معاصر اسلامی تحریکات کے کچھ اصلاح طلب پہلو (تیسری قسط)
تحریر : ڈاکٹر محمد عمارہؒ، مصر | ترجمہ اشتیاق عالم فلاحی، قطر
(اسلامی تحریک کے لیے اپنے ذاتی احتساب کے نتائج بہت اہمیت رکھتے ہیں، تاہم تحریک کے باہر سے خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ لیا ہوا تحریک کا جائزہ اپنی جداگانہ اہمیت رکھتا ہے۔ سینکڑوں عظیم فکری کتابوں کے مصنف ڈاکٹر محمد عمارہؒ کا شمار نہ صرف اپنے ملک مصر بلکہ پورے عالم اسلام کے چوٹی کے علماء میں ہوتا ہے، علامہ یوسف قرضاوی نے ان کی شخصیت پر کتاب لکھی اور انھیں اسلامی فکر کی سرحدوں پر ہر وقت بیدار اور چاق چوبند رہنے والا پاسبان قرار دیا۔ ڈاکٹر محمد عمارہؒ نے عالمی اسلامی تحریکات کو سامنے رکھ کر کچھ اصلاح طلب پہلوؤں کی نشان دہی کی ہے، جنھیں زندگی نو میں قسط وار پیش کیا جارہا ہے، یہ اس سلسلے کی آخری قسط ہے، پہلی اور دوسری قسطیں بالترتیب ماہ اگست اور ماہ ستمبر کے شمارے میں شائع ہوچکی ہیں۔ ہم اہل فکر ونظر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہندستان کی اسلامی تحریک کے پس منظر میں ان پہلوؤں کے تعلق سے اپنی قیمتی آراء پیش فرمائیں۔ ادارہ)
6۔ روحانی تربیت اور سیاسی تربیت کا غیر واضح تصور:
معاصر اسلامی تحریکات اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ اسلام کی حکمرانی انسانی زندگی کے تمام گوشوں کے لیے ہے۔ یہ تحریکات یہ بھی سمجھتی ہیں کہ وہ جس بیداری کی داعی ہیں اس کے لیے اسلامی خطوط پر اس طرح شخصیت سازی ضروری ہے کہ مغرب کے زیرِ تسلط مسلمانوں کے علم وعمل میں جو خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں ان کی پوری اصلاح ہو۔ چنانچہ ان تحریکات نے افراد کی روحانی تربیت کے وقت شخصیت سازی کے اس پہلو کا پورا خیال رکھا۔ ان کے روحانی تربیتی نظام نے افراد کو درپیش معرکے، مشکلات اور چیلنجوں کا بھر پور خیال رکھتے ہوئے زبردست تربیت یافتہ ٹیمیں تیار کیں۔
لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ ان تحریکات کے بیشتر وابستگان کی سیاسی تربیت میں کمی اور کوتاہی پائی جاتی ہے۔ یہ کم زوری کبھی اس بنا پر آ گئی کہ سیاسی تربیت کو مستقبل کی ضرورت سمجھ کر اسے موخر کیا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ اس پر اس وقت توجہ دی جائے گی جب اسلامی تحریکات سلطنت واقتدار تک پہونچ جائیں یا اس مرحلے سے قریب تر ہوں۔ اس کی ایک وجہ ان تحریکات کی سیاسی فکر کی کمی بھی ہے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ لا مذہبیت اور اس کے علم برداروں کے یہاں سیاسی مہارت بھی پائی جاتی ہے اور اس میدان میں ان کا تجربہ بھی وسیع ہے لیکن اسلامی تحریکات اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے علاوہ بعض دیگر اسباب بھی ہوسکتے ہیں۔
صرف روحانی تربیت پر توجہ اور سیاسی تربیت سے لاپروائی کے نقصانات بالکل عیاں ہیں۔ اس کی وجہ سے ان تحریکات کے بہت سے وابستگان سیاسی میدان میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے اور اپنے کمالات کا مظاہرہ کرنے کے مواقع سے محروم رہے۔
اسلام کو نہ تو وہ سیاست پسند ہے جو دینی اقدار سے عاری ہو اور نہ ہی وہ سیاست داں قبول ہیں جو اخلاقی ضوابط کی پابندی سے آزاد ہوں اور نہ یہ درست ہے کہ اسلامی تحریکات کے اندر ایسے افراد رہیں۔ تاہم دین داری کی وہ صورت جو فراست، مہارت، دانائی اور ہوشیاری سے محروم ہو اسلامی تحریکات کے کیڈر کی مطلوبہ دینی شناخت نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ وہ دین داری جہاں سیاسی تربیت کا اہتمام نہ ہو اور سیاسی نظریات سے آگاہی اور اس کے مختلف رجحانات، تصورات اور طریقوں سے واقفیت کا اہتمام نہ ہو ایسی غفلت کو جنم دیتی ہے جو ممکن ہے کہ فقط اللہ ھو کی صدا بلند کرنے والے بعض لوگوں کے لیے مناسب ہو لیکن ان لوگوں کے لیے ہرگز زیبا نہیں جن کے کاندھوں پر سیاسی میدان میں قوموں کے مستقبل سنوارنے کی ذمہ داری ہے۔
ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے کہ تمام سنی مکاتبِ فکر نے ایسے غیر افضل شخص کی امامت وخلافت کو مستحسن قرار دیا ہے جو دینی اعتبار سے کم ہو لیکن جس کے اندر دنیوی امور کو انجام دینے کی مہارت ہو، جو خلافت وامامت کی ذمہ داری کے لیے مطلوبہ صلاحیتوں سے مالا مال ہو اور امت کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اسلامی تحریکات کے وابستگان کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ وہ رات کے عبادت گذار ہوں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دن کے شہسوار اور میدانِ سیاست کے ماہر سالار ہوں۔
میکاویلی کا طرزِ سیاست ، جو مغربی ثقافت میں معروف ومقبول ہے، یہ بتاتا ہے کہ ضروری نہیں کہ سیاست دینی قدروں اور مذہبی اخلاقی رویوں کی پابند ہو، بلکہ سیاست نام ہے اقتدار کے لیے تمام ممکنہ ذرائع کے استعمال کا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ طرزِ سیاست اسلام میں نا قابلِ قبول ہے۔ امام ابنِ قیمؒ (691-751ھ) اسلامی سیاست کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ’’وہ فرائض ہیں جن کو انجام دے کر لوگ بگاڑ سے بچ سکیں اور بناؤ کے راستے پر چلیں‘‘۔ اس تعریف کی رو سے اہلِ سیاست کے لیے لازم ہے کہ وہ حالات کو سجمھنے والے، قائدانہ اوصاف سے مالامال، جدید ترقیات اور دیگر معاصرین سے تعامل کے فن سے آگاہ ہوں اور ساتھ ہی روحانی تربیت اور اسلامی اخلاقیات سے بھی آراستہ ہوں۔
جو لوگ جمال الدین افغانی کی تحریکِ احیاءِ اسلامی (الجامعۃ الاسلامیۃ اور جمعیۃ العروۃ الوثقیٰ) کا مطالعہ کرتے ہیں انھیں اندازہ ہوگا کہ اس کی قیادت نے اسلامی اخلاقیات کا کتنا خیال رکھا۔ انھوں نے روحانی تربیت کے لیے صوفیا کے بعض طریقوں اور مجاہدات سے بھی فائدہ اٹھایا۔ تاہم اس فکر کے نمائندہ مجلہ ’’العروۃ الوثقیٰ‘‘ کے مقالات میں پیش کردہ سیاسی افکار کا مطالعہ کرنے والے اس سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سیاست کی باریکیوں، اس کے مختلف پہلووں اور اس میں آنے والے نشیب وفراز سے ان کی واقفیت بہت پختہ اور درجہ کمال کو پہونچی ہوئی تھی۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ مغربی استعمار کے نہ تھمنے والے سیلاب اور اس کے علم برداروں نے سیاست کے گلیاروں کو اپنی سازشوں اور کشمکش سے نہایت پیچیدہ بنا دیا تھا اس تحریک کو مقامی اور عالمی ہر دو سطح کی سیاست کا گہرا ادراک تھا۔
معاصر اسلامی تحریکات کو چاہیے کہ مذکورہ ماڈل کا مطالعہ کریں تاکہ انھیں ایسے صاحبِ بصیرت مسلم سیاست دانوں کی تیاری کے یقینی طریقوں سے آگاہی ہوسکے جو نہ تو غفلت کے شکار ہوں اور نہ ان کے یہاں اسلامی اخلاقیات سے عاری میکاویلی طرزِ سیاست کے لیے کوئی جگہ ہو اور ہم اپنے سماج میں عقل ودین کی اس تقسیم کو ختم کرسکیں جس کی طرف ابو العلاء معری نے اشارہ کیا ہے : افراد کی دو قسمیں ہیں ایک دین سے عاری صاحبِ عقل، اور دوسرے عقل سے محروم دین دار۔
7۔ سمع و طاعت اور حریتِ اظہار میں عدمِ توازن:
بہت سی معاصر اسلامی تحریکات نے اپنے وابستگان کی تربیت کے ضمن میں اپنی قیادت کے محاسبہ، تنقید اور ان کی اصلاح کے مقابلے میں سمع و طاعت پر مبالغہ کی حد تک زور دیا ہے۔ یہ کہہ دینے سے کام نہیں چلے گا کہ یہ اطاعت کسی معصیت کے کام میں نہیں ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سمع و طاعت اگر حریتِ اظہار کو اس حد تک متاثر کرے کہ اس کی وجہ سے وابستگان میں بوقتِ ضرورت تنقید وجائزہ اور جرأت مندانہ اعتراض کی صلاحیت کو پھلنے پھولنے سے روک دے تو یہ اندازِ تربیت وابستگان کے حق میں ایک معصیت ہے۔ کیوں کہ اس سے تحریک کے اندر ایسی فضا پروان چڑھتی ہے جہاں صرف ایک طے شدہ رائے ہوتی ہے اور وہ مرشد یا امیر یا امام کی رائے ہوتی ہے۔ جن تحریکات میں یہ کیفیت پیدا ہوجاتی ہے وہاں اس وقت سوجھ بوجھ غائب ہوجاتی ہے اور خلفشار، بگاڑ اور دھڑے بندی اپنی جگہ بنالیتی ہے جب مرشد موجود نہ رہے، کیوں کہ یہ تحریکات دوسری، درمیانی اور ذیلی صفوں میں تربیت یافتہ، صاحبِ بصیرت وحکمت قیادت سے محروم ہوتی ہیں۔
یہ خرابی جس میں بہت سی معاصر اسلامی تحریکات مبتلا ہیں ایک قدیم مشرقی آفت ہے۔ اس کی وجہ سے عام لوگ ساری امیدیں ’’قطبِ وقت‘‘ اور ’’مرکزی ستون‘‘ سے وابستہ کرتے ہیں، اسی پر سارا بوجھ ڈالتے ہیں اور پھر وہی تنہا مفکر، قائدِ یکتا اور نابغۂ روزگار سربراہ بن جاتا ہے۔ اس خرابی کی اصلاح اور اس مہلک مرض سے شفایابی کے لیے اسلامی تحریکات کے سامنے ایک ہی اسلامی علاج ہے۔ وہ یہ کہ یہ تحریکات لازمی طور سے شورائی نظام کی شکل میں موجود اسلامی میراث اور افراد کی تربیت اور قیادت سازی کے لیے مدرسۂ نبوت کی رہ نمائی کو سینے سے لگائیں۔
نبیٔ معصومﷺ نہ صرف یہ کہ اپنے اصحاب سے مشاورت کرتے تھے بلکہ شورائی فیصلوں کا سب سے زیادہ التزام کرتے تھے۔ ہمارے نبیﷺ نے تو ابو بکرؓ وعمرؓ سے یہ تک کہا تھا کہ ’’اگر کسی رائے میں تم دونوں کا اتفاق ہو تو میں تم سے اختلاف نہیں کروں گا۔ (احمد)۔ آپﷺ نے ریاستی معاملات کی انجام دہی اور ولایت کے فیصلے کے لیے امت کو شورائی نظام کی پابندی کا اس وقت بھی عملی سبق دیا جب کہ قیادت نبی معصومﷺ کے ہاتھ میں تھی۔ ایک بار آپﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی مشورے کے بغیر کسی شخص کو امیر مقرر کرتا تو ابن ام عبد (عبداللہ بن مسعود ؓ) کو ان کا امیر مقرر کرتا (ترمذی، ابن ماجہ، احمد)۔
افراد سازی اور قیادت کی تربیت کے لیے اسلامی رہ نمائی اور مدرسۂ نبوت کی عملی میراث وہ شفاف چشمہ ہے جو کبھی خشک نہیں ہوسکتا۔ اور یہی وہ دوا ہے جو معاصر اسلامی تحریکات میں پھیل چکی اس مہلک بیماری کا علاج کر سکتی ہے۔
اگر یہ اسلامی تحریکات ان احادیث نبویﷺ سے استدلال کریں جن میں اطاعتِ امر کی بات کہی گئی ہے جیسے ’’جس نے میرے متعین کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (مسلم) یا یہ کہ’’جس نے اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ بات دیکھی تو اسے چاہیے کہ صبر کرے اس لیے کہ جس نے جماعت سے ایک بالشت بھی جدائی اختیار کی اور اسی حال میں مرا تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا‘‘ (مسلم) اور یہ دعویٰ کریں کہ مرشد، امیر، یا امام سے ان کی بیعت کا تقاضا یہی ہے اوران احادیث کی بنیاد پر وابستگان میں حریتِ رائے کے بجائے سمع وطاعت کے مزاج کو فروغ دینے پر اصرار کریں، اور وابستگان کی تنقیدی، تخلیقی، اور قائدانہ صلاحیتوں کا گلا گھونٹتی رہیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ ایک اور نئی بیماری ہے۔ اور وہ ہے شرعی نصوص سے بے محل استدلال کی بیماری۔ ان احادیث سے اسلامی تحریکات کے امرا یا اسلامی ممالک کے حکام کی اطاعت پر استدلال محض زور زبردستی کا استدلال ہے۔ اس لیے کہ یہ نصوص اس بات کی شہادت نہیں دیتیں جس مفہوم میں انہیں پیش کیا جاتا ہے۔ ان احادیث میں رسول اللہﷺ کے جن امرا کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے وہ فوج کے سپہ سالاراور جنگ کے قائدین تھے۔ جب فوجیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہوں اور جنگ زوروں پر ہو اس وقت یہ ناقابلِ تصور ہے کہ جنگی قائدین کے احکام کو شوریٰ کے سامنے پیش کیا جائے اور موافق ومخالف آرا پر مشاورت اور رائے شماری ہو۔ یہ ہیں وہ امرا جن کی اطاعت احادیث کی تاکید کے مطابق اس وقت بھی کی جائے گی جب ہم بحیثیتِ سپاہی ان کے اندر کوئی ناپسندیدہ بات دیکھیں… اور یہ ہیں وہ مواقع جن میں ان امرا کی اطاعت واجب ہے۔ البتہ جو سربراہانِ ریاست اور قائدینِ تنظیم سنتِ نبویﷺ اور اسوۂ رسالتﷺ سے اکتساب کرنا چاہتے ہیں ان کے لیےشورائیت کے التزام اور قیادت سازی کی مثالوں میں بہترین رہ نمائی موجود ہے۔
اطاعتِ امر پر زور اور حریتِ اظہار کی حوصلہ شکنی کی اس خرابی نے اسلامی تحریکات کو قیادت کی ایسی ٹیم سے محروم کردیا ہے جو اپنے امیر اور مرشد کے کاموں میں ان کی شریکِ کار بھی ہو اور ان امرا و مرشدین کے جانے سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر بھی کر سکے۔ اس کی وجہ سے ایک اور نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس صورتِ حال سے بے زار اور امیر سے اختلاف رکھنے والے لوگ تحریک کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے کئی تحریکات میں ہم گروہ بندیاں اور جماعت سے ٹوٹ کر جماعت بنتے دیکھتے ہیں۔
آخری بات
معاصر اسلامی تحریکات میں موجود یہ چند اہم قابلِ توجہ امور ہیں جن کے مظاہر اور نقصانات کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔ میں نے شروع میں بھی عرض کیا تھا کہ یہ خیر خواہی اور اس باہمی نصیحت کے ذمہ داری کی ادائی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین پر اجتماعی حیثیت سے فرضِ کفایہ ہے۔ یہ اپنی اہمیت اور وزن میں انفرادی سطح کے فرضِ عین سے بڑھ کر ہے۔ میرا یہ احساس اس لیے ہے کہ فرضِ عین میں کوتاہی کا وبال صرف فرد پر ہوتا ہے دوسروں پر نہیں لیکن اجتماعی فرضِ کفایہ کے پہلو سے کوتاہی پوری امت کے لیے نقصاندہ ہوتی ہے۔ اس نوعیت کے فرضِ کفایہ کی ذمہ داری کی ادائی اہلِ اختصاص کی ذمہ داری ہے تاکہ ان کی کوششیں ثمر آور ہو سکیں۔
اگر ان صفحات میں پیش کی گئی گذارشات اس مقصد کو پورا کر سکیں، معاصر اسلامی تحریکات کے مستقبل کو صحیح سمت مل جائے اور ان کی کارکردگی بلند ہو تو یہ محض اللہ کا فضل ہوگا۔
اللہ کے رسولﷺ نے ہمیں بتایا ہے کہ جو مسلمانوں کے معاملات کی فکر نہیں کرتا وہ ان میں سے نہیں۔ اس امت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی پرواز کو کوتاہی سے دوچار کرنے والی تمام بیڑیوں کی گرفت سے باہر نکلے، وہ موروثی پسماندگی ہو یا باہر سے آنے والی تمدن بے زاری ہو۔ بہرحال نجات اور غلبے کے سلسلے میں ساری امیدیں معاصر اسلامی تحریکات کی صحیح کارکردگی سے وابستہ ہیں۔ اس توجہ دہانی کا مقصد یہ بھی ہے کہ یہ تحریکات اس مایوسی میں نہ مبتلا ہوں جس کا شکار اس راہ پر چلنے والے ہوچکے ہیں۔ اسی احساس، اسی مقصد اور اسی جذبے کے تحت اسلامی تحریکات کی بعض خرابیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اس خیر خواہی کو نفع بخش بنائے، وہی فریاد رس ہے۔■