مقروض مزدور، کاشتکار و قبائیلیوں کی حالت ناگفتہ بہ

کیا کورونا، بندھوا مزدوری کے احیاء کا سبب بن رہا ہے؟ مغربی بنگال سے ایک چشم کشا سروے رپورٹ

سدھیکا تیواری
ترجمہ: آسیہ تنویر

نئی دلی کی ایک سروے رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ مغربی بنگال کے ضلع پورولیہ میں کھیریہ صابر قبیلے کے کسان اپنی فصلیں بیچنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے انہیں سود خوروں کے قرضوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ ایک سروے کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کچھ کاشت کار مقامی تالابوں سے مچھلی کا شکار کرتے ہوئے گزر بسر کر رہے ہیں۔
مغربی بنگال کے خشک سالی سے متاثرہ ضلع پورولیہ کے بورو گاؤں میں رہنے والے 35 سالہ لاکھن صابر کو اپنی دو کنٹل ککڑی کی فصل 900 روپے فی کنٹل پر بیچنا پڑی کیوں کہ منڈی تک پہنچنے کے لیے گاڑیاں دستیاب نہیں تھیں۔ COVID-19 لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس کی فصل کو مارکیٹ تک نہیں لے جایا جا سکتا تھا، جہاں اسے 2000 روپے فی کنٹل سے زیادہ قیمت مل سکتی تھی۔ اس سیزن میں اس کی کل پیداوار آٹھ کنٹل کے لگ بھگ تھی۔ باقی چھ کنٹل کا کوئی خریدار نہیں ملا چنانچہ اسے سڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ وبائی بیماری سے کچھ ہفتے پہلے جب بوائی کا موسم تھا اس نے پرولیا کے بورو گاؤں میں مقامی کوآپریٹو بینک سے بارہ فیصد شرح سود پر 20 ہزار روپے اور مقامی قرض دہندے سے دس ہزار روپے کا قرض لیا تھا۔ صابر نے بتایا کہ مقامی سود خوروں کی شرح سود اتنی زیادہ ہے کہ وہ اکثر پانچ مہینوں میں 80 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
کوویڈ-19 کے سبب ملک گیر تالا بندی کے دوران مغربی بنگال کے ضلع پورولیا میں کھیریہ صابر قبیلے سے تعلق رکھنے والے عدم توجہی کا شکار کسان روز مرہ کی اجرت کے حصول کے لیے جد وجہد کر رہے ہیں۔ براہ راست نقد رقم کی منتقلی، مفت راشن اور سبسیڈی جیسی اسکیمیں جن کا حکومت نے اعلان کیا تھا وہ ان تک بہت زیادہ نہیں پہنچی ہیں۔ جن لوگوں کو حکومت کی طرف سے کچھ مدد ملی ہے وہ ان کے لیے ناکافی ہے۔1871 کے فوجداری قبائلی ایکٹ کے تحت برطانوی دور حکومت میں مراعات یافتہ قبائل کو مجرم قبائل کے طور پر درج کیا گیا تھا۔ ان کی سابقہ مجرم قبائل کی حیثیت کی وجہ سے انہیں بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ عدم توجہی کا شکار قبائل پورے ہندوستان میں بکھرے ہوئے ہیں اور اکثر ایک ریاست سے دوسری ریاست میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور مختلف پیشوں جیسے کاشت کاری، گھریلو کام کاج اور نمک کی تجارت میں مشغول رہتے ہیں۔ بہت سے لوگ شعبدہ بازی، گلیوں کے رقاص، سانپ ودیگر جانوروں کے کھیل اور رسی پر کرتب دکھانے کے بھی کام کرتے ہیں۔
ہندوستان میں پندرہ سو خانہ بدوش اور نیم خانہ بدوش قبائل ہیں ان میں 198 قبیلے حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ رینکے کمیشن کی 2008 کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حکومت کی عدم توجہ کے شکار ان قبائل کو غربت اور پسماندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہندوستان کے سب سے پسماندہ قبیلوں میں سے ایک ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان قبائل کی شرح خواندگی، روزگار اور رہائشی طرزِ زندگی سب سے کم سطح پر ہے۔ ان قبائلیوں کے 89 فیصد شہری رہائشی اور زراعتی زمین سے محروم ہیں۔
سروے کے نتائج
پراکس انڈیا اور نیشنل الائنس گروپ کی جانب سے 4 سے 6 اپریل 2020 کے درمیان کیے گئے اس سروے میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر روز مرہ کی اجرت حاصل کرنے والے دیہاڑی کے مزدور اپنی اجرت وصول نہیں کر پاتے جس کی وجہ دراصل ان کی مقروضیت ہے۔ لاک ڈاؤن کی مدت اور بڑھ جانے کی وجہ سے ان کی اس غیر یقینی صورت حال کے ختم ہونے کے امکانات بھی کم ہو گئے ہیں۔یہ صورت حال ان قبائل کو بندھوا مزدوری کے دور میں دھکیل سکتی ہے۔ حکومتی عدم توجہ کے شکار یہ نیم خانہ بدوش اور خانہ بدوش قبائل (این اے جی- ڈی این ٹی) جو دلی کے باہر کے شہری ہیں ان میں زیادہ تر دیہاتی قبائلیوں کے پاس جن دھن کھاتہ بھی نہیں ہے اور چند قبائلی جن کے پاس کھاتے ہیں ان کو یا تو حکومت کی طرف سے کوئی امدادی رقم ہی نہیں ملی یا پھر اتنی کم کہ اس سے ان کے کنبہ کی پرورش ممکن نہیں ہے۔ حکومت کے دیگر بڑے سماجی فلاح وبہبود کے پروگرام جیسے بزرگ شہریوں، بیواوں اور مختلف اہلیت رکھنے والوں کے لیے ماہانہ پنشن، اُجوالا سکیم (سبسڈی والے گیس سلنڈر) کسان سمان ندھی اسکیم (کاشت کاروں کو 6،000 روپے کی سالانہ ادائیگی) سمیت کئی اسکیموں کے ذریعے غریب خاندانوں کو ریلیف فراہم کرنے کے دوسرے حکومتی اقدامات پروکشتا اسکیم (مغربی بنگال میں لاک ڈاؤن کے دوران دیہاڑی کے مزدوروں کے لیے مالیاتی امداد) یا مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار کی گارنٹی اسکیم (ایم جی این آر ای جی ایس، دیہی علاقوں میں سو دن کے روزگار کی فراہمی کا تیقن) والی تمام حکومتی اسکیمیں بھی ان قبائل کے لیے کسی بڑی رقم کی امداد فراہم نہیں کرتے ہیں۔ "کوویڈ-19 کے دوران پورولیہ کے خانہ بدوش قبائلی مزدوروں کا تجزیاتی مطالعہ” کے عنوان سے ان خاندانوں پر سروے کیا گیا۔معاشرے اور انتظامیہ پر ان قبائلیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام لگاتے ہوئے رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ امدادی اسکیمات کی ان قبائلیوں تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے مقامی کمیونٹی تنظیم کو ایک نوڈل پوائنٹ کے طور پر مقرر کیا جانا چاہیے اور حکومت کو قرضوں کے خاتمے پر غور کرنا چاہیے۔
نیشنل الائنس گروپ برائے ڈی این ٹی نے ان تجاویز کے ساتھ ضلعی حکام سے رابطہ کرنے کے بعد پورولیہ کے ضلعی کلکٹر نے برادری کو ریلیف دینے کے لیے اے ڈی ایم کو نوڈل آفیسر مقرر کیا۔
مقامی شہری ساٹھ سالہ پرشانت رکھشیت نے کہا ’’بدامنی میں اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ بھوک کئی افراد کو چوری کرنے پر مجبور کرتی رہے گی جس سے پوری برادری متاثر ہوگی۔ لنچنگ کا خدشہ بھی بڑھےگا‘‘۔ پرشانت گزشتہ 37 سالوں سے کھیریہ صابر برادری کی بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں اور مغربی بنگال کے پورولیہ میں مغربی بنگال کھیریہ صابر کلیان سمیتی (پی بی کے ایس کے ایس) سے وابستہ ہیں اور اس سروے ٹیم کا بھی ایک حصہ تھے۔
قرض داروں کی تعداد میں اضافہ
سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ بیشتر صابر خاندان روزانہ اجرت کمانے والے دیہاڑی کے مزدور ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی چھ اپریل 2020 تک اجرت نہیں ملی تھی، باوجود اس کے کہ وزیر اعظم کی جانب سے لاک ڈاؤن کے دوران تمام ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کی اپیل کی گئی تھی۔’’ایسا لگتا ہے کہ کہیں بھی ایسا نہیں ہوا ہے‘‘ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ معاہدہ کرنے والے مزدور جو مختلف ریاستوں میں کام کر رہے تھے لاک ڈاؤن کے دوران اپنے دیہات لوٹ گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’’کسی بھی خاندان کے لیے بغیر آمدنی کے زندہ رہنا ممکن نہیں ہے‘‘ کیونکہ ان میں سے بیشتر مزدوروں کی معمولی سی بچت ہوتی ہے اور بہت سے افراد کو پچھلے ہفتے سے اپنی مزدوری بھی نہیں ملی ہے۔ پورولیہ میں رہنے والے اور مغربی بنگال کے ضلع بردھمان میں دیہاڑی مزدوری کے طور پر کام کرنے والی 40 سالہ پلومونی نے بتایا ’’مجھے روزانہ اجرت کے طور پر 220 روپے اور 2 کلو چاول ملتے تھے لیکن اس لاک ڈاؤن کے دوران سب کچھ رک گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو اپنے خاندان کی کفالت میں مشکل پیش آرہی ہے۔کیونکہ اس کی اجرت رک گئی ہے اور دوکان داروں نے مزید قرض پر چیزیں دینا بند کر دیا ہے۔ اس خاتون نے کہا ’’میں ہفتے میں ایک بار راشن سے چاول لے رہی ہوں ، لیکن میرے خاندان کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔‘‘
سروے کے مطابق ان قبائلیوں میں سے ستائیس فیصد افراد لاک ڈاؤن کے دورانیے کی شروعات میں ہی قرض لے چکے ہیں۔ ان تمام قرض داروں کی تقریباً مشترک عام وجہ خوراک خاص طور پر بچوں کے لیے خوراک کی فراہمی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قرض لینے والے نو افراد میں سے کم از کم ایک شخص نے اپنے آجر سے قرض لیا ہوا ہے جس سے مستقبل میں قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں غلامی کے امکانات ظاہر ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ’’غیر یقینی صورت حال ہمیشہ ہی کمزور طبقے کا معاشرتی اور معاشی استحصال کا محرک رہی ہے۔ جس کی وجہ سے انسانی اسمگلنگ، بندھوا مزدوری اور بچہ مزدوری میں اضافہ ہوتا ہے۔
جن خاندانوں نے لیز پر زمین لی ہے انہیں ماہانہ کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ ان کاشت کاروں کے پاس یا تو ان کے قرضوں کی ادائیگی موخر ہوجائی گی جس کی وجہ سے سود میں اضافہ ہوگا یا مقامی ساہوکار سے مزید قرض لینا پڑے گا۔ ضلع پورولیہ کے منباجر بلاک کے 52 سالہ کھارو صابر نے بتایا: میں سال میں دو بار ٹماٹر، لوکی، پھلیاں، گوبھی، تربوز وغیرہ سبزیوں کی کاشت کرتا ہوں‘‘۔ اس نے مزید کہا "میں نے اپنی فصلوں پر تقریبا چونسٹھ ہزار روپے خرچ کیے ہیں لیکن اب تک صرف دس ہزار روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔ میں نے حال ہی میں پھلیاں بیچ کر 800 روپے کمائے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ میں سبزیوں کو کس طرح فروخت کروں گا جو پہلے ہی لگائی گئی ہیں اور کٹائی کے لیے تیار ہیں‘‘۔
سروے میں خاص تینتیس افراد کا احاطہ کیا گیا۔ان تینتیس قبائلی افراد میں سے نو افراد یعنی اکیس فیصد خاندانوں میں کم از کم ایک فرد بیمار ہے دوائیوں کے اخراجات میں اضافہ کے باعث ان میں سے سات افراد نے مزید قرض لیا ہے۔امکان ہے آئندہ دو ہفتوں میں قرض خواہوں کا زبردست اضافہ ہو سکتا ہے، جو ایک تشویشناک رجحان ہے۔ کیونکہ یہ قرضے خوراک اور صحت کی نگہداشت کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ قرض خواہوں کی موجودہ بڑھتی ہوئی شرح میں بندھوا مزدوری کے اضافہ کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے جس کی وجہ سے مزدور ساہوکار سے یا قرض دہندگان سے قرض لینے کے لیے رجوع ہوں گے۔ لاک ڈاؤن کے دوران اراضی اور مویشیوں کا نقصان بھی ایک پریشانی کا باعث ہے کیونکہ یہ سب پہلے ہی بیچ دیے گئے یا قرضوں کے لیے رہن رکھے گئے ہیں۔ ان حالات میں انہیں دوبارہ حاصل کرنا مشکل ہے۔ پی بی کے ایس کے ایس سے تعلق رکھنے والے رکھشیت نے کہا ’’صابروں کو حکومت نے پٹہ پر زمین دی تھی جو آہستہ آہستہ ان کے ہاتھوں سے دور ہو جائے گی کیونکہ وہ اس زمین کو غیرقانونی طور پر قرض کے لیے رہن رکھنا چاہتے ہیں‘‘ آمدنی کی کمی سے نمٹنے کے لیے زمین کی فروخت ان کی پریشانیوں میں اضافہ کا باعث ہوگی۔
نیشنل الائنس گروپ کے کنوینر، مائنک سنہا برائے حکومتی عدم توجہی کا شکار خانہ بدوش قبائل (این اے جی۔ ڈی این ٹی) نے کہا ’’سروے کرانے کے بعد مقامی حکام نے کاشت کاروں کو اپنی پیداوار کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کی اجازت دے دی‘‘ لیکن تب تک ککڑی جیسی کئی سبزیوں کی پوری فصل پہلے ہی سڑ چکی تھی۔ کاشت کار کوشش کر رہے ہیں کہ جو کچھ بچا ہے وہ بیچ دیں۔
غذائی عدم تحفظ کا احساس
صابر قبیلے کے لوگ اپنی غذائی ضروریات کی تکمیل کے لیے مچھلی بیچ رہے ہیں۔ چاول اور آٹے جیسی بنیادی اشیاء کو لخریدنے کے لیے وہ یہ مچھلی مقامی تالابوں سے پکڑ کر لاتے ہیں۔ رتناگیری گاؤں کی تیس سالہ رتنا بالی نے بتایا ’’ہمارے راشن کارڈ پر 2 کلو چاول اور 500 گرام دال ملتی ہے لیکن ایک خاندان کے لیے یہ ناکافی ہے‘‘ کچھ خاندانوں کو اس سے بھی کم امداد ملی ہے۔ اگر یہی صورت حال جاری رہی تو صابر قبیلے والے کیا کریں گے؟ اس نے مزید کہا کہ جس صورت حال میں ہم ہیں دوسرے لوگ اس کو نہیں سمجھ سکتے۔
وقت کے ساتھ خوراک کی فراہمی میں اور پریشانی لاحق ہوگی کیوں کہ بیشتر دیہاتی اب بھی پچھلے مہینے کے بچے کھچے راشن سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سروے میں بتایا گیا کہ مغربی بنگال حکومت پبلک ڈسٹریبیوشن سسٹم (PDS) کے ذریعے 78۔8 ملین مستحقین تک رسائی کا دعوی کرتی ہے جب کہ تمام 33 خاندانوں کے پاس پی ڈی ایس کارڈ تھا۔ صرف 2 افراد کو 5 کلو چاول کا اضافی راشن ملا۔ ان میں سے چوبیس خاندان انٹیگریٹڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سروسز (آئی سی ڈی ایس) اسکیم سے مفت اناج کے بھی حق دار ہیں جو حاملہ عورت یا چھ سال سے کم عمر کے بچوں کی موجودگی کے ساتھ منسلک ہے لیکن صرف 17 کنبوں نے مفت اناج وصول کیا ہے۔ آنگن واڑی مراکز کے ذریعہ کھانا حاصل کرنے والے بچے بھی ایک بحران کا شکار ہیں۔ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگرچہ ابھی تک کوئی دیہاتی بھوکا نہیں رہا ہے بیشتر قرضوں کے ذریعہ اپنے انتظام کر چکے ہیں۔ سروے کے انعقاد کے بعد پی ڈی ایس کے تحت چاول کی تقسیم علاقے میں زیادہ سے زیادہ بلاکس تک پھیل گئی لیکن قبائلی لوگوں نے بتایا کہ یہ مقدار ابھی بھی ناکافی ہے کیونکہ بہت سارے ایسے افراد ہیں جن کو ابھی تک راشن نہیں ملا ہے۔
سرکاری امدادی اسکیمیں
سرکاری اسکیمیں جن میں یہ قبائل باقاعدہ اجرت کی عدم موجودگی کی بناء پر اہل ہو سکتے تھے وہ یا تو ان قبائل کی ضروریات کے مطابق نہیں ہیں یا پھر ان اسکیمات کی ان تک رسائی نہیں ہے۔ کئی اسکیمات جن کا اعلان کیا گیا ہے ان اسکیموں تک ان کی رسائی ابھی تک محدود ہے یا نہیں کے برابر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 6 اپریل کے بعد بھی ان قبائل کی حیثیت میں زیادہ فرق نہیں ہوا ہے۔ نائیک سنہا نے کہا، کمزور طبقات کو نقد رقم کی منتقلی ہوئی لیکن ملک بھر میں عدم توجہ کا شکار یہ قبائل غیر رسمی طور پر معیشت کی تنزلی کی طرف گامزن ہیں اور اس لاک ڈاؤن نے انہیں شدید متاثر کیا ہے۔ ان قبیلوں کی اکثریت کے پاس یا تو راشن کارڈ نہیں ہیں یا وہ ان ریاستوں میں نہیں رہتے جہاں یہ کارڈ بنائے گئے تھے کیونکہ وہ نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔کسی بھی طرح سے حکومت کے امدادی پیکیجوں تک ان کی رسائی نہیں ہے۔
مرکزی حکومت نے امدادی اسکیمات کے ضمن میں 26 مارچ 2020 کو ایک اعلان کیا تھا کہ اُجوالا اسکیم کے تحت اگلے تین ماہ تک 80 ملین غریب خاندانوں کو مفت گیس سلنڈر فراہم کیے جائیں گے۔ جب کہ زیادہ تر گاؤں والے اس اسکیم سے نا واقف تھے، لیکن گیارہ خاندان جو اس سروے کا حصہ تھے ان میں سے کسی کو بھی مفت سلنڈر نہیں ملے۔ ان قبائلیوں نے کہا کہ اگر یہ سہولت مل بھی جائے تب بھی ان کے پاس سلنڈروں کو خریدنے کے لیے رقم نہیں ہے۔ نرملا سیتا رامن نے اعلان کیا تھا کہ تقریباً 87 ملین کسان جو پردھان منتری کسان سمان ندھی سے مستفید ہو رہے ہیں اور سالانہ چھ ہزار روپے کے حقدار ہیں، انہیں مزید دو ہزار روپے بطور معاوضہ دیا جائے گا۔ سروے میں احاطہ کیے گئے تنتیس افراد میں سے صرف ایک کو مارچ 2020 تک ایک ہزار روپے کی جزوی رقم ملی تھی، یہاں تک کہ متعدد کسانوں کو ان کی فصلیں خراب ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ منباجر بلاک سے تعلق رکھنے والے 59 سالہ جالندھر نے بتایا "لاک ڈاؤن کے بعد سے ہمیں بہت ساری پریشانیوں کا سامنا ہے یہاں تک کہ ہم نمک اور تیل بھی نہیں خرید پائے ہیں۔ جو لوگ سبزیاں اگاتے ہیں وہ اسے بیچنے کے طریقے ڈھونڈ نہیں پا رہے ہیں۔ ککڑی کی پیداوار پوری طرح سڑ چکی ہے اور اب تربوزوں کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔
وزیر خزانہ نرملا سیتار امن نے مارچ 2020 میں کہا تھا کہ جن دھن اکاؤنٹ رکھنے والی 200 ملین سے زیادہ خواتین کو ہر ماہ 500 روپے دیے جائیں گے۔ اس منصوبے کے مطابق حکومت نے بتایا کہ 22 اپریل 2020 تک 200۔5 ملین خواتین کو یہ رقم تقسیم کی گئی تھی جب کہ ان قبائلی خواتین میں سے صرف ایک نے رقم وصول کی تھی مابقی خواتین کو ابھی تک کچھ نہیں ملا تھا۔ مرکز نے مارچ 2020 میں اعلان کیا تھا کہ قومی سماجی تعاون پروگرام کے تحت 29۔8 ملین بیواوں، بزرگ شہریوں اور مختلف اہلیت رکھنے والوں کو دی جانے والی پنشن کو تین ماہ کے لیے ایڈوانس پنشن اور ایک ہزار روپیوں کی مزید رقم دی جائے گی۔ تاہم سروے میں پتا چلا ہے کہ اس اسکیم کے تحت اہل 13 خاندانوں میں سے صرف 11 افراد کو اس ماہ کے لیے پنشن ملی ہے باقی کوئی ایڈوانس ملنے کا یقین نہیں ہے، اور نہ کسی بھی خاندان کو کوئی مزید رقم موصول ہوئی ہے۔ دریں اثنا مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ کے ذریعہ شروع کی گئی ’پروکشیتا‘ اسکیم 33 افراد میں سے کسی تک نہیں پہنچی ہے۔ اس اسکیم کے تحت لاک ڈاؤن کے دوران دیہاڑی مزدوروں کو ایک ہزار روپے ماہانہ کی امداد دی جانی تھی۔ تقریبا 32 خاندانوں کے پاس جن کے پاس ایم جی این آر جی ایس کے تحت جاب کارڈ ہیں پھر بھی پچھلے کچھ مہینوں میں کسی کو بھی رقم کی ادائیگی یا کوئی ملازمت نہیں ملی ہے۔ مرکز نے اعلان کیا تھا کہ ہر کارکن کو 2 ہزار روپے کی سالانہ اضافی اجرت ملے گی اور گزشتہ مہینوں کی باقی اجرت کی تقسیم کے لیے بھی فنڈز جاری کیے جائیں گے۔ تاہم سروے میں کہا گیا کہ گاؤں کے کسی بھی فرد کو ابھی تک اس اعلان سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔
***
www.indiaspend.com

سروے میں پتا چلا ہے کہ اس اسکیم کے تحت اہل 13 خاندانوں میں سے صرف 11 افراد کو اس ماہ کے لیے پنشن ملی ہے باقی کوئی ایڈوانس ملنے کا یقین نہیں ہے، اور نہ کسی بھی خاندان کو کوئی مزید رقم موصول ہوئی ہے۔ دریں اثنا مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ کے ذریعہ شروع کی گئی ‘‘پروکشیتا’’اسکیم 33 افراد میں سے کسی تک نہیں پہنچی ہے۔ اس اسکیم کے تحت لاک ڈاؤن کے دوران دیہاڑی مزدوروں کو ایک ہزار روپے ماہانہ کی امداد دی جانی تھی۔