مدھیہ پردیش: ایک ہندو وکیل کے مطابق پولیس نے بڑی داڑھی کی وجہ سے انھیں مسلمان سمجھ کر پیٹا تھا، بعد میں یہ کہتے ہوئے معافی مانگی کہ ’’ہمیں لگا تم مسلمان ہو‘‘
نئی دہلی، مئی 21: دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق مدھیہ پردیش کے بیتول میں ایک ایسا معاملہ سامنے آیا ہے جو سماج اور پولیس جیسے محکمے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور پولیس کی من مانی اور استحصال کودکھاتا ہے۔
23 مارچ کو دیپک بندیلے نام کے ایک وکیل کو ریاست کی پولیس نے مسلمان سمجھ کر اس وقت بےرحمی سے پیٹا تھا جب وہ علاج کے لیے سرکاری ہسپتال جا رہے تھے۔ اب ایک مہینے بعد پولیس ان پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ اپنی شکایت واپس لے لیں۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ پولیس حکام نے اپنے بچاؤ میں بندیلے کو بتایا کہ ان کی غلطی سے پٹائی کی گئی کیوں کہ انھیں لگا کہ وہ مسلمان ہیں۔
دی وائر کے مطابق بندیلے نے بتایا کہ 23 مارچ کو شام 5.30 سے 6 بجے کے بیچ جب وہ ہسپتال جا رہے تھے تب پولیس نے انہیں روکا تھا۔ بندیلے نے پولیس کو سمجھانے کی کوشش کی کہ انھیں دوائیاں لینی بہت ضروری ہیں لیکن ان کی بات کو سنے بنا ایک پولیس والے نے انھیں تھپڑ مارا۔
بندیلے نے بتایا ’’میں نے ان سے کہا کہ انھیں آئین کی حدوں کے اندررہ کر کام کرنا چاہیے اور اگر پولیس کو ٹھیک لگتا ہے تو وہ دفعہ 188 کے تحت حراست میں لیے جانے کو تیار ہیں۔ یہ سن کر پولیس اہلکاروں نے اپنا آپا کھو دیا اور مجھے اورہندوستان کے آئین کو گالی دینے لگے۔ کچھ ہی وقت میں کئی پولیس والے آ گئے اور مجھے لاٹھی سے پیٹنا شروع کر دیا۔‘‘
بعد میں یہ معلوم ہونے کے بعد کہ وہ وکیل ہیں، پولیس نے انھیں پیٹنا بند کیا۔ انھوں نے اپنے دوست اور بھائی کو بلایا اور بعد میں وہ ہاسپٹل گئے۔ وہاں پر انھوں نے اپنا میڈکو لیگل کیس(ایم ایل سی)بنوایا۔
اس کے بعد 24 مارچ کو انھوں نے حکومت کے کئی محکموں میں شکایت درج کروائی۔
انھوں نے بتایا کہ ’’سب سے پہلے کچھ اعلیٰ حکام نے مجھ سے کہا کہ اگر میں اپنی شکایت واپس لے لیتا ہوں تو وہ اس معاملے کی مذمت اور معافی مانگ سکتے ہیں۔ بعد میں کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر میں چاہتا ہوں کہ میرا بھائی سکون سے لاء کی پریکٹس کر پائے تو مجھے اپنی شکایت واپس لے لینی چاہیے۔‘‘
حالاں کہ وکیل دیپک بندیلے پیچھے نہیں ہٹے۔ 24 مارچ کو دائر اپنی شکایت میں انھوں نے مانگ کی ہے کہ معاملے میں ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے۔ اس بنیاد پر 17 مئی کو کچھ پولیس والے ان کے گھر پر ان کا بیان درج کرنے آئے۔ اسی وقت پولیس نے ان سے کہا کہ ان کی پہچان کرنے میں غلطی ہو گئی اور پولیس والوں کو لگا کہ وہ مسلمان ہیں۔
بندیلے نے بتایا ’’ویسے تو میرا بیان لینے میں پانچ منٹ سے زیادہ کاوقت نہیں لگنا چاہیے تھا لیکن یہ کام کرنے میں تقریباً تین گھنٹے بیت گئے کیوں کہ پولیس والے لگاتار کوشش کرتے رہےکہ میں اپنی شکایت واپس لے لوں۔‘‘
بندیلے کے ذریعے دی وائر کے ساتھ شیئر کی گئی ایک ڈیو ریکارڈنگ کے مطابق مبینہ طور پر پولیس والے کہہ رہے ہیں کہ ان کی پٹائی غلطی سے ہو گئی کیوں کہ انھیں لگا کہ وہ مسلمان ہیں کیونکہ ان کی داڑھی بڑی تھی۔
بندیلے نے بتایا کہ انھوں نے بھوپال میں تقریباً 10 سال تک بطور صحافی کام کیا ہے اور لاء کی پریکٹس کرنے کے لیے 2017 میں وہ بیتول آ گئے۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنی شکایت واپس نہیں لیں گے۔ حالاں کہ ابھی تک اس معاملے میں ایف آئی آر درج نہیں ہو پائی ہے۔