منور رانا: ’ضمانت کی ضرورت نہیں جیل میں مرنا پسند‘
مذہبی جذبات بھڑکانے کے الزام میں منور رانا کے خلاف ایف آئی آر درج
دعوت نیوز ڈیسک
کسی شاعر پر کچھ لکھنے سے پہلے اس کی ادبی خدمات پر تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے، اس کی غزلوں، نظموں اور مختلف اقسام کے اشعار کی نوعیت پر تبصرے کیے جاتے ہیں۔ اس کے لب و لہجے کا بغور مطالعہ کیا جاتا ہے لیکن اردو دنیا کے مقبول و معتبر شاعر منور رانا کی بات کچھ الگ ہی ہے۔ منور رانا اپنی شاعری اردو، ہندی اور بنگالی زبانوں میں کر کے شہرت کے بام عروج پر پہنچے ہیں اور حال یہ ہے کہ کبھی کبھی تو وہ اپنی پذیرائی سے ڈرنے بھی لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔
اب مجھے اپنی پذیرائی سے ڈر لگتا ہے
اتنی شہرت ہو تو رسوائی سے ڈر لگتا ہے
لیکن منور رانا اپنے بیانات کے حوالے سے بھی ملک میں کافی سرخیوں میں رہتے ہیں۔ وہ اکثر سلگتے ہوئے موضوعات پر اپنے افکار و خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ معنوں میں یہ اس لیے بھی اچھا ہے کہ ایک معتبر شخصیت ہونے کے ناطے معاشرے سے جڑے مسائل پر اظہار خیال ضرور کرتے رہنا چاہیے حالانکہ کچھ نام نہاد اور مشہور شخصیتیں اپنے آپ کو ان سب جھمیلوں سے بچا کر رکھتے ہیں لیکن منور رانا شاید اس شعر کے مصداق ہوں کہ
میں زندہ ہوں اس لیے کہ میں بول رہا ہوں
دنیا کسی گونگے کی کہانی نہیں لکھتی
دراصل منور رانا نے فرانس میں اہانت رسول کے خلاف ایک استاذ کے قتل پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا تھا انہوں نے کھلے لفظوں میں کہا تھا کہ ’’اگر کوئی میرے والدین کی توہین آمیز کارٹون بناتا ہے تو پھر میں اس کو قتل کردوں گا‘‘۔ بس یہیں سے منور رانا کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ منور رانا نے مزید کہا کہ اگر کوئی دیوی دیوتاؤں کا بھی مذاق اڑاتا ہے تو میں اسے بھی قتل کر دوں گا۔ جبکہ منور رانا نے قتل کی مذمت کی ہے بلکہ انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ ’’کارٹون بنانا برا تھا اور قتل کرنا اس سے بھی زیادہ برا‘‘ لیکن منور رانا کے خلاف لکھنؤ میں واقع حضرت گنج میں یو پی حکومت کی ایما پر ایف آئی آر درج کی گئی جس کے بعد منور رانا نے کہا کہ وہ ضمانت کی عرضی نہیں دیں گے بلکہ جیل میں رہنا پسند کریں گے۔ یہاں پر یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ منور رانا نے قتل کی مذمت کی ہے لیکن اہانت رسولؐ کے خلاف آواز بھی بلند کی ہے۔ انہوں نے توہین آمیز خاکوں پر سوال اٹھائے ہیں۔ پوری دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آخر حضورؐ کرم کی تصویر کیوں بنائی جاتی ہے جس سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے؟ ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو میں منور رانا نے کہا کہ اسلام تو غصے کو پینے کا درس دیتا ہے تو پھر غصے میں قتل کہاں سے جائز ہو جائے گا؟ انہوں نے الزام لگایا گیا کہ کچھ میڈیا چینلوں نے ان کی باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ اس کو اس طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شاید منوررانا یہ کہنا چاہتے ہوں کہ حضورؐ اکرم کا خاکہ بنا کر مسلمانوں کو برانگیختہ کیا جاتا ہے جبکہ مسلمانوں کو صبر سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات بھی صبر کی تلقین کرتی ہیں۔
جیسا کہ لکھا جا چکا ہے کہ منور رانا اکثر اپنے بیانات کی وجہ سے موضوع بحث بنتے ہیں۔ پانچ مئی 2020 کو منور رانا اپنے ٹویٹ میں یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے گزارش کی تھی کہ شراب کی دکان کھولنے کی اجازت کے بعد گوشت کی بھی دکانیں کھولی جانی چاہئیں تاکہ گوشت فروخت کرنے والوں کی روزی روٹی چل سکے۔ 2016میں منور رانا نے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں موجود تلخی کو دور کرنے کی وکالت کرتے ہوئے کہا تھا کہ موسیقی، ادب اور فن کے تبادلے کے ذریعے ہندوستان کو اپنی کھڑکیاں اور دروازے کھلے رکھنے چاہئیں۔ 2015میں منور رانا نے کہا تھا کہ وزیر اعظم مودی کے پاس سچ بتانے والا کوئی شخص ہونا چاہیے۔ صرف خوشامد کرنے والے کبھی کبھی مہلک ثابت ہو تے ہیں۔ رام جنم بھومی اراضی تنازع پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے ملک بھر میں امن و امان برقرار رکھنے کی اپیلیں کی جارہی تھیں۔ اس سلسلہ میں منور رانا کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ملک کی مسلم۔ہندو یکجہتی کے حوالے سے پاکستان میں یہ بیان دیا تھا کہ وہ 80 کروڑ ہندوؤں کی نگرانی میں رہتے ہیں، آج ہندوستان کے ہندوؤں کو یہ ثابت کرنا ہے کہ ان کی نگرانی میں یہاں رہنے والی اقلیتیں محفوظ ہیں۔ بابری مسجد کا فیصلہ آنے کے بعد 12اگست 2020 کو منور رانا نے پی ایم مودی کو خط لکھا تھا کہ حکومت سے ملی زمین یا پھر زبردستی حاصل کی گئی زمین پر مسجد کی تعمیر نہیں ہوتی وہیں انہوں نے رائے بریلی میں دریائے سائی کے قریب بابری مسجد کی تعمیر کے لیے ساڑھے 5 ایکڑ اراضی کی پیش کش بھی کی تھی۔ اکتوبر 2015میں منوررانا اس وقت زیادہ سرخیوں میں آئے تھے جب انہوں نے بھارت کے ناگفتہ بہ حالات پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بطور احتجاج اپنا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ واپس کر دیا تھا اور ایوارڈ واپسی کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’لوگ یہ سمجھتے ہیںکہ یا تو منور رانا ڈر گیا ہے یا بک چکا ہے اگر مجھے بكنا ہوتا تو میں 40برس پہلے بک گیا ہوتا، اب کون میری قیمت لگائے گا۔ میرے لیے یہ ایوارڈ بوجھ بن گیا تھا، بس وہی بوجھ
اتارا ہے۔‘‘
یہ غور کرنے والی بات ہے کہ ایک شاعر جو ہمیشہ مسلم ہندو اتحاد کی بات کرتا ہے، ایک شاعر محبت کے نغمے گاتا ہے وہ بھلا نفرت کا درس کیسے دے سکتا ہے؟ ایک شاعر جو کہ عام انسان سے زیادہ حساس ہوتا ہے اسے اپنے جذبات کو اچھے انداز میں عوام کے سامنے رکھنے کا حق ہے اور منور رانا نے بھی یہی کیا ہے لیکن شاید الفاظ کے انتخاب میں تھوڑی چوک ضرور ہوئی ہے۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020