معیشت میں بہتری کے لیےبازار میں طلب بڑھائی جائے
قرضوں کے ذریعے سے کاروبار کر فروغ دینے کی ضرورت
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ریزرو بینک آف انڈیا نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا وائرس وبا کا اثر لمبے عرصہ تک چلا تو اس سے گھریلو معیشت کی حالت اور بھی خراب اور ابتر ہوسکتی ہے۔ اس قہر سے نمٹنے کے لیے مکمل پابندیوں کے نفاذ سے کاروبار پہلے سے بری طرح متاثر ہوا ہے اور جاریہ مالی سال اور بھی بڑے سکڑاؤ ہونے کا امکان ہے۔ آر بی آئی کے گورنر شکتی کانت داس نے کہا کہ قہر پر جلدی قابو پالیا گیا تو اس کا معیشت پر بہتر اثر پڑے گا۔ امکان ہے کہ دیہی معیشت میں بہتر اصلاح سے مضبوطی آئے گی کیونکہ خریف کی فصل کی بوائی اچھی چل رہی ہے۔ 22-2021 کی پہلی سہ ماہی تک طلب میں آہستہ آہستہ بہتری آئے گی۔ تعمیر کے شعبے میں دوسری سہ ماہی میں طلب بڑھنے کی توقع ہے۔ معیشت میں خریداروں کا اعتماد آر بی آئی کے پچھلے سروے کے وقت سے اور بھی کمزور ہوا ہے۔ معیشت میں اپریل تک مئی نچلی سطح سے اصلاح ہونا شروع ہوگئی تھی لیکن کورونا وبا کے بڑھتے معاملوں کے بعد کئی شہروں میں پھر سے لاک ڈاون لگائے جانے سے تیزی سے بڑھتی معاشی تگ و دو کمزور پڑگئی۔ آر بی آئی کے گورنر نے کہا کہ ملک کے حالات ایسے ہیں کہ جولائی تا ستمبر کی سہ ماہی میں مہنگائی کی شرح اونچی رہ سکتی ہے ۔ فی الوقت یہ 6.09 فیصد ہے۔ کورونا وبا کے تیز رفتاری سے طلب کی راہ میں رکاوٹیں بنی رہیں گی جس سے غذائی اجناس کی قیمتوں میں تیزی دیکھنے کو ملے گی۔ چھ ممبران پر مشتمل مالی پالیسی کمیٹی کے اصولی جائزے کے مطابق ربیع کی زور دار پیداوار ہونے پر اناج کی قیمتیں کم رہ سکتی ہیں۔ خاص کر آئندہ کھلے بازار میں فروخت اور عوامی تقسیم کے تحت خریداری بڑھ جاتی ہے تو یہ ممکن ہے، اس کے باوجود غذائی اجناس کی مہنگائی کا خطرہ بنا رہے گا۔ ایک جائزے کے مطابق جولائی کے دوران عام گھروں میں ابھی بھی لوگ خرچ پر لگام لگائے ہوئے ہیں۔ کووڈ ۱۹ کا اثر بہت گہرا ہے۔ یہ پہلا مالی سال ہے جس کے چار ماہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک کوئی سرکاری ایجنسی سالانہ معیشت کی ترقی کی شرح کا ہدف طے نہیں کرسکی ہے۔ امید تھی کہ جمعرات کو مالی منصوبے کے تجزیہ کے دوران اس کا اعلان آئے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ حالانکہ پہلی بار آر بی آئی نے تسلیم کیا ہے کہ مالی سال21-2020 کے دوران ملکی جی ڈی پی کی شرح نمو منفی رہے گی یعنی معیشت میں سکڑاو کا امکان ہے۔ آر بی آئی سے پہلے عالمی بینک، آئی ایم ایف فیچر، ایس اینڈ پی جیسی ریٹنگ ایجنسیوں کے علاوہ دیگر مالی مشاورتی تنظیموں نے بھی اپنی رپورٹ میں بھارت کی ترقی کی شرح کے صفر سے نیچے رہنے کی بات کہہ چکی ہیں۔ غیر ملکی بروکریج فارم Bofa Securities نے مالی سال 21-2020 میں بھارت کی جی ڈی پی میں 6 فیصد تک سکڑاو کا امکان ظاہر کیا ہے۔ اس کمپنی کے تجزیہ کاروں نے اس سے قبل 4 فیصد کے سکڑاؤ کا امکان ظاہر کیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر کورونا وائرس کے ویکسین کے آنے میں تاخیر ہوتی ہے تو جی ڈی پی سکڑاو 7.5فیصد تک ہوسکتا ہے۔ مذکورہ آر بی آئی کی مالی نشست میں تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر شکتی کانت داس نے معیشت کی تازہ صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جاریہ مالی سال کی پہلی ششماہی میں معیشت کے سکڑاؤ میں رہنے کا شدید امکان ہے اور پورے سال 21-2020 کے لیے جی ڈی پی کی ترقی کی شرح نمو کے منفی رہنے کا اندازہ ہے۔ اگر کورونا وائرس کے وبا پر تیزی سے روک لگا جاتی ہے تو معیشت کے اصلاح کی ترقی کو تیز کی جاسکتی ہے مگر قہر کے پھیلنے، عام مانسون کے خراب ہونے اور عالمی بازار میں غیر یقینی حالات بہت ہی مخدوش ہو سکتے ہیں۔ دیگر ممالک میں بھی طلب کی حالت بہتر نہیں ہے۔ 4 ماہ سے برآمدات میں گراوٹ کا رخ برقرار ہے کئی ممالک میں کووڈ 19 کا اثر توقع سے زیادہ لمبے عرصہ تک ہونے کا امکان ہے اس کا بھی اثر ہوگا۔
ملکی معیشت کا اہم شعبہ، شعبہ خدمت جولائی میں بھی سستی کے دائرے میں رہا۔ ایک ماہانہ جائزے میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کو قابو میں کرنے کے لیے لگائے گئے سخت لاک ڈاؤن کی وجہ سے بازار میں طلب ختم ہوگئی اور کمپنیوں کو اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس کی وجہ سے کمپنیوں نے بھی اپنے ورکرس کی تعداد میں کٹوتی کی ہے۔ آئی ایچ ایس مارکٹنگ انڈیا سروسز بزنس ایکیویٹی انڈیکس جولائی میں معمولی اصلاح کے ساتھ 34.2 پر رہا ہے جبکہ یہ جون میں 33.7 پر تھا۔ اصلاح کے باوجود یہ عدد 50 سے کافی نیچے ہے۔ اتنی زیادہ کمی کا مطلب یہ ہوا کہ جولائی میں بھی سرویس سیکٹر کا حال بے حال ہے اور بازار کو سستی سے نکلنے میں اور بھی کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔ معمولی اصلاح کے باوجود شعبہ خدمت جولائی میں بھی لگاتار پانچویں مہینہ گراوٹ کے دائرے میں ہے۔ آئی ایچ ایس مارکیٹنگ انڈیا سروسز بزنس ایکویٹی انڈیکس یا پرچیزنگ منیجر انڈیکس (پی ایم آئی) کے مطابق اینڈیکس اگر 50 سے نیچے رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ شعبہ میں پیداوار گھٹ گئی ہے یعنی اس سیکٹر میں سستی کا ماحول ہے۔ وہیں اگر انڈیکس 50 سے اوپر ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سیکٹر میں تیزی ہے۔ پی ایم انڈیکس 50 سے جتنا نیچے ہوتا ہے اتنا ہی گراوٹ ظاہر کرتا ہے۔ ماہر معیشت لیوس کوپر نے کہا کہ اتنی زیادہ کمی سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی بھی طرح کی خاص تیزی میں کئی ماہ لگ جائیں گے۔ تازہ جائزے کے مطابق اس کاروباری سال میں ملک کی جی ڈی پی میں 6 فیصد کی کمی آسکتی ہے۔ اسی جائزے کے مطابق کورونا وائرس اور لاک ڈاون کی وجہ سے شعبہ خدمت کی تگ و دو اور آرڈر بکنگ میں بڑی گراوٹ آئی ہے۔ اس سیکٹر میں طلب کم رہنے سے کمپنیوں نے جولائی میں اپنے اسٹاف کی ریکارڈ حد تک کٹوتی کی ہے۔ کاروباریوں نے کہا کہ خریداروں کی طرف سے طلب کم رہنے اور کاروباری لین دین ٹھپ پڑجانے کی وجہ سے ہی اسٹاف کی چھٹی کی گئی ہے۔ آئندہ ۱۲ ماہ کے لیے پیداوار کا آوٹ لک لگاتار و تیسرے ماہ منفی رہا۔ سروس اور مینو فیکچرنگ دونوں شعبوں میں کل ملا کر گراوٹ رہی۔ دونوں سیکٹرس کا حال بتانے والے کمپوزٹ پی ایم آئی آوٹ پٹ انڈیکس جولائی میں 37.2 پر آگیا۔ جون میں یہ 37.8 تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ جولائی میں بھی نجی شعبے کا حال بے حد خراب رہا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی 7 بڑی صنعتوں میں بہت تیزی سے سکڑاؤ ہوا ہے جس میں کوئلہ صنعت (-15.5)فیصد ریفائنری پروڈکٹ میں (-8.9)فیصد، بجلی میں (-14.9) فیصد اسٹیل میں (-33.8) فیصد سمنٹ میں (-21.4)فیصد، کمرشیل انڈسٹری (-25) فیصد منفی درج کی گئی جب کہ صرف کھادکی صنعت میں4.2 فیصد سے 7.5 فیصد کی بہتری آئی ہے۔ جی ایس ٹی میں کم وصولی کی وجہ سے مرکز اور ریاستوں کی پریشانیاں بڑھی ہیں۔
کورونا کے قہر نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ وبا کا حال سدھرتے سدھرتے پھر بگڑ گیا ہے۔ ہمارے ملک کی طرح امریکہ و دیگر یوروپی ممالک کا حال بھی بے حال ہے۔ کورونا وائرس کے اعداد و شمار تو خطرناک رفتار سے بڑھ رہے ہیں ۔ اس کے باوجود لوگ شیئر بازار میں بڑی بے باکی سے پیسے لگارہے ہیں۔ زبردست گراوٹ کے بعد سنسیکس اور نفٹی پھر سے لگاتار اونچائی کی طرف بڑھ رہے ہیں کیونکہ نئے لوگوں کو بتایا جارہا ہے کہ بازار میں زبردست گراوٹ کے بعد پھر تیزی آئی ہے لہٰذا یہی وقت ہے حصص بازار میں پیسے لگانے کا۔ شیئر بازار میں کیش میں جو کاروبار ہورہا ہے وہ اپریل سے جون کی سہ ماہی میں اس کا آدھے سے زیادہ چھوٹے سرمایہ کاروں سے ہی آیا ہے۔ گزشتہ سال 2019 کے مقابلے اس سال اپریل سے جون کے دوران اسٹیل سرمایہ کاروں کے کاروبار میں 78 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ ان لوگوں نے 39 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا کاروبار لین دین کیا ہے۔ بازار کی اس تیزی سے سبھی جوش میں ہیں۔ مگر ریزرو بینک کے گورنر نے بھی فائنانشیل اسٹیبیلٹی رپورٹ میں اس پر فکر مندی کا اظہار کیا ہے کہ بازار اور بازار کے انڈیکس جس طرح چل رہے ہیں ان کا ملک کی معاشی حالت یا حقیقت سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ بینکوں میں ڈوبے قرض دوگنے ہوسکتے ہیں اور اس حال میں پہونچ جائیں گے کہ جہاں دو دہائی میں کبھی نہیں رہے تھے۔ 14 کروڑ نوجوان وزیراعظم کی غلط پالیسی سے بے روزگار ہوئے۔ 6 سالوں میں مودی جی نے قرض خوری کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ دنیا کے 18 ممالک سے 58 بلین ڈالر قرض لیا۔ 2013 میں یہ قرض 409.4 بلین ڈالر تھا او ریہ بڑھ کر 2019 دسمبر تک 558 بلین ڈالر ہوگیا۔ پبلک بینکوں کے فروخت کا معاملہ بھی چل رہا ہے۔ ماہر معاشیات شوبھنا سبرامنیم کہتی ہیں کہ حکومت کو بڑے مقاصد کے لیے خرچ کرنا ہوگا۔ اس راحت پیکیج کے لیے کم از کم 4.5 لاکھ کروڑ روپے کا انتظام کرنا ہوگا۔ ماہرین معاشیات کے مطابق عوام کے ہاتھ میں پیسہ دینا ہوگا اس سے معیشت میں وہ رفتار آسکے گی جو اس آفت کو موقع میں بدل دے گی۔ یہ سرکاری راحت اس طرح دینے کی ضرورت ہے جو سب سے پہلے بے روزگاری کا محاذ سنبھال سکے اگر بیروزگاروں کے جیب تک پیسہ پہونچے گا تو وہ گھوم پھر کر بازار ہی میں آئے گا اور معیشت کے پہیے کو گھمانے کا کام کرے گا۔ نیتی آیوگ کے سابق وائس چیرمین اروند پنگھریا نے کہا کہ طلب کو بڑھانے اور اور معاشی ترقی کے لیے مناسب اسٹموکس کی ضرورت ہے۔ سابق وزیر مالیات یشونت سنہا نے کہا ہے کہ لوگوں کے ہاتھوں میں نقد رقم پہونچانا ضروری ہے۔ خواہ حکومت کو اس کے لیے نوٹ چھاپنا پڑے۔
دوسری طرف معیشت کی بہتری کے لیے آر بی آئی کے سابق گورنر پروفیسر رگھو رام راجن نے نے کہ حکومت کو سورن ریٹنگ ایجنسی کی سوچ پر ضرورت سے زیادہ دھیان نہیں دینا چاہیے ۔ اس سے معاشی ضرورت کی مناسبت سے فیصلہ لینے میں ناکامی ہوسکتی ہے۔ پروفیسر راجن نے گلوبل مارکٹس فورم میں کہا کہ گھریلو اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اعتماد میں لے کر یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ کورونا قہر کی آفت ختم ہوتے ہی حکومت میڈیم ٹرم میں مالی جوابدہی کے راستے پر ضروری واپس لوٹ آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو یہ اعتماد دلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی ہوگی۔ آر بی آئی کے گورنر بننے سے قبل وہ مرکزی حکومت کے چیف اقتصادی مشیر تھے۔ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ کو قابو میں کرنے کے لیے مارچ کے اخیر میں دنیا کا سب سے سخت لاک ڈاون نافذ کیا گیا جو دو ماہ سے زیادہ وقت تک جاری رہا۔ اس سے معاشی ریکوری کی توقع محدود ہوگئی۔ راجن نے کہا کہ حکومت نے غریبوں اور چھوٹی چھوٹی صنعتوں کو مدد کرنے کا اعلان کیا لیکن اس پر خرچ حقیقی جی ڈی پی کے قریب ایک فیصد ہی ہوا ہے۔ کئی جانکاروں کا کہنا ہے کہ ریٹنگ ایجنسی کے ذریعے ریٹنگ گھٹائے جانے کے خوف سے حکومت نے ایک اس طرح کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ جون کے شروع میں عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز اور فچ نے ملک کی ریٹنگ اور آوٹ لک میں تخفیف کردیا ہے۔ واضح رہے کہ پروفیسر رگھو راجن آئی ایم ایف کے ساتویں چیف ماہر معیشت تھے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ حکومت کو یہ باور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ قرض معیشت کے تناؤ سے بھر پور حصے میں پہنچے۔ آر بی آئی کو یہ بھی چاہیے کہ قرض انہیں کمپنیوں کو دیا جائے جو بازار میں ٹھہر سکتی ہیں۔
***
ایک جائزے کے مطابق جولائی کے دوران عام گھروں میں ابھی بھی لوگ خرچ پر لگام لگائے ہوئے ہیں۔ کووڈ ۱۹ کا اثر بہت گہرا ہے۔ یہ پہلا مالی سال ہے جس کے چار ماہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک کوئی سرکاری ایجنسی سالانہ معیشت کی ترقی کی شرح کا ہدف طے نہیں کرسکی ہے۔ امید تھی کہ جمعرات کو مالی منصوبے کے تجزیہ کے دوران اس کا اعلان آئے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا حالانکہ پہلی بار آر بی آئی نے تسلیم کیا ہے کہ مالی سال 21-2020 کے دوران ملکی جی ڈی پی کی شرح نمو منفی رہے گی۔