم کورٹ آف انڈیا کی تین ججوں کی بینچ نے تحسین پونا والا کی پٹیشن پر فیصلہ سناتے ہوئے ماب لنچنگ کو ’موبوکریسی‘ کہا تھا اور بتایا تھا کہ ہجومی تشدد ایک الگ نوعیت کا جرم ہے اور اس کے لیے ایک الگ قانون کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ نے ماب لنچنگ کے واقعات کی روک تھام کے لیے مرکزی وصوبائی حکومتوں کے لیے رہنما اصول یا گائیڈ لائنز پیش کی تھیں، خاص طور سے محکمہ پولیس کی جوابدہی اور ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی گئی تھی، وہیں مروجہ و مستعمل قوانین کا باریکی سے جائزہ لینے کے بعد ایک مخصوص ومفصل قانون بنانے کی پر زور تاکید کی تھی، جس کے بعد 2018 میں منی پور کی حکومت نے سپریم کورٹ کے رہنما اصولوں کی روشنی میں لنچنگ پر اسپیشل قانون پاس کیا۔ 2019 میں راجستھان کی کانگریس حکومت نے بھی لنچنگ پر ایک بل پیش کیا لیکن بتایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن کے کچھ ہی اصول شامل کیے گئے جو کہ محض ایک رسم لگتی ہے۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی حکومت نے 2019 میں صوبائی اسمبلی ہاؤس کے ذریعے ’’دی ویسٹ بنگال پریوینشن آف لنچنگ بل 2019‘‘ پاس کیا۔ جبکہ اتر پردیش میں صوبے کے لا کمیشن چیئرمین جسٹس اے این متل نے 2019 میں 128 صفحات پر مبنی اپنی رپورٹ کے ساتھ مجوزہ بل ’’اتر پردیش کمبیٹنگ آف ماب لنچنگ بل‘‘ بھی یو پی حکومت کے سامنے پیش کیا تاہم ابھی تک یو پی اسمبلی میں یہ بل پیش نہیں ہو سکا ہے۔
قابل غور ہے کہ ’لنچنگ‘ کا لفظ یا اصطلاح قانونی حلقے میں پہلی بار 29 دسمبر 2017میں استعمال ہوا جب راجیہ سبھا میں ملک کے معروف وکیل اور راجیہ سبھا کے ممبر کے ٹی ایس تلسی نے دی پروٹیکشن فرام لنچنگ بل 2017 پیش کیا تھا۔ 2017 میں پیش کیے گئے اس پارلیمانی بل کے ذریعے ملک میں ایک مضبوط اور سخت قانون بنانے کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی لیکن تقریباً پانچ سال گزرنے کے بعد بھی نہ تو اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اور نہ ہی اس پر کوئی بحث ہوئی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ماب لنچنگ یا ہجومی تشدد جیسے جرائم پر ہمارے ملک میں کوئی مفصل اور مخصوص قانون موجود نہیں ہے، ایسے واقعات کی صورت میں ہمارے ملک میں رائج انڈین پینل کوڈ کی
دفعات کا ہی عموماً استعمال ہوتا ہے، لنچنگ یا ہجومی تشدد کا لفظ انڈین پینل کوڈ یا کسی دیگر قانون میں استعمال نہیں ہوا ہے، قتل کے الزام میں آئی پی سی کی دفعہ 302، غیر عمداً قتل کے الزام میں دفعہ 304، قتل کی کوشش کے الزام میں دفعہ307، غیر قانونی اسمبلی یا ہجوم کے الزام میں دفعہ141 اور دفعہ149، چوٹ یا سنگین چوٹ پہنچانے کی صورت میں دفعہ 323 اور 325، کریمنل سازش کے الزام میں دفعہ 120B، دنگا فساد بھڑکانے کے الزام میں دفعہ147، جب کہ خطرناک ہتھیار کے ساتھ فساد بھڑکانے کے الزام میں دفعہ 148 کے تحت ایف آئی آر، ایک مقصد کے ساتھ متحد ہونے پر دفعہ 34 کے تحت مقدمات درج ہوتے ہیں۔ اس طرح سے ’ہجومی تشدد‘ کو عام قانون یا دفعات میں شامل کرنا اس جرم کو ہلکا کرنے کے مترادف ہے۔
جھارکھنڈ میں جب ماب لنچنگ پر سخت قانون بنائے جانے کی بات اٹھتی ہے تو اسے بی جے پی ’اپیزمینٹ‘ (Appeasement) کا نام دے دیتی ہے جس کے جواب میں وزیر اعلی ہیمنت سورین نے کہا کہ بی جے پی لوگوں کو الجھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ صحافیوں کے ساتھ بات چیت کے دوران سورین نے کہا کہ ’’وہ (بی جے پی والے) ایسے دانشور لوگ ہیں جو عام لوگوں کو الجھا رہے ہیں۔ اگر ہم موب لنچنگ ایکٹ کی بات کرتے ہیں تو مجھے بتائیں کہ یہ مسلم لنچنگ ایکٹ ہے یا آدیواسی لنچنگ ایکٹ یا ہندو لنچنگ ایکٹ ہے؟۔ اصل میں ہجوم کا مطلب ہجوم ہی ہوتا ہے‘‘۔
ہر شہری کی جان، مال اور عزت کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اور ہجومی تشدد ہر اعتبار سے بہتر نظم ونسق کے لیے خطرہ ہے۔ ایسے میں جھارکھنڈ کی مثال معاشرے میں کوئی مثبت پیغام نہیں دیتی ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 تا 02 اپریل 2022