معمار حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز

مقدس سرزمین سے خیر کے بجائے شر کی تبلیغ!

خان سعدیہ ندرت (پوسد،مہاراشٹرا)

مسلم امت کو منکرات کی مخالفت میں اور اسلام کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت
امن وامان کے لحاظ سے مکہ المکرمہ کی سرزمین اپنی نظیر آپ ہے۔ خانہ کعبہ اور اس کی سر زمین کا احترام مشرکین عرب نے بھی ہمیشہ ملحوظ رکھا تھا۔ خانہ کعبہ کا تقدس عبادت گاہ کی حیثیت سے قدیم زمانہ سے چلا آرہا ہے، اس کی اولین تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے کی تھی اور اس کے منہدم ہو جانے کے بعد از سرِ نو تعمیر حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام نے کی تھی اور خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھاتے ہوئے یہ دعا مانگی تھی رَبِّ اجۡعَلۡ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارۡزُقۡ اَهۡلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنۡ اٰمَنَ مِنۡهُمۡ بِاللٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ؕ اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور آخرت کو مانیں انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے ۔“ (سورۃ البقرة آیت نمبر 126)
اسی دعا کا نتیجہ ہے کہ وہاں اب تک امن اور رزق کی فراوانی ہے۔ قرآن کریم نے خانہ کعبہ کو سب سے پہلی عبادت گاہ بتایا یہی وہ مقام ہے جہاں دینی، روحانی، مادی و دنیاوی برکتیں جمع کر دی گئی ہیں۔ اس پاک شہر اور پاک گھر کی دائمی عظمت و تقدس کا اعلان قرآنِ کریم اور احادیث میں مختلف عنوانات سے کیا گیا ہے۔
سرزمین عرب کو رحمت للعالمین محمد ﷺ کا وطن اور آپ کی جائے پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسی سر زمین پر آپ کو نبی بنا کر مبعوث کیا گیا۔ یہیں سے اسلام کی آواز بلند ہوئی اور یہی اسلامی تعلیمات کا پہلا مرکز بنا جس کے ذریعہ سرزمین عرب پر انسانوں کو تمام اقدارِ حیات اور نیابت الہٰی کا فریضہ سونپا گیا اور بنی آدم کو اسفل سافلین سے اٹھا کر احسن تقویم کی رفعتوں پر پہنچا دیا گیا۔ اسی لیے پوری دنیا کے مسلمانوں کی عالم عرب سے قلبی اور جذباتی وابستگی ہیں۔
آج کے حالات اور مسلم قیادت
نبی کریم ﷺ نے ایک مثالی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ شرک و بدعت کو جڑبنیاد سے اکھاڑ پھینکا، توحید کا ثمر آور درخت لگایا اور جاہلیت کے سارے رسوم و رواج ختم کیے اور ایک صالح وپاکیزہ نظام کی بنیاد رکھی۔ فحاشی اور عریانیت کے سیلاب پر بندھ باندھے،حیادار اور مہذب معاشرے کی آبیاری کی اور امّت کو اسی کے فروغ کی تعلیم دی۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ’’تمام لوگوں میں سب سے زیادہ مبغوض تین قسم کے لوگ ہیں۔ حرم محترم میں گناہ کرنے والے، مسلمان ہو کر جاہلیت کی رسموں پر عمل کرنے والے، ناحق خون بہانے والے (بخاری)
اس حدیث میں جن کاموں کو مبغوض قرار دیا گیا آج وہی کام وہاں انجام دیے جارہے ہیں۔ جس قوم کو اسلام کا امین بناکر قیادت سونپی گئی تھی، جن کو اسلامی تہذیب اور ثقافت کے فروغ کی ذمہ داری ادا کرنی تھی انہی لوگوں نے ملّت کے ساتھ خیانت کی۔ وہی حکمراں آج اسلامی تہذیب اور ثقافت کے آثار کو شدّت اور سرعت کے ساتھ مٹانا چاہتے ہیں۔ فحاشی، عریانیت اور بے حیائی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ میخانوں اور بتکدوں کی تعمیر اور رقص وسرود کی محفلیں سجا کر فسق و فجور کے ماحول کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔
جس سرزمین پر امام احمد بن حنبلؒ کبھی جوتے پہن کر نہیں چلے کبھی گھوڑے اور اونٹ پر یہ سوچ کر نہیں سوار ہوئے کہ اس سرزمین پر نبی رحمت کا گزر ہوا۔ افسوس کہ آج اسی جگہ پر ’’نیوم‘‘ نامی شہر کو آباد کیا جا رہا ہے جہاں پر برائی کو آزادی کے ساتھ انجام دیا جانا آسان بنا دیا گیا ہے۔ سنیما گھروں کی تعمیر کی جا رہی ہے دنیا کے سب سے بڑے فلم فیسٹیول کو اسی سرزمین پر رکھا گیا۔ فلم اسٹارز کے ہاتھوں کے نشانات محفوظ کیے جارہے ہیں اور المیہ درالمیہ یہ ہے کہ ہر برائی کی آزادی دے دی گی ہے جبکہ شریعت اسلامی اور اسلامی تحریکات پر پابندیاں عائد کرکے ائمہ اور خطباء کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ان کے خلاف اپنی زبانیں نہ کھولیں۔ اِنَّ الَّذِيۡنَ يُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِيۡعَ الۡفَاحِشَةُ فِى الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌۙ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ‌ؕ وَاللٰهُ يَعۡلَمُ وَاَنۡـتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ جولوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (سورہ النور آیت نمبر 19)
جو لوگ مسلمانوں کے اخلاقی تفوق اور مضبوط کردار کو کمزور کرنا چاہتے ہیں،پروردگار نے ان لوگوں کو اور ان کے برے ارادوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تنبیہ فرمائی کہ اگر یہ لوگ اس سے تائب نہ ہوئے تو ان کے لیے دنیا و آخرت میں عذاب الیم ہے۔ دنیا میں اصل چہرہ بےنقاب ہوجانے کے بعد یہ لوگ ذلت کی تصویر بن جائیں گے اور آج جو لوگ ان کی باتیں سننا گوارا کرلیتے ہیں، کل ان کے منہ پر تھوکیں گے اور نفرت کا اظہار کریں گے۔ لیکن آنے والے دن کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے، تم نہیں جانتے کیوں کہ ابھی تک اس پر حالات کا غبار پڑا ہوا ہے۔
بےحیائی پھیلانا، نوجوانوں کو گمراہ کرنا، صنفِ نازک کو نسوانیت سے محروم کرنا، مردوزن کے آزادانہ اختلاط اور بےحیائی کے محرکات سے سفلی جذبات کو ابھارنا، یہ آج کے دور کی گمراہیوں میں سے ایک عظیم گمراہی ہے اور جس کے پھیلانے بلکہ نافذ کرنے میں عرب حکمراں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ جو کام کبھی یہود منافقین سے لیتے تھے، آج وہی کام یہ جدید منافقین سر انجام دے رہے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی بدنصیبی کی انتہا یہ ہے کہ وہ ان منافقین کو پہچاننے سے قاصر ہیں اور اگر کہیں انہیں پہچان بھی لیا گیا ہے تو وہ اقتدار کی مسندوں پر فائز ہیں اور اپنے اقتدار کی قوت سے صرف اس لیے بےحیائی کو فروغ دے رہے ہیں تاکہ مغرب کو یقین دلا سکیں کہ تم ہم پر اعتماد کرسکتے ہو۔ سعودی حکمرانوں نے اپنے نشہ اقتدار میں ڈوب کر سر زمینِ حجاز کو اقوامِ مغرب کا باج گزار بنادیا ہے جنہوں نے اسلام کے تصورِ خلافت سے انحراف کرکے ملوکیت کو زندہ کیا اور اسلام و عالم اسلام کی مقدس امانت کو اپنی جاگیر قرار دے دیا۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس جگہ کے خیر نے سارے عالم کو فیض پہنچایا اور جہاں سے اسلامی تہذیب اور تمدّن و ثقافت کے اثرات دنیا بھر میں عام ہوئے اگر وہیں سے شر نشر ہونے لگے تو ساری دنیا پر کس قدر منفی اثرات مرتب ہوں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
عرب حکمرانوں کی بے حسی کو دنیا ایک عرصہ دراز سے دیکھتی سنتی آرہی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ جب کوئی قوم بے حسی اور ہٹ دھرمی کرنے لگتی ہے تو اللہ اس کی جگہ دوسری قوم کو لے آتا ہے جو اس سے بہتر ہوتی ہے۔
آج جن کو اسلام کی خاطر کھڑے ہونا تھا وہ تو کھڑے نہیں ہوئے۔ شاید اللہ کو ان کی جگہ کسی اور کو کھڑا کرنا مقصود ہے چنانچہ ہم نے دیکھا کہ کس طرح صومالی نژاد ایک مسلم خاتون امریکہ کی پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر اسلاموفوبیا کی مذمت میں بل پاس کرواتی ہے اور انڈیا، برما،چین اور سری لنکا کے مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھاتی ہے۔ دوسری طرف ترکی اور قطر امت کی قیادت کے لیے اٹھ کھڑے ہو رہے ہیں۔
ان حالات میں جو کام ہمیں کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کی اصلاح کریں، اللہ سے تعلق کو مضبوط کریں اور معاشرے کی اصلاح کے لیے حتی المقدور کوشش کریں کیونکہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں متحد ہو کر آواز بلند کرنے کا وقت ہے ۔یہ وقتِ قیام ہے اگر ہم اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود بھی نہیں اٹھے تو ہم اللہ کے غضب اور قہر کو دعوت دینے کا سبب بنیں گے۔
ہر دور کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ہر دور میں مختلف طریقے سے حق آشکار ہو کر رہا ہے کیونکہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ ’’دین غالب ہو کر رہے گا‘‘ اور اللہ کا وعدہ تو ٹل نہیں سکتا۔

 

***

 ان حالات میں جو کام ہمیں کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کی اصلاح کریں، اللہ سے تعلق کو مضبوط کریں اور معاشرے کی اصلاح کے لیے حتی المقدور کوشش کریں کیونکہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں متحد ہو کر آواز بلند کرنے کا وقت ہے ۔یہ وقتِ قیام ہے اگر ہم اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود بھی نہیں اٹھے تو ہم اللہ کے غضب اور قہر کو دعوت دینے کا سبب بنیں گے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  09 جنوری تا 15 جنوری 2022