عتیق احمد شفیق اصلاحی بریلی
نبی اکرم ﷺ کی ذات مقدسہ ایسی ہے کہ جس کی تعریف و توصیف میں ساڑھے چودہ سو سال سے انسانیت رطب اللسان ہے جو رحمۃ للعالمین، سید الشاہدین، محسن انسانیت، سراج منیر، خاتم النبین، سردار الانیباء ہیں۔ حضورؐ کی سیرت پاک کے گونا گوں پہلو ہیں محض دینی و ادبی ہی نہیں بلکہ روحانی اور جذباتی بھی ہیں ایک پہلو یہ ہے کہ آپؐ کا قد و قامت، حلیہ مبارک، موئے مبارک، چہرہ انور کیسا تھا آپ تجارت کیسے کرتے تھے آپؐ کی معاشرتی زندگی کیسی تھی، آپؐ نے حکمرانی کیسے کی، ساڑھے چودہ سو سالوں سے انسانوں کا جم غفیر دن رات آپ کا ذکر کر رہا ہے، مختصر و طویل، چھوٹی و ضخیم کتابیں تحریر کی جا رہی ہیں، شعرا نعتیہ کلام پیش کر رہے ہیں۔
دنیا میں بے شمار قائدین، مصلحین، شخصیتیں، انبیاء گزرے ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی ایک شخصیت بھی ایسی نہیں ہے جس کی زندگی کے حالات و واقعات اتنے مفصل و مدلل انداز میں محفوظ رہے ہوں جتنا کہ آقائے مکی ومدنی سرور کائنات کے محفوظ ہیں۔آپؐ کی زبان سے نکلی ہوئی ہر بات، آپؐ کا ہر نقش قدم، آپؐ کا تبسم، آپؐ کا انداز تکلم و شیرین لہجہ، آپؐ کا ذوق طعام، ذوق لباس، نشست و بر خاست، دن رات کے معمولات سب محفوظ ہیں حتیٰ کہ آپؐ کی حیات مبارکہ کے مخصوص معاملات جو آپؐ کے اندرون خانہ اور اہل و عیال سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے ہر بڑی اور چھوٹی بات ہم تک منتقل ہوئی اور وہ بھی اتنے پختہ اور قابل وثوق طریقے سے کہ تاریخ اس پر دنگ ہے نہ صرف آپؐ کی بلکہ آپؐ کی احادیث نقل کرنے والوں کے حالات زندگی تک محفوظ ہیں۔یہ انتظام یوں ہی نہیں ہو گیا بلکہ خالق ارض و سما کی مصلحت و مشیت اس میں شامل حال رہی تاکہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے کے باوجود نبیؐ کی حیات مبارک ہمیشہ امت کے سامنے موجود رہے۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ (احزاب)
قیامت تک آنے والی انسانیت نہ صر ف علمی انداز میں ہدایت الہی سے رہنمائی حا صل کرے بلکہ آپؐ کی حیات مبارکہ کو زندگی کے ہر موڑ اور ہر شعبہ میں انسانیت کے لیے بہترین نمونہ موجود پائے اور استفادہ کرے۔
جب ہم آپؐ کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپؐ یک شفیق باپ، دم ساز شوہر، بہترین بھائی، شریف پڑوسی، ایمان دار تاجر، عظیم قائد، بہادر جنرل، ماہر قانون داں، عادل منصف نظر آتے ہیں۔ آپؐ کی ذات بابرکات مہر و محبت، عفوو درگزر، احسان و کرم، صبرو تحمل، جود وسخا، ایثار و غم خواری، تواضع و انکساری، شجاعت و دلیری، عزم و ثبات، عدل و انصاف، قیادت و سیاست، غیرت و استغنا، عصمت و عفاف، اخلاق حسنہ کے مجسم اور زہدو تقویٰ کی مجمع البحرین نظر آتے ہیں۔
انسانی زندگی کی بقاء کے لیے جس طرح ہوا، پانی، غذا، روشنی ضروری ہے اس سے کئی گنا زیادہ انسانیت کو اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ زندگی کیسے گزارے؟ چنانچہ مالک کائنات نے اس کا انتظام فرمایا اور اس کے لیے نبوت کا سلسلہ جاری کیا اور سب سے پہلے انسان حضرت آدمؑ کو نبوت سے سرفراز فرما کر زمین پر بھیجا اس کے بعد جب جب انسانوں نے اپنے خالق کو بھلایا تب تب اللہ نے رسولوں کو مبعوث فرمایا۔ قرآن کریم شاہد ہے کہ دنیا کے ہر خطہ اور ہر قوم میں نبی بھیجے گئے لکل قوم ھاد۔ اس سلسلے کی آ خری کڑی حضرت محمد ﷺ ہیں۔ انسانوں کی رہنمائی کے لیے جہاں کلام الٰہی کا سلسلہ جاری رہا وہیں اللہ کے کلام کی تشریح و تفہیم ،م اور تبلیغ و تعلیم کے لیے رسولوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے نبیؐ سے فیض اٹھانا ضروری ہے صرف کتاب الٰہی سے ہدایت حاصل نہیں کی جا سکتی ہے اور نہ ہی صرف رسول سے وابستہ ہو کر اور کتاب الٰہی کو ترک کر کے ہدایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ کان خلقہ القرآن اس لیے آپؐ کی سیرت کو پڑھنا، سننا اور سمجھنا ضروری ہے۔ آپؐ جو کچھ فرماتے اللہ کے حکم سے فرماتے اور جو کچھ عمل کرتے اللہ کی رہنمائی میں کرتے۔ وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحیٰ
(النجم :۳)
اب دنیا کی کامیابی، آخرت میں نجات، گناہوں کی معافی کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ حضرت محمدؐ پر ایمان لایا جائے آپؐ کی اطاعت و اتباع کی جائے آپؐ کی تعظیم و توقیر کی جائے۔ آپؐ پر ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ آپؐ کو اپنے اور خدا کے در میان رابطہ و تعلق کے لیے ایک لازمی واسطہ تسلیم کیا جائے۔ آپؐ نے جو کچھ پیش کیا وہ فی الواقع اللہ کی طرف سے پیش کیا جس کے قبول کرنے میں ہی نجات ہے۔ وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (نساء : ٦٤) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا کہ اذن خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔
رسولؐ جو احکام لے کر آئے ان کی اطاعت کی جائے صرف زبانی جمع خرچ سے ایمان قابل قبول نہیں ہے۔ اطاعت کا لازمی تقاضا ہے کہ انسان جو بھی قدم بھی اٹھائے اس سے پہلے یہ معلوم کرے کہ اس سلسلہ میں نبیؐ نے کیا ہدایت دی ہے اور جب معلوم ہو جائے کہ قرآن مجید و رسولؐ نے اس سلسلے میں یہ ہدایت دی ہے تو اس کی پیروی کی جائے اور دنیا کا بڑے سے بڑا فائدہ ہم کو اس سے نہ روک سکے۔ اپنوں کی محبت اور غیروں کی دشمنی ہم کو اس پر عمل کرنے سے باز نہ رکھ سکے۔ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ (النساء : ۸۰) جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور آپؐ نے فرمایا من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصانی فقد عصی اللہ (بخاری) جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نا فرمانی کی اس نے اللہ کی نا فرمانی کی۔
رسولؐ کو اپنے معاملات میں حکم تسلیم کرے اور آپؐ جو فرما دیں اس کو نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ پورے اطمینان قلب سے تسلیم کیا جائے اور دل میں کسی طرح کا تردّد نہ آنے پائے۔ فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما (نساء : ٦٥) نہیں اے محمدؐ تمہار ے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے ہیں جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی بھی نہ محسوس کریں بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔
اتباع کا مفہوم یہ ہے قدم بقدم کسی کے پیچھے چلنا، آگے والے نے جیسا کچھ کیا ہو بہو اسی طرح اس کے پیچھے والا عمل کرے۔ اللہ تعالی نے نبی پاکؐ کی اتبا ع کا حکم دیا اور اپنی رضا نبیؐ کی اتباع سے مشروط کی ہے۔
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ (آل عمران : ۳۱) اے نبی! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا۔
اللہ کا محبوب بندہ اور جنت کا مستحق بننے کے لیے ضروری ہے کہ نبیؐ کی اتباع کی جائے۔ نبیؐ نے فرمایا میری امت کا ہر فرد جنت میں داخل ہو گا سوائے اس شخص کے جو روگردانی کرے۔ صحابہؓ نے پوچھا کون رو گردانی کرتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے روگردانی کی۔
ایک مسلمان کو نبیؐ کی اتباع میں زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے کیوں کہ اسی میں اللہ کی رضا و خوشنودی ہے۔ اللہ ہم سب کو نبی کی اتباع و اطاعت کی تو فیق عطا فر مائے۔
اطاعت کا لازمی تقاضا ہے کہ انسان جو بھی قدم بھی اٹھائے اس سے پہلے یہ معلوم کرے کہ اس سلسلہ میں
نبی ﷺ نے کیا ہدایت دی ہے ۔ اور جب معلوم ہو جائے کہ قرآن مجید و
رسول ﷺ نے اس سلسلہ میں یہ ہدا یت دی ہے تو اس کی پیروی کی جائے اور دنیا کا بڑے سے بڑا فائدہ ہم کو اس سے نہ روک سکے ۔ اپنوں کی محبت اور غیروں کی دشمنی ہم کو اس پر عمل کرنے سے باز نہ رکھ سکے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020