مشترکہ مسائل کے حل کے لیے مشترکہ قیادت ضروری

قائد تدبر و حکمت کے ساتھ حالات کا جائزہ لیتا ہے۔قیادت پر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن عدم اعتماد افسوس ناک

سید احمد سالک ندوی، بھٹکلی

کامن سول کوڈ بھارت کے لئے غیر مناسب: مولاناخالد سیف اللہ رحمانی
ملک کے ایک طبقے کے دماغوں میں زہر بھر دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو اپنی حفاظت کا حق حاصل
ملک میں مسلمانوں کی مختلف جماعتیں اور ملی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ یہ تمام تنظیمیں اور جماعتیں ملک میں امن و امان اور بھائی چارے کو عام کرنے کی اپنے طور پر کوشش کرتی رہتی ہیں لیکن کچھ جزوی اور فروعی اختلافات کی وجہ سے بسا اوقات ہم مسلمان کسی بڑے ہدف کو حاصل کرنے یا خیر کے کسی اہم کام میں حسب ضرورت ہی اکٹھے ہوتے ہیں۔ حالانکہ دور حاضر میں اجتماعیت اور اتحاد کی ضرورت پہلے سے دو چند ہو گئی ہے۔ کبھی کبھار چھوٹی سی باتوں میں اختلاف کی وجہ سے ہم بڑے خیر سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ اس پریشانی کا حل تلاش کرنے اور ملت کے کامن اور مشترکہ مسائل کے حل کی کوشش کرنے اور باہم اشتراک کی راہیں تلاش کرنےکے لیے گزشتہ دنوں دہلی میں ’اتحاد ملت کانفرنس‘ منعقد کی گئی تھی۔ تمام اہم ملی تنظیموں اور جماعتوں کے ذمہ دار اس کانفرس کے داعیوں میں تھے۔ ملت کے کچھ حلقوں کی طرف سے اس اہم پروگرام کے خلاف سوشل میڈیا، اخبارات اور نیوز پورٹلس پر کچھ جذباتی اور غیر معتدل تبصرے دیکھنے کو ملے، اسی کے پیش نظر کانفرنس کی حقیقت اور ضرورت کو جاننے کے ساتھ ساتھ کئی اہم ملکی مسائل پر گفتگو کے لیے ہفت روزہ دعوت نے پروگرام کے کنوینر اور آل انڈیا مسلم پر سنل لاء بورڈ کے سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے حیدر آباد میں ان کی قیام گاہ پر ایک خاص ملاقات کی اور کانفرنس کی غرض وغایت اور اس سے متعلق اٹھنے والے سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی۔ اس دوران ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کی رہنمائی سے متعلق بھی کافی اہم باتیں سامنے آئیں۔ پیش ہے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے ساتھ ہفت روزہ دعوت کی اہم گفتگو۔
کیا تھا اتحاد ملت کانفرنس کا مقصد؟
گزشتہ دنوں میں دلی میں جو اتحاد ملت کانفرنس ہوئی اس کی کچھ خصوصیات تھیں۔ عام طور پر ایسا تو ہوتا ہے کہ کسی مشترکہ مسئلہ پر کوئی پروگرام ہوا اور اس میں مختلف مسالک کے نمائندے شامل ہوگئے لیکن یہ پروگرام دو اعتبارات سے خصوصی حیثیت کا حامل تھا۔ ایک یہ کہ اتحاد کی ہی راہیں تلاش کرنے کے لیے یہ پروگرام رکھا گیا تھا، دوسرا یہ کہ اس میں کوئی ایک ادارہ یا ایک شخص داعی نہیں تھا بلکہ تمام ملی تنظیموں اور مسالک کو اس کا داعی بنایا گیا تھا، وہ سب داعی بھی تھے اور سبھی سر جوڑ کر مشورے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ گویا اس میں ملت کے تمام سرکردہ شخصیات شامل تھیں، کیونکہ اکثر یہ بات محسوس کی جاتی ہے کہ جب کسی موضوع پر پروگرام ہوتا ہے چاہے وہ سیاسی ہو یا سماجی، اس میں لوگوں کی شرکت میٹنگ کی حد تک ہی رہتی ہے لیکن اس کانفرنس کا مقصد یہ تھا کہ اس کے شرکاء یہ سمجھیں کہ ہم بھی اس کے داعی ہیں اور اتحاد کے کاز کو آگے بڑھانے میں ہمیں بھی بہتر کردار ادا کرنا ہے۔ اس سوال پر کہ کچھ لوگوں کی طرف سے یہ باتیں پھیلانے کی کوشش کی گئی کہ یہ ایک خفیہ میٹنگ تھی؟ آپ خود بتائیں کہ میٹنگ کی کیا نوعیت تھی اور اس میں کن ایشوز پر گفتگو ہوئی؟ اس پر مولانا نے کہا کہ یہ کوئی خفیہ میٹنگ نہیں تھی لیکن اس کو عوامی میٹنگ نہیں بنایا گیا۔ اس میں اتحاد کا لائحہ عمل طے کرنا تھا اس لیے یہ بات مناسب سمجھی گئی کہ مختلف تنظیموں کے ذمہ دار سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس مسئلہ پر غور کریں۔ جب کئی تنظیموں کے لوگ بیٹھتے ہیں تو بعض دفعہ چھوٹی موٹی اختلافی بات بھی آجاتی ہے۔ اگر اس کو عام رکھا جاتا اور تمام لوگوں کو بلایا جاتا تو اتحاد کے بجائے افتراق کی صورت پیدا ہوجاتی۔ اگرچہ اختلاف بری چیز نہیں بلکہ مخالفت بری چیز ہے اور لوگ اس کو مخالفت سمجھ رہے ہیں اس لیے اس کو ابھی ذمہ داروں تک محدود رکھا گیا اور کوشش کی گئی کہ اوپر سے اسی اتحاد کے پیغام کو نیچے تک لے جایا جائے۔ میں ہفت روزہ دعوت کا شکر گزار ہوں کہ اس کے ذریعہ میری بات دعوت کے قارئین کے وسیع حلقے تک پہنچ سکے گی۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
قیادت پر عدم اعتماد نامناسب
نوجوانوں میں ملی قیادت پر بھروسہ کی کمی اور ان میں اعتماد کو بحال کرنے کی کوششوں کے بارے میں کیے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے کہا کہ ’یہ کوشش ہوسکتی ہے کہ ان سے کہا جائے کہ کسی بات کو کہنے سے پہلے سمجھنے کی کوشش کریں کیونکہ
قیادت ایک دن میں نہیں بنتی اور قیادت کی طرف سے کسی بات پر اظہار خیال حالات کو سامنے رکھ کر کیا جاتاہے۔ حضورؐ نے مکی زندگی میں جو قدم اٹھائے ہیں، مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں جو قدم اٹھائے ہیں اور بعد میں جو قدم اٹھائے ہیں وہ سب یکساں نہیں تھے۔آزادی سے پہلے ہمارے ملک کے جو حالات تھے اور آزادی کے بعد سے 2014 تک ہمارے ملک کے جو حالات رہے اور اب جو حالات ہیں یہ سب یکساں نہیں ہیں۔ قائد کا کام یہ نہیں ہے کہ لاٹھی لے کر میدان میں آئے بلکہ قائد کا اصل کام تدبر ہے، وہ صورتحال کو سمجھے کہ اس موضوع پر مجھے کیا بات کہنی چاہیے کہ ہمارا مقصد بھی ظاہر ہوجائے اور ہماری بات قانون کےدائرے سے باہر بھی نہ جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قائدین اس کام کو کررہے ہیں۔
اب آج کل ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ یہ پرانے زمانے کے قائدین ہیں، بوڑھے قائدین ہیں وغیرہ۔ اس پر وہ ایک سوال کرتے ہیں کہ امریکہ کے صدر کی کیا عمر ہے؟ روس اور چین کے صدور کی کیا عمریں ہیں؟ ان کا کہنا ہے کہ قیادت ہمیشہ تجربہ کار لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور عمل نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کیونکہ نوجوانوں میں قوت کار زیادہ ہوتی ہے اور بوڑھوں میں قوت فکر زیادہ ہوتی ہے۔ دونوں مل کر جب کام ہوتا ہے تبھی وہ آگے بڑھتا ہے۔ اس لیے نوجوانوں کو ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔ نوجوان تو ہندوستان میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحت مختلف پروگراموں میں ہم لوگ نوجوانوں کو موقع دیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ’کام سے آدمی قریب ہوتا ہے جب آپ کسی کام میں دلچسپی لیں گے اس میں حصہ لیں گے اس میں شرکت کریں گے تب ہی آپ کو مواقع ملیں گے۔ آپ شروع سے ہی یہ چاہیں کہ آپ کو عہدہ دیا جائے تو یہ ایک دن میں ہونے والا کام نہیں ہے۔ کسی بھی تنظیم میں دیکھ لیں کیا شروع دن سے ہی کسی نوجوان کو ذمہ داری دی جاتی ہے؟ ایسا تو نہیں ہوتا، بلکہ ان کا کام اور ان کی محنت وصلاحیت ان کو اس مقام پر پہنچادیتی ہے۔ ان کو کہنا نہیں پڑتا، لوگ خود کہتے ہیں کہ تم اس کام کے اہل ہو۔
سوشل میڈیا پر غیر ذمہ داری کے مظاہرے
پروگرام کے تعلق سے سوشل میڈیا پر کچھ منفی اور غیر معتدل تبصروں کے بارے میں ہم نے مولانا کی رائے جاننے کی کوشش کی اور یہ بھی پوچھا کہ لوگ کہہ رہے کہ ماضی میں بھی اتحاد کے نام پر ایسے پروگرام ہوئے ہیں لیکن ایسے پروگراموں کا حاصل کچھ نہیں ہوا؟ جواب میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بتایا کہ جہاں تک سوشل میڈیا میں لوگوں کے بیانات کا معاملہ ہے تو اصل میں یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ آج کل لوگ سوشل میڈیا پر لوگ بہت ہی غیر ذمہ داری کے ساتھ اپنی رائے رکھتے ہیں اور اس میں قائدین کی تحقیر، جماعتوں کی تنقیص اور جو کام بھی ہورہے ہیں ان کی بے توقیری وغیرہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ لوگ صرف اپنے کمروں میں بیٹھ کر تبصرے کرتے ہیں لہٰذا اس کی تو کوئی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا علی میاں کہا کرتے تھے کہ آپ اگرکوئی دینی کام کریں اور لوگوں کی طرف سے اسکی مخالفت ہوتو آپ اس کو اللہ کی طرف سے قبولیت کی رسید سمجھیے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی تنظیم ہو یا شخصیت ہو بہرحال ملی کام کرنے والوں کو ایسی باتوں کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ ہاں اگرواقعی کسی کمزوری پر توجہ دلائی گئی ہو اور وہ قابل اصلاح ہوتو اس کو قبول کرلینا چاہیے۔ رہی بات اس کی کہ ایسے پروگراموں کا حاصل کچھ نہیں ہے’ اسے میں صحیح نہیں سمجھتا‘ کیونکہ ہندوستان میں مختلف مسالک اور مذہبی تنظیموں کو جوڑنے کا باضابطہ کام 1972میں ہوا جب مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا ۔
آج مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم پر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہر مسلک و مشرب کے لوگ ہر جماعت اور ہر تنظیم کے ذمہ دار جمع ہوتے ہیں اس سے پہلے آپ اس کا تصور نہیں کر سکتے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا یہ کاز آگے بڑھا اور ملی کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ اس میں بھی یہی روح تھی، جمیعت علماء نے ایسے پروگرام کیے جس میں مختلف تنظیموں اور مسالک کے لوگ جمع ہوئے۔ جماعت اسلامی نے بھی ایسے پروگرام کیے۔ 1972سے پہلے بظاہراس طرح کا اجتماع مشکل ہوتا تھا ۔ یہ کہنا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا غلط ہے بلکہ اس کا فائدہ ہوا اور اس کا وزن حکومت تک نے بھی محسوس کیا اور آج بھی محسوس کر رہی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اس میں تمام مسلک کے لوگ تھے، وہ بھی تھے جو ایک دوسرے کی تنقید کرتے ہیں لیکن سب نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم لوگ ملت میں اتحاد کے لیے کام کریں گے۔ اس سلسلے میں ایک عہد نامہ شائع ہوا اس میں بھی بنیادی باتیں ہیں اس میں سیاسی اتحاد کی بات نہیں کی گئی مگر مسلکی نفرت جس کا فائدہ سیاست میں اٹھایا جاتا ہےاس سے بچنے اور اتحاد پر قائم رہنے کے لیے جو بنیادی باتیں ہوسکتی ہیں وہ اس عہد نامہ میں شامل کی گئی ہیں۔ اس کے بارے میں بھی ہم پر امید ہیں اور اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے ۔
میڈیا کو مدعو نہیں کیا تھا
جب ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ سوشل میڈیا پرجو بیان بازی ہورہی ہے اس کی فکر کیوں نہیں کرنی چاہیے جبکہ ایک بڑا طبقہ سوشل میڈیا سے متاثر ہوتاہے، نیز اس کو صحیح رخ دینے کے لیے آپ کی طرف سے کیا اقدام کیا جائے گا کہ جس سے لوگوں کا ذہن صاف ہو۔۔ مولانا نے کہا کہ جب آپ ہفت روزہ دعوت میں یہ بات شائع کریں گے تو امید ہے کہ غلط فہمی دور ہو گی۔ اس کے علاوہ اس پروگرام میں جو پانچ نکاتی تجویز منظور کی گئی ہے اورجس نو نکاتی عہد نامہ پر دستخطیں لی گئی ہیں وہ دونوں نشر کردیے گئے ہیں، تو میں سمجھتا ہوں کہ اب غلط فہمی دور ہونی چاہیے۔ اس وقت یہ منصوبہ تھا کہ پروگرام کی تفصیلات دوسرے دن اخبارات میں رپورٹ اور تجاویز کی شکل میں روانہ جائیں گی تاکہ اسے شائع کیا جاسکے کیونکہ بعض مرتبہ اخبار والے کچھ ناقص خبریں دے دیتے ہیں جس سےغلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے۔ جب ہم نے یہ پوچھا کہ اتنی اہم کانفرنس میں میڈیا کو کیوں نہیں بلایا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کے لوگوں کو نہیں بلایا گیا تھا اور ان دو حضرات سے بھی جو سوشل میڈیا سے تعلق رکھتے تھے، کہہ دیا گیا تھا کہ آپ لوگ اس خبر کو جاری نہ کریں بلکہ ہم خود اس خبر کو جاری کریں گے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ میڈیا میں مسابقت کا زبردست رجحان ہے چنانچہ ان میں سے ایک صاحب نے بلا اجازت پہلے خبر جاری کردی اور وہ بھی نامکمل اور ناقص، اس کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوگئی لیکن یہ کوئی خفیہ بات تھی نہیں بلکہ یہ ایک کھلا ہوا پیغام تھا۔ کوشش کی گئی تھی کہ پہلے ذمہ داروں کی آپس میں بات چیت ہو۔ عوام اگر اس میں جمع ہوں تو بعض دفعہ فکر کے مقابلہ میں جذبات کا غلبہ ہوجاتا ہے اور بات بگڑ جاتی ہے جس سے دوریاں بڑھ جاتی ہیں، اس لیے ان کو شروع میں الگ رکھاگیا۔ یہ تفصیلات جب آپ کے ذریعہ عوام میں جائیں گی تواس سے لوگ واقف ہوں گے۔
آئندہ بھی ہونگی ایسی کانفرنسیں
آئندہ ایسی کانفرنسوں کے انعقاد کے سلسلے میں مولانا نے کہا کہ اس پروگرام میں یہ بات شامل ہے کہ ہرریاست میں ریاستی سطح پر وہاں کے مختلف مسالک کے لوگوں کو جمع کرکے اس طرح کی ایک میٹنگ رکھی جائے گی اور جو مشترکہ ایجنڈا ہو گا اس کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔
اتحاد ملت کانفرنس میں مسلم پرسنل بورڈ کے کئی ذمہ داروں کی شرکت کی وجہ بتاتے ہوئے مولانا نے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، نہ ہی ملی کونسل سے۔ جو لوگ بھی شریک تھے وہ انفرادی حیثیت میں شریک تھے۔در اصل یہ طےکیا گیا تھا کہ اس کو کسی تنظیم کے تحت نہیں رکھا جائے گا بلکہ کچھ لوگ جو مختلف مسالک کے نمائندے ہیں خود انہی کو داعی بنایا جائے تاکہ وہ اس میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں۔
یکساں سول کوڈ بھارت کے لیے مناسب نہیں
گزشتہ دنوں دلی ہائی کورٹ کے یکساں سول کوڈ کےحوالے سے کیے گئےایک تبصرے پر سوال کرتے ہوئے دعوت کے نمائندے نےپوچھا کہ فرض کریں کہ اگر حکومت اسے بزور طاقت تھوپ دے تو پرسنل لا بورڈ کے ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے آپ کیا سوچتے ہیں کہ مسلمانوں کا کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟ اس پر مولانا نے کہا کہ ’کامن سول کوڈ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اندرا گاندھی کے زمانے میں اس وقت کے وزیر قانون نے کامن سول کوڈ کا مسئلہ اٹھایا تھا اس وقت سے لے کر آج تک یہ مسئلہ بار بار اٹھتا رہتا ہے۔
بنیادی طور پر آر ایس ایس اور ان کے مفکرین پہلے کہتے اور لکھتے رہے ہیں کہ ہندوستان میں کامن سول کوڈ مناسب نہیں ہے لیکن چونکہ بی جے پی کو کوئی ایسا ایجنڈہ چاہیےجس میں مسلمانوں کی مخالفت کا اظہار ہوتو اب اسی کو ایجنڈہ بنایا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ عیسائیوں، پارسیوں، جینیوں، سکھوں اور قبائیلیوں کا بھی ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں کے قبائیلیوں سے حکومت خود معاہدہ کرچکی ہے کہ وہ کامن سول کوڈ کو نافذ نہیں کرے گی۔
وہ ان سے کہہ چکی ہے کہ وہ اپنے رواج کے مطابق عمل کریں ان کو اپنے اپنے رواجوں کے مطابق عمل کرنے کی اجازت ہو گی۔ چونکہ ہندوستان کے دستور کی دفعہ ۲۵ میں ہر شخص کو مذہب پر عمل کی آزادی ہے تو اسی لیے حکومت کو اس معاملہ میں کسی دباو سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اگر کوئی آدمی اپنی مرضی سے کامن سول کوڈ پر عمل کرنا چاہے تو اس کے لیے اسپیشل میرج ایکٹ پہلےسے موجود ہے۔ اگر کوئی اس کے مطابق شادی کرے گا تو حکومت کا بنایا ہوا کامن لا اس پر نافذ ہوگا۔ اگر کوئی کامن سول کورٹ میں شادی کرنا چاہتا ہے تو اس پر کامن سول کوڈ نافذ ہو گا۔ حکومت کیسے کسی سے یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ اسپیشل میریج ایکٹ کے مطابق ہی شادی کرے؟ کسی کو مجبور تو نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کامن سول کوڈ کے مطابق ہی شادی کرے؟ ایسا کہنا خود ایک غیر دستوری فعل ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ شروع سے ہی یکساں سول کوڈ کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ دلی ہائی کورٹ کے بیان پر پرسنل لا بورڈ نے اپنا موقف پہلے ہی واضح کردیا ہے۔ اس معاملہ میں ہم لوگ لا کمیشن میں بھی گئے تھے، اس کے چیئرمین نے تسلیم کیا کہ ہندوستان کے لیے کامن سول کوڈ موزوں نہیں ہے۔
بہت سے لوگ امریکہ کی مثال دیتے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہاں ہر ریاست کا الگ قانون ہے۔ ایک ریاست میں کثرت ازواج منع ہے تو لوگ دوسری ریاست میں جاکر شادی کرتے ہیں۔ ہندوستان بہت بڑا ملک ہے یہاں کے لیے کامن سول کوڈ مناسب نہیں ہے۔ مولانا سے جب یہ پوچھا گیا کہ موجودہ دور میں ہر ناممکن ممکن بنتا جا رہا ہے تو اگر حکومت بزور طاقت اسے مسلط کردے گی تو آپ کیا کریں گے؟ جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت ایسا کرے گی تو ہم اس کی مزاحمت کریں گے۔ پارلیمنٹ کے ذریعہ جو کرسکتے ہیں وہ کریں گے، کورٹ کے ذریعہ جو کرسکتے ہیں وہ کریں گے لیکن اگر حکومت نے زبردستی نافذ کر ہی دیا تو ہمیں مسلمانوں کا ذہن ہمیں بنانا چاہیے کہ اپنی زندگیوں میں اس کو جاری نہ کریں۔ ایسا نہیں کہ حکومت کسی کو دوسری شادی کے لیے مجبور کرے گی۔ اب جب کہ تین طلاق کا قانون بن چکاہے تو کتنے ہی مسلم خاندان ہیں جو قانون شریعت پر عمل کرتے ہیں۔ جب آپ کورٹ میں جائیں گے تب ہی قانون آپ پر نافذ ہوگا۔ لہٰذا ہمیں مسلمانوں کا مزاج یہ بنانا چاہیے کہ بحیثیت مسلمان ہم قانون شریعت کے پابند ہیں حکومت چاہے کوئی بھی قانون بنالے ہم اپنے اسلامی اصولوں پر ہی قائم رہیں گے۔ اس معاملے میں قانون کے دائرے میں رہ کر ہم جو مزاحمت کرسکتے ہیں وہ کریں گے۔
جب مولانا سے یہ پوچھا گیا کہ کانفرنس کو ’اتحاد ملت‘ کا نام کیوں دیاگیا جبکہ اور بھی نام ہو سکتے تھے؟ کیونکہ اتحاد ملت کے نام سے ہی بعض لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ ’ہم نے اتحاد ملت کا عنوان اس لیے رکھا کہ وہ ایک معروف لفظ ہے اگر آپ اشتراک کہتے تو عام لوگ نہیں سمجھ پاتے۔ دوسری بات یہ کہ اشتراک کے لیے بھی اتحاد ضروری ہے۔ جب دو طبقوں میں اتحاد ہو گا تب ہی مشترکہ ایجنڈے پر دونوں مل کر کام کریں گے۔ اسی لیے ہم نے اتحاد ملت کا عنوان دیا۔
ملک کے موجودہ حالات میں مسلمانوں میں پائے جانے والے عدم تحفظ کے احساس کے متعلق جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ملی قیادتیں حکومت سے اس معاملہ پر بات کیوں نہیں کرتیں؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ ’اگر اس کا موقع ہوتو بات چیت کرنا چاہیے مگریہ ایسی حکومت ہے جو مسلمانوں سے بات ہی نہیں کرنا چاہتی۔ اس میں سننے کی صلاحیت بہت کم ہے۔ کسانوں کے مسئلہ پر دیکھیے آدھا سال گزر گیا۔ سڑک جام ہے لیکن حکومت کو ان سے بات چیت کی توفیق نہیں ہوئی۔ اَنا حد سے زیادہ بڑھی ہوئی ہے۔ جب طلاق کا مسئلہ چل رہا تھا تو بعض حلقوں سے کوشش کی گئی کہ حکومت سے بات چیت ہو لیکن حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی۔ جس حکومت کے پاس کان ہی نہ ہوں صرف زبان ہو، اپنی بات وہ کہے لیکن دوسروں کی بات نہ سنے اس سے آپ کیسے بات کریں گے؟ لیکن جہاں ایسا موقع ملے وہاں ضرور بات کرنی چاہیے۔ اگرکبھی ایساکوئی موقع ملا تو متحدہ طور پرحکومت سے ضرور بات چیت کریں گے ۔ اس معاملہ میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ہم کو اپنا تحفظ خود کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کا یہ مزاج بنانا ہوگا کہ وہ اپنی حفاظت آپ کریں اپنے مسائل کو خود حل کرنے کی کوشش کریں۔ کامن سول کوڈ کا مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم کورٹ میں جاتے ہیں۔ اگر آپ اپنے گھر میں رہتے ہوئے شریعت پر عمل کریں تو عدالت آپ کے پاس نہیں آئے گی۔ لہٰذا ہمیں اپنے دین، اپنی تعلیم کے معاملے میں خود مکتفی ہونا پڑے گا۔ ہم خود اپنے اندر صلاحیت پیدا کریں کہ اپنے مسائل خود حل کریں۔
ملک کے دیگر مسائل اور ارتداد کے واقعات کے متعلق ایک سوال کا جواب کا دیتے ہوئے مولانا نے کہا کہ ’زندگی کے ساتھ مسائل جڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس ملک میں ایک زندہ قوم کی حیثیت سے رہنا ہے۔ اگرچہ کہ ہم یہاں اقلیت میں ہیں اور صرف یہی نہیں ہمارے مقابلہ میں اکثریت ہے بلکہ اکثریت کا ایک طبقہ وہ ہے جس کے دماغوں میں ہمارے خلاف زہر بھر دیا گیا ہے۔ لیکن ہمیں مشکلات سے بہرحال گزرنا ہو گا، اس کے لیے اپنے آپ کو تیار بھی کرنا ہوگا۔ مسلمانوں بالخصوص نئی نسل کو اپنی حفاظت کے لیے تعلیم و تربیت کو ذریعہ بنانا ہو گا۔ تعلیم و تربیت کے ذریعہ ہی ہم نئی نسل کو ارتداد کے واقعات سے بچا سکتے ہیں۔ اس کے لیے مسلمانوں کی جتنی بھی تنظیمیں ہیں ان سب کو بھی مسلمانوں کے ایک ایک فرد سے ملاقات کرنا ہو گا۔ اور سب سے بڑھ کر ذاتی طور پر ہمیں خود یہ شعور پیدا کرنا ہو گا کہ ہم اپنے بچوں کی اسلامی خطوط پر تربیت کریں۔ اگر ہم یہ کام نہیں کریں گے اور صرف تنظیموں اور جماعتوں کو برا بھلا کہتے رہیں گے تو یہ صرف اپنے فرائض سے غفلت کو چھپانے کا بہانا ہو گا۔
( نوٹ: اتحاد ملت کانفرنس میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کا استقبالیہ خطاب صفحہ نمبر 12 پر صفحہ نمبر 13 پر اس پروگرام کے اہم خطابات کے ساتھ ملی قائدین کا عہد نامہ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔)
***

 

***

 ’زندگی کے ساتھ مسائل جڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس ملک میں ایک زندہ قوم کی حیثیت سے رہنا ہے۔ اگرچہ کہ ہم یہاں اقلیت میں ہیں اور صرف یہی نہیں ہمارے مقابلہ میں اکثریت ہے بلکہ اکثریت کا ایک طبقہ وہ ہے جس کے دماغوں میں ہمارے خلاف زہر بھر دیا گیا ہے۔ لیکن ہمیں مشکلات سے بہرحال گزرنا ہو گا، اس کے لیے اپنے آپ کو تیار بھی کرنا ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021