سید منصور آغا
سیاسی شعبدہ بازی اور غلط ترجیحات ترقی میں رکاوٹ
’قومی مردم شماری-2021‘ کو جو 1881 کے بعد سے ہر دس سال میں ایک مرتبہ کیا جانےوالا ایک باقاعدہ عمل ہے، تاریخ میں پہلی بار غیر منصوبہ بند لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ کووِڈ-19 وبا کی پیدا کردہ افراتفری کے سائے میں موخر کر دیا گیا۔ دوسری جانب انہی حالات میں انتخابات میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی۔ جیسا کہ میڈیا میں بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا ہے، بہت بڑی انتخابی ریلیوں اور روڈ شوز تک کا اہتمام کیا گیا ہے۔ حفاظتی پروٹوکول کو نظر انداز کرتے ہوئے مختلف مذہبی سماجی تہوار اور بڑے اجتماعات پورے زوروشور سے جاری رہے۔ اب جبکہ پانچ ریاستوں کی اسمبلیوں کے انتخابات ہو رہے ہیں،تاحال موخر کردہ مردم شماری کے عمل کو پھر سے شروع کرنے کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ حالانکہ یہ انتخابات کے انعقاد سے زیادہ بڑا کام نہیں تھا ۔ مردم شماری کا کام نقص سے پاک حفاظتی طریقے اور اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ رویّہ موجودہ حکومت کی ترجیحات کے بارے میں بہت کچھ کہتا ہے۔
مردم شماری مختلف مقامات اور خطوں کے لیے ترقیاتی اسکیمات کو وضع کرنے اور ترجیحات طے کرنے کے لیے حقیقی اعداد و شمار جمع کرنے کا سب سے اہم کام ہے، اور پسماندہ علاقوں کو اوپر اٹھانے اور دوڑ میں پیچھے رہ جانے والی آبادی کو ترقی دینے کا کام اسی سے ممکن ہے ۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر انتخابات کے بعد انتحابات اور روایتی اجتماعات ’محفوظ طریقے‘ سے منعقد ہو سکتے ہیں تو مردم شماری کو غیر معینہ مدت کے لیے ٹال دینے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر حکومت نے انتخابات کی طرح ترقی کو اہمیت دی ہوتی تو کوئی رکاوٹ اس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی تھی۔ مردم شماری کے عملے کے لیے کووِڈ پروٹوکول کی پابندی اور ساتھ ہی آن لائن تیکنیکوں کے ساتھ راستہ نکالا جاسکتا تھا۔
اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ چین اور امریکا نے نامساعد حالات کو پس پشت ڈال کر اس کام کو مکمل کیا ہے اور حاصل کردہ ڈیٹا نے اہم قومی پالیسیوں میں ترمیم کا راستہ دکھایا ہے۔ مثال کے طور پر، چین نے فوری طور پر ایک بچہ کے اصول کو ختم کرکے آبادی کی پالیسی کو درست کیا۔ امریکا نے مردم شماری سے منسلک عملے کی حفاظت کے لیے نئی آن لائن اور فون سہولتوں کو بروئے کار لاکر اگست 2021 تک آبادی کا اہم ڈیٹا جاری کیا۔
مقصد
مردم شماری کا مقصد بنیادی طور پر غیر سیاسی ہے۔ اس کا مقصد ہر علاقہ اور اس میں رہنے والے لوگوں کے سماجی اور اقتصادی معیارات کا تعین کرنا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ معاشی و ترقیاتی پالیسیوں اور منصوبہ بندی، بجٹ اور انتظامیہ کا بہترین نتیجہ اسی وقت حاصل کیا جا سکتا ہے جب منصوبے حقائق اور اعداد و شمار پر مبنی ہوں اور ذاتی خواہشات یا فرقہ وارانہ مفادات رہنما اصول نہ ہوں۔
بدقسمتی سے، ان طاقتوں کا مقصد مردم شماری کو ایک اوچھے سیاسی مقصد کے ساتھ جوڑنا ہے۔آسام کے طرز پر شہریوں کا قومی رجسٹر (NRC) بنانا ان کا منصوبہ ہے ، جس کے نتیجے میں ملک میں نسل در نسل رہنے والے لاکھوں بیٹے اور بیٹیاں حق رائے دہی سے محروم ہوں گے۔
خدشات
پہلی بار بظاہر نا واجبی سیاسی مقاصد کے تحت کچھ نئے سوالات، جیسے والدین کی تفصیلات، ان کی تاریخ اور جائے پیدائش وغیرہ، شامل کیے گئے ۔ یہ 31 سوالات تک پھیلا ہوا ایک بوجھل سوالنامہ تھا۔ آبادی کے اعداد و شمار کو شہریوں کے ساتھ ملا کر اور والدین کے حوالے سے غیر متعلقہ جھگڑے شامل کر کے اس سارے عمل کو متنازعہ بنا دیا گیا۔
تاہم، رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کمشنر، انڈیا کا دفتر این پی آر کے مقاصد کے لیے ایک عام رہائشی کی تعریف ایک ایسے شخص کے طور پر کرتا ہے جو مقامی علاقے میں پچھلے 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے سے رہائش پذیر ہو یا وہ شخص جو اگلے 6 ماہ یا اس سے زیادہ عرصے تک اس علاقے میں رہنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اس خدشے کی جڑیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مرکزی وزارت داخلہ اور حکومت کے متعدد بیانات میں پائی جاتی ہیں۔ بار بار یہ اعلان کیا گیا کہ این آر سی میں این پی آر کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ اکثریتی آبادی کو یقین دلانے کے لیے، CAA نافذ کیا گیا۔
این پی آر کے انتہائی متنازعہ بننے کے بعد اورمذہبی تعصب، آئینی طور پر ناقص اور بد نیتی پر مبنی سی اے اے اور این پی آر کو این آر سی کے ساتھ جوڑنے کے ارادے کے خلاف ملک گیر احتجاج شروع ہوا تو حکومت نے اگرچہ اپنے ارادوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی، تاہم ’انکار‘ سے پہلے، وزارت داخلہ نے کئی بار پارلیمنٹ میں اسی ارادے کا اظہار کیا تھا۔ 2014 میں، لوک سبھا کو وزارت داخلہ کی طرف سے ایک سوال کے جواب میں مطلع کیا گیا تھا، ’’این پی آر کی اسکیم کا جائزہ لیا گیا ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ این پی آر کو مکمل کیا جائے گااور اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا، این پی آر میں ہر عام رہائشی کی شہریت کے موقف کی تصدیق کے ذریعے ’نیشنل رجسٹر آف انڈیا‘ اس کی شکل ہوگی ۔
مرکزی وزارت داخلہ کی سالانہ رپورٹ (19-2018)میں کہا گیا ہے، ’’حکومت ہند نے تمام عام رہائشیوں کی مخصوص معلومات اکٹھی کرکے قومی آبادی رجسٹر (NPR) بنانے کی اسکیم کو منظوری دی ہے۔ این پی آر نیشنل رجسٹر آف انڈین سٹیزن (این آر آئی سی) کی تشکیل کی طرف پہلا قدم ہے۔
جیسا کہ میڈیا میں رپورٹ کیا گیا تھا، بی جے پی نے ایک ٹویٹ میں جسے CAA مخالف مظاہروں کے درمیان حذف کر دیا گیا ہے،مرکزی وزیر داخلہ مسٹر امیت شاہ سے ایک بیان منسوب کیا تھا کہ وہ پورے ملک میں این آر آئی سی کو نافذ کریں گے۔ بی جے پی کے منشور میں بھی کہا گیا تھا کہ این آر آئی سی کو ملک کے مختلف حصوں میں لے جایا جائے گا۔
وزیر داخلہ مسٹر امیت شاہ نے جو اس وقت بی جے پی کے سربراہ بھی تھے (2 دسمبر 2019) کو چکرادھر پور اور بہاراگوڑہ (جھارکھنڈ) میں اپنی انتخابی ریلیوں میں اعلان کیا تھا، ’’آج، میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ 2024 کے انتخابات سے پہلے پورے ملک میں این آر سی کا انعقاد کیا جائے گا اور ہر درانداز کی شناخت کر کے نکال دیا جائے گا۔‘‘
یقین دہانیاں
تاہم، اے این آئی کے ساتھ ایک انٹرویو میں، مسٹر امیت شاہ نے یو ٹرن لیتے ہوئے کہا:’’این پی آر وہ ڈیٹا بیس ہے جس پر پالیسی بنائی جاتی ہے۔ این آر سی ایک ایسا عمل ہے جس میں لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی شہریت ثابت کریں۔ دونوں عملوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے، اور نہ ہی انہیں ایک دوسرے کے سروے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ این پی آر ڈیٹا کبھی بھی این آر سی کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں تک کہ قوانین بھی مختلف ہیں۔ میں تمام لوگوں کو خاص طور پر اقلیتوں کو یقین دلاتا ہوں کہ این پی آر کو این سی آر کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ یہ ایک افواہ ہے۔‘‘
مزید یقین دہانی کروائی گئی کہ مردم شماری خود اعلانیہ پر مبنی ہوگی، جواب دہندگان سے کوئی ثبوت نہیں مانگا جائے گا، بائیو میٹرک کی ضرورت نہیں ہوگی۔ تاہم، حکومت والدین کی تفصیلات جیسے غیر متعلقہ سوالات کو چھوڑنے سے گریزاں ہے تو خدشات برقرار ہیں۔ یہ خدشات اپنے کہے ہوئے الفاظ کو ’جملہ‘ کہہ کر رد کرنے کے نئے رجحان کی وجہ سے بھی ہیں۔
این پی آر کی قومی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، حکومت کو یاد دہانی کرائی جانی چاہیے کہ مردم شماری مزید تاخیر کے بغیر کروائی جائے لیکن ایک ترمیم شدہ سوالنامے کے ساتھ ۔
سب سے بڑا ذریعہ
مردم شماری بھارت میں رہنے والے لوگوں کی مختلف خصوصیات کے بارے میں مختلف اعدادوشمار کی معلومات کا سب سے بڑا واحد ذریعہ ہے۔ لوگوں کا وسیع تنوع درحقیقت دس سالہ مردم شماری سے ظاہر ہوتا ہے جو ہندوستانی آبادی کے مختلف پیمانوں؛ ان کے معیار زندگی، تعلیم کا موقف ، روزگار، مذہب کے لحاظ سے آبادی کا تناسب، اور شرح نمو وغیرہ کو سمجھنے اور ان کا مطالعہ کرنے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ این پی آر کا مقصد ملک کے ہر عام باشندے کی شناخت کا ایک جامع ڈیٹا بیس بنانا ہے۔ اسے غیر تبدیل شدہ رہنا چاہیے۔
آخری مردم شماری
این پی آر کے لیے آخری بارمعلومات 2010 میں مردم شماری 2011 کے گھر کی تفصیلات کے اندراج کے ساتھ اکھٹا کی گئی تھیں ۔ 2015 کے دوران گھر گھر سروے کرکے ڈیٹا کو اپ ڈیٹ کیا گیا تھا۔ 2015 میں رجسٹر کو اپ ڈیٹ کرتے وقت حکومت نے آدھار اور ان کے موبائل نمبر جیسی تفصیلات طلب کی تھیں۔ 2011 میں ہندوستان کی آبادی 1.22 بلین (120 کروڑ) تھی۔ یکم نومبر 2022 کو تخمینہ شدہ آبادی 1.4 بلین (140 کروڑ) ہوگی۔
مردم شماری 2021
مردم شماری 2021 میں رہائش، مکان کی قسم، پینے کے پانی کی دستیابی، بیت الخلا اور باتھ روم کی سہولت، نقل و حمل کا ذریعہ، استعمال کیا جانے والا ایندھن، ازدواجی حیثیت، فون، اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپ، ڈی ٹی ایچ/کیبل ٹی وی کنکشن، انٹرنیٹ تک رسائی، گھر کے افراد کے بینک اکاؤنٹس اور اسی طرح کی معلومات حاصل کی جائیں گی۔
اس عمل میں ایک اختیاری اینڈرائیڈ بیسڈ موبائل ایپلیکیشن شامل ہوگا۔ عہدیداروں نے کہا ہے کہ یہ اعداد و شمار مطلوبہ مستفیدین کو مختلف سرکاری اسکیموں کے فوائد فراہم کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔ رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کمشنر نے پہلے ہی ایک اعلامیہ جاری کر دیا تھا جس میں ان سوالات کا ایک فارم میں ذکر کیا گیا تھا، جو شمار کنندگان کے ذریعے ڈیجیٹل طور پر بھرے جائیں گے۔ حکومت کو غلط فہمیوں کو دور کرنے خاص طور پر فی الحال آبادی میں اضافہ کے تعلق سے غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے فی الفور ایک خالص مردم شماری کروانے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار فورم فار سول رائٹس کے صدرنشین ہیں۔ ای میل
( [email protected])
***
***
این پی آر کی قومی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، حکومت کو یاد دہانی کرائی جانی چاہیے کہ مردم شماری مزید تاخیر کے بغیر کروائی جائے لیکن ایک ترمیم شدہ سوالنامے کے ساتھ ۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 فروری تا 26فروری 2022