تبلیغی جماعت کے خلاف میڈیا کی زہر افشانی انسانی گراوٹ کی انتہا ہے: امیر جماعت اسلامی ہند

ان تمام عہدہ داروں کے خلاف ایف آر ہونی چاہیے جو تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں کے متعدد خطوط کے جواب میں خاموش بیٹھے رہے۔

جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سید سعادت اللہ حسینی نے تبلیغی جماعت کے خلاف میڈیا کی نفرت انگیز مہم کو گھٹیا سیاست قرار دیا اور انسانی گراوٹ کی انتہا اور شرم ناک جرم سے تعبیر کیا ہے۔

انھوں نے کہا ’’تبلیغی جماعت اور مرکز نظام الدین کے خلاف جاری میڈیا اور سوشل میڈیا مہم انسانی گراوٹ کی انتہا ہے۔ اتنے عظیم انسانی بحران کو گندی سیاست کے لیے اور فرقہ ورانہ تفریق کی خاطر استعمال کرنا بذاتِ خود ایک شرم ناک جرم ہے۔‘‘

انۃوں نے کہا کہ تبلیغی جماعت کے زیرِ بحث پروگرام کے وقت اوراس کے بعد ملک کے ہر گوشے میں اس سے کہیں بڑے مذہبی اور غیر مذہبی پروگرام ہوئے، اور نام ور سیاست دانوں کی سرپرستی میں ہوئے۔ ان سب کو نظر انداز کرکے جس طرح مرکز نظام الدین کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری بحثوں کا معیار کس حد تک پست ہوچکا ہے۔

’’اس شرم ناک مہم کی سختی سے مذمت ہونی چاہیے۔‘‘

دلی کے وزیر اعلی روند کیجری وال کے ذریعے مولانا اسعد کاندھلوی کے خلاف ایف آئی آر کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ پہلے ان اہل کاروں کے خلاف معاملہ درج کیا جانا چاہیے جنھوں نے تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں کی متعدد درخواستوں کے باوجود ان پر عمل درآمد نہیں کیا اور جن حکام کی بدنظمی کی وجہ سے لاکھوں مزدووں کو سڑکوں پر جمع ہونا پڑا۔ ’’اگر مرکز نظام الدین کے کسی عہدے دار کے خلاف اس مسئلے کی وجہ سے ایف آئی آر ہوسکتی ہے تو اس سے پہلے مرکزی اور ریاستی حکومت کے ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آر ہونی چاہیے جن کی بد نظمی کی وجہ سے لاکھوں مزدور آنند وہار اور دیگر جگہوں پر لاک ڈاؤن کے باقاعدہ آرڈر کے بعد جمع ہوئے۔ اسی طرح ان سب عہدہ داروں کے خلاف ایف آر زیادہ ضروری ہے جو رپورٹوں کے مطابق، تبلیغی جماعت کے ذمہ داروں کے متعدد خطوط کے جواب میں خاموش بیٹھے رہے۔

’’ہم اس میڈیا مہم کی مذمت کرتے ہیں ۔ ہم سب تبلیغی جماعت اور مرکز نظام الدین کے ساتھ ہیں۔‘‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’’اس موقع پر مسلمان علما اور اکابر کے اُن بیانات کو پرُزور طریقے سے سامنے لانا چاہیے جو اس وبا سے مقابلہ کے لیے جاری کیے جاتے رہے ہیں، اور اُن عظیم خدمات کا بھی تعارف ہونا چاہیے جو مسلمان اور ان کی مختلف تنظیمیں وبا کی روک تھام اور متاثرین کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کررہی ہیں اور بلاتفریق مذہب و ملت تمام ہندوستانی بھائیوں اور بہنوں کے لیے کررہی ہیں۔ اور شائستگی کے ساتھ لوگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہیے کہ یہ وقت ایسی سیاست کا نہیں بلکہ متحد ہوکر اس بیماری کے مقابلہ کا ہے۔‘‘