آسیہ تنویر، حیدرآباد
مغربی بنگال میں ابھی الیکشن کی تاریخوں کا کوئی اعلان نہیں ہوا ہے۔ انتخابات کے لیے چھ سات ماہ باقی ہیں۔ انتخابی ہلچل کے ساتھ ہی زور وشور سے الزام تراشیوں، بلند وبانگ دعوؤں اور اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ جہاں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ’مشن بنگال‘ کے تحت مغربی بنگال کو فتح کرلینے کا دعویٰ کیا ہے، وہیں ترنمول کانگریس نے بھی اپنی صفوں کو درست کرنا شروع کر دیا ہے۔ جیسا کہ بی جے پی کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اقتدار کے حصول اور اس پر قائم رہنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربے کو استعمال کرتی ہے۔ بنیادی مسائل کے حل اور ترقیاتی منصوبوں پر عمل آوری کے بجائے فرقہ پرستی پر مبنی مذموم بیانات کے ذریعے عوام کے ایک حلقے کو ٹھیس پہنچانا، مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانا کانگریسوں کو اکسانے کے لیے نہرو اور ان کی پالیسیوں کو نشان ملامت بنانا، شہروں کے اردو ناموں کو تبدیل کرنا، ایسے قوانین کے نفاذ کی کوششیں کرتے رہنا جن سے ملک کے اقلیتی شہریوں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں، اکثریتی فرقے کو تمام تر قانونی اور دیگر تحفظات فراہم کرتے ہوئے اپنے ووٹ بینک کو محفوظ کرنا بی جے پی کا خاصہ ہے۔
چنانچہ مغربی بنگال میں بی جے پی ترنمول کانگریس کے کارکنوں کے خلاف اشتعال انگیزی کر رہی ہے اور رد عمل پر خود کو مظلوم اور ستائی ہوئی پارٹی ظاہر کرکے عوام خصوصاً اکثریتی رائے دہندوں کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے پر ریاست کے مختلف مسائل کو نمایاں کرتے ہوئے بی جے پی کے مرکزی قائدین کو مغربی بنگال کے دور افتادہ علاقوں میں جمع کر کے ریلیاں نکالی جارہی ہیں اور ان ریلیوں کے موقع پر بی جے پی قائدین، پولیس احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پولیس سے متصادم ہو کر اپنی لیے ہمدردیاں بٹورنے کا نیا ہتھکنڈا آزما رہے ہیں۔ کہیں سکریٹریٹ میں تو کہیں دفاتر میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کے دوران پولیس یا ترنمول کانگریس کے کارکنوں سے متصادم ہو کر زبردستی مڈبھیڑ کی صورت حال پیدا کی جارہی ہے اور ان نظاروں کو ٹی وی چینلز پر اس طرح بتایا جا رہا ہے گویا کہ ان پر تشدد ہو رہا ہے۔ اس طرح عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ویسے تو وزیر داخلہ امیت شاہ بھی بار بار بنگال کی لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صدر راج کے نفاذ کی بات کرتے ہیں لیکن اب بی جے پی کے قومی صدر پر ہوئے قاتلانہ حملے کے بعد مرکز اور ریاست صاف طور پر اب ایک دوسرے سے متصادم ہوگئے ہیں۔ مرکزی وزارتِ داخلہ کے ذرائع کے مطابق مغربی بنگال کے گورنر کی جانب سے ریاست میں امن و امان کی صورت حال پر ایک رپورٹ موصول ہوئی ہے۔مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے جے پی نڈا پر حملے کو اسپانسرڈ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ترنمول کانگریس کی غلط حکمرانی کی وجہ سے ریاست میں امن و امان کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے۔ دریں اثناء مغربی بنگال کے گورنر جگدیپ دھنکر نے بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا کے قافلے پر حملے کے بعد بنگال میں امن و امان کی صورت حال پر مرکزی حکومت کو رپورٹ بھیجنے کے بعد ممتا بنرجی کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ آگ سے کھیلنا بند کر دیں اور ایسے تبصرے کرنے سے گریز کریں جو قومی تانے بانے کو کمزور کرتے ہوں۔ جگدیپ دھنکر نے کہا ہے کہ راج بھون کے بارے میں چیف منسٹر کا غیر ذمہ دارانہ موقف اس بات کا اشارہ ہے کہ حکمرانی آئین کے مطابق نہیں ہو رہی ہے ۔
دراصل کولکاتا سے متصل ڈائمنڈ ہاربر میں بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا پر حملہ بھی مغربی بنگال میں جاری تشدد کے واقعات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ زیڈ زمرے کی سیکورٹی کے گھیرے میں رہنے والے جے پی نڈا کے قافلے پر حملہ کا واقعہ منظم سازش اور کسی پیشگی منصو بندی کے بغیر نا ممکن ہے۔ چوں کہ نڈا کی سیکورٹی ایجنسیاں اور اس کے اہلکار جنہیں حملہ آوروں پر گولی چلاکر موقع پر ہی ہلاک کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے کیا اتنی کمزور ہو چکی ہیں کہ ایک وی وی آئی پی قافلے کو تحفظ فراہم نہیں کر سکیں۔ ایسے میں بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں اور ترنمول کانگریس کے الزامات بھی سنجیدگی سے غور کیے جانے کے متقاضی ہیں۔ ترنمول کانگریس کے الزامات کی صداقت تو تفتیش کے بعد سامنے آجائے گی لیکن روزانہ کی بنیاد پر مغربی بنگال میں تشدد کے ایسے واقعات پیش آرہے ہیں جن پر کوئی آواز نہیں اٹھتی۔ پہلے اس طرح کے واقعات ترنمول کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کے درمیان پیش آتے تھے، اب بی جے پی نے کمیونسٹ پارٹی کی جگہ لے لی ہے۔
بنگال میں اقتدار کی رسہ کشی کا حال یہ ہو گیا ہے کہ آئے دن بی جے پی یا ترنمول کانگریس کے کسی کارکن پر حملہ ہوتا ہے یا ان میں تصادم ہوتا ہے جس میں جانی نقصانات بھی ہوئے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سیاسی تشدد اور ہنگامہ آرائی میں بی جے پی اور ترنمول کانگریس دونوں جانب سےمرنے والوں میں مسلمانوں ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ مشرقی بنگال کے سلیگوڑی میں پیش آیا جہاں واقع ریاستی حکومت کی منی سکریٹریٹ ”اتر کنیا“ کا گھیراؤ کرنے نکلے بی جے پی کے کارکن کسی طرح پولیس کا گھیراؤ اور رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے سکریٹریٹ میں داخل ہونے والے تھے تب ہی پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے شل برسائے، اس ہنگامہ آرائی میں کئی لوگ زخمی ہوئے جن میں سے بعد میں ایک شخص ہلاک ہوگیا۔ بی جے پی نے الزام لگایا ہے کہ یہ شخص پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوا ہے لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ عقدہ کھلا کہ اس شخص کو کافی قریب سے ٹارگٹ بنا کر شارٹ گن سے گولی ماری گئی جبکہ پولیس اس طرح کے گن استعمال نہیں کرتی۔ ہرچند کہ بی جے پی اپنے الزام پر قائم ہے لیکن حکمراں جماعت نے اسی پوسٹ مارٹم رپورٹ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ بی جے پی ریاست میں انتشار پھیلانے کے لیے اپنے ہی کارکنوں کو ہلاک کر رہی ہے۔ ترنمول کانگریس کا یہ بھی الزام ہے کہ اس ریلی میں مسلح افراد لائے گئے تھے جنہوں نے پہلے ریلی میں افراتفری پھیلائی اور اپنے ہی کارکن کو ہلاک کر کے بنگال کو بدنام کرنے کی سازش کی۔
ریاست میں 34 سال حکومت کرنے والی کمیونسٹ پارٹی اور کانگریس اس منظر نامے میں کہیں نظر نہیں آرہی ہیں۔ ایسے میں ان پارٹیوں کا بس یہی کام باقی رہ گیا ہے کہ آنے والے انتخابات میں صرف ووٹ کاٹیں۔ اسی لیے ممتا بنرجی خود کو یکا وتنہا محسوس کرنے لگی ہیں۔ اسد الدین اویسی کے مغربی بنگال کی سیاست میں داخلے کے باضابطہ اعلان اور پارٹی کے اندرون اٹھتی بغاوتوں اور سازشوں سے پریشان ممتا بنرجی دو محاذوں پر برسرِ پیکار ہیں۔ ریاستی وزیر شوبھیندو ادھیکاری کے استعفی اور ممتا بنرجی کے قریبی رہے مکل رائے کے بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد سے ہی یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھی کہ ترنمول کانگریس کے کئی لیڈر پارٹی چھوڑ سکتے ہیں۔ بنگال اسمبلی الیکشن میں بی جے پی، ترنمول کانگریس سے اپنی پارٹی میں شامل ہونے والے لیڈروں پر اعتماد ظاہر کر رہی ہے جبکہ ممتا بنرجی کے لیے اپنی ہی پارٹی کے لیڈروں کو سنبھال کر رکھنا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔
امیت شاہ اور بی جے پی کے کئی قائدین اقتدار میں آنے کے بعد بنگال میں سب سے پہلے این آر سی اور سی اے اے کے نفاذ کی بات کرتے ہیں تو کبھی جنوری سے ہی این آر سی کو مغربی بنگال میں لاگو کرنے کی بات کرتے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران بی جے پی نے ممتا بنرجی اور ان کے وزراء و قائدین کے خلاف کئی داؤ آزمائے ہیں۔ شاردا اسکام سے لے کر عصمت ریزی کے واقعات تک ہر جگہ ترنمول کانگریس کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سیاست میں اس سے گری ہوئی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ریاست کے گورنر تک کو سیاسی معاملات میں گھسیٹا جا رہا ہے۔پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ ریاست میں صدر راج نافذ ہو۔ گزشتہ چھ ماہ سے جاری سازشی واقعات سے اب یہی لگتا ہے کہ بنگال میں انتخابات پر تشدد اور خونریز ہوسکتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق اس وقت بی جے پی کے ووٹوں کے تناسب میں جو بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے وہ دراصل کمیونسٹ ووٹ ہیں۔ 2014 سے 2019 کے درمیان بی جے پی کے ووٹوں کے تناسب میں ہر حلقے میں اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران کمیونسٹوں کے ووٹوں کے تناسب میں 29.9 سے 7.5 فیصد تک کی گراوٹ آئی ہے جب کہ بی جے پی کے ووٹوں میں 17 فیصد سے 40.2 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔اس تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کا ہر گھٹتا ووٹ بی جے پی کے ووٹوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ اب کوتاہی، تساہلی یا سیاسی مجبوری یا جو بھی کہیے کمیونسٹ پارٹی اپنے قلعے بی جے پی کے حوالے کرتی جا رہی ہیں اور کانگریس اس میں اس کا ساتھ دے رہی ہے۔ دراصل مغربی بنگال میں کوئی بڑا فساد نہیں ہوا ہے اس لیے بی جے پی رائے دہندگان کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو پائی ہے اسی وجہ سے یہاں اس کی شعبدہ بازیاں عروج پر ہیں۔ جے پی نڈا پر حملہ ہو یا گورنر کی مداخلت ہو یا وزارت داخلہ کی جانب سے ریاست میں پھیلی انارکی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہو یہ سب واقعات اسی بات کی دلیل ہیں۔
شمال مشرقی ریاستوں کی سیاست پر بی جے پی کے غلبے کا اثر خصوصاً آسام کے اثرات بھی مغربی بنگال کی سیاست پر پڑ رہے ہیں۔ بی جے پی مقامی پارٹی کی حیثیت سے بہت زیادہ اثر انگیز نہیں ہے لیکن اس کے باوجود عوام کے سامنے ترنمول کانگریس کے متبادل کے طور پر صرف یہی ایک پارٹی بچی ہے۔ 2014 کے انتخابات کے بعد سے اس کے ووٹوں کے تناسب میں 300 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اس کے باوجود بی جے پی جمہوریت کے طریقوں سے عوام میں جانے کے بجائے جارحیت کے طرزِ عمل کو اختیار کر رہی ہے جو ملک میں سیکولرازم، یکجہتی اور جمہوریت کے لیے ایک خطرناک رجحان ہے۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020