ملک کے مستقبل کا سوال ہے
اگرعدالت انصاف کرتی توایودھیا میں رام مندر نہیں بنتا چشم دید گواہوں سے ہفت روزہ دعوت کی بات چیت
افروز عالم ساحل
جس منصوبہ بند سانحہ کو ملک کے ماتھے کا کلنک کہا گیا، جس مسجد کی عمارت کی تحفظ کا وعدہ حکومت ہند نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ دے کر کیا تھا، اسی عبادت گاہ کو دن دہاڑے سورج کی روشنی میں لاکھوں کے ہجوم کے درمیان میڈیا کے کیمروں کے سامنے ڈھا دیا گیا۔ اب جب کہ ٣٠؍ ستمبر کو اس معاملے میں پورے ٢٨ سالوں کے انتظار کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تو جج صاحب کا کہنا ہے کہ مسجد کو ملزمین میں سے کسی نے نہیں توڑا۔
انصاف کی گہرائی کا اندازہ اسی سے لگائیے کہ جن لوگوں پر اس مسجد کے انہدام کا الزام تھا، ان کے بارے میں اسپیشل سی بی آئی جج ایس کے یادو صاحب نے صاف صاف کہہ دیا کہ اڈوانی اور جوشی سمیت تمام سینئر رہنماؤں نے ٦ دسمبر ١٩٩٢ کے دن ہجوم کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ جج صاحب یہیں نہیں رکے بلکہ آگے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھ ڈالا کہ وشو ہندو پریشد کے مہان نیتا اشوک سنگھل اس ڈھانچے کو بچانا چاہتے تھے کیونکہ اندر رام کے بت موجود تھے۔ اگر سنگھل آج زندہ ہوتے تو اس نرالی منطق پر یقیناً خوشی سے جھوم اٹھتے۔
اس سانحہ کے بعد مسلمانوں کے یہاں یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ کیا اس ملک میں اقلیت کے لیے عدالتوں سے فیصلے کے پیمانے یہی ہوں گے؟ اسی سوال پر ہفت روزہ دعوت نے ملک کے ان لوگوں سے بات چیت کی جو کسی نہ کسی طور سے بابری مسجد انہدام معاملے کے چشم دید گواہ رہے ہیں یا پھر اس پورے معاملے کو ١٩٩٢ یا اس سے پہلے سے دیکھتے آرہے ہیں۔ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں رام مندر کے صدر پجاری آچاریہ ستیندر داس (٨٣ سال) کہتے ہیں ”عدالت جو کرتی ہے، صحیح کرتی ہے۔ عدالت نے تمام ثبوتوں اور پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ دیا ہے‘‘
کیا آپ کو لگتا ہے کہ ٦ دسمبر ١٩٩٢ کے دن جو کچھ ہوا تھا وہ اچانک ہوا تھا؟ اس سوال پر وہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے کی بات ہے۔ ٦ دسمبر کی تاریخ پہلے سے طے تھی۔ میرے سامنے منچ لگا تھا، لاؤڈ اسپیکر لگا تھا۔ منچ پر اڈوانی، جوشی سمیت تمام لیڈر موجود تھے اور تقریریں کررہے تھے نوجوان پرجوش ہوگئے آگے جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔
وہیں ایودھیا کے سریو کنج رام جانکی مندر کے مہنت یُگل کشور شاستری (٧١ سال) لکھنؤ کی خصوصی عدالت کے اس فیصلے سے کافی ناراض نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب مقدمہ چل رہا ہوتا ہے تو مسلمان سوتا رہتا ہے فیصلہ آنے کے بعد ہی وہ جاگتا ہے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ اس معاملے میں تو گواہ کو ہی خرید لیا گیا “شاستری جی کا الزام ہے کہ بِکنے والوں میں زیادہ تر گواہ مسلمان تھے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ”ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ملک کی عدالتوں میں جج کون لوگ ہیں۔ جب ایک ہی ذات کے لوگ جج ہوں گے تو کیا ہوگا۔ اس ملک میں مسلمان، دلت، آدیواسی اور اوبی سی کو انصاف کبھی نہیں ملے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری عدالتیں انصاف نہیں کر رہی ہیں، اگر نصاف کرتیں تو ایودھیا میں رام مندر نہیں بنتا بلکہ وہاں پھر سے مسجد ہوتی“ واضح ہو کہ یُگل کشور شاستری بھی اس مقدمے میں ایک گواہ تھے۔ بقول ان کے آج سے ١٢ سال پہلے سی بی آئی نے سال ٢٠٠٨ میں ان کی گواہی درج کی تھی۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی گواہی میں کئی ثبوت پیش کی تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٦ دسمبر ١٩٩٢ کے دن جو کچھ ہوا، سازش کے تحت ہوا تھا۔ لیکن فیصلہ میرے گواہی کے بالکل الٹ ہے۔ بابری مسجد کی زمین سے متعلق مقدمے میں مدعی رہے اقبال انصاری اس فیصلے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں ”ہم مسلمان ہیں اور ہم نے ہمیشہ آئین، قانون اور عدالتوں کا احترام کیا ہے، اور آج بھی کریں گے۔ ہم نے اس مسئلے کو ٩ نومبر ٢٠١٩ کو ہی ختم کر دیا تھا جو کچھ ہونا تھا اس دن ہو چکا ہے اب یہ معاملہ یہیں ختم ہو جانا چاہیئے۔ کم سے کم اس بہانے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان اب دراڑ ختم ہو۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں فیض آباد سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی مدھوکر اپادھیائے کا کہنا ہے ’’اس فیصلے پر میں بالکل بھی حیران نہیں ہوں۔ اور اس پر کسی کو حیرانی ہونی بھی نہیں چاہیے۔ ہاں! اس کے الٹ کچھ اس معاملے میں فیصلہ آتا تو حیرانی ضرور ہوتی‘‘
ایسا کیوں؟ اس سوال پر وہ کہتے ہیں کہ ملک میں اس وقت جس طرح کا ماحول ہے یا عدالتیں جس طرح کے فیصلے ان دنوں دے رہی ہیں، اس میں اس طرح کے فیصلوں کی ہی امید کی جا سکتی ہے۔ اس سے الگ کیا فیصلہ ہوسکتا ہے؟
ایودھیا سے نکلنے والے ’جن مورچہ‘ اخبار کی سینئر صحافی سومن گپتا بھی یہی باتیں دہراتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”مجھے کبھی نہیں لگا اس سے الگ کوئی فیصلہ آسکتا ہے بلکہ سچ کہوں تو ٦ دسمبر ١٩٩٢ کو میں نے جو کچھ بھی ایودھیا میں دیکھا تھا پولیس اور انتظامیہ پر سے یقین اسی دن ختم ہو گیا تھا۔ یہ صرف ایک فیصلے کا سوال نہیں ہے بلکہ ملک کے مستقبل کا سوال ہے۔ اور یہ واقعہ دن کی روشنی میں میں پیش آیا، پوری دنیا اس دن کے سچ سے روبرو ہے‘‘
واضح رہے کہ ایک ایف آئی آر سومن گپتا نے بھی درج کرائی تھی۔ ٦ دسمبر ١٩٩٢ کو ان پر بھی حملہ ہوا تھا، ان کے کیمرے اور تمام چیزیں چھین لی گئی تھیں۔ ان کی کہانی کافی زیادہ درد بھری ہے، لیکن سومن اب اس فیصلہ کے بعد ایک برا خواب سمجھ کر بھول جانا چاہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’’جھے کئی بار بلایا گیا اور میں نے اپنی گواہی دی۔ ایک دن میں گواہی کے لیے نہیں جا پائی تو جج نے میرے خلاف وارنٹ جاری کردیا“ پھر کیا ہوا؟ اس پر وہ بتاتی ہیں کہ ”اگلی سماعت میں جج سے معذرت کرتے ہوئے نہ آپانے کی وجہ بتائی تو انہوں نے وارنٹ واپس لے لیا“ سومن مزید کہتی ہیں ’’اب یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ اس فیصلے کے خلاف سی بی آئی کیا کرتی ہے اور باقی لوگ کیا کریں گے۔ عدالتیں ثبوت کے بنیاد پر فیصلہ دیتی ہیں، اگر عدالت کو یہی فیصلہ کرنا تھا، تو پھر ان ثبوتوں کا کیا ہوا، جو گواہوں نے سی بی آئی کو پیش کی تھیں‘‘
بابری مسجد انہدام مقدمے کی سماعت میں ٣٥١ افراد نے گواہی دی تھی، جس میں پولیس افسر، سرکاری عہدیدار اور سینئر صحافی موجود تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کی گواہی کا کیا ہوا؟ کیا تمام عینی شاہدین نے جھوٹ بولا ہے؟ یہاں یہ بھی بتادیں کہ ٢٣٠٠ صفحات کے فیصلے میں کسی بھی میڈیا یا اخبار یا ویڈیو کیسٹ کو بطور ثبوت قبول نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اس پر غور کیا گیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت نے اس سلسلے میں ’جن مورچہ‘ اخبار کے بانی شیتلا سنگھ سے بھی بات کرنے کی کوشش کی، لیکن ان دنوں ان کی طبیعت تھوڑی ناساز ہے، جس کی وجہ سے بات چیت نہیں ہو سکی۔ شیتلا سنگھ کی سال ٢٠١٩ میں ’رام جنم بھومی بابری مسجد کا سچ‘ نامی کتاب فاروس میڈیا نے شائع کی ہے۔
شیتلا سنگھ نے اس کتاب میں متعدد ثبوت پیش کیے ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ٦دسمبر ١٩٩٢ کے دن سب کچھ منصوبہ بند طریقے سے ہوا تھا۔ وہ اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں، ’ ٢٧ نومبر ١٩٩٢ کے دن ہاتھ سے ایک خط لکھا اور اسے وزیر اعظم اور ارجن سنگھ کو ان کی رہائش گاہوں کے فیکس پر بھیج دیا اور فیکس ملنے کی تصدیق بھی کرلی۔ میں نے اس فیکس میں لکھا کہ بابری مسجد کا انہدام یقینی ہے۔ اسے منہدم کرنے کے لیے سامان، اوزار و ہتھیار نئے تعمیر شدہ شیش اوتار مندر میں رکھے گئے ہیں جہاں کارسیوکوں کا پہرا ہے۔ کارسیوکوں کے لیے ٹریننگ کا کام بھی ایکوائر شدہ خطے کے کارسیوک کیمپ میں چل رہا ہے۔ میں نے دوسرے دن بھی فون سے وزیر اعظم اور ارجن سنگھ کو فیکس ملنے کی تصدیق کرلی۔ بتایا گیا کہ اسے متعلقہ لوگوں کو بھیجا جا چکا ہے۔ اس کے بعد ایودھیا میں کیا ہو رہا ہے، خاص تبدیلیوں اور وارداتوں کی اطلاع میری طرف سے انہیں دی جاتی رہی۔۔۔ لیکن وزیر اعظم نے کوئی کارروائی نہیں ہونے دی جس کے نتیجے میں انہدام کا افسوسناک سانحہ ہوا۔
ایودھیا کے غفران خان کہتے ہیں ’’اس فیصلے سے نقصان اس ملک کے اقلیتوں کا نہی ہوا ہے بلکہ اصل میں اس ملک کی عدلیہ اور جمہوریت کا ہوا ہے۔ آنے والے دنوں میں ملک کی اقلیتوں کے لیے عدالتوں سے آنے والے فیصلوں کے پیمانے اگر یہی رہے تو یقیناً ملک کے تمام انصاف پسند باشندوں کا عدالتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھروسہ ختم ہو جائے گا، جو کسی بھی معنی میں اس ملک کے مستقبل کے لیے مناسب نہیں ہے‘‘
شیتلا سنگھ نے اپنی کتاب میں متعدد ثبوت پیش کیے ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ٦دسمبر ١٩٩٢ کے دن سب کچھ منصوبہ بند طریقے سے ہوا تھا۔ وہ اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں، ’ ٢٧ نومبر ١٩٩٢ کے دن ہاتھ سے ایک خط لکھا اور اسے وزیر اعظم اور ارجن سنگھ کو ان کی رہائش گاہوں کے فیکس پر بھیج دیا اور فیکس ملنے کی تصدیق بھی کرلی۔ میں نے اس فیکس میں لکھا کہ بابری مسجد کا انہدام یقینی ہے۔ اسے منہدم کرنے کے لیے سامان، اوزار و ہتھیار نئے تعمیر شدہ شیش اوتار مندر میں رکھے گئے ہیں جہاں کارسیوکوں کا پہرا ہے۔ کارسیوکوں کے لیے ٹریننگ کا کام بھی ایکوائر شدہ خطے کے کارسیوک کیمپ میں چل رہا ہے۔ میں نے دوسرے دن بھی فون سے وزیر اعظم اور ارجن سنگھ کو فیکس ملنے کی تصدیق کرلی۔ بتایا گیا کہ اسے متعلقہ لوگوں کو بھیجا جا چکا ہے۔ اس کے بعد ایودھیا میں کیا ہو رہا ہے، خاص تبدیلیوں اور وارداتوں کی اطلاع میری طرف سے انہیں دی جاتی رہی۔۔۔ لیکن وزیر اعظم نے کوئی کارروائی نہیں ہونے دی جس کے نتیجے میں انہدام کا افسوسناک سانحہ ہوا۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11-17 اکتوبر، 2020