فوزیہ بنت محمود
ان شاء اللہ ایک دفعہ پھر ہم ماہ رمضان میں داخل ہونے والے ہیں۔ ویسے تو روزہ اور رمضان پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے پھر بھی انسان کے لیے یاد دہانی ضروری ہے کیونکہ انسان بہت جلد بھول جاتا ہے۔ جب ہم رمضان کے تعلق سے قرآنی آیات واحادیث دوبارہ سنتے ہیں تو ذہن میں پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور پھر ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے اور ایمان تازہ ہوتا ہے۔
روزہ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ جس طرح نماز تمام تمام انبیا کی امتوں پر فرض رہی، اسی طرح روزہ بھی تمام انبیا کی امتوں پر فرض رہا ہے۔ ماہ رمضان کو نیکیوں کا موسم بہار کہا گیا ہے۔ جس طرح موسم بہار میں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے پھول ہی پھول نظر آتے ہیں، اسی طرح ماہ رمضان میں بھی نیکیوں پر بہار آئی ہوئی ہوتی ہے۔ جو شخص عام دنوں میں عبادات سے دور ہوتا ہے وہ بھی رمضان میں عبادت گزار بن جاتا ہے۔ روزے کے فائدے بھی بہت ہیں اور اس کا مقصد بھی بہت عظیم ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کے باطن کی اصلاح کرتا ہے اور نفس کو اللہ کا مطیع و فرماں بردار بناتا ہے اور مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر اللہ کا ڈر یعنی تقویٰ پیدا ہو۔
برکتوں کا مہینہ
رمضان کے مہینے کی کیا فضیلت ہے، اس کی تشریح نبی اکرم ﷺ کی اس طویل حدیث سے ہوتی ہے جسے حضرت سلمان فارسیؓ نے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ آپؐ نے شعبان کی آخری تاریخ کو خطبہ دیا اور فرمایا : کہ اے لوگو! ایک بڑی عظمت والا، بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے، وہ ایسا مہینہ ہے جس کی ایک رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں روزے رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس مہینے کی راتوں میں تراویح پڑھنا نفل کر دیا ہے جو شخص اس مہینے میں کوئی ایک نیک کام اپنے دل کی خوشی سے بطور خود کرے گا تو وہ ایسا ہو گا جیسا عام دنوں میں فرض اور جو اس مہینے میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہو گا جیسے دوسرے مہینوں میں کسی نے ستر فرض ادا کیے ہوں، اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اور یہ مہینہ سوسائٹی کے غریب اور حاجت مند بندوں کے ساتھ ہمدردی وغمخواری کا مہینہ ہے۔
اس حدیث میں تمام چیزیں آگئی ہیں۔ فائدے بھی بتادیے گئے ہیں اور مقصد بھی واضح ہو گیا ہے۔ روزہ دراصل بندے کو یہ احساس دلاتا ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں دو وقت کی غذا بھی صحیح میسر نہیں۔ روزہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ ہم ان لوگوں کا خیال کریں۔ اور اگر اللہ نے کسی کو صاحب حیثیت بنایا ہے تو وہ اپنے مال سے ان ضرورت مند لوگوں کی مدد کرے۔ اسی لیے آپؐ کے بارے میں احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ رمضان المبارک میں انفاق اور عبادات کے معاملہ میں تیز ہوا کی مانند فعال ہو جاتے۔
آج امت مسلمہ کو شدید ضرورت ہے کہ وہ آپس میں ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرے۔ اس مہینے میں ہم اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کر سکتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ابن آدم کے ہر عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا‘‘ (بخاری و مسلم)
آپسی ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ
اس مہینے میں روزہ دار کو افطار کرانے پر افطار کرانے والے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ صحابہؓ میں سے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! ہم میں اس کی استطاعت نہیں ہے تو؟ آپؐ نے فرمایا: ایک کھجور یا پانی سے ہی افطار کرادیا جائے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہینہ مستحق لوگوں کی مدد کرنے کا مہینہ ہے۔ رمضان کے تعلق سے کئی احادیث ہمیں ملتی ہیں اور الحمدللہ ہم پڑھتے اور سنتے بھی ہیں لیکن کیا ہم ان پر عمل بھی کرتے ہیں؟ آئیے ہم اپنا احتساب کریں کہ کیا واقعی ہم لوگ محتاجوں اور نادار لوگوں کی ویسی ہی مدد کرتے ہیں جیسی کرنی چاہیے۔
صرف صدقہ فطر دے کر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا حق ادا کر دیا۔ جب اللہ کی راہ میں دینے کی بات آتی ہے تو ہماری جیبوں سے صرف چند روپے ہی نکلتے ہیں، لیکن جب ہم شاپنگ کے لیے بازار جاتے ہیں تو وہاں ہزاروں خرچ کر دیتے ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا۔
کوئی ضرورت مند اگر کوئی حاجت لے کر ہمار ے پاس آتا ہے تو اس وقت ہم کو اپنی کئی ضرورتیں یاد آجاتی ہیں۔ یہ خریدنا ہے، وہ خریدنا ہے۔ گھر میں اس چیز کی کمی ہے۔ بچوں کو فلاں چیز کی ضرورت ہے۔ بس ہماری خواہشیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ خاص طور سے خواتین اپنی عید کی شاپنگ کا جائزہ لیں کہ وہ اپنے لباس پر کتنا خرچ کرتی ہیں۔ ذرا رک کر سوچیں ہم سے کئی زیادہ ضرورت مند لوگ دنیا میں موجود ہیں جن کے پاس تن ڈھکنے کے لیے اچھے کپڑے نہیں ہیں، اگر اس مہینے میں ہم اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کو کچھ کم کرلیں اور یہی رقم ضرورت مندوں کو دیں تو یہ ہمارے لیے بے حد اجر کا باعث ہو گا کیونکہ اس مہینے میں کی گئی ایک نیکی اجر کے لحاظ سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ ویسے تو ہر نیکی میں آگے رہتے لیکن اس ماہ میں آپؐ عبادت اور انفاق میں بے حد فعال ہوجاتے۔
اس سے پہلے کئی رمضان ہماری زندگی میں آئے اور چلے گئے۔ اللہ ہمیں ایک موقع اور دینے والا ہے جہنم سے خلاصی کا اور اپنے گناہوں کی معافی کا اس سے ہمیں بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا: جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے، اس کے سب پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ (بخاری و مسلم)
کتنی بڑی مہربانی ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی۔ احتساب میں دونوں چیزیں آجاتی ہیں خود کا احتساب بھی کہ ہم کتنا گناہوں سے بچ رہے ہیں اور یہ احتساب بھی کہ ہم معاشرے کے مستحق لوگوں کا کتنا خیال رکھ رہے ہیں۔
روزہ ہمیں ضبط نفس کی تربیت دیتا ہے۔ ہم میں پرہیز گاری پیدا کرتا ہے، لیکن اب ماحول کچھ اس طرح کا ہوچکا ہے کہ جیسے ہی ماہ رمضان آنے والا ہوتا ہے لوگوں کے ذہن میں طرح طرح کے چٹ پٹے مزے دار قسم کے کھانوں کا تصور آجاتا ہے۔ کسی غیر مسلم بھائی سے ذکر کیا گیا کہ رمضان کا مہینہ آنے والا ہے تو اس نے فوراً کہا کہ اچھا وہ مہینہ جس میں خوب قسم قسم کے کھانے بنائے جاتے ہیں۔ یہ حال ہو چکا ہے آج ہمارا۔ رمضان نیکیوں کا مہینہ ہے۔ اللہ کے رسول نے اسے شہر اللہ بھی کہا ہے۔ یعنی اللہ سے تعلق کا مہینہ۔ لیکن ہم اس کی فکر تو نہیں کرتے کہ ہم نیکیوں میں آگے بڑھیں، تقویٰ میں آگے بڑھیں، لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی میں آگے بڑھیں، بلکہ رمضان سے پہلے ہمارے گھروں میں خوب کھانے کا سامان جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جبکہ یہ تو نیکیوں کو حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔ پھر بھی نیکیوں کے حصول پر اتنی توجہ نہیں رہتی۔
حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو ڈکار لیتے ہوئے سنا تو فرمایا: اپنی ڈکار کو کم کر اس لیے کہ قیامت کے دن سب سے بڑھ کر بھوکا وہ شخص ہوگا جو دنیا میں خوب پیٹ بھر کر کھاتا تھا۔
روزہ آدمی کو یہ سبق دیتا ہے کہ وہ شکم پروری کو زندگی کا اصل مقصد نہ سمجھے، زندگی کی قدر وقیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔
حدیث میں ہے کہ اس مہینے کا ابتدائی حصہ رحمت ہے۔ درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش جہنم سے رہائی اور نجات ہے۔ غور کیجیے۔ اس مبارک مہینہ کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ کسی بھی لمحے کو ہم ضائع نہ کریں اکثر بیکار کی گفتگو میں وقت گزارا جاتا ہے۔ حد سے زیادہ سونا یا پھر بہت زیادہ ٹی وی پر خبریں دیکھتے ہوئے وقت گزارا جاتا ہے۔
روزے کا مقصد اللہ کا ڈر اور پرہیز گاری ہے۔ یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب روزہ پورے شعور کے ساتھ رکھا جائے، ان تمام کاموں سے پرہیز کیا جائے جن سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے۔ حقیقی روزہ وہی ہے جس میں انسان ظاہری اور باطنی تمام صلاحیتوں کو اللہ کی نافرمانی سے بچائے۔ جیسے کہ نبی ؐ کا ارشاد ہے : ’جب تو روزہ رکھے تو لازم ہے کہ تو اپنے کانوں، اپنی آنکھوں، اپن زبان، اپنے ہاتھ اور اپنے سارے اعضائے جسم کو اللہ کی ناپسندیدہ باتوں سے روکے رکھے۔
ایک اور موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے باز رہا تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی حاجت نہیں‘‘۔
ان احادیث سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ روزے میں اپنا زیادہ وقت اللہ کی یاد میں اور عبادات میں گزاریں۔ قرآن سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں۔ اس مبارک مہینے کی فضیلت اس بنا پر بھی ہے کہ اس مہینے میں قرآن نازل ہوا۔ امت کی خواتین سے درخواست ہے کہ قرآن سے اپنے تعلق کو بڑھائیں۔ صرف تلاوت ہی نہ کریں۔ بلکہ اسے غور سے پڑھیں، تدبر کریں ، ترجمہ کے ساتھ پڑھیں۔ ہماری خواتین رمضان میں اپنا وقت جو کہ بہت قیمت ہے اسے کچن کی نذر کر دیتی ہیں۔ انواع واقسام کے کھانے بنانے میں ہی سارا وقت نکل جاتا ہے۔ خاص طور سے روزہ افطار سے پہلے آخر وقت تک کچن میں کچھ نہ کچھ فرائی کرتی رہتی ہیں کہ ’’گرم ‘‘ کھانے میں مزہ آتا ہے۔ جبکہ وہ وقت تو دعا کی قبولیت کا ہوتا ہے۔ گھر کے تمام افراد کو چاہیے کہ بچوں کو ساتھ شامل کریں اور پندرہ منٹ پہلے بیٹھ جائیں اور قرآنی اور مسنون دعاوں کا اہتمام کریں، گڑگڑا کر اپنے رب سے مناجات کریں۔ امت مسلمہ کی فلاح وبہبود کے لیے، امت کے نوجوانوں کی ہدایت کے لیے دعا کریں۔ گھر کی تمام خواتین یا محلے کی چند خواتین مل کر روزانہ وقت مقرر کرلیں ترجمہ سے قرآن پڑھنے کے لیے تاکہ قرآن ہمیں معلوم تو ہو کہ ہمارے رب نے ہم سے کیا کیا مطالبات کیے ہیں اور کن چیزوں سے منع کیا ہے۔
نبیؐ نے فرمایا: ’’جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات جکڑ دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں رہتا اور جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں رہتا اور اللہ کا منادی کرنے والا پکارتا ہے کہ اے بھلائی اور خیر کے طالب، آگے بڑھ اور اے برائی اور بد عملی کے شائق رک جا۔ اللہ کی طرف سے بہت سے نافرمان بندوں کو دوزخ کی آگ سے رہائی بخشی جاتی ہے اوریہ رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔
یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ کا منادی نیکی کرنے والے کو مزید آگے بڑھاتا ہے اور برائی کرنے والے کو روکتا ہے۔ اسی لیے ہمارے اکثر گھرانوں میں رمضان میں ٹی وی بند رہتا ہے۔ چونکہ شیطان جکڑا ہوا ہوتا ہے لیکن اس رمضان میں ہم اللہ سے دعا کریں کہ یہ ٹی وی جو بند ہوا ہے آئندہ لغو پروگراموں کے لیے بند ہی رہے۔
اب آخری عشرے کی جانب آتے ہیں جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری عشرہ جہنم سے نجات کا عشرہ ہے اور اس کی خاص فضیلت یہ ہے کہ ’’اس میں لیلۃ القدر پائی جاتی ہے۔ اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔ عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔ طاق راتوں میں (بخاری)
اللہ تعالیٰ کا کتنا کرم ہے اور احسان ہے کہ اس نے ایک رات کی عبادت کا اجر ہزار راتوں کے برابر عطا کر دیا۔ سبحان اللہ
لیلۃ القدر کی فضیلت قرآن اور حدیث دونوں سے معلوم ہوتی ہے لیکن کیا واقعی میں ہم لیلۃ القدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرتے ہیں؟ یا صرف ایک رات عبادت کرلی اور سمجھ لیا کہ ہم نے لیلۃ القدر کو پالیا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ آخری عشرہ گھر کی صفائی، سفیدی یا پھر عید اور لباس کی تیاریوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ اکثر خواتین کا وقت جو کہ جہنم سے خلاصی حاصل کرنے کا وقت ہے وہ بازاروں کی نذر ہوجاتا ہے۔
بے شک اللہ کے رسولؐ نے فرمایا مسلمانوں کے لیے صرف دو تہوار ہیں اور وہ اس میں خوشیاں منا سکتے ہیں۔ لیکن کیا اللہ کے رسول ؐ نے یہ فرمایا تھا کہ لیلۃ القدر کو پس پشت ڈال کر عید کی تیاریاں کی جائیں بالکل بھی نہیں۔
چند تدابیر تجویز کی جا رہی ہیں۔ ان شاءاللہ ان پر عمل پیرا ہو کر ہم رمضان کو اپنے حق میں مفید سے مفید تر بنا سکتے ہیں:
(۱) قرآن سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں۔ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں، خوش الحانی کے ساتھ پڑھیں۔ یاد رہے کہ رمضان اور قرآن کا ایک دوسرے سے خاص تعلق ہے
(۲) خواتین اپنا زیادہ وقت کھانے پینے کے اہتمام کی نذر نہ کریں۔ بہتر ہوگا کچھ چیزیں بنا کر پہلے ہی ریفریجریٹر میں رکھ دیں تاکہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ وقت مطالعہ قرآن، تدبر قرآن اور ذکر واذکار میں گزارا جا سکے۔
(۳) گھر کی صفائی اور رنگ وروغن کا کام بھی رمضان سے پہلے ہی ختم کر لیں تاکہ آخری عشرہ زیادہ سے زیادہ اللہ کے ذکر میں بسر ہو۔
(۴) پہلے سے پلاننگ کر لیں کہ کس وقت سونا ہے، کس وقت کھانا بنانا ہے اور قرآن کی تلاوت کب کرنی ہے۔
(۵) سحری سے کچھ دیر پہلے جاگ جائیں تاکہ تہجد کا بھی اہتمام ہو سکے۔
(۶) افطار میں صرف ایک ڈش بنائیں اور وہ بھی پہلے ہی بنا کر رکھ دیں تاکہ افطار سے پہلے دعاوں کا اہتمام ہو سکے۔
(۷) اکثر خواتین افطار پارٹی میں قسم قسم کے لوازمات بناتی ہیں۔ افطار کرانا بے شک اجرکا باعث ہے لیکن اپنے آپ کو تھکائیں نہیں، مختصر چیزیں بنائیں۔
(۸) اس مہینے میں نفل کا اجر بھی فرض کے برابر ہے اس لیے جو بھی انفاق کرنا ہے دل کھول کر کریں۔ اپنے لباس پر کم خرچ کریں اور اس میں سے بچا کر ناداروں کی مدد کریں۔
(۹)کوشش کریں کہ رمضان یا عید کی شاپنگ رمضان سے پہلے ہی مکمل کرلیں۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے اور روزہ (گناہوں سے بچنے کی) ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ بے حیائی کی باتوں اور شور وہنگامے سے دور رہے اور اگر کوئی لڑنے جھگڑنے پر اتر آئے تو اسکو سوچنا چاہیے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘ (بخاری و مسلم)
آخری عشرے میں آپؐ نے اس دعا کی ترغیب دی ہے:
’’اے اللہ تو بہت ہی معاف فرمانے والا اور بڑا ہی کرم کرنے والا ہے۔ معاف کر دینا تجھے پسند ہے۔ پس تو میری خطاوں کو معاف فرما دے‘‘۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان تک پہنچائے اور اس کی تمام برکات سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 تا 02 اپریل 2022