(دعوت نیوز نیٹ ورک)
محمد عرفان (33سال) اور محمد الیاس (38 سال) کومہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے اسلحہ ضبطی کیس میں 9 سال قبل گرفتار کیا تھا اور ان پر الزام عائد کیا تھا کہ یہ لوگ سیاستدانوں، پولیس اور صحافیوں کو قتل کرنے کی لشکرطیبہ کی ایک بڑی سازش کا حصہ تھے۔ قومی تفتیشی ادارہ (این آئی اے) نے 2013 میں اس کیس کی تحقیقات اپنے ہاتھ میں لیں۔ ممبئی کی خصوصی این آئی اے عدالت نے اس کیس کے دیگر3 ملزمین محمد اکرم، محمد مزمل اور محمد صادق کو قصور وار قرار دے کر یو اے پی اے اور آرمس ایکٹ کے تحت 10سال کی جیل کی سزا سنائی ہے۔ تاہم تفصیلی حکم ابھی دستیاب نہیں ہوا ہے۔ عدالت نے دیگر دو ملزمین عرفان اور الیاس کو یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ ان کے خلاف کوئی شواہد نہیں ہیں۔ الیاس نے بتایا کہ اس نے کم از کم 4 ضمانت کی درخواستیں داخل کی تھیں لیکن چاروں مسترد کردی گئیں۔ عرفان کے معاملہ میں 2019 میں اس وقت امید پیدا ہوئی تھی جب بامبے ہائیکورٹ نے یہ کہتے ہوئے ضمانت منظور کی تھی کہ بادی النظر میں یہ یقین کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ ان کے خلاف الزامات سچ ہیں۔ لیکن عرفان کو سپریم کورٹ کی جانب سے حکم التوا دینے کے بعد 4 ماہ کے اندر دوبارہ جیل میں ڈال دیا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے این آئی اے کے اس ادعا کے بعد ہائیکورٹ کے حکم پر روک لگادی کہ عرفان کے دوبارہ جرم کا ارتکاب کرنے کا امکان ہے جس کا ملک کی سلامتی پر اثر پڑ سکتا ہے۔ عرفان نے چار دسمبر 2019 کو ٹرائل کورٹ میں خود سپردگی اختیار کی تھی اور منگل کی رات کو اپنی رہائی تک وہ جیل میں رہا۔ اس نے کہا ’’میں چار ماہ کے لیے بیل پر تھا، میں اپنی زندگی کو واپس پٹری پر لانے کی کوشش کر رہا تھا اور امید تھی کہ مجھے دوبارہ پھر کبھی جیل جانا نہیں پڑے گا۔ وہ 18 ماہ جو میں نے خود سپردگی کے بعد جیل میں گزارے تھے وہ گزشتہ سات برسوں سے زیادہ کٹھن تھے‘‘۔
اس سال عرفان کے والد اور والدہ دونوں کو کووڈ-19سے متاثر ہونے کے بعد دواخانہ میں شریک کرایا گیا تھا۔ ان کے 62 سالہ والد ضلع پریشد میں ایک ڈرائیور تھے جو حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں۔ عدالت میں سماعتوں کے لیے وہ رخصت لے کر یا اپنی تنخواہ کٹا کر ممبئی کا سفر کیا کرتے تھے۔ عرفان کے مطابق اے ٹی ایس کی جانب سے جو واحد دلیل پیش کی گئی وہ یہ تھی کہ ان کے اور ایک دوسرے ملزم محمد مزمل کے درمیان فون کالس کا تبادلہ ہوا تھا۔ مزمل، عرفان کی دکان کے قریب ایک آٹو اسپیر پارٹ شاپ کا مالک تھا۔
اسلحہ ضبطی کیس میں بری قرار دیے گئے دوسرے نوجوان محمد الیاس کی کہانی بھی کچھ کم المناک نہیں ہے۔ رہائی کے بعد انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ’’بری ہونے پر مجھے کوئی حیرت نہیں ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میرے خلاف کوئی شواہد نہیں تھے۔ میری گرفتاری کے بعد میرا کاروبار بند ہو گیا کیونکہ ملگی کے مالک نے ہماری دکان کا تخلیہ کرا دیا۔ میں اعلیٰ عدالتوں میں اپنی کمزور مالی حیثیت کی وجہ سے اپنی ضمانت کی عرضیوں کی پیروی نہیں کرسکا حالاں کہ مجھے معلوم تھا کہ میرے خلاف کیس کمزور تھا۔ اگر مجھے پہلے ضمانت مل جاتی تو میری زندگی کے اتنے سال ضائع نہ ہوتے‘‘۔ الیاس نے کہا کہ جب انہیں گرفتار کیا گیا تھا تو ان کا چھوٹا بیٹا صرف دو ہفتوں کا تھا اور 9 برسوں تک قید وبند میں رہنے کے دوران 2017 میں تلوجہ جیل میں بیوی اور تین بچوں سے صرف ایک ہی مرتبہ ان سے ملاقات ہو سکی۔
ایسا نہیں ہے کہ عرفان اور الیاس کی کہانیاں پہلی بار سامنے آئی ہوں۔ ہمارے نظام انصاف کی بدولت ایسی کہانیاں بار بار سامنے آتی رہتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا؟ کیا ان پولیس عہدیدراوں کی کوئی جوابدہی نہیں بنتی جو دانستہ یا نادانستہ طور پر ان نوجونوں سے زندگی کے 9قیمتی سال چھین لینے کا سبب بنے ہیں۔ کیا ہمارا سسٹم اس بھاری نقصان کا مداوا کرنے کے لیے تیار ہے؟ کیا ہمارے جج صاحبان کو کبھی اس تلخ سچائی پر غور کرنے کی توفیق ہوگی کہ ’’انصاف میں تاخیر دراصل انصاف سے انکار ہی ہے؟‘‘۔
ایسا نہیں ہے کہ عرفان اور الیاس کی کہانیاں پہلی بار سامنے آئی ہوں۔ ہمارے نظام انصاف کی بدولت ایسی کہانیاں بار بار سامنے آتی رہتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا؟ کیا ان پولیس عہدیدراوں کی کوئی جوابدہی نہیں بنتی جو دانستہ یا نادانستہ طور پر ان نوجونوں سے زندگی کے 9قیمتی سال چھین لینے کا سبب بنے ہیں۔ کیا ہمارا سسٹم اس بھاری نقصان کا مداوا کرنے کے لیے تیار ہے؟ کیا ہمارے جج صاحبان کو کبھی اس تلخ سچائی پر غور کرنے کی توفیق ہوگی کہ ’’انصاف میں تاخیر دراصل انصاف سے انکار ہی ہے؟‘‘۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021