معاشی بحران کے حل کے لیے بینکنگ نظام میں اصلاح کی ضرورت

این پی اے سے نمٹنے میں تساہل سے مسئلہ مزید سنگین ہورہا ہے

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

آر بی آئی کے انٹرنل ورکنگ گروپ (آئی ڈبلیو جی) کی سفارش میں کہا گیا ہے کہ کارپوریٹس اور صنعتی گھرانوں کو بینکوں کا پروموٹر بننے کی اجازت دی جائے۔ اس سفارش پر آر بی آئی کے سابق گورنر پروفیسر رگھو رام راجن اور سابق نائب گورنر ویرل اچاریہ نے سخت تنقید کرتے ہوئے اسے ’بیڈ آئیڈیا‘ قرار دیا۔ مذکورہ گروپ نے کہا کہ اس طرح کی اجازت دینے سے قبل قانون میں ضروری تبدیلی ہونی چاہیے تاکہ قرضوں کے لین دین پرگرفت رکھی جا سکے اور نگرانی کے نظم کو چست اور درست کیا جا سکے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس میں خطرات ضرور ہیں مگر نئے قوانین سے اس طرح کی پریشانیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ صنعتی گھرانوں کو ملکیت دینے قبل نگرانی کی قوت کو بڑھانا ہوگا کیونکہ انتظامی خطرات سے بعض لوگوں کے اغراض میں ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ بڑے بڑے کارپوریشنوں کے منصوبوں کا ایندھن دراصل سرمایہ ہی ہوتا ہے مگر جب وہ بینک چلائیں گے تو ان کو مختلف منصوبوں میں سرمایہ کی فراہمی بھی کرنی ہوگی۔ ہمیں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ ہمارے یہاں بینک کی نگرانی کی کیفیت کیا ہے؟ ہمارے ملک میں بلاشبہ بینکنگ سسٹم خراب حالات سے دوچار ہے۔ بینکنگ ایک مشکل تجارت کی شکل میں کی جاتی ہے جبکہ بینکنگ کی بنیاد بہت ہی سہل ہے۔ آر بی آئی کے سابق نائب گورنر ویرل اچاریہ کا کہنا ہے کہ بینک وہ چیز ہونا چاہیے جس پر بھروسہ کیا جا سکے۔ اس طرح بینکوں کی خرابی صحت کی علامات بے حد آسانی سے ظاہر ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں جہاں جمہوریت ہے وہیں تہذیبی طور سے یہ ملک مہذب بھی ہے۔ تمام لوگ قرض لے کر بے تحاشہ خرچ نہیں کرتے۔ اصلاً عام کھاتہ دار، بچت کرنے والا ہوتا ہے اور بر وقت بقایا چکانے والا بھی۔ ایسے ہی عام لوگوں کے بچت کی رقم سے بینک بھی جیتے ہیں مگر ہمارے یہاں کے بینکوں پر غیر کارکرد اثاثوں (این پی اے) کا کافی بوجھ ہے۔ دسمبر 2019 کی آر بی آئی رپورٹ کے مطابق این پی اے 7,39,541 کروڑ روپے تھا۔ اور امسال 1,89,391 کروڑ روپیوں کو بند کھاتوں میں رکھ دیا گیا ہے۔ آر بی آئی کی فینانشیل رپورٹ 2019 کے مطابق ملک بھر میں لیے گئے قرض میں 12.7 فیصد رقم کو این پی اے قرار دیا گیا ہے۔ اس قرض کو ہم جب اعداد وشمار میں لائیں گے تو پبلک سیکٹر کے بینکس کا کل خسارہ 11 لاکھ کروڑ روپیے ہوتا ہے جس میں ایس بی آئی کا تقریباً 3 لاکھ کروڑ روپے واجب الادا ہوتا ہے۔ درحقیقت آر بی آئی نے واضح کیا ہے کہ نصف سے زیادہ بقایا بڑے قرض داروں کے پاس ہیں۔ مگر آہستہ آہستہ یہ مرض چھوٹے قرض داروں میں بھی پھیل رہا ہے۔ یہ اعداد وشمار خطرے کی گھنٹی ہیں۔ مثلاً 2014 سے 2019 کے درمیان بینک آف بڑودہ کا این پی اے چار گنا سے زائد ہو گیا تھا۔ 2019 میں پی ایم سی بینک اور جاریہ سال میں یس بینک کے خسارے میں جانے کی و جہ سے لاکھوں افراد خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ آج وہ قانون کی ستم ظریفی کا بد ترین مظہر بن گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم تاریخی اعتبار سے ایسے معاملات میں نا اہل ثابت ہوئے ہیں۔ حالات ہیں کہ بگڑتے ہی جا رہے ہیں ہر طرف ناکامی ہی ناکامی نظر آ رہی ہے۔ یہ دروازہ دراصل حکم راں طبقے نے اپنے مفاد کی خاطر صنعت کاروں اور کارپوریٹس سے الیکشن لڑنے کے لیے بے کار پڑی ہوئی رقم وصول کرنے کے لیے کھولا ہے۔ اسی رقم سے وہ الیکشن جیتنے اور ارکانِ پارلیمنٹ اور ارکانِ اسمبلیوں کی خریداری کرتے ہیں تاکہ منتخبہ حکومتوں کو گرایا جا سکے۔ وہ الیکشن کے دور میں الکٹورل باؤنڈ کو حاصل کرنے کے لیے اپنے دوستوں کو قانون سے اوپر اٹھ کر بڑے سے بڑے قرض دلواتے ہیں۔ اس طرح کے معاملات میں بینک ان کے پروجیکٹس پر صحیح طور پر غور کرتا ہے اور نہ ہی تفتیش۔ 2014 سے موجودہ حکومت نے معاشی طور پر ایسے بڑے بڑے اقدامات کیے جس سے معیشت کی کمر پوری طرح ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد 8 نومبر 2016 کو غیر منصوبہ بند نوٹ بندی اور اچانک بغیر منصوبہ کے جلد بازی اور چند گھنٹوں میں ملک گیر سخت تالہ بندی کا نفاذ کر دیا گیا۔ ایسے حالات میں این پی اے کی حالت اور بھی گر گئی۔ ایسے وقت میں بینکوں میں بہت سارے اصولوں میں تبدیلی اور ڈھیل دینے کا مشورہ اور بھی معاشی تفکرات کو بڑھا دے گا۔
این پی اے کے متعلق یہ بھی اہم ہے کہ جانچ اور سزا دینے کی طاقت رکھنے کے باوجود مرکزی حکومت نے قرض داروں کو کوئی سخت اشارہ دیا اور نہ ہی کسی داغی کو سزا دی۔ مختلف رکاوٹوں اور مشکلات کو دور کرنے کے بعد بھی اتنی بڑی تنزلی کیسے ہوئی؟ اس سوال کا جواب آنا باقی ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ کئی اور تجارتی منصوبے بھی اس طرح ناکام ہوئے۔ یہ باتیں بھی خوب اڑائی گئیں کہ بینکوں کے کسٹمر بڑھانے کے لیے بینکوں کے اہل کار قرض لینے کے لیے کاروباریوں کے
پیچھے پڑ گئے جس کی وجہ سے ان لوگوں نے لین دین کے اصولوں کی پروا نہیں کی اور اس بھاگم بھاگ میں عوامی جمع کردہ سرمایے کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا۔ بگاڑ کی اس صورت حال میں بہتری کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ایسے افراد کے پیچھے پڑ کر بانٹی ہوئی دولت کی واپسی کے لیے پوری طاقت لگا دینی چاہیے تاکہ دیگر افراد کو بھی اس سے سبق ملے۔ اب تک حکومت کو این پی اے کے حصول میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل پائی ہے۔ اس لیے بعض حلقوں کی طرف سے یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت بڑے تاجروں اور کارپوریٹ گھرانوں سے این پی اے کے معاملے میں نرمی برت رہی ہے۔ حکومت کی بد نیتی کا یہ عالم ہے کہ لوک سبھا میں جب حکومت سے کارپوریٹ گھرانوں اور مختلف سیکٹرس کے مالکان کے نام کی فہرست طلب کی گئی تو اس نے اسے دینے سے یکسر انکار کر دیا۔ ملک میں جتنے کمرشیل بینکس ہیں سب کے سب وزارت فائنانس اور آر بی آئی کے دوہرے کنٹرول میں رہتے ہیں جبکہ بینک کا مینجمنٹ یا تو آر بی آئی دیکھتی ہے یا وزارتِ مالیات۔ اس لیے جب کبھی کسی طرح کی کوئی گڑ بڑ ہوتی ہے تو اس کا الزام دونوں پر آنا چاہیے کیونکہ بینک کی ناکامی کے بعد اس کا خمیازہ رقم جمع رکھنے والے اور شراکت داروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بینک کے فیل ہونے پر وہاں سے لوگ اپنی رقم میں سے محض ایک لاکھ روپے ہی نکال پاتے ہیں۔ بینک پر اعتماد کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ بچت کھاتے داروں کو پوری رقم واپس کرے۔
گزشتہ دنوں لنکڈ ان میں شائع شدہ ایک نوٹ میں رگھو رام راجن اور ویرل اچاریہ نے بینکنگ سیکٹر میں مجوزہ تبدیلی کے بھارتی کارپوریٹ گھرانوں کو بینک قائم کرنے کی اجازت دینے کی سفارش پر تنقید کی کیونکہ اس سے خاص کاروباری گھرانوں کے ہاتھ میں اور زیادہ معاشی (اور سیاسی) قوت اکٹھا ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ریگولیشن اور نگرانی مضبوط ہو تو بینکوں کو این پی اے کی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ بھارت میں ایسے بہت سے پروموٹرس ہیں جو لائسنس لیتے وقت ’فٹ اینڈ پراپر‘ ٹیسٹ پاس کر لیتے ہیں لیکن بعد میں ان کی نیت خراب ہو جاتی ہے۔ ایس اینڈ پی گلوبل ریٹنگس نے بھی گزشتہ دنوں بینک میں کارپوریٹس کے مالکانہ حقوق پر سوال اٹھایا ہے۔ ریٹنگس نے کمپنی کے اپنے نوٹ میں گزشتہ سال ہوئے کارپوریٹر ڈیفالٹ کا بھی حوالہ دیا ہے۔ بینکنگ سیکٹرس کی ابتری سے نمٹنے کے لیے حکومت بینکنگ پالیسی کو سخت اور منظم بنائے اور کارپوریٹس کو بڑے بڑے قرض دے کر چھوٹے کاروباریوں اور ڈپازیٹرس کو تباہ نہ کرے۔ جس طرح اسلامی بینکنگ سسٹم امریکہ، انگلینڈ، جرمنی اور چین جیسے ملکوں میں نفع بخش کاروبار کر رہا ہے حکومت کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
***

بینکنگ سیکٹرس کی ابتری سے نمٹنے کے لیے حکومت بینکنگ پالیسی کو سخت اور منظم بنائے اور کارپوریٹس کو بڑے بڑے قرض دے کر چھوٹے کاروباریوں اور ڈپازیٹرس کو تباہ نہ کرے۔ جس طرح اسلامی بینکنگ سسٹم امریکہ، انگلینڈ، جرمنی اور چین جیسے ملکوں میں نفع بخش کاروبار کر رہا ہے حکومت کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20 تا 26 دسمبر، 2020