مساجد کے ساتھ نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کی عمارت کو بھی ہے خطرہ

سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کی زد میں نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کی انیکسی بلڈنگ بھی ہے۔ اس بلڈنگ کو بھی اس ’مہان پروجیکٹ‘ کی زد میں لایا جائے گا، کیونکہ سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کے لیے تیار کیے گئے نقشے میں آرکائیوز کا یہ حصہ بھی متاثر ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اسے بچانے کےلیے گزشتہ سال دنیا بھر کے سو سے زیادہ مورخین نے نیشنل آرکائیوز کے سربراہ کو خط لکھا جس میں اس بات کی وضاحت طلب کی گئی ہے کہ کس طرح محکمے کے ملحقہ حصے میں رکھے ہوئے دستاویزات کو محفوظ رکھا جائے گا۔ خط لکھنے والوں میں امریکی اور ہندوستانی یونیورسٹیوں کے کئی پروفیسرز شامل ہیں۔ لیکن اس خط کے جواب میں صرف اتنا کہا گیا کہ ’ نیشنل آرکائیوز کی مرکزی عمارت کو منہدم نہیں کیا جائے گا۔‘ لیکن اس کے انیکسی بلڈنگ کی کوئی بات کسی نے نہیں کی۔ جبکہ اس کے ٹوٹنے کی خبر واضح طور پر میڈیا میں آچکی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ تاریخی تحقیق سے متعلق سب سے اہم دستاویزات اسی بلڈنگ میں موجود ہیں۔ یہ بلڈنگ پورے جنوبی ایشیا کی تاریخ سمیٹی ہوئی ہے۔ خلجی، تغلق، پٹھان، مغل اور برطانوی دور حکومت کے تمام تر دستاویزات اور فرامین یہاں محفوظ ہیں۔ اس انیکسی بلڈنگ میں موجود ان دستاویزات کا نہ جانے کیا ہونے والا ہے۔ غور طلب ہے کہ یہاں موجود دستاویزات کو ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے مورخین آکر دیکھتے ہیں اور ان کو اپنی تحقیق کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مورخین نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ کیا نیشنل آرکائیوز نے اس بلڈنگ میں موجود ریکارڈس کو بچانے کے لیے آرکائیوسٹ یا دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ کیا؟ انہوں نے نیشنل آرکائیوز انیکسی کی از سر نو تعمیر کی تکمیل اور وہاں پر محفوظ ریکارڈ تک رسائی کے لیے ٹائم لائن پر بھی وضاحت طلب کی تھی، تاکہ اسکالرز اس کے مطابق اپنے تحقیقی کاموں کی منصوبہ بندی کر سکیں لیکن حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی جانکاری فراہم نہیں کی گئی۔
نام نہ شائع کرنے کی شرط پر نیشنل آرکائیوز سے وابستہ ایک عہدیدار نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ نیشنل آرکائیوز کی یہ انیکسی بلڈنگ کئی لحاظ سے اہم ہے۔ سارے پرانے ریکارڈس اور دستاویز اسی بلڈنگ میں رکھے ہوئے ہیں۔ اسی بلڈنگ میں سارے اورئینٹل ریکارڈس ہیں۔ عربی وفارسی زبان میں زیادہ تر دستاویز اسی بلڈنگ میں ہیں۔ گاندھی جی سے متعلق اہم دستاویزی ذخیرہ جسے تقریباً چھ کروڑ میں خریدا گیا تھا، وہ بھی اسی بلڈنگ میں رکھا ہوا ہے۔ بھگت سنگھ سے متعلق سارے دستاویز اسی بلڈنگ میں ہیں۔ اس کے علاوہ کئی اہم شخصیتوں کے پرائیویٹ پیپرس بھی اسی بلڈنگ میں ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر دستاویزوں کا ڈیجیٹائزیشن بھی نہیں ہوا ہے، اگر منتقلی کے دوران یہ دستاویز خراب یا غائب ہو گئے تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ ان اہم دستاویز کو منتقل کرنے کی کیا پالیسی ہے، اسے کہاں منتقل کیا جائے گا اور کس طرح منتقل کیا جائے گا اس پر حکومت کا موقف واضح نہیں ہے۔ اس کام میں کہیں بھی شفافیت نظر نہیں آ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کلکتہ سے نیشنل آرکائیوز کو دہلی منتقل کیا گیا تھا تب پورے دس سال لگے تھے اس کے باوجود بہت سارے اہم دستاویز برباد ہو گئے جبکہ اس وقت دستاویزات بہتر حالت میں تھے۔ آج دستاویزوں کی بوسیدگی کا عالم یہ ہے کہ محض چھونے سے ختم ہو جائیں گے۔
راقم الحروف بھی نیشنل آرکائیوز کا ممبر رہا ہے اور قوم کے کئی رہنماؤں اور تنظیموں کو اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کرتا رہا کہ اس میں موجود مسلمانوں کی تاریخ اور خاص طور پر یہاں رکھے ہوئے عربی و فارسی کے دستاویزوں کو بچانے کی کوشش ہم سب کو مل کر کرنی چاہیے لیکن افسوس کہ کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ یاد رہے کہ کوئی بھی قوم یا معاشرہ جو اپنے دستاویزات، تاریخی چیزوں، ثقافت اور فنون کو محفوظ نہیں رکھ سکتا، اس کی خودمختاری، آزادی یا وقار کی کوئی قدر باقی نہیں رہ جاتی۔ کسی بھی قوم کے لیے آرکائیوز کا وجود اس کی تاریخی اور تحقیقی بنیاد کو ظاہر کرتا ہے۔ کسی معاشرے کی ذہانت کا اندازہ محققین کی سرگرمی اور تحقیق کے معیار سے لگایا جاتا ہے۔ محققین کو اصل ریکارڈ فراہم کرنے کی ذمہ داری ضلعی سطح سے ملکی سطح تک آرکائیوز پر عائد ہوتی ہے اس لیے ان تمام آرکائیوز کو بچانے کی سخت ضرورت ہے۔
اس معاملے میں ہم آسٹریلیا سے کافی کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یہاں سے جون 2021 میں یہ خبر آئی کہ آسٹریلیا کے نیشنل آرکائیوز کا ایک اہم حصہ جو لفظی طور پر ناقابل تلافی تاریخی ریکارڈوں کا ذخیرہ ہے، برباد ہو رہا ہے۔ یہ خبر آنی تھی کہ یہاں کے 150 سے زیادہ مصنفین، ماہرین تعلیم اور ممتاز آسٹریلوی شہریوں نے وزیر اعظم کے نام ایک کھلا خط لکھا اور قومی سطح پر ایک مہم بھی شروع کی جس میں آرکائیوز میں موجود دستاویز کو نظر انداز کرنے کے خلاف احتجاج کیا گیا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ محکمہ کے سابق سکریٹری کی طرف سے تجویز کردہ معمولی فنڈنگ میں اضافے پرعمل درآمد کرے۔ اس مہم میں آسٹریلیا کے دو نوبل انعام یافتہ اور تین آسٹریلین آف دی ایئر افراد شامل ہیں۔ جبکہ کہا جاتا کہ آسٹریلیا کے اس آرکائیوز کے تمام دستاویز ڈیجیٹائز ہیں۔
خیال رہے کہ کلکتہ میں امپیریل ریکارڈ ڈیپارٹمنٹ کے طور پر قائم کیا گیا یہ نیشنل آرکائیوز آف انڈیا نایاب ریکارڈوں کا نگہبان ہے، جو جنوب مشرقی ایشیاء کا سب سے بڑا آرکائیوز ہے۔ سرکاری دستاویزات، مشرقی ریکارڈ، نقشے اور معززین کے ذاتی ریکارڈ بھی یہاں محفوظ ہیں۔ یہ آرکائیو محققین، منتظمین اور دیگر صارفین کو انمول معلومات فراہم کرتا ہے۔ نیشنل آرکائیوز اس وقت حکومت ہند کے وزارت ثقافت کے ماتحت ہے۔ مارچ 2021ء میں اس نیشنل آرکائیوز کا 125 واں یوم تاسیس منایا گیا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  16 جنوری تا 22 جنوری 2022