(مراٹھی ادب سے)

وہ روزے یاد آتے ہیں!

محب قادری
مترجم:ڈاکٹر ضیاء الحسن

ہمارا گاوں بہت چھوٹا ہے۔ سو گھروں میں مسلمانوں کے دس بارہ گھر ہوں گے۔ گاوں میں کوئی مسجد نہیں تھی اس لیے وہاں صرف عیدین کی نمازیں ہوتی تھیں۔ گاوں سے کچھ فاصلے پر ہری بھری جھاڑیوں سے گھری پیر غیبی صاحب کی درگاہ ہے۔ چاروں طرف گھنی جھاڑیاں اور بیچ میں پیر صاحب کا مزار، جس کے سامنے گھنی جھاڑیوں کے وسط میں ایک چھوٹا میدان ہے جہاں عیدین کی نماز ادا کی جاتی تھی۔ تعلقہ کا مقام ہمارے گاوں سے تقریباً پانچ کلو میٹر دور ہے۔ وہاں کی مساجد میں البتہ پابندی سے نمازیں ہوتی تھیں۔ ہم لوگ اپنے کھیت میں بنی ایک جھونپڑی میں رہتے تھے۔ ہمارا کھیت گاوں سے ایک ڈیڑھ کلو میٹر دورتھا۔ ہم لوگ زراعت پیشہ ہیں۔ ہماری چھوٹی سی کھیتی کا سارا دارومدار اطمینان بخش بارش پر رہتا ہے۔ اُن دنوں ہماری مالی حالت اچھی نہیں تھی۔ ۱۹۷۲ء کے قحط کے بعد تو حالات اور بد تر ہو گئے تھے۔ اس راز کو چھپائے رکھنے کے لیے ہی ہم لوگ گاوں سے دور اپنے کھیت میں جاکر رہنے لگے تھے۔ دن بھر کھیت میں کام کرنے کے بعد جوار کی پاو روٹی کھاتے اور پانی پی کر اپنا پیٹ بھر لیتے۔ بہر حال یہ ہماری آزمائشوں کے دن تھے۔ اس طرح کے کٹھن حالات میں ہمارا بچپن گزرا اور پرائمری کی تعلیم مکمل ہوئی۔ ہائی اسکول کے لیے تعلقہ کے مقام پر جانا پڑتا تھا۔ وہاں کی اونچی عمارتیں، بنگلے، دکانیں، موٹر گاڑیاں، بازار اور بھیڑ بھاڑ ہمارے لیے بڑی کشش رکھتے تھے۔ بالآخر ہائی اسکول میں ہمارا داخلہ ہوا۔ روزانہ پانچ کلو میٹر پیدل چل کر ہم اسکول جاتے۔ اسکول کا وقت صبح دس سے شام ساڑھے پانچ بجے تک تھا۔ مجھ سے دو سال بڑے بھائی بھی پہلی جماعت سے میرے ساتھ پڑھتے تھے۔
ناکافی بارش کی وجہ سے کھیت کی پیداوار بہت کم ہو گئی تھی۔ آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا اس لیے ہماری مالی حالت دن بدن خستہ ہوتی چلی جارہی تھی۔ دو دن میں ایک بار چولہا سلگتا۔ چونکہ ہم دونوں بھائی اسکول کو پیدل جایا کرتے تھے اس لیے ہمارے لیے تھوڑا سا کھانا اُٹھا کر رکھ دیا جاتا جو ہمیں دن میں صرف ایک بار ملتا تھا۔ کھانا کھانے سے پہلے ہم لوگ پیٹ بھر پانی پی لیتے۔ والدین بھوکے رہتے مگر ہمارے کھانے پینے کا برابر خیال رکھتے۔ امّی اور بہنیں پانچوں وقت کی نمازیں پابندی سے پڑھا کرتیں، قرآن کی تلاوت کرتیں، نزولِ باراں اور بہتر مالی حالات کے لیے وہ ہمیشہ دُعائیں مانگتی رہتیں۔ ہماری امی مذہب کی سخت پابند ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتیں ’اللہ تعالیٰ ہم پر ضرور کرم فرمائے گا‘، ہمارے آنے والے دن یقیناً بہتر ہوں گے۔ چنانچہ اچھے دنوں کے تصور سے ہم لوگ دل ہی دل میں خوش ہوتے رہتے۔ ہمارے ذہن میں اچھے دنوں کا تصّور بس اتنا تھا کہ گھر والوں کو دن میں کم از کم ایک بار پیٹ بھر کھانا ملے گا اور سال میں ایک مرتبہ عید کے موقع پر سب کو نئے کپڑوں کا ایک ایک جوڑا نصیب ہوگا۔ لیکن اچھے دنوں کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا کہ گزرا ہوا کل آج سے بہتر تھا۔
دیکھتے دیکھتے رمضان کا با برکت مہینہ آگیا۔ ایک بات ہمارے حق میں یہ بہتر ہوئی کہ اب ہماری فاقہ کشی کو روزوں کا سہارا مل گیا تھا۔ عبادتیں ہونے لگیں اور وقت بھی کٹنے لگا۔ بھوک لگنے پر ہم عام دنوں میں پیٹ بھر پانی پی لیا کرتے تھے مگر اب افطار کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ البتہ افطار کے وقت پانی کا ذائقہ کچھ اور بڑھ جاتا۔ مغرب کی نماز کے بعد دُعا میں ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے کہ اُس نے ہمیں ٹھنڈے اور میٹھے پانی سے سیراب کیا۔
اسلامی تعلیمات کے مطالعہ کے دوران روزے کے بارے میں بہت کچھ پڑھا تھا۔ توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔ روزہ ایک اہم عبادت ہے۔ رمضان کے روزے مسلمانوں پر فرض کیے گئے ہیں۔ روزہ کے دوران سحر سے لے کر افطار تک شدید خواہش کے باوجود نہ کچھ کھانے کی اجازت ہوتی ہے نہ پینے کی۔ روزہ رکھنے سے مصائب سے مقابلہ کرنے، اخلاق وعادات کو بہتر بنانے، خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ایک روزہ دار سچا اور نیک انسان بن سکتا ہے۔ ماہِ رمضان میں سارا ماحول پاکیزہ رہتا ہے، تقویٰ بڑھ جاتا ہے۔ اس دوران انسان فرائض کی ادائیگی اور اپنے اخلاق کو بہتر بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ برائیاں کم ہوتی ہیں، نیک اعمال کثرت سے کیے جاتے ہیں۔ مالدار لوگ غرباء و مساکین کی مدد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے تعاون کا یہی جذبہ، ہمدردی، بھائی چارہ اور باہمی اتحاد قائم رکھنے کے لیے کار گر ثابت ہوتا ہے۔ روزہ کے دوران بھوک پیاس لگتی ہے تو ہمیں کھانا پانی اور دیگر انسانی ضروریات کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ ماہِ صیام کی بدولت انسان میں پیدا ہونے والی اچھائیاں، مستقبل میں ایک مثالی زندگی گزارنے کے لیے اس کی معاون بنتی ہیں۔ یہ طرزِ عمل مستقبل میں بھی مطلوب ہوتا ہے۔
بڑے شہروں کے بارے میں ہم نے یہ سن رکھا تھا کہ وہاں مسجدوں میں اجتماعی افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہمہ اقسام کے پھل اور میوے کافی مقدار میں لا کر رکھے جاتے ہیں۔ بعض لوازمات تو بطور خاص افطار کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ کھانے کی تمام چیزیں دسترخوان پر سلیقہ سے رکھی جاتی ہیں۔ دسترخوان کے دونوں جانب روزہ دار بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہر ایک روزہ دار کو ایک خاص مقدار میں افطاری ملے اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ سب سُن کر جی چاہتا تھا کہ کبھی ہم بھی مسجد میں جاکر افطار کریں۔ چونکہ ہمارا گاوں بہت چھوٹا تھا اس لیے وہاں نہ تو مسجد تھی اور نہ افطارکا کوئی اہتمام کیا جاتا تھا۔ گاوں والوں کی گزر اوقات صرف کھیتی باڑی پر تھی۔ محدود آمدنی کے سبب یہ سب ممکن بھی نہیں تھا۔ کیلے کے علاوہ کسی اور پھل سے ہم واقف نہیں تھے، کیلے کا دیدار بھی صرف بازار کے دن ہوتا تھا۔
تعلقہ کے جس اسکول میں ہم پڑھتے تھے اُس راستہ پر ایک مسجد تھی، آتے جاتے ہوئے اکثر اُس پر نظر پڑتی۔ اس خوبصورت مسجد کی تعمیر نظام حیدرآباد کے دور میں ہوئی تھی۔ مسجد کا صحن کافی کشادہ تھا۔ ہم اکثر سوچا کرتے کہ رمضان کے مہینے میں افطار کے لیے یہاں کس طرح کا اہتمام کیا جاتا ہوگا۔ دل میں بار بار خواہش پیدا ہوتی کہ کم از کم ایک مرتبہ اس مسجد میں جا کر افطار کریں لیکن ہمت نہیں ہوتی تھی کیونکہ بغیر اجازت کہیں آنے جانے سے والدین نے سخت منع کیا تھا۔ شام ساڑھے پانچ بجے اسکول چھوٹتا، گھر پہنچنے تک ساڑھے چھ بج جاتے۔ افطار کا وقت شام سات بجے کے قریب تھا اس لیے مسجد میں افطار کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ ہمارے مالی حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے تھے۔ گزر بسر بڑی مشکل سے ہو رہی تھی۔ لیکن ہم بچوں کو عید کا بے صبری سے انتظار رہتا کیونکہ اُس دن گھر میں کوئی میٹھا ضرور بنایا جاتا تھا۔ اُدھر ابا یہ سوچتے کہ عید کا دن تاخیر سے آئے تو اچھا ہے۔
ایک دن ہم دونوں بھائیوں نے طئے کیا کہ آج اسکول چھوٹنے کے بعد افطار کے لیے مسجد میں جائیں گے۔ گھر والے اگر دیر سے آنے کی وجہ پوچھیں گے تو کہہ دیں گے کہ آج اسکول میں زائد گھنٹہ لیا گیا۔ چنانچہ چھٹی ہو جانے کے بعد ہم دونوں کچھ دیر تک اسکول کے میدان میں بیٹھے رہے۔ اتفاقاً چپراسی کی نظر ہم پر پڑی۔ اُس نے ہمیں فوراً گھر لوٹ جانے کے لیے کہا۔ ہم لوگ وہاں سے اُٹھے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے مسجد کے قریب آ کر ٹھہر گئے۔ کچھ دیر تذبذب کی کیفیت رہی کہ مسجد کے اندر جائیں یا اپنے گھر کی راہ لیں۔ بہر حال تھوڑی دیر باہر کھڑے رہنے کے بعد اندر داخل ہوئے اور صحن میں بیٹھے افطار کے وقت کا انتظار کرنے لگے۔ شام کے ساڑھے چھ بجے سے روزہ داروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ جو بھی آتا اُس کے ہاتھ میں پھل یا کھانے کی کوئی چیز ضرور ہوتی۔ کچھ لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو ساتھ لائے تھے۔ بعض بچے پھولوں کے ہار اور نئے کپڑے پہنے ہوئے تھے، انہوں نے آج پہلا روزہ رکھا تھا۔ اُن کے والد اور بھائیوں کی ساری توجہ اُن پر مرکوز تھی۔ ہر شخص انہیں محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ سب کو اپنی طرف متوجہ پاکر بچے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اسی اثناء میں مسجد کے صحن میں ایک بڑا دسترخوان بچھایا گیا۔ پھلوں اور دوسرے لوازمات کے خوان لا کر رکھے جانے لگے۔ آنے والے کئی روزہ دار بھی اپنی اپنی افطاری دسترخوان پر لاکر رکھ دیتے۔ پھر افطاری کے چھوٹے چھوٹے حصے بنا کر دسترخوان پر الگ الگ رکھے جانے لگے۔ لوگ آہستہ آہستہ وضو خانے کی طرف جا رہے تھے۔ جوں جوں افطار کا وقت قریب آتا جا رہا تھا مسجد میں آنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ کچھ لوگ دسترخوان سے ذرا فاصلے پر اپنے اپنے دوست احباب کے ساتھ حلقے بنا کر بیٹھنے لگے۔ مسجد کے صحن میں ان حلقوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی جارہی تھی۔ ہم دونوں چونکہ پہلی بار مسجد میں آئے تھے اس لیے ذرا سہمے ہوئے تھے۔ بہر حال وضو کرنے کے بعد جیب سے نماز کی ٹوپیاں نکالیں اور سروں پر اوڑھ لیں۔ تھوڑی دیر بعد دستر خوان پر جا کر بیٹھنا تھا۔ ابھی وہاں کوئی روزہ دار آکر نہیں بیٹھا تھا اس لیے ہم وضو خانے کے پاس ہی بیٹھے رہے۔ اکثر لوگ دُعا و استغفار میں مصروف تھے۔ کچھ دیر بعد امام صاحب نے اعلان کیا اور سب لوگ جا جا کر دستر خوان پر بیٹھنے لگے۔ ہم نے ابھی اُٹھنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ دیکھا دسترخوان کے دونوں جانب صفیں پُر ہوچکی ہیں۔ ہم وضو خانے کے پاس ٹھہرے سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ ہم دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سر جُھکائے وضو خانے کے چبوترے پر بیٹھے رہے۔ چند لمحوں کے بعد افطار کی دُعا پڑھی گئی، مسجد کا سائرن تیز آواز میں بجنے لگا۔ روزہ دار افطار کرنے میں مشغول ہوگئے۔ ہم نے طئے کیا کہ پانی پی کر روزہ کھولیں گے۔ پانی کے رنجن کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ تمام مگوں اور گلاسوں پر روزہ دار حضرات کا قبضہ ہے۔ چار و ناچار واپس آگئے۔ نل کی ٹونْٹی کھولی، چلّو بھر پانی لیا افطار کی دُعا پڑھی اور پانی پی کر روزہ کھولا۔ اذان ہونے لگی اور ہم پہلی صف میں جاکر بیٹھ گئے۔ افطار سے فارغ ہو کر لوگ آہستہ آہستہ جماعت میں شامل ہو رہے تھے۔ اذان ختم ہوتے ہی امام صاحب آئے اور مغرب کی نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد ہم نے اطمینان سے اپنے گاوں کی راہ لی۔ اندھیرا چھا رہا تھا اس بات کی فکر ہو رہی تھی کہ اسکول سے لوٹنے میں دیر ہوجانے کی وجہ سے گھر کے لوگ پریشان ہو رہے ہوں گے۔ والدین کے خفا ہونے کا ڈر بھی تھا۔ اس بات کا ملال ہو رہا تھا کہ افطار کی بات چھپانے کے لیے خواہ مخواہ جھوٹ بولنا پڑے گا۔ رمضان المبارک کے مہینے میں جھوٹ بولنے کے ارادے سے ہی ایک طرح کے گناہ کا احساس ہو رہا تھا۔ ہمارے قدم تیزی سے اپنے گاوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایسا محسوس ہوا کہ آج یہ فاصلہ روزانہ کی بہ نسبت آدھے وقت میں طئے ہوا ہے۔ گھر کے سب لوگ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ہمیں ڈھونڈنے کے لیے ابا تیار بیٹھے تھے لیکن ہم پر نظر پڑتے ہی اُن کی تشویش جیسے کم ہو گئی۔ دوسرے ہی لمحہ انہوں نے گرجدار آواز میں دیر سے آنے کا سبب پوچھا۔ ہم دونوں خاموش رہے۔ رمضان کے مہینے میں جھوٹ بولنے کا ارادہ کرنا بھی ہماری نظر میں گناہ تھا۔ اب اس غلطی کو دہرانا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن سچ بولنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔ چنانچہ چپ رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔ خاموش کھڑے رہے۔ ابا پھر ایک بار گرجے۔ ان کے ہاتھ میں چابک دیکھتے ہی ہم نے آنکھیں بند کرلیں۔ پھر دونوں کی پشت پر دو دو ضربیں پڑیں اور ہم فرش پر بیٹھ گئے۔ ہمیں بچانے کے لیے امی دوڑتی ہوئی آئیں: ’’دوستوں کے ساتھ کھیل کود میں دیر ہوئی ہوگی، معاف کردو، بچے دوبارہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔‘‘ امّی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ہمیں سزا دینے کے بعد ابا باہر نکل گئے۔ ہم نے منہ ہاتھ دھویا‘ لوٹا بھر پانی غٹا غٹ پی گئے۔ روزانہ کا میٹھا پانی آج کڑوا لگ رہا تھا۔ گھر میں کھانے پینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا اور اب کھانے کی خواہش بھی کسے تھی؟ جا کر سو گئے۔ مار کی شدت سے ہم لوگ نیند میں بے چینی سے کروٹیں بدل رہے تھے۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ امی جاگ گئی ہیں۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں لیکن جاگتا رہا۔ کچھ دیر بعد پشت پر امی کے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔ چابک کی ضرب سے پڑے نیٖل پر وہ دھیرے دھیرے ناریل کا تیل لگا رہی تھیں۔ بے ساختہ میری آنکھوں سے آنسو نکلے اور تکیہ پر ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ امّی کے الفاظ یاد آئے: ’’بیٹا! ہمارا آنے والا کل آج سے بہتر ہوگا۔‘‘ پھر مجھے نیند لگ گئی۔
٭٭٭٭٭

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021