مسلم رہنماؤں نے کابل میں گرودوارے پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے جتھے دار اکال تخت کو مشترکہ تعزیتی خط لکھا
نئی دہلی، مارچ 31:ہندوستانی مسلم رہنماؤں نے 25 مارچ کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک گرودوارے پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کی "مکمل اور غیر مشروط” مذمت کی ہے، جس میں 25 سکھوں کی ہلاکت کا دعوی کیا گیا تھا۔ گیانی ڈاکٹر ہرپریت سنگھ، جتھے دار اکال تخت امرتسر اور تمام سکھ بھائیوں اور بہنوں سے اپنے مشترکہ خط میں مسلم قائدین نے اظہار تعزیت کیا ہے۔
20 نامور مسلم رہنماؤں کے ذریعے دستخط کردہ خط میں کہا گیا ہے ’’25 مارچ کو کابل کے ایک گرودوارے پر مجرمانہ قاتلانہ حملہ، جس کے نتیجے میں 25 بے گناہ اور بے قصور سکھ بھائیوں کی شہادت ہوگئی، ہمارے لیے ایسے ہی غم اور افسوس کی بات ہے جس طرح ہمارے سکھ بھائیوں اور بہنوں کے لیے ہے۔ ہم اس مجرمانہ فعل کی مکمل اور غیر مشروط مذمت کرتے ہیں۔‘‘
مسلم رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حملہ آور خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن ’’ان کا اسلام یا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
انھوں نے کہا ’’ہم ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف سے اپنے سکھ بھائیوں اور بہنوں اور خاص طور پر گیانی ڈاکٹر ہرپریت سنگھ جی، جتھے دار اکال تخت امرتسر اور ہر جگہ کی سکھ قیادت اور لوگوں سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ اور چوں کہ مجرم قاتلوں نے خود کو "مسلمان” کہا ہے، ہم اپنے سکھ بھائیوں اور بہنوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان مجرموں کا اسلام یا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گرد گروہ داعش کا اسلام یا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا ’’ہم اپنے سکھ بھائیوں اور بہنوں پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ داعش کے مجرموں، جنھوں نے کابل میں سکھوں کے گرودوارے پر مجرمانہ حملہ کیا، ان کا اسلام یا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ در حقیقت خوارج باغیوں کے نظریات پر عمل کرتے ہیں جنھیں کبھی بھی مسلمان قبول نہیں کیا گیا اور جو اسلام کے خلاف کام کرنے والے باغی اور کالعدم مسلمان سمجھے جاتے ہیں۔ وہ اپنے کردار، منصوبوں، الفاظ اور عمل کے لحاظ سے اسلام اور انسانیت کے دشمنوں کی خدمت کرتے ہیں اور ہر وہ کام انجام دیتے ہیں جو اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے منافی ہے۔‘‘
مسلم رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ امرتسر آکر اپنے جذبات کا اظہار کریں، لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ "ہم غم اور خوشی کے وقت میں ہمیشہ اپنے سکھ بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہیں۔‘‘
خط میں کہا گیا ہے ’’اگر حالات سازگار ہوتے تو ہم خود امرتسر آکر آپ سے ذاتی طور پر ملنے اور اپنے جذبات آپ تک پہنچانے کا اعزاز حاصل کرتے لیکن چوں کہ اس وقت پورا ملک لاک ڈاؤن سے گزر رہا ہے، اس لیے ہم اپنے جذبات کو تحریری طور پر آپ تک پہنچارہے ہیں۔‘‘
اس تعزیتی خط پر مندرجہ ذیل رہنماؤں کے دستخط ہیں:
سعادت اللہ حسینی، امیر جماعت اسلامی ہند
مولانا اصغر امام مہدی سلفی، امیر مرکزی جماعت اہل حدیث ہند
مولانا محمود مدنی، جنرل سکریٹری جمعیت علمائے ہند
مولانا سید احمد بخاری، شاہی امام جامع مسجد، دہلی
مولانا توقیر رضا خان، صدر اتحاد ملت کونسل، بریلی
مولانا سید کلبِ جواد نقوی، جنرل سکریٹری مجلس علماے ہند، امام جمعہ شاہی آصفی مسجد لکھنؤ
مفتی مکرم احمد، شاہی امام مسجد فتح پوری، دہلی
پروفیسر اختر الواسع، صدر مولانا آزاد یونی ورسٹی، جودھ پور
محمد سعید نوری، صدر رضا اکیڈمی، ممبئی
ڈاکٹر منظور عالم، جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل
خواجہ سید محمد نظامی، سجادہ نشین حضرت نظام الدین اولیا، دہلی
سید شاہ خسرو پاشا حسینی، سجادہ نشین اور متولی درگاہ حضرت خواجہ بندہ نواز، گلبرگہ
پروفیسر طاہر محمود، سابق چیئرمین قومی اقلیتی کمیشن
کمل فاروقی، ممبر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، سابق چیئرمین دہلی اقلیتی کمیشن
پروفیسر عبد الرحیم قدوائی ، ڈائریکٹر کے اے این قرآن مرکز، اے ایم یو
مجتبیٰ فاروق، جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت
مولانا سید محمد عسکری، صدر جامعہ اہل بیت، دہلی
پروفیسر سید علی محمد نقوی، صدر امامیہ ٹرسٹ ہند، ڈائریکٹر سر سید اکیڈمی اے ایم یو
مولانا سید محمد محسن تقوی، امام شیعہ جامع مسجد دہلی
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان، چیئرمین دہلی اقلیتی کمیشن، سابق صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت