معیشت میں بہتری کے اشارے مگر سستی کا بھنور بدستور موجود

معاشی بحالی کے لیے مالی تعاون اور برآمدات میں اضافہ ضروری

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

فی الحال ہماری معیشت کی بحالی کی رفتار بہت سست ہے کیونکہ اچانک نافذ کردہ غیر منظم لاک ڈاون کی بدولت اس سے زیادہ بہتری ممکن بھی نہیں تھی۔ مگر ہم لوگ جلد بازی میں 6.5 تا 7 فیصد معاشی ترقی کی خواہش رکھتے تھے۔ حکومت اس معاملے میں کافی جوش میں تھی مگر نجی شعبوں کی سرگرمیاں کافی سست ہیں اس لیے ابھی تک اپنے کل پرزے نکالے ہی نہیں اور سرمایہ کاری بھی معدوم ہے۔ خود کفالت کے لیے آسان قرض کی فراہمی بھی آسان نہیں ہے۔ اسی کے مد نظر بجٹ میں سرکاری خزانہ کا سہارا لے کر عالمی وبا کے بعد معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ جب سرمایہ کی فراہمی میں شمولیت اور آسانی ہو گی تب ہی پیداوار بڑھے گی، سپلائی چین بنے گا اور طلب بڑھے گی۔ اس لیے حالیہ بجٹ میں دو مالی ادادوں کے قیام کی تجویز ہے۔ Asset Reconstruction Company اور Development Financial Institutions جیسے دونوں ادارے ضروری کریڈٹ گروتھ کی کمی کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔ ملک میں صنعتوں کے لیے کریڈٹ گروتھ کے ساتھ مجوزہ ڈی ایف آئی زیادہ روزگار پیدا کرنے کے علاوہ نجی سرمایہ کاری میں تیزی لائے گا۔ اس وقت غیر ملکی سرمایہ کار، حالت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بڑی سست روی سے ہی ملک میں سرمایہ کاری کی طرف مائل ہیں۔ جہاں تک غیر ملکی سرمایہ کاروں کا سوال ہے تو گرین فیلڈ میں سرمایہ کاری کے بجائے براون فیلڈ میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ معیشت میں کھلے پن کے بعد تین دہائیوں سے گھریلو بھارتی صنعت کاروں اور کاروباریوں نے ہر طرح کے خطرات کا مقابلہ کیا ہے۔ جن کی نشان دہی کر کے ان کی ہمت افزائی کی جانی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم مودی نے بہت زور دے کر کہا ہے کہ نجی شعبوں پر حملہ کرنے اور اسے کمزور کرنے سے ملک کی ترقی ہرگز نہیں ہو گی کیونکہ یہ روزگار پیدا کرنے اور معاشی ترقی کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے مگر عالمی اور ملکی سرمایہ داروں اور کارپوریٹس نے کورونا قہر سے موقع اٹھاتے ہوئے خوب دولت سمیٹی۔ ورلڈ بینک کے حساب سے عالمی کورونا وبا کے پھوٹ پڑنے سے 2020 میں آٹھ دہائیوں میں معیشت میں سب سے بڑی تنزلی آئی اور ملکی معیشت پوری طرح تباہ و برباد ہو گئی اور اس کی جی ڈی پی پہلی سہ ماہی میں تقریباً ایک چوتھائی تک سکڑ گئی۔ نتیجتاً بے روزگاری، غربت اور بھکمری میں اضافہ اور کروڑوں کی تعداد میں محنت کش روزگار سے محروم ہوئے جبکہ ما بعد کورونا دنیا میں 607 ارب پتیوں کا اضافہ بھی ہوا۔ یہ اعداد و شمار ہورون گلوبل ریچ لسٹ (Hurun Global Rich List) کے جائزے کے بعد آیا ہے۔ بھارت ایک غریب ملک ہے جہاں بڑی تعداد میں غریب لوگ اور غریب ہوئے اور امراء کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا۔ ہر دس دنوں میں 55 نئے ارب پتی سامنے ابھر کر آئے۔ مسئلہ دولت جمع کرنے کا نہیں ہے بلکہ دولت کی عادلانہ تقسیم کا ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق بہت زیادہ سماجی تفریق نے کورونا قہر کو زیادہ ہی بڑھا دیا ہے۔ 2020 میں عالمی تحقیق ایجنسی نے پایا ہے کہ ارب پتیوں کی دولت میں 3.9 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوا مگر محنت کشوں کی مجموعی گلوبل کمائی 3.7 ٹریلین ڈالر کم ہو گئی۔ اسی طرح ملک میں بھی سرمایہ داروں کی تعداد بڑھی۔ کورونا وبا کے دوران امبانی کی دولت میں 26 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ اڈانی کی دولت پچاس فیصد بڑھی۔ اس سماجی اور معاشی تفریق سے دولتمندوں کے خلاف لوگوں کا غصہ بڑھ رہا ہے۔ بہت بڑی آبادی میں بڑھتی بے روزگاری غربت میں اضافہ، صنعتی ملازمین، زراعتی اور نجی شعبوں کے بہت سے افراد میں سماجی عدم سلامتی پیدا ہوئی جس کی وجہ سے لوگوں کے اندر شبہات اور ناپاک خیالات بھی جمع ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف ریاست اور کارپوریٹس کے درمیان بھی نامطلوب تعلقات پنپ رہے ہیں۔ حالاں کہ حکومت کی پالیسی سماجی سلامتی کو بروئے کار لانے، دولت کی عادلانہ تقسیم اور روزگار کی فراہمی کے لیے ہونی چاہیے لیکن حکومت عارضی راحت دے کر اپنی ذمہ داریوں سے پلہ جھاڑ لیتی ہے۔ حکومت سرمایہ دارانہ نظام کو عدل و انصاف کے بغیر نافذ کرنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے۔ اس سے غربت کا خاتمہ، بھکمری میں کمی، حاشیہ پر پڑے لوگوں کو راحت ہرگز میسر نہیں ہوگی۔ سب کو روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ محض نعرہ ہی رہ گیا۔ اس بیماری کا علاج سرمایہ دارانہ نظام میں نہیں بلکہ اسلامی نظام معیشت میں ہے۔ اسلام انفرادی ملکیت کو چند پابندیوں کے ساتھ تسلیم کرتا ہے تاکہ دولت کی تقسیم کا توازن بگڑنے نہ پائے۔ وہ یکطرفہ دولت کے بہاو کو روکنے کے لیے پابندیاں عائد کرتا ہے۔ اس لیے ایسے تمام کاروبار پر قانوناً روک لگاتا ہے جن میں ایک کا منافع اور بہت سارے لوگوں کا نقصان ہو۔ جیسے سود، جوا، سٹہ وغیرہ۔ اس لیے اسلامی معیشت میں سود کی تمام تر شکلیں حرام ہیں کیونکہ سودسرمایہ دارانہ نظام کا جزو لاینفک ہے، وہ چند افراد کے منافع کو یقینی بناتا ہے۔
ابھی بھی ہماری معیشت کورونا کی مار سے نکلنے کی بہت کوشش کر رہی ہے۔ گزشتہ دہائی میں ہونے والی معاشی ترقی بالکل ہی دھیمی پڑگئی ہے کیونکہ تجارتی گھاٹے کو پاٹنے میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔ یعنی برآمدات، درآمدات سے بہت کم ہیں۔ گزشتہ سال کی پہلی شش ماہی (اپریل تا ستمبر 2020) میں تجارتی ابھار مثبت رہا مگر کورونا وبا کی وجہ سے طلب میں بدترین تنزلی سے ہماری درآمدات میں کافی کمی آئی۔ موجودہ حکومت کو اس میدان میں بہتری کے لیے طویل مدتی معاشی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ اس مسئلہ پر دیگر مکاتب فکر کے ماہرینِ اقتصادیات سے ملک کی ترقی اور عوام کی بہتری کی خاطر مشورہ لینے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ ملک کی ترقی اور توانائی ضرورتوں کے لیے خام تیل، خام اشیا، ٹکنیکل مشینری وغیرہ کی درآمدات ضروری ہیں۔ مگر گھریلو پیداوار اور تعمیرات میں زیادتی کے ذریعے اس شعبے میں کچھ تخفیف تو ضرور کی جا سکتی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی آسمان سے چھوتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے حکومت اب اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ کیونکہ تیل کی قیمتوں میں سنچری لگنے کی زد عام لوگوں کے بجٹ پر پڑ رہی ہے۔ مہنگائی بے تحاشہ بڑھ رہی ہے۔ اس لیے بھی برآمدات کو بڑھانے کے لیے حکومت نے کئی سالوں سے کئی تجارتی سمجھوتے بھی کیے ہیں اور بعض دیگر ملکوں کے سمجھوتوں کا جائزہ بھی لے رہی ہے اور امریکہ، برطانیہ اور یوروپی یونین کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنے میں سرگرداں بھی ہے۔ ہمارا ملک سب سے زیادہ اکسپورٹ برطانیہ، سنگاپور، چین، امریکہ، ہانگ کانگ اور متحدہ عرب امارات جیسے ملکوں کو کرتا ہے۔ اس کے باوجود تجارتی خسارہ باعث تشویش ہے۔ اس کے لیے ہم اپنی کرنسی میں استقلال لاکر اور ہنر مند محنت کشوں کی تعداد بڑھا کر اپنا تجارتی خسارہ کم کر سکتے ہیں۔ اس لیے آئندہ سال کے بجٹ میں پیداوار بڑھانے، بنیادی ڈھانچہ کی درستگی کے ساتھ وسعت کا منصوبہ ہے۔ خود کفیل بھارت کے لیے حکومت کی طرف سے بار بار توجہ دلائی جا رہی ہے تاکہ روزگار اور آمدنی میں بہتری آئے ساتھ ہی مختلف طرح کے ٹیکنیکل اوزار، کھلونے، کارٹون، ٹکسٹائل، الکٹرانکس اشیا، ڈیجیٹل ٹکنالوجی والی چیزوں میں درآمدات کرکے برآمدات پر توجہ دینا ہوگا۔ اس طرح عالمی منڈیوں میں بھی شراکت داری بڑھے گی۔ امریکہ کی ایک تھنک ٹینک فریڈم ہاوس کی جانب سے شائع کردہ ایک حالیہ رپورٹ میں بھارت کو آزاد ریاست کے بجائے جزوی آزاد ریاست قرار دیا گیا ہے۔ اس درجہ بندی سے جاری معیشت اور تجارت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ کھلے بازار اور کھلی جمہوریت ہی نجی سرمایہ داروں کو معاشی ترقی کے لیے کام کرنے پر متحرک کرتے ہیں۔

خود کفیل بھارت کے لیے حکومت کی طرف سے بار بار توجہ دلائی جارہی ہے تاکہ روزگار اور آمدنی میں بہتری آئے ساتھ ہی مختلف طرح کے ٹیکنیکل اوزار، کھلونے، کارٹون، ٹکسٹائل، الکٹرانکس اشیا، ڈیجیٹل ٹکنالوجی والی چیزوں میں درآمدات کرکے برآمدات پر توجہ دینا ہوگا۔ اس طرح عالمی منڈیوں میں بھی شراکت داری بڑھے گی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 21 مارچ تا  70 مارچ 2021