ملک میں بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ 25.6بلین ڈالر کی ریکارڈ اونچائی پر
اسٹاک مارکٹ سے سرمایہ کی نکاسی اور درآمدات میں بے تحاشہ اضافے کے منفی اثرات
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
جون میں درآمدات میں بے حد اضافہ اور برآمدات میں تنزلی نے بھارت کے کاروباری خسارہ کو 25.6بلین ڈالر کی ریکارڈ اونچائی تک پہنچادیا ہے۔ اس ضمن میں حکومت نے کچھ پیش رفت کرتے ہوئے سونے کی درآمدات پر درآمداتی ڈیوٹی بڑھادی ہے جبکہ پٹرولیم برآمدات پر ٹیکس لگایا ہے تاکہ خسارہ کو اعتدال پر رکھا جاسکے۔ فی الحال عالمی شرح نمو میں سستی سے برآمدات پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں مگر درآمدات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس سے آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ ممکن ہے۔ حصص بازار سے سرمایہ کی نکاسی نے معیشت کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ خسارہ سے جاریہ مالی سال میں جی ڈی پی کا 3فیصد کا خسارہ ہوگا جو گزشتہ سال کے مقابلے 1.2فیصد زیادہ ہے۔ اس سے بھارتی کرنسی پر مزید دباو بڑھ جائے گا۔ تازہ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جون 2022میں ہونے والی برآمدات کی سطح میں جون 2021کے مقابلے 48.34فیصد کی بہتری آئی ہے۔ اس دوران فارما سیوٹیکل، انجینئرنگ اور پلاسٹک پیداوار کی برآمدات میں منفی اضافہ درج کیا گیا۔ ڈاٹا سے پتہ چلتا ہے کہ جون میں درآمدات 51فیصد بڑھ کر 63.58ارب ڈالر ہوگئیں ہیں جو جون 2021کے تجارتی خسارہ 19.61ارب امریکی ڈالر تھا۔ اپریل تا جون 2022کی سہ ماہی میں کل برآمدات 22.22فیصد بڑھ کر 116.77بلین امریکی ڈالر ہوگئیں جبکہ اسی مدت میں درآمدات 47.31فیصد بڑھ کر 187.02بلین امریکی ڈالر ہوئیں ۔ جاریہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی خسارہ بڑھ کر 75.25ارب امریکی ڈالر ہوگیا جو گزشتہ سال 31.42ارب امریکی ڈالر تھا کیونکہ جون میں خام تیل کی درآمدات 94فیصد بڑھ 20.73ارب امریکی ڈالر ہوگئی۔ جون 2022میں کوئلہ اور کوک 24.2فیصد کی شرح سے بڑھ کر 6.41بلین امریکی ڈالر ہوگیا ہے کوئلہ کی درآمدات میں اضافہ کی وجہ سے ملک بھر میں کوئلہ کی بھاری قلت ہے۔ جون 2021میں یہ 1.88بلین امریکی ڈالر تھا۔ سونےکی درآمدات 170فیصد بڑھ کر 2.61ارب ڈالر ہوگئی۔ آئی سی آر اے لمیٹیڈ کی چیف اکانومسٹ ادیتی نائر نے اعداد و شمار پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ سونے کی درآمدات میں گراوٹ کے باوجود برآمدات میں ہونے والی تنزلی سے جون میں تجارتی خسارہ تشویشناک حد تک پہنچ گیا ہے گزشتہ سہ ماہی تجارتی خسارہ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ہمیں توقع ہے کہ جاریہ خسارہ مالی سال 2023میں 30بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہوجائے گا جو گزشتہ سال کی اسی سہ ماہی میں 13بلین امریکی ڈالر سے کچھ ہی زیادہ تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2022کے بقیہ مہینوں میں تجارتی خسارہ 20بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہی رہے گا۔ موجودہ میکرو اکنامک حالات میں نجی کھپت اور سرمایہ کاری سرد خانے میں پڑی ہے۔ ملک کی ترقی قرضوں کے بوجھ تلے دب گئی ہے۔ برآمدات سے ضروری گروتھ کو جو اچھال ملتا تھا وہ ممکن نہیں رہا ہے۔ موجودہ کمزور بھارتی کرنسی جو ڈالر کے مقابلے انتہائی کمزور ہوگئی ہے اس نے حالات کو مزید خراب کردیا ہے۔ اس طرح تیل، کھاد اور سونے کی بڑھتی ہوئی گھریلو طلب اور عالمی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے پورے سال درآمداتی بل میں بہت اچھال کا سبب بن رہی ہے۔ دوسری طرف روپے کی قیمت جو گزشتہ ہفتہ 79.37روپے فی ڈالر ہوگئی ہے وہ درآمدات کے اخراجات کو مزید بڑھانے کا باعث ہورہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ روپیہ اکتوبر تا دسمبر میں فی ڈالر 82روپے ہوجانے کا امکان ہے۔
درآمدات میں بے تحاشہ اضافہ بہت خطرناک اشارے دے رہا ہے۔ Goldman Sachsسے لے کر بینک آ ف امریکہ سیکوریٹیز تک آئندہ سال امریکہ میں سستی آنے کے اندیشے ظاہر کررہے ہیں۔ بھارت پر اس کا شاید اثر نہ پڑے کیونکہ بھارت کی اندرونی طلب کافی مضبوط دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ کئی ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی سمجھوتے کا فائدہ ملنے سے برآمدات میں بہتری آسکتی ہے۔ فی الحال ملک میں کور سیکٹرس سے لے کر مینو فیکچرنگ اور خدمات کے شعبہ میں مسلسل بہتری کے آثار ہیں۔ بجلی کی طلب گزشتہ سال کے مقابلے 55000میگا واٹ زیادہ ہے۔ ہوائی جہاز کا کرایہ 2019کے مقابلے دوگنا ہوگیا ہے۔ مئی میں 8صنعتوں کی پیداوار میں گزشتہ سال کے مقابلے 18فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے اور جون میں سیمی کنڈکٹر کی کمی سے متاثر آٹو کی فروخت میں کافی اچھال دیکھا گیا ہے۔ ادھر ماہرین کا ماننا ہے کہ امریکہ اور کچھ ترقی یافتہ ممالک میں سستی آنے پر بھارت کو کچھ فائدہ ہوسکتا ہے۔ بینک آف بڑودہ کے چیف ماہر اقتصادیات مدن سبنویس نے کہا ہے کہ بھارت میں سستی آنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ اگر امریکہ کے ساتھ دوسرے ممالک میں سستی آتی ہے تو زیادہ سے زیادہ برآمدات متاثر ہوں گی۔ عالمی سستی (World Recession) آنے پر مختلف اشیا کی قیمتیں کم ہوں گی جس سے بھارت کی مینو فیچکچرنگ لاگت بھی کم ہوجائے گی۔ نیوز ایجنسی رائٹر کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے چیف نے کہا کہ اپریل 2022کے بعد عالمی معاشی منظر نامہ خراب ہوا ہے۔ اس لیے آئندہ سال سستی کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ ایکزیکٹیو ڈائرکٹر کرسٹیلینا جارجیوا نے کہا کہ آنے والے ہفتوں میں آئی ایم ایف تیسری بار عالمی شرح نمو کے اندازہ کو کم کرے گا۔ اس سے قبل آئی ایم ایف 2022میں معاشی شرح نمو کو تیسری بار عالمی شرح نمو کے اندازہ کے مطابق کم کرسکا۔ آئی ایم ایف نے 2022میں معاشی شرح نمو کو 3.6فیصد رکھا تھا جبکہ 2021میں عالمی معیشت کا شرح نمو 6.1فیصد تھا۔
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گھٹتی ہوئی قیمت ملک میں بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے اور عالمی سستی کے اندیشوں کے درمیان آر بی آئی نے ملک میں غیر ملکی سرمایہ لانے کے اصولوں کو آسان بنادیا ہے ۔ مرکزی بینک نے اس بارے میں اہم قدم اٹھا کر پہلی بار یہ اشارہ دیا ہے کہ غیر ملکی ادارہ جاتی سرمایہ کاروں (ایف آئی آئی) کے ذریعہ مستقبل میں بھی سرمایہ لگائے جانے کی توقع ہے اور اس سے روپے کی قیمت میں مزید گراوٹ آسکتی ہے۔ کیونکہ جاریہ مالی سال ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 4.1فیصد گرا اور اپریل جون کی سہ ماہی میں 61ارب ڈالر کاروباری خسارہ ہوا جبکہ غیر ملکی ایکسچینج ریزرو (Foreign exchange reserves) گھٹ کر 593ارب ڈالر پر آگیا۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 جولائی تا 30 جولائی 2022