معیشت کے کئی شعبے تالہ بندی سے برباد

غربت و فاقہ کشی میں اضافہ۔2023 سے قبل صورتحال میں بہتری کی امید نہیں

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

کورونا کے قہر نے بھارتی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ساتھ ہی اس وبا نے بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع کو بھی ختم کر دیا ہے۔ جو لوگ کام پر ہیں ان کی تنخواہوں میں بڑی حد تک کمی کردی گئی ہے۔ تعلیم اور ٹریننگ کا نظام بھی درہم برہم ہوگیا ہے۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے حالیہ سروے میں 1.89 کروڑ تنخواہ داروں کی نوکریاں چلی گئیں۔ اپریل اور جولائی کے درمیان یہ اندازہ پورے ملک کے 1.74 لاکھ گھروں کے سروے سے لگایا گیا ہے۔ تنخواہ دار افراد جو غیر منظم شعبوں سے جڑے ہوئے تھے ان کا حال بہت ہی برا ہے۔ چھوٹے کاروباری، پھیری لگانے والے، ٹھیلہ والے، رکشا راں، خود روزگار افراد، محنت کش، یومیہ مزدور، تعمیراتی شعبہ میں کام کرنے والے مزدور، گھروں میں کام کرنے والی مددگار عورتوں کی روزی روٹی ختم ہوگئی ہے۔ دوسرا سروے جو ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی محنت کشوں کی تنظیم (آئی ایل او) کے مشترکہ تعاون سے سامنے آیا ہے جس میں 41 لاکھ 15تا24 سال کے نوجوانوں کے بے روزگار ہونے کی رپورٹ درج کی گئی ہے۔ لیبر مارکیٹ کے ماہرین کے مطابق 23-2022 سے پہلے حالات میں بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔ اس کے علاوہ آر بی آئی نے بھی بتایا ہے کہ معیشت میں ریکوری 2021 کے دوسری ششماہی سے ہی شروع ہوسکے گی۔ اس ضمن میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ 2019 سے ہی بے روزگاری میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا تھا۔ گزشتہ سال تک 16کروڑ نوجوان روزگار سے وابستہ نہیں ہو سکے تھے۔ اس وقت بالغوں میں بے روزگاری کی شرح 3 فیصد اور نوجوانوں میں 13.8 فیصد تھی۔ اس کے علاوہ سالانہ ایک کروڑ نوجوان تعلیم اور کام کی تربیت لے کر فارغ ہو رہے ہیں ان کے روزگار کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔ 2022 تک بے روزگار نوجوانوں کی بڑی تعداد ہماری معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی بن جائے گی معیشت میں ریکوری شروع ہونے کے بعد نیا روزگار ملنا مشکل ہو جائے گا جو کام کی ٹریننگ اور تجربہ سے عاری ہوں گے انہیں روزگار نہیں ملے گا۔ اس لیے ایسے حالات میں پرانے تجربہ کار کارکنوں کی ضرورت زیادہ ہوگی۔ اس بھیانک بے روزگاری سے قومی ذرائع و وسائل کا ضیاع بھی بڑے پیمانے پر ہوگا۔ مگر مرکزی حکومت کی توجہ ان مسائل پر بالکل بھی نہیں ہے۔ حکام یہ سمجھتے ہیں کہ ہر شخص اپنی ہنر مندی کو بڑھا کر کامیاب کاروباری اور تاجر بن جائے گا جو کہ محض جادو سے ہی ممکن ہوگا۔ ہماری حکومت کو ان نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی جلد بازی ہے اور نہ ہی اس کے پاس روزگار کی فراہمی کے لیے واضح پالیسی ہے۔ اسی لیے تو حکومت نے انسانی وسائل و ترقی کی وزارت کو ہی ختم کر دیا ہے جس میں تعلیم بھی تھی اور روزگار کے لیے ٹریننگ بھی۔ جب ایسے بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میدان عمل میں نہیں ہو گی تو اسے سیاسی پارٹیاں وقتاً فوقتاً 500 روپیہ دے کر اپنے سیاسی مفاد کی خاطر سیاسی قوت کے حصول اور قبضہ کے لیے استعمال کریں گی۔ فی الوقت ایسے لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کی فوج مذہبی منافرت کے ماحول میں رہتے ہوئے دنگائی بنتی جا رہی ہے۔ ایک مذہبی فرقہ کے خلاف متعصب میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی منافرت اور حکمراں جماعت کے رہنماؤں کی اشتعال انگیزی سے ان کا دل و دماغ مسموم ہو رہا ہے۔ پھر قوم پرستی کا رنگ چڑھا کر ان کے ذہن کو مزید ماؤف کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی کسی غلط پالیسی اور عوام مخالفت حرکتوں پر لوگ سوال نہیں کرتے، اس لیے حکومت یہ سمجھتی ہے کہ سب ٹھیک ٹھاک ہے۔
ایک حالیہ سروے جو مشہور سماجی ادارہ سی ایس ڈی ایس کے ذریعہ منظر عام پر آیا ہے۔ اس میں موزوں سوالات کیے گئے اور تمام معلومات عوام کے درمیان www.gaonconnection.com
پرپوسٹ کردی گئی ہے۔ اس کے حساب سے جون جولائی میں ہوئے سروے سے واضح ہوتا ہے کہ ابھی تک کورونا وبا کی مار گاوؤں تک زیادہ نہیں پہنچی ہے۔ لیکن لاک ڈاون کے سبب دیہی معیشت کو زبردست دھکا لگا ہے۔ محض 5 فیصد خاندانوں کو چھوڑ کر باقی سب کے روزگار پر لاک ڈاؤن کا اثر پڑا ہے اور 44 فیصد کا کام تو بالکل بھی ختم ہوگیا ہے۔ گاوؤں کے تین چوتھائی لوگوں کا کہنا ہے کہ بے روزگاری کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔ تقریباً 40 فیصد کسانوں کو کٹائی اور بوائی میں تاخیر ہوئی اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان زرعی اشیاء کی فروخت میں ہوا ہے۔ نصف سے زیادہ کسانوں کو اپنی فصل دودھ یا پولٹری وغیرہ فروخت کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سروے کے مطابق آدھے دیہی خاندانوں کو کھانے پینے میں کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ منجملہ ایک تہائی خاندانوں کو لاک ڈاؤن کے دوران کئی مرتبہ، 12 فیصد یا 23 فیصد کو پورے دن بھوکا رہنا پڑا ہے یا زمین جائیداد، زیور یا دیگر اشیاء کو فروخت کرنا پڑا ہے۔ دیہی علاقوں میں محض 3 فیصد لوگوں کو راشن ملا جو حکومت کے دیہی علاقوں کے 75فیصد سے کافی کم ہے۔ مڈ ڈے میل یا آنگن واڑی کا راشن محض ایک چوتھائی لوگوں کو ملا۔ اس طرح منریگا سے فائدہ صرف 20 فیصد خاندان ہی اٹھا سکے۔ شہر یا غیر ممالک سے آئے مہاجر مزدوروں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ دو تہائی مزدوروں کا کہنا ہے کہ شہر میں انہیں کھانا نہیں ملا۔ کورونا وبا اور معیشت کی تباہی کی وجہ سے ملک میں زبردست غربت کا اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے حکومت کافی پریشان ہے کہ معیشت میں بہتری اور ازالہ غربت کے لیے کون سے قدم اٹھائے جائیں۔ اس ضمن میں نیتی آیوگ ملک میں غریبی ناپنے کے لیے خود پورٹی انڈیکس بنانےجا رہی ہے۔ اسکا مقصد جی ایم پی آئی کے ساتھ مل کر ریاستوں میں غربت کم کرنا ہے۔ دراصل کورونا کی وجہ سے ملک میں 40 کروڑ کی آبادی کو غربت کو سطح سے نیچے جانے کا خوف ہے۔ حال میں نیتی آیوگ نے حالات میں بہتری کے لیے انٹر منسٹریل میٹنگ رکھی تھی جس میں متعلقہ وزارت کے افسروں سمیت یو اے این ڈی پی بھی موجود رہی۔ میٹنگ میں غربت کو کم کرنے اور متبادل اصلاح پر بھی غور و خوض کیا گیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سال کے اخیر تک انڈیکس کو تیار کرنا اور ریاستوں میں غربت کی حالت میں بہتری لانا ہے۔ اس سے یو اے این ڈی پی ایم بی آئی کے گلوبل رینکنگ میں بھارت کی رینک بھی سدھر گئی۔ فی الوقت 117 ممالک کے گوبل ہنگر انڈیکس میں بھارت 102ویں مقام پر ہے۔ بھارتی پاورٹی انڈیکس کا مقصد صحت، بچوں کی اموات کی شرح میں کمی، غذائیت، تعلیم اور رہن سہن کی حالت کو بہتر کرنا ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے حال ہی میں بھارت سے متعلق اعداد و شمار جاری کیے ہیں ان میں کووڈ 19 کی وجہ سے بھارت میں تقریباً 40 کروڑ محنت کشوں کے غربت کی سطح سے تیزی سے نیچے جانے کے اندیشے کا اظہار کیا گیا ہے۔ سابق آر بی آئی گورنر سی رنگا راجن کی صدارت والی کمیٹی کے مطابق 2014 میں بھارت میں کل 36.3 کروڑ لوگ غریب تھے جو ملک کی پوری آبادی کا تقریباً 29.6 فیصد حصہ بنتا تھا۔ فی الوقت ملک میں غربت کو ٹھیک سے ناپنے کا کوئی اسٹینڈرڈ ہے اور نہ ہی غریبوں کی آبادی کے اعداد و شمار۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے اپنی رپورٹ میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں محنت کش مزدوروں کے ساتھ بہتر سلوک نہیں ہوتا ہے۔ ان لوگوں سے زیادہ کام لے کر مناسب اجرت نہیں دی جاتی۔ لیبر آرگنائزیشن کے مطابق ملک بہت ساری ریاستوں میں مزدوروں کو 176روپیہ ہی اجرت دی جاتی ہے جو موجودہ مہنگائی کے دور میں بہت ہی قلیل ہے۔ کچھ ریاستیں ایسی بھی ہیں جہاں اس سے بھی کم اجرت دی جاتی ہے۔ اس لیے آئی ایل او نے بھارتی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مزدوروں کی کم از کم اجرت 375 روپیہ یومیہ طے کرے جس کی بنیاد جولائی 2018 کے پرائس انڈیکس پر ہونا چاہیے۔ مگر حکومت نے اسے ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ آئی ایل او نے کہا کہ بھارت میں بیروزگاری کی شرح 32 فیصد ہے۔ گزشتہ ماہ وزارت محنت کی طرف سے 1.49 لاکھ لوگوں کو کام کی پیشکش کی گئی مگر 7,700 لوگوں کو ہی نوکری ملی۔ اب لوگ بے روزگاری سے تنگ آکر وزیر اعظم مودی کو ٹویٹ کرکے نوکری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ خود کشی کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ یونیسیف کے مطابق کووڈ-19 سے متعلق خرابی صحت اور انٹیگریٹیڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سرویس (آئی سی ڈی ایس) کے فقدان کی وجہ سے 3 لاکھ بچوں کی بے وقت موت ہوئی ہے خصوصاً روزگار اور آمدنی ختم ہونے کی وجہ سے یہ حادثہ بہت سارے خاندانوں کے ساتھ ہوا ہے۔
ضرورت ہے کہ حکومت ماہرین اقتصادیات کا کہنا مان کر لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ دے۔ جب تک کسانوں اور مزدوروں کے ہاتھ میں پیسہ نہیں دیا جائے گا تب تک معیشت میں بہتری ممکن نہیں ہے۔ جیسا کہ چین اور بنگلہ دیش نے اپنے ملک کی معیشت کی بہتری کے لیے کورونا قہر کے دوران عوام کے ہاتھوں میں پیسے دیے جس کے نتیجے میں ان ممالک کی معیشت بہت جلد پٹری پر آگئی۔ آج ملک کے عوام پیسے کی کمی کی وجہ سے بھوکے مر رہے ہیں۔ جن کے پاس پیسہ ہے وہ اسے موجودہ غیر یقینی حالات کو دیکھتے ہوئے خرچ کرنے سے کترا رہے ہیں۔ دوسری ضرورت ہے کہ ملک سے انسانوں کے درمیان ذات پات اور اونچ نیچ کے نظام کا خاتمہ ہو۔ سب لوگ اپنے آپ کو اللہ کا بندہ اور آدم کی اولاد ہونے کے ناطے آپس میں بھائی بھائی مانیں اور ان کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
***