مرکزی حکومت ریاستوں کے حقوق سلب کر رہی ہے

ریاست اور مرکز کے درمیان رسہ کشی سے عوام متاثر

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

مرکزی حکومت کا رویہ ریاستوں کے تئیں غیر منصفانہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت ریاستوں کے حقوق کو مکمل طور پر ختم کر کے اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتی ہے۔ غیر بی جے پی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کا کہنا ہے کہ مرکز نے ہمارے ساتھ جانب دارانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ وہ ریاستوں کے حقوق سلب کر رہی ہے۔ جب سے نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے ریاستوں کے حقوق ختم کیے جارہے ہیں۔ کیا واقعی صورت حال یہی ہے؟ کیا واقعی ریاستوں کے حقوق کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟
غور کرنے سے ایک بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ مرکزی حکومت چاہے وہ بی جے پی کی ہو یا کانگریس کی، دونوں نے ہی وفاقی طرز کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے تلنگانہ کے وزیر اعلی نے دستور کو تبدیل کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ دستور میں ریاستوں کے حقوق کے تحفظ کے متعلق کوئی خاص قوانین نہیں ہیں اور جو حقوق ریاستوں کو حاصل تھے ان میں بھی بڑی تبدیلیاں کردی گئی ہیں، جو کام ریاست کے ذمہ تھے ان میں مرکزی حکومت نے زبردستی مداخلت کرتے ہوئے قوانین بنا کر اپنے ذمہ لے لیے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دستور کی تبدیلی سے ریاستوں کو حقوق مل جائیں گے؟ کیا اس کے لیے دستور کی تبدیلی ہی ضروری ہے؟ دوسری طرف بی جے پی کا کہنا ہے کہ دستور کی تبدیلی کی بات غیر جمہوری ہے، یہ ملک سے غداری کے مترادف ہے۔ وفاقی حقوق کے تحفظ کے لیے یکسر دستور کو تبدیل کرنا ہی ضروری نہیں ہے اور نہ ہی کوئی دستور کی تبدیلی کی بات کرنا ملک سے غداری کہلاتا ہے۔ دستور میں سیکڑوں مرتبہ ترمیمات کی گئیں تو پھر دستور کو تبدیل کرنا غداری کیسے کہلائے گا۔
غیر بی جے پی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ ہی نہیں بلکہ بی جے پی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی دبی آواز میں یہی بات کہہ رہے ہیں کہ مرکز نے ریاستوں کے حقوق تلف کرنے والے قوانین بنائے ہیں۔ وہ کھل کر مرکزی حکومت کی مخالفت نہیں کر سکتے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے حقوق اور ان کے وسائل پر مرکزی حکومت حملے کر رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر مرکزی حکومت کا رویہ ریاستوں کے تئیں یہی رہا ہے۔ ہر مرکزی حکومت نے ریاستوں کے حقوق سلب کیے ہیں لیکن موجودہ حکومت نے بہت بے دردی کے ساتھ ریاستوں کے حقوق سلب کیے ہیں۔ بی جے پی کا سوال ہے کہ ہمارے دور میں زیادہ حملے ہوئے ہیں یا کانگریس کے دور میں؟ سوال یہ نہیں ہے کہ کس کے دور حکومت میں کتنے حملے ہوئے، سوال یہ ہے کہ حملے ہوئے ہیں یا نہیں؟ کچھ مثالوں سے ہم اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گورنروں کا تقرر اور ان کے اختیارات: آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ان کا تقرر کیوں کیا جاتا ہے؟ ان کے کیا اختیارات ہیں؟ ہر سیاسی جماعت اپنے دور اقتدار میں اپنے سیاسی کارکنوں کو ہی اس عہدے پر تقرر کرتی رہی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ گورنر، مرکزی حکومت کے آلہ کار بن کر رہتے ہیں جب کہ ان کو غیر سیاسی ہونا چاہیے، ان کا گھر سیاسی سازشوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے جب کہ ان کو غیر جانب دار ہونا چاہیے۔ مغربی بنگال کو ہی دیکھ لیجیے، وہاں گورنر کا رویہ کیا رہا ہے؟ ایسا لگتا تھا کہ وہ گورنر نہیں بلکہ ریاست میں حزب اختلاف کے سربراہ ہیں۔ کیرالا کے گورنر کا حال دیکھ لیجیے وہاں بھی ان کا رویہ حزب اختلاف کے رہنما جیسا ہی ہے۔ کابینہ اسمبلی اجلاس رکھنے کی تجویز پیش کرتی رہی اور وہ اجلاس نہ رکھنے پر بضد رہے۔ دلی کے لیفٹننٹ گورنر جنرل نے تو دلی کی منتخب حکومت کو کام کرنے ہی نہیں دیا، وہ ہر قدم پر ان کو روکتے ہوئے نظر آئے، حد تو یہ ہو گئی کہ مرکزی حکومت نے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے گورنر جنرل کے اختیارات میں مزید اضافہ کیا اور کہا کہ گورنر جنرل ہی دلی کے اصل حاکم ہیں، یعنی منتخب ارکان کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہی۔ غرض اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں۔ مہاراشٹرا، گوا اور اسی طرح دیگر غیر بی جے پی ریاستوں میں گورنروں کی سرگرمیاں ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ساری کوششیں بی جے پی کو اقتدار میں لانے اور باقی رکھنے کے لیے ہیں۔
دستور میں واضح طور پر مرکز کے اور ریاست کے اختیارات بیان کر دیے گئے ہیں، جو ریاست کے تحت ہیں ان پر ریاست ہی قوانین مدون کرے اور جو مرکز کے تحت ہیں انہیں مرکز کرے اور جن پر دونوں کے اختیارات ہیں ان پر دونوں کو مل کرنا چاہیے۔ پھر بھی مرکز، ریاستی حکومتوں کے اختیارات میں دخل اندازی کرتے ہوئے ان کو اپنے ماتحت کرتا جا رہا ہے۔ کسانوں پر قانون سازی ریاست کے ذمہ ہے لیکن اس پر مرکز نے قانون سازی کی جو کھلے طور پر ریاست کے اختیارات میں مداخلت ہے۔ تعلیم کا معاملہ دونوں کے مابین ہے دونوں کو مل کر اس معاملے میں قانون سازی کرنی چاہیے لیکن مرکز نے یکطرفہ طور پر مرکزی تعلیمی پالیسی بنائی اور ریاست کا کوئی عمل دخل نہیں رکھا۔
تیسری بات دوسرے ممالک سے معاہدات طے کرنا ہے، ان سے لین دین کرنا مرکز کا کام ہی ہے لیکن مرکز ایسے معاہدے کر رہا ہے جن سے ریاستوں کو مالی نقصان ہو رہا ہے اور وہ اس معاملے میں ریاستوں سے کسی قسم کی بات چیت بھی نہیں کر رہا یے۔
چوتھی بات یہ کہ ریاست کے اختیارات سے متعلق قوانین میں ترمیم کر کے ان سے وہ اختیارات بھی چھین لیے گئے۔ مثال کے طور پر برقی قوانین میں ترمیم، یہ ریاست کے تحت تھا جو اب مرکز کے تحت ہو گیا ہے۔ اس قانون میں ترمیم کی وجہ سے ریاستیں اب مفت برقی سربراہ نہیں کر پائیں گی۔ اس میں کسی بھی قسم کی رعایت نہیں دے پائیں گی، یہاں تک کہ وہ اس شعبے کے سربراہ کا تقرر بھی نہیں کر سکتی ہیں۔ اسی طرح بندرگاہ سے متعلق قوانین میں ترامیم کی گئیں، یہ بھی ریاست کے تحت تھیں۔ ڈیمس کے تحفظ کا بل بھی لایا گیا جس کی وجہ سے چھوٹے سے چھوٹا آبپاشی پروجیکٹ بھی مرکز کے تحت ہو گیا ہے۔ مرکزی طبی کمیشن بل میں ترمیم کی گئی جس سے سارا کمیشن مرکز کے تحت ہو گیا ہے۔ اس طرح اور بھی قوانین میں ترامیم کی گئیں جو ریاست کے تحت تھے۔
پانچویں چیز حال ہی میں آئی اے ایس اور آئی پی ایس سے متعلق آل انڈیا سرویس رولز میں رول (6) میں ترمیم کی گئی، اس میں ترمیم کرتے ہوئے مرکز نے ان کے تقررات میں ریاست کو کوئی اختیارات نہیں دیے ہیں بلکہ ان سے سارے اختیارات چھین لیے ہیں۔
چھٹی چیز منصوبہ بندی کمیشن کو ختم کر کے ریاستوں کے پروجیکٹس کو دیے جانے والے گرانٹس کو مرکزی وزارت خزانہ کے تحت کردیا گیا ہے۔ پھر اسی طرح سرچارج اور سیس میں اضافہ کیا جا رہا ہے، اس میں ریاستوں کو کوئی حصہ داری نہیں دی جا رہی ہے۔ اسی طرح جی ایس ٹی کے قانون نے تو ریاستوں کو ٹیکس وصول کرنے کے حق سے ہی محروم کر دیا ہے، اب ریاست اپنے طور پر کسی بھی قسم کا ٹیکس عائد نہیں کر سکتی، جی ایس ٹی سے نقصان ہونے پر ریاست کو اس کا معاوضہ دیے جانے والا قانون موجود ہے لیکن کوویڈ کے دوران یہ کہہ کر معاوضہ نہیں دیا گیا کہ یہ تو خدا کی طرف سے تھا اس میں مرکز کیا کر سکتا ہے یہ تو ایکٹ آف گاڈ ہے۔
بہرحال ریاست اور مرکز کے درمیان جاری اس رسہ کشی میں عوام ہی پس رہے ہیں۔
***

 

***

 دستور میں واضح طور پر مرکز کے اور ریاست کے اختیارات بیان کر دیے گئے ہیں، جو ریاست کے تحت ہیں ان پر ریاست ہی قوانین مدون کرے اور جو مرکز کے تحت ہیں انہیں مرکز کرے اور جن پر دونوں کے اختیارات ہیں ان پر دونوں کو مل کرنا چاہیے۔ پھر بھی مرکز، ریاستی حکومتوں کے اختیارات میں دخل اندازی کرتے ہوئے ان کو اپنے ماتحت کرتا جا رہا ہے۔ کسانوں پر قانون سازی ریاست کے ذمہ ہے لیکن اس پر مرکز نے قانون سازی کی جو کھلے طور پر ریاست کے اختیارات میں مداخلت ہے۔ تعلیم کا معاملہ دونوں کے مابین ہے دونوں کو مل کر اس معاملے میں قانون سازی کرنی چاہیے لیکن مرکز نے یکطرفہ طور پر مرکزی تعلیمی پالیسی بنائی اور ریاست کا کوئی عمل دخل نہیں رکھا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  27 تا 02 اپریل  2022