مفسرین ومترجمین قرآن کا تعارف سیریز- 6 ’مواہب الرحمٰن ‘اپنے دور کی آسان وعام فہم تفسیر

مولاناسید امیرعلی کا گراں قدر کارنامہ ۔مفسرین کرام کی آراء کو بکثرت پیش کیا گیا

ڈاکٹر سید وہاج الدین ہاشمی

 

مولانا سید امیر علی ملیح آبادی کی پیدائش جنگ آزادی کے ہنگامہ خیز دور میں لکھنؤ سے کچھ فاصلے پر ملیح آباد میں ۱۸۵۸ء میں ہوئی۔ چونکہ آپ بچپن ہی میں والدین کے سایے سے محروم ہو گئے تھے اس لیے آپ کی چچا زاد بہن نے آپ کی پرورش کی۔ ابتدائی تعلیم ملیح آباد کے اردو مدرسہ میں حاصل کی۔ انہوں نے جن اساتذہ عصر سے اکتساب علم کیا ان میں قاضی بشیر الدین قنوجی، سید نذیر حسین محدث دہلوی اور شیخ حسین بن محسن یمانی کے نام نمایاں ہیں۔رسمی تعلیم کی تکمیل کے بعد مطبع نول کشور، لکھنو میں پچاس روپے ماہوار پر علمی خدمت پر مامور ہوئے۔ مولانا نے مطبع کے لیے کتابیں بھی لکھیں، ترجمے بھی کیے اور تصحیح و تدوین کا فریضہ بھی انجام دیا۔ مولانا کی تقریباً تمام کتابیں مطبع نول کشور سے طبع ہوئیں۔
مولانا سید امیر علی پہلے اردو داں منشی اور بہرائچ کے کسی ڈاک خانے میں پوسٹ ماسٹر تھے۔ اس وقت ان کی عمر ۱۸-۱۹ برس کی تھی، علم دین سے بالکل بے بہرہ تھے، تاہم صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے۔ ایک دن ایسا اتفاق پیش آیا کہ جس وقت یہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد گئے ہوئے تھے، کوئی افسر ڈاک خانہ دیکھنے آ پہنچا، پوسٹ ماسٹر کو غیر حاضر پاکر بہت نا خوش ہوا، کسی ڈاکیے نے دوڑ کر انہیں مسجد میں خبر دی، یہ وضو کر رہے تھے مگر انہوں نے کوئی پروا نہیں کی اطمینان سے نماز ختم کر کے واپس آئے۔ افسر نے اعتراض کیا، انہوں نے معذرت بھی نہیں کی بلکہ استعفیٰ داخل کر کے ملازمت سے علیحدہ ہو گئے۔ مولانا فرماتے تھے اس واقعہ کا مجھ پر بڑا اثر پڑا، میرا خاندان اگرچہ غربت میں مبتلا تھا، تاہم ملازمت چھوٹنے اور ذریعہ رزق سے محروم ہو جانے پر کوئی افسوس نہیں ہوا البتہ یہ خیال کرکے میری حسرت بے حساب تھی کہ جس دین کی پابندی پر میری نوکری گئی، اس سے بالکل جاہل ہوں، ٹکریں لگانا جانتا ہوں، مگر نماز کی حقیقت اور قرآن کے فہم سے بے بہرہ ہوں۔ اس خیال نے انہیں عربی اور دینی علوم کی تحصیل پر آمادہ کیا۔
‏(۱) مولانا امیر علی اردو زبان کی ضخیم ترین تفیسر کے مولف، فقہ حنفی کی اہم ترین کتابوں ’’ہدایہ‘‘ اور ’’فتاوی عالمگیری‘‘ کے مترجم تھے۔ ’’مدرسہ عالیہ‘‘ کلکتہ اور ’’ندوۃ العلما‘‘ لکھنو جیسی مرکزی درس گاہوں میں صدر مدرس کے منصب پر فائز ہوئے۔ مطبع نول کشور کی ملازمت سے پنشن لے کر مولانا سبکدوش ہونے کے بعد ’’مدرسہ عالیہ‘‘ کلکتہ کے منتظمین نے انہیں مدرسہ میں تدریس کے لیے بلایا اور مولانا وہاں تشریف لے گئے۔ ۱۹۱۵ میں مولانا امیر علی کے شاگرد مولانا حکیم عبد الحیی حسنی (والد محترم مولانا ابوالحسن ندوی) ندوۃ العلما کے ناظم بنے تو انہوں نے باصرار مولانا کو ندوہ صدر مدرس کی حیثیت سے بلایا۔ مدرسہ عالیہ سرکاری مدرسہ تھا یہاں مولانا کا مشاہرہ بھی ان کے شایان تھا مگر مولانا نے ایثار وقربانی کا نمونہ پیش کرتے ہوئے اس سے کہیں قلیل مشاہرے پر ندوۃ العلما جانا گوارا کرلیا۔ کچھ عرصہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں بھی درس وتدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ ندوۃ العلماء سے مولانا کی وابستگی تین برس سے کچھ زائد رہی کہ ۱۹۱۹ء کو برصغیر کے اس عظیم مفسر، بلند پایہ محدث اور ماہر علم رجال نے داعی اجل کو لبیک کہا۔
تفسیر مواہب الرحمٰن مولانا کا عظیم الشان کارنامہ ہے۔ تقریباً نو ہزار صفحات پر مشتمل مولانا موصوف کی یہ تفسیر ۱۸۹۶ء سے ۱۹۰۲ء تک نول کشور پریس لکھنو سے شائع ہوتی رہی۔ اس مطبع نے اسے دو مرتبہ شائع کیا۔ اس کی آخری اشاعت ۱۹۳۱ء میں ہوئی اس کے بعد ایک لمبی مدت تک یہ تفسیر نایاب رہی۔ پھر جنوری ۱۹۷۷ء میں مکتبہ رشیدیہ لمیٹڈ، لاہور نے اسے شائع کیا۔ اولاً یہ تفسیر قرآن مجید کے تیس پاروں کی تیس جلدوں میں شائع ہوئی تھی پھر اسے دس ضخیم جلدوں میں شائع کیا گیا۔ گیارہویں جلد جسے جناب محمد خواص خان صاحب ضلع مانسہرہ نے مرتب کیا ہے تقریباً بارہ سو صفحات پر مشتمل ہے جس میں تفسیر کے مضامین اور مسائل و احکام کی جامع فہرست تیار کی گئی ہے گویا یہ تفسیر کا انسائیکلو پیڈیا ہے۔ اس تفسیر میں مولانا نے تحت اللفظی ترجمہ کیا ہے۔ مولانا کی اس تفسیر کو اردو زبان کی تفسيروں میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اسے جامع البیان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ علماء اور محققین کے درمیان بہت مشہور تفسیر ہے۔ تفسیر کا انداز بیان سمجھانے والا اور آسان ہے۔ ہر سورہ کی ابتدا میں تفصیل سے احادیث کے حوالوں اور صوفیاء کے اقوال کے ساتھ اس سورہ کے فضائل بیان فرماتے ہیں۔ ہر آیت کا ترجمہ اسی کے نیچے دیا گیا ہے اور اس کی تفسیر صفحہ کے نیچے محققانہ انداز میں پوری وضاحت کے ساتھ دی گئی ہے۔ آیت یا سورہ کی شان نزول کو پوری تشریح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ زبان میں سادگی اور سلاست کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ ضرورت پڑنے پر پورے صفحے کا حاشیہ لگا دیا گیا ہے۔ غرض کہیں پر بھی شان نزول یا آیت کے سیاق و سباق کو بیان کرنے میں کوتاہی کی گنجائش نہیں چھوڑی گئی ہے۔
تفسیر مواہب الرحمن کی تالیف کا سبب مالک مطبع نول کشور کی فرمائش بتایا جاتا ہے لیکن اس کی تالیف کا ایک اہم سبب باطل اور گمراہ فرقہ کی تردید اور مسلمانان برصغیر کے کم تعلیم یافتہ طبقہ کی اصلاح اور انہیں تجدد پسندانہ نظریات سے بچانا تھا جیسا کہ مولانا خود لکھتے ہیں ’’مترجم نے یہ تفسیر اہل السنۃ والجماعۃ کے لیے لکھی ہے اور خصوصاً کم علم مسلمانوں کا لحاظ کر کے ان کے عقائد کو شک وشبہ سے بچانے کے لیے وساوس شیطانی کے رفع کرنے میں بہت کوشش کی تاکہ نیچر، روافض اور خوارج کے اوہام سے بچ جاویں۔‘‘(۲)
چونکہ تفسیر مواہب الرحمٰن، امام ابن کثیر کی تفسیر، تفسیر القرآن العظیم‘ کو بنیاد بنا کر تالیف کی گئی ہے بلکہ اسے اردو میں تفسیر ابن کثیر کی تخلیق نو (Reproduction) بھی کہا گیا ہے۔(۳) اس لیے روایات وآثار کے اس ذخیرے میں جو اسرائیلی روایات نقل ہو کر ہماری تفاسیر کا حصہ بنی ہیں تفسیر مواہب الرحمن میں بھی ان کو نقل کیا گیا ہے۔ ان روایات کو نقل کرنے میں مولف موصوف کی احتیاط و تصدیق اور ان کے متعلق سخت موقف رکھنے کے باوجود چند ایسی روایات بھی اس تفسیر میں نقل ہوگئی ہیں کہ جو معیار تحقیق پر پوری نہیں اترتیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تفسیر مواہب الرحمن جمہور علماء کے مسلک کی بھر پور نمائندگی کرتی ہے۔ مسائل کے ذیل میں آپ نے تمام فقہی مسائل بیان کر دیے ہیں اور تعامل صحابہ، تابعین وتبع تابعین اور آئمہ، مجتدین ومحدثین کے اختلاف کو رحمت قرار دیتے ہیں اور جو لوگ اسے وجہ نزاع قرار دیتے ہیں ان لوگوں کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔(۴)
تفسیر مواہب الرحمٰن کے علاوہ مولانا امیر علی دیگر علمی کارناموں سے بھی علمی حلقوں میں کافی مشہور ومقبول ہیں۔ مولانا نے علامہ برہان الدین المرغینانی کی مشہور فقہی کتاب ’’ہدایہ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’عین الہدایہ‘‘ کے نام سے کیا۔ صحیح بخاری کی شرح ۳۰ جلدوں میں لکھی مگر افسوس اس کی طباعت نہ ہو سکی اور اس کا مسودہ مالکان نول کشور کی ملکیت بتایا جاتا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری کا اردو ترجمہ کیا، التوضیح و التلویح پر ’’التوشیح‘‘ کے عنوان سے حواشی قلمبند کیے۔ یہ کتاب برصغیر کے دینی مدارس کے نصاب میں شامل رہی ہے۔ حافظ ابن حجر العسقلانی کی ’’التقریب التہذیب‘‘ پر ’’تقعیب التقریب‘‘ کے عنوان سے قیمتی حواشی لکھے، دربار اکبری کے عالم ابو الفیض فیضی نے ’’سواطع الالہام‘‘ کے نام سے عربی زبان میں غیر منقوط تفسیر لکھی تھی مطبع نول کشور سے وہ کتاب تصحیح و اہتمام کے ساتھ طبع ہوئی۔ مولانا بھی مصححین میں سے ایک تھے۔ اس کے ساتھ ہی مولانا امیر علی نے اس پر عربی زبان میں غیر منقوط تقریظ لکھی جس سے عربی زبان پر ان کی مہارت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اگرچیکہ تفسیر مواہب الرحٰمن کو مولانا امیر علی نے اس دور کی نہایت ہی سادہ اور عام فہم زبان میں لکھا ہے لیکن چونکہ زبانیں ہر صدی میں ایک نئی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور اس تفسیر کو لکھے ہوئے تقریباً ۹۰ سال کا عرصہ بیت چکا ہے اس کی زبان موجودہ اردو زبان سے کافی مختلف ہوگئی ہے۔ چونکہ یہ تفسیر معلومات کا ایک وسیع ذخیرہ اپنے اندر رکھتی ہے جو صحابہ کرام، تابعین، محدثین و مجتہدین اور آئمہ کے مسلک کو تفصیلی طور پر بیان کرتی ہے جس سے یہ ایک ضخیم اور جامع تفسیر بن جاتی ہے اور بقول ڈاکٹر سید شاہد علی اس میں کل اقوال مفسرین جمع ہیں۔ (۵) لہٰذا اس تفسیر کو جدید زبان کے مطابق ڈھالا جائے اور جدید طرز پر اس کی کتابت واشاعت کی جائے تو ماضی کے تفسیری ذخیروں کو جنہیں ہمارے اسلاف نے بڑی سخت محنت اور جانفشانی کے ساتھ لکھا ہے اسے نہ صرف محفوظ کیا جا سکے گا بلکہ اس سے اردوداں طبقہ اپنے اسلاف کے گراں قدر علمی ذخیرے سے راست طور پر مستفید بھی ہو سکے گا۔
حوالے:
۱۔ نور حبیب اختر،مواہب الرحمن کا تحقیقی مطالعہ۔ ص۔۲۰، شعبہ علوم اسلامیہ ، جامعہ پنجاب ۲۰۰۷ء
۲۔ تفیسر مواہب الرحمن،جلد ۳۰، ص۔ ۸۵۴‏۔
۳۔ نور حبیب اختر،مواہب الرحمن کا تحقیقی مطالعہ۔ ص۔۴۵۷، شعبہ علوم اسلامیہ ، جامعہ پنجاب ۲۰۰۷ء
۴۔ ڈاکٹر سید شاہد علی، اردو تفاسیر بیسویں صدی میں،ص۔۳۸، کتابی دنیا،دہلی، ۲۰۰۹ء
۵۔ ایضاً،ص۔۴۴
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 21 مارچ تا  70 مارچ 2021