محب اللہ قاسمی
اخلاص کے ساتھ کام کرنے پر مدارس اپنی افادیت دکھائیں گے
ہم اپنے دل میں یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کاش کوئی ایسی جگہ ہوتی جہاں اہل ثروت کے ساتھ ساتھ بے مائیگی کی زندگی بسر کر رہے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت کا بھی معقول نظم ہوتا۔ اللہ کی عبادت اس کے رسول کی اطاعت اور انسانوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ ان کے اندر پیدا کیا جاتا۔ قوم وملت کی اصلاح و تربیت اور ان کی خدمت کے لیے افراد تیارکیے جاتے۔
مدارس اسلامیہ ایسی ہی جگہیں ہیں، یہ ملت کا عظیم سرمایہ ہیں ۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں انسان کو انسان بنایا جاتاہے۔ ملت کی اصلاح وتربیت کے لیے افرادسازی کی جاتی ہے۔ جہاں امیربچوں کے ساتھ ساتھ غریب ،یتیم وناداربچے آتے ہیں اور ہمدردی وغم گساری کا درس لے کرجاتے ہیں ۔ ظلم وستم سے ناآشناامن ومحبت اور مساوات کا پیغام سنتے ہیں ۔ اپنے اساتذہ سے والدین کے حقوق بڑوں کا ادب احترام اور باہمی صلہ رحمی کے طور طریقے سیکھ کرجاتے ہیں اور اپنی خاندانی زندگی کو باوقار اور مستحکم بناتے ہیں ۔
مدارس اسلامیہ کے فارغین مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت یہاں گزار کر اسلام کی اشاعت اور انسانوں کی خدمت کے لیے خود کو تیار کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیوی زندگی کے مسائل کا اسلامی حل پیش کرتے اور انہیں جینے کے آداب سکھاتے ہیں اخروی زندگی میں نجات کے لیے ہر قسم کی قربانی کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے طلبہ مدارس اسلامیہ کو احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنے اندر ہر قسم کی صلاحیت جو اس ترقی اور بہتری کی جانب لے جائے اس کی کوشش کرنی چاہیے ۔وہ اپنی اس حیثیت کو ہرگز فراموش نہ کریں کہ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا بہترین فریضہ بہ حسن وخوبی انجام دے سکتے ہیں اوردے رہے ہیں جو اس امت کا امتیازی وصف ہے۔
جب انسان دنیاکی رنگا رنگی سے پریشان ہوجاتے ہیں اور اس کی چمک ودمک آنکھوں کو تکلیف دیتی اور دل کی دھڑکن کو تیزکر دیتی ہے ، دنیاکی ہوس سکون قلب چھین لیتی ہے تویہی وہ فارغین ہیں جو اللہ سے ہمارے تعلق کو مضبوط کرنے کی بات کرتے ہیں ہمارے لیے ذکر اللہ کی تلقین کے ذریعہ تسکین دل کا سامان فراہم کرتے ہیں اور جو عام زندگی گزار کر بھی خوشحال نظر آتے ہیں۔
مسجد نبوی کے متصل صفہ کی شکل میں اسلام کا پہلا مدرسہ قائم ہوا۔ اس کی بنیاد پر دنیا کے بے شمار مدارس کا قیام عمل میں آیا جو قوم ومعاشرے کی فلاح وبہبود، ملی وملکی مسائل کے حل کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں ۔ جہاں کے فارغین اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق دنیا کے تمام مسائل کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لوگوں کو اسلام کے سائے میں پرامن زندگی گزارنے کی دعوت دیتے ہیں ۔
مدارس اسلامیہ کے بچوں پر ملت کی بڑی نگاہ ہوتی ہے، ہمیشہ انہیں تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شاید یہ ان کی ان بچوں سے توقع اور اعتماد کی بات ہے۔ ورنہ غور کیا جائے تو ملت کے صرف تین فیصد بچے مدارس اسلامیہ کا رخ کرتے ہیں بقیہ حضرات پتہ نہیں کہاں جاتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر تو کالج اور یونیورسٹیوں کا ہی رخ کرتے ہیں جب کہ وہاں بھی فارغین مدارس اپنی قابلیت اور صلاحیت کا جھنڈا لہرا رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر وہ بچے اونچی اونچی ڈگریاں حاصل کرلیتے ہیں تب بھی ان کے اندر تربیت کا فقدان نظر آتا ہے اس کے نتیجہ میں معاشرہ بدامنی اور بے چینی کا شکار ہو جاتاہے۔
مدارس اسلامیہ اسلام کے قلعے ہیں اور وہاں کے فارغین اسلام کے بہترین نمائندہ ہوتے ہیں۔ اگریہ مدارس نہ ہوتے تو ایسے افراد کہاں سے ملتے جو برادران وطن کے سامنے اسلام کا صحیح تعارف کراسکتے یا ان کے اعتراضات کا جواب دے پاتے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اسلام کی خدمت کے لیے افراد تیار کیے جاتے ہیں اور وہی افراد دوسروں کو بھی دعوت دین کے لیے تیار کرتے ہیں، اس کے نتیجہ میں آج بہت سے ایسے لوگ اس میدان میں ہیں جنہوں نے مدارس کی شکل نہیں دیکھی مگر دین کی خدمات انجام دے رہے ہیں، دراصل ان کے پس پشت یہی فارغین مدارس کار فرما ہیں جو سامنے دکھائی نہیں دیتے۔
مساجد جنہیں بیت اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے جہاں نمازیں اداکی جاتی ہیں ان میں امامت کے فرائض انجام دینے والے حضرات بھی فارغین مدارس ہی ہوتے ہیں جو نہ صرف امام کی ذمہ داری نبھاتے ہیں بلکہ اس معاشرے میں رہنے والے فرزندان توحیدکو ابتدائی دینی تعلیم کے زیورسے بھی آراستہ کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنے خطبات میں معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی کرکے اس کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ لوگوں کوبھلائی کاحکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ۔
اس لیے ملت کے اس عظیم سرمایہ کو اہمیت دینی چاہیے اور وہاں طلبہ کی بہتری کے لیے جو بھی سہولیات ہوسکتی ہیں انہیں فراہم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ملت کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مال واسباب میں ان مدارس کا بھی حصہ متعین کرے ۔ مدارس اسلامیہ کے اساتذہ اور ذمہ داران قوم وملت کی امید کا مرکز ہیں اس لیے ان کی نیک امیدوں کوبروئے کارلانے کی مسلسل جدوجہد کرنا ان حضرات کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے تاکہ وہ دین کے اس چراغ کو روشن رکھ سکیں ۔ ساتھ ہی عوام کو چاہیے کہ مدارس سے ربط وتعلق پیدا کریں اور اپنے مسائل کا حل دینی نقطہ نظرسے معلوم کریں پھرشریعت کی پابندی کو اپنی زندگی کے تمام نشیب و فراز میں لازم قرار دیں کیوں کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اسلام ہی ہے اور وہی ہمیں سیدھی سچی راہ دکھاتاہے جس سے دین و دنیا دونوں میں فلاح و کامرانی مل سکتی ہے۔
مدارس کے نصاب تعلیم پر اکثرگفتگوکی جاتی ہے کہ موجودہ دورکے لحاظ سے عصری علوم کی آمیزش ہو اور پرانے علوم جن کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی مثلاً منطق وفلسفہ یا نحوکی وہ کتابیں جن کی ضرورت دوسری کتابیں بھی پوری کردیتی ہے جیسے شرح جامی اس کی جگہ ہدایت النحو اور کافیہ وغیرہ کافی ہیں، ساتھ ہی زبان کا علم تبلیغ دین اور اشاعت اسلام کے لیے بہت ہی مفید ذریعہ ہے ۔ اس غرض سے مختلف زبانوں کی تعلیم کو بھی دینی مدارس میں جگہ ملنی چاہیے تاکہ طلبہ مدارس ان سے آراستہ ہوکر میدان عمل میں اپنے مقصد کو بروئے کار لاسکیں۔ چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیری کا قول جب طلبہ میں عربی یا فارسی کا بہت زیادہ رجحان تھا تو آپ نے فرمایا تھا "مولوی صاحب! ہندوستان میں اگر اسلام اور دین کی کوئی خدمت پیش نظرہے تواردو میں لکھیے پڑھیے”
اب اگر انگریزی زبان یا دیگر زبانوں کا چلن ہو تو اس زبان کو بھی سیکھنا چاہیے ،اس سے دامن جھاڑ دینا مناسب نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی صحابہ کو مختلف زبانیں اور علوم سیکھنے کا حکم دیا تھا ۔
فراغت کے بعد مدارس کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد دیگر کالجوں اور یونیورسٹیوں کا رخ کرتی ہے ،جب ان سے وجہ معلوم کی جاتی ہے تو ان کا جواب ہوتاہے کہ مدارس دینیہ میں اساتذہ کی اہمیت بہت کم کردی گئی ہے ،مہتمم خودکو مدرسے کا مالک سمجھ کر حکمرانی کرتے ہیں ۔ اساتذہ کی تنخواہیں نہیں دیتے ،بہت ہی معمولی مشاہرہ ہوتا ہے جس سے موجودہ وقت کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہوپاتیں ،اس پر بھی غضب یہ کہ ماہانہ وقت پر حساب نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھی تو کئی ماہ کے بعد انہیں رسید بک تھمادی جاتی ہے کہ وہ اپنی تنخواہ خود اکٹھا کرلیں جب کہ خود ان کی زندگی کا یہ حال ہے کہ وہ چمچاتی کاروں اور خوبصورت بنگلوں میں رہتے ہیں اور ان کی زندگی مزے سے گزرتی ہے۔
ایسی صورت میں مدارس کے بچے خود کو ان مشکلات میں ڈھالنے اور مصیبت کو اپنانے سے بچتے ہیں۔ دوسری جگہ انہیں نوکری نہیں ملتی تو پھر کیا کریں۔ اس لیے انہیں مجبوراً یہ راہ اپنانی پڑتی ہے اور بسااوقات وہ دینی وضع قطع اور دینی روش سے بھی بے نیاز ہوجاتے ہیں ۔
اگر یہ مدارس ملت اسلامیہ کا عظیم سرمایہ ہیں تو وہاں کے فارغین بھی ملت کے بہترین افراد ہیں ۔ جب ایسا ہے توان کی تحقیر وتذلیل مناسب نہیں اور نہ ان فارغین کو احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت ہے ۔ کیوں کہ خدا کی سرزمین بہت وسیع ہے اس میں اپنا رزق تلاش کرسکتے ہیں ۔ لہذا وہ قوم کے مصلح ہیں تو اپنی حیثیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر وہ دوسری جگہ حصول علم کی خاطر جارہے ہیں تو وہاں بھی اپنی دینی شناخت قائم رکھتے ہوئے تبلیغ دین اور قوم کی اصلاح کی خدمت انجام دیں یہی ان کا فریضہ اور مدارس میں گزارے ہوئے اوقات کا حاصل ہے ۔ بچپن کی اس طویل مدت کی تعلیم کو نظر انداز کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔
اسی طرح مہتمم حضرات کو بھی اپنے رویوں میں تبدیلی لانی چاہیے، ان کی اس طرح کی حرکت سے مدارس کا وقار مجروح ہوتا ہے اور یہی طریقہ دین کی اشاعت میں رکاوٹ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ انہیں اپنے اندر احساس ذمہ داری کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے کہ یہ منصب اور ذمہ داری بھی ایک قسم کی امانت ہے جس میں خیانت کرنا صحیح نہیں ہے کیوں کہ اس میں امت کا ایک بڑا سرمایہ دینی تعلیم اور اسلام کی بازیابی کے لیے جمع ہوتاہے جسے غیر ضروری جگہ پر صرف کرنا یا پھر ذاتی ضروریات پر خرچ کرنا کسی مؤمن کو زیب نہیں دیتا، آخرت میں سب کو خدا کے یہاں حساب دینا ہے اور وہاں کوئی بھی بچ نہیں سکتا۔
***
مدارس اسلامیہ اسلام کے قلعے ہیں اور وہاں کے فارغین اسلام کے بہترین نمائندہ ہوتے ہیں۔ اگریہ مدارس نہ ہوتے تو ایسے افراد کہاں سے ملتے جو برادران وطن کے سامنے اسلام کا صحیح تعارف کراسکتے یا ان کے اعتراضات کا جواب دے پاتے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اسلام کی خدمت کے لیے افراد تیار کیے جاتے ہیں اور وہی افراد دوسروں کو بھی دعوت دین کے لیے تیار کرتے ہیں
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 16 جنوری تا 22 جنوری 2022