احمد توصیف قُدس،جموں و کشمیر
’’ ہماری بستی‘‘ میں کئی ایسی باتیں رائج ہو گئی ہیں کہ جنھیں قصداً یا غیر قصداً لائقِ توجہ نہیں سمجھا گیا ہے۔آج میں اِن ہی باتوں میں سے ایک اہم بات پر کلام کرنے جا رہا ہوں کہ جس پر اگرچہ آج سے قبل بھی سوچا اور غور و فکر کیا گیا ہو گا۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ اِس مسئلہ کو اب تک جس سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے تھا، نہیں لیا گیا ہے۔ مسئلہ دراصل پرائیویٹ تعلیم گاہوں (Private Schools) میں اساتذہ کودی جانے والی تنخواہوں(Salaries) سے متعلق ہے۔ نظامِ تعلیم سے کسی بھی طرح کی وابستگی رکھنے والے اشخاص کے علاوہ عام لوگوں کو بھی اِس بات کا علم ہے کہ پرائیویٹ تعلیم گاہوں میں اساتذہ کو ایک معمولی تنخواہ سے’’ نوازا‘‘ جاتا ہے ۔ یہ تنخواہیں ظاہر ہے معاشرے کے معزز ترین انسان یعنی’’ استاد‘‘ کے مقام و مرتبے سے کسی بھی طرح میل نہیں کھاتیں۔بچوں کی تربیت اور اُنھیں تعلیم کے جوہر سے آراستہ کرنے والے جو اساتذہ ایک اچھی اور معقول تنخواہ کے مستحق تھے، اُنھیں معمولی اور انتہائی حقیر تنخواہ دے کر گویا اُن کی صلاحیتوں کے ساتھ استحصال کیا جاتا ہے۔
ہم پڑھتے آئے ہیں کہ ’’ ہماری بستی‘‘ کے یہ استاد قوم کے معمار ہیں اور یہ ان ہی کی محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہوتا ہے کہ قوم کو قابل ڈاکٹر، ماہر انجینیراور دیگر اعلیٰ انتظامی آفیسران میسر ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر، انجینر اور اعلیٰ آفیسر کی پروفیشنل زندگی دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک اچھی تنخواہ اور مراعات کا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ لیکن اِن کے ’’ شخصیت ساز‘‘ یعنی اُستاد کو ایک معمولی تنخواہ ملتی ہے، جو کہ علامتِ ظلم و جبر ہے۔دوسری جانب اگر سرکاری اسکولوں کی بات کی جائے تووہاں اساتذہ کو ایک موٹی تنخواہ ملتی ہے اور ہر سال اُس میں اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ سرکاری اسکولوں میں بچوں کی کارکردگی پرائیویٹ اسکولوں کے بچوں کے مقابلے میں کافی کمزور ہوتی ہے۔ لہٰذا یہاں پر استحصال پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کے ساتھ ہی ہوتا ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں کڑی محنت کرنے کے باوجود اچھی اور معقول تنخواہوں سے محروم رکھے جا رہے ہیں۔
’’ہماری بستی‘‘ میں چل رہے اکثر پرائیویٹ اسکولوںکی ماہانہ آمدنی لاکھوں میں چلی جاتی ہے، جو یا تو اسکول کے مالک کے بینک کھاتے میں جمع ہوتی ہے یا پھر اسکول کو چلانے والے چند افراد کی جیبوں کا ’’نوالہ‘‘بنتی ہے۔ بے شک اسکول کے مالک اور دیگر ذمہ داران کو اسکولی آمدنی سے زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اِس کے یہ ہر گز معنی نہیں کہ اسکول کو چلانے والے قابل اور محنتی اَساتذہ ٔ کرام کوچند ہزارروپیوںپر مبنی تنخواہوں سے ’’ دُکھ ‘‘ پہنچایا جائے۔500سے زائد بچوں والے اسکول میں آج اساتذہ کو ڈیڑھ ہزار،تین ہزار اور پانچ ہزارجیسی حقیر تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ آج کے اِس’’ مہنگے‘‘ دور میں یہ کسی بھی معنوں میں ایک معقول تنخواہ قرار نہیں دی جاسکتی۔ ایک استاد کے معاملے میں تو یہ بالکل ایک ناانصافی پر مبنی والی بات بن جاتی ہے۔ وہی استاد جس کے پیشے کو تمام پیشوں میں افضلیت حاصل ہے، وہ یقینا ایک معقول تنخواہ کا مستحق ہے۔ لیکن ہوتا اِس کے برعکس ہے اور کہنا تو یہ چاہیے کہ آج دن میں دیہاڑی کرنے والے مزدور کی کمائی ایک اُستاد کی ماہانہ کمائی سے کئی گُنا زیادہ ہے۔
یہ کم تنخواہوں کا رواج دراصل ایک مرض کی حیثیت اختیار کر گیاہے جس نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو ’’ نگل‘‘ لیا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر’’ہماری بستی‘‘ میں یہ مرض کیونکر پیدا ہوا اور اِس کے سدِ باب کے لیے کون سی چیزیں مانع رہی ہیں۔کافی غور و خوض کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کم تنخواہوں سے اسکول چلانے کی یہ لعنت دراصل تعلیم کو’’ Commercialize‘‘کرنے کا شاخسانہ ہے۔ ’’ہماری بستی‘‘کے نکڑ نکڑ اور گلی گلی میں پرائیویٹ اسکولز کھلے ہیں جن کا اولین مقصد والدین سے فیس کی صورت میں پیسے بٹورنا ہے اور بس۔بے روزگاری کے سبب ہمارے نوجوان ان اسکولوں میں کام کرنے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں۔یہاں ڈیوٹی کی ایک سخت پابندی اور جاں گسل محنت سے استاد کو گزرنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض پرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ کو اسکول کی جانب سے Home Tasks بھی دیے جاتے ہیں ۔ یہ اگرچہ ایک استاد کی شخصیت سازی کے حوالے سے ایک تعمیراتی عمل ہے۔ لیکن لبِ خنداں سے جو فریاد نکلتی ہے ، وہ بس یہی ہے کہ استاد کی اِس کڑی محنت کے باوجود اُس کے ساتھ روا رکھے جانے والا یہ ظلم آخر کیوں؟اور کب تک؟
’’ ہماری بستی ‘‘ میں رائج شدہ اِس لعنت کاشکارقابل اور ذہین طلبہ ہوئے ہیں ۔ یہ طلبہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کام کرنے سے ہی اعراض کرتے ہیں کہ کام کے عوض دی جانے والی تنخواہیں اِن کی ضروریات کو پورا نہیں کر پاتیں۔ نتیجتاً ہم قابل اور ذہین اساتذہ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ القصہ مختصر آج پرائیویٹ اسکولوں میں اساتذہ کو مہرہ بناکر تعلیم کے نام پر کاروبار ہو رہا ہے۔ اِن اسکولی ذمہ داروں کی پوچھ گچھ ہے اور نہ کوئی احتساب ۔ والدین بھی غفلت شعاری کا مظاہرہ کرکے فیس پر فیس جمع کراتے ہیں۔ وہ بچوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور اسکولی ذمہ داران بھی مجرمانہ غفلت برتتے ہیں۔ظاہر ہے استثنیٰ ہر کام میں موجود ہوتا ہے۔ کچھ تعلیمی ادارے ایسے بھی ہیں جہاں پر کوالٹی ایجوکیشن دی جا رہی ہے ۔ ایک ایک بچے پر انفرادی سطح پر محنت کی جاتی ہے اور اسکول سے فراغت کے بعد بچے کسی نہ کسی حیثیت سے قابل اور باصلاحیت بن جاتے ہیں ۔ایسے اداروں میں فیس اگر زیادہ بھی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن ستم یہ ہے کہ ایسے اداروں کی تعداد ’’ ہماری بستی ‘‘میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ (جاری…………)
[email protected]