ملکی معیشت کو تیزی سے اصلاح کی ضرورت کیوں ہے؟

ٹیکہ اندازی مہم میںسرگرمی معاشی حالات سدھارنے میں معاون ہوگی

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

وزیر اعظم مودی کے نوٹ بندی کے فیصلہ کے بعد ملکی معیشت جو لڑکھڑا گئی اسے پھر سنبھلنے کا موقع نہیں ملا۔ 2016 میں ملکی جی ڈی پی 8.25 فیصد تھی۔ 2017 میں جی ڈی پی گروتھ 7.04 فیصد۔ 2018 میں 6.12 فیصد جبکہ 2019 میں گرکر 4.18 فیصد ہو گئی۔ اس طرح 17-2016 سے ہی ملکی معیشت لڑکھڑاتی ہوئی آرہی تھی۔ مگر 21-2020 میں کورونا کی پہلی لہر اور اس کے بعد جاریہ سال میں دوسری لہر نے کہیں کا نہ چھوڑا اور اب تو 21-2020 میں جی ڈی پی میں منفی 7.3 فیصد کی گراوٹ کے ساتھ چار دہائیوں کی معیشت کی سب سے بڑی تنزلی تھی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ جاریہ مالیہ سال میں اقتصادی زوال کا سلسلہ جاری رہا تو معیشت کو پٹری پر لانا انتہائی مشکل ہو گا۔ حکومت کی طرف سے اصلاحات کی کئی کوششیں کی گئی۔ مگر بہتری ندارد۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ماہرین اقتصادیات کا ماننا ہے کہ معیشت پر کورونا کے اثرات کتنے دنوں باقی رہیں گے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے معیشت کو جو زخم ملا اس کو کورونا وبا کے قہر نے دوبالا کر دیا ہے۔ کیونکہ کورونا کے قہر کو قابو میں کرنے کے لیے حکومت نے جلد بازی میں بغیر منصوبے کے سخت ترین لاک ڈاون کا اعلان کر دیا جس کی وجہ سے چھوٹی بڑی صنعتوں میں کام یکلخت بند ہو گئے۔ زندگی تھم سی گئی۔ کروڑوں لوگ بے روزگار ہو گئے۔ ملک کا بزنس سیکٹر بری طرح متاثر ہوا۔ 21-2020 کی پہلی سہ ماہی میں ملک کی جی ڈی پی تقریباً ایک چوتھائی سکڑ گئی۔ نجی کھپت، طلب اور سرمایہ کاری میں اتنی بڑی تنزلی سے ملک کو پہلے سامنا نہیں ہوا تھا۔ اس دوران حکومت کے اخراجات میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنے اخراجات میں تخفیف کرکے کورونا وبا کو قابو میں کرنے کے لیے موثر لائحہ عمل بنائے۔ مرکزی حکومت میں غلط پالیسیوں کی وجہ سے شروع سے ہی اقتصادی محاذ پر مشکلات سے دوچار رہی ہے مثلاً سرمایہ کاری، نجی ملکیت، طلب، برآمدات وغیرہ شعبے کورونا بحران کے قبل سے ہی سست روی سے دوچار تھے۔ حکومت کو معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے جتنی کوششیں کرنی چاہیے تھیں وہ نہیں کرسکی کیونکہ وہ دیگر غیر ضروری مسائل میں الجھی رہی۔ کبھی بابری مسجد، رام جنم بھومی میں کبھی آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دینے میں۔ کبھی این آر سی اور سی اے اے جیسے مسائل میں بلکہ سب سے بڑھ کر الیکشن لڑنے اور لڑانے میں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے معیشت کی بہتری کے لیے حزب اختلاف کے قائدین اور اقتصادیات کے ماہرین مثلاً پروفیسرگھو رام راجن، پروفیسر ابھیجیت بنرجی، ڈاکٹر منموہن سنگھ اور پروفیسر امرتیہ سین سے مشورے نہیں لیے۔ اسی وجہ سے سینئر کانگریسی لیڈر اور سابق وزیر مالیات پی چدمبرم نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وبا کے ساتھ ہی حکومت کی نا اہلی اور معاشی بد انتظامی نے حالت کو مزید بگاڑ دیا۔ جب کورونا کی لہر دسمبر اور جنوری میں دھیمی پڑنے لگی تو وزیر اعظم مودی نے تال ٹھونک کر کہا کہ ہم نے جس طرح کورونا وبا کو قابو میں کر لیا ہے وہ ساری دنیا کے لیے مثال ہے۔ اس طرح وزیر مالیات سیتارمن اور حکومت کے چیف معاشی مشیر مسٹر سبرامانیم معیشت کو بڑی تیزی سے پٹری پر آنے کی باتیں بار بار کرنے لگے تھے۔ اس وقت حکومت کے پاس دوسری لہر کی تیاری کے لیے کافی مواقع تھے۔ صحت عامہ کی بنیادی ڈھانچہ کی بہتری کے لیے اور معیشت میں تیزی کے لیے خصوصی پیکیج سے مضبوط کرنا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوا یہی وجہ ہے کہ ہماری فی کس جی ڈی پی لڑھکتے ہوئے بنگلہ دیش کے فی کس جی ڈی پی سے بھی کم ہو گئی۔
معیشت کو مہمیز دینے کے لیے آر بی آئی اور مرکزی حکومت نے ضروری اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں بینکوں سے قرض کی حصولیابی میں سہولتوں کی فراہمی بھی شامل ہے۔ نئے کورونا قہر کی دوسری لہر کے دوران آر بی آئی نے نئے ری اسٹرکچرنگ پلان کی نفاذ کی منظوری دی ہے جس سے کوئی بھی کاروباری چھوٹی چھوٹی صنعتوں (MSMES) کو کھڑا کرنے کے لیے 25 کروڑ تک کا قرص بینکوں سے لے سکتا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اب تک بینکوں سے ری اسٹرکچرنگ اسکیم کے تحت کسی قرض نہیں لیے تھے انہیں اب اسٹنڈرڈ اثاثے ادارتی سرمایہ کاروں (foreign institutional investors) نے اپنے 6370 کروڑ کے حصص یکم مئی سے 21 مئی کے درمیان فروخت کیے گئے جبکہ 1926کروڑ روپوں کی سرمایہ کاری بونڈ مارکیٹ میں کی گئی۔ اس طرح FIIS نے 4444 کروڑ روپے کے حصص کو فروخت کیا۔ بڑی تعداد میں لوگ مئی 2020 میں اپنے کام اور روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن کورونا کی پہلی لہر تھی تو ان کروڑوں لوگوں کو 21-2020 کی آخری سہ ماہی میں روزگار ملنا شروع ہو گیا مگر وہ روزگار اپریل 2021 میں ختم بھی ہونا شروع ہوا۔ سنٹر فار اکانومک ڈاٹا اینا لائیسس (سی ای ڈی اے) اور سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے
مطابق شعبہ تعمیر میں روزگار کے مواقع آدھے سے بھی کم ہو گئے۔ پانچ سالوں میں روزگار کے تناسب میں کمی آئی۔ اس شعبہ میں روزگار سالانہ بنیاد پر 32 فیصد کم ہو گئے۔ سی ای ڈی اے اور سی ایم آئی ای کے مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ روزگار بڑی تیزی سے رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن شعبہ میں بھی گھٹ گئے۔ ان دونوں اداروں کے مطالعہ کے مطابق زراعت، کان کنی رئیل اسٹیٹ، کنسٹرکشن، مینو فیکچرنگ، مالیاتی خدمات، غیر مالیاتی خدمات اور انتظامی خدمات وغیرہ جو 99 فیصد روزگار فراہم کرتے ہیں اس میں بھی بڑی کمی درج کی گئی۔ کیمیکل صنعتوں کو چھوڑ کر باقی سب معاون شعبوں میں بہت دنوں سے گراوٹ دیکھی جا رہی ہے۔ یہ وہ شعبہ جات ہیں جن کی جی ڈی پی میں 17 فیصد کی شراکت ہے جہاں 17-2016 میں 5.1 کروڑ ملازمین تھے ان میں 21-2020 میں 46 فیصد بے روزگار ہو گئے۔ اس طرح ان کی تعداد 273 کروڑ ہوتی ہے۔ صرف زراعت کے شعبہ میں 5 سالوں میں روزگار 36 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد ہوا۔ ایک تازہ سروے کے مطابق ہماری مساوی قوت خرید کی حصہ داری 2019 کے 7.09 فیصد سے گھٹ کر 2020 میں 6.66 فیصد رہ گئی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا 2021 میں اس میں بہتری آتی ہے؟ اس لیے عالمی اقتصادیات میں مساوی قوت خرید کے لیے ملک کو منظم اور غیر منظم شعبوں کے اقتصادی حالات کو بہتر بنانے کے لیے بلا تاخیر خصوصی توجہ دینی ہو گی۔
واضح رہے کہ دوسری کورونا لہر کا معاشی اثر 2020 کے مقابلے میں کم ضرور ہوا ہے مگر اس نے معاشی شرح کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا ہے جس سے روزگار کی فراہمی اور معاشی سرگرمیاں بری طرح گراوٹ کی شکار ہوئی ہیں۔ ضروری ہے کہ آج ٹیکہ کاری کے ذریعے کورونا کے قہر کو قابو میں کرنے کے لیے ملک گیر پیمانے پر تیزی سے کام شروع کیا جائے۔ توقع ہے کہ ٹیکہ اندازی مہم سے لوگوں کے دماغ سے کورونا کے جراثیم کے خوف کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ اس سے ملک میں معاشی سرگرمیاں بھی تیز ہو سکیں گی۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک نے بڑی سرعت سے ٹیکہ اندازی کے ذریعہ گزشتہ سال ہی اپنے عوام کو انسانی، نفسیاتی اور معاشی بحران سے نکال لیا ہے۔ اس طرح امریکہ اور چین کی 2021 کے شرح نمو میں بالترتیب 6.4 فیصد اور 8.4 فیصد کی بہتری آئی کیونکہ ان دونوں ممالک نے ویکسینیشن پر بھرپور توجہ دی۔ برطانیہ میں تیزی سے چلائے گئے ٹیکہ اندازی مہم کی بدولت وہاں 62 فیصد لوگوں کو پہلی خوراک اور تقریبا 43 فیصد کو دونوں خوراکیں دی جا چکی ہیں۔ اب ہمارے ملک میں دیر سے ہی سہی مرکزی حکومت نے ویکسینیشن پالیسی کو اکانومک پالیسی مانتے ہوئے بڑی تیزی سے ایمونائزیشن پر عمل آوری شروع کر دی ہے۔ اس مسئلہ پر آئی ایم ایف کے چیف کرسٹلینا جیو رجیو انے اسی ماہ میں کئی خوراکیں فراہم کرنے کا ہدف بنایا ہے تاکہ خریداروں اور سرمایہ کاروں کے اندر اعتماد بحال ہو سکے جو معاشی بحالی کے لیے ضروری ہے۔ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے 12؍ جون کو جی ایس ٹی کونسل نے کورونا کے علاج سے منسلک دواوں اور کئی اشیا پر نافذ جی ایس ٹی کی شرح میں تخفیف کا فیصلہ کیا ہے۔ اب علاج ومعالجہ کے سلسلے میں ہونے والے اخراجات میں اس راحت سے کافی مدد ملے گی۔ مرکز ریاستی حکومتوں کو مفت ویکسین مہیا کرائے گی تاکہ عوام الناس کو مفت ویکسین کے خوراکیں دی جاسکیں۔ یہ مفت ٹیکہ اندازی کا عمل اور ٹیکس میں نرمی ایک خاص مدت کے لیے نہ ہو بلکہ اس وقت تک کے لیے ہو جب تک کورونا کی آنے والی تیسری لہر کے قہر کو مکمل طور سے قابو میں نہ کر لیا جائے۔
***

مرکز ریاستی حکومتوں کو مفت ویکسین مہیا کرائے گی تاکہ عوام الناس کو مفت ویکسین کے خوراکیں دی جاسکیں۔ یہ مفت ٹیکہ اندازی کا عمل اور ٹیکس میں نرمی ایک خاص مدت کے لیے نہ ہو بلکہ اس وقت تک کے لیے ہو جب تک کورونا کی آنے والی تیسری لہر کے قہر کو مکمل طور سے قابو میں نہ کر لیا جائے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 جون تا 26 جون 2021