لکشدیپ:محبت کے جزیرے پر نفرتوں کے سیاہ بادل
کیا پرفل پٹیل کے غیر جمہوری اقدامات سے مسلم اکثریتی جزیرہ پرامن رہے گا؟
ڈاکٹر سلیم خان
مودی کے بعد یوگی کا خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک خوشخبری یہ ہے کہ ان کو شاہ کے بعد پٹیل مل گیا جی ہاں پرفل پٹیل۔ کل کو اگر یوگی وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو انہیں وزیر داخلہ کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ لکشدیپ کے منتظم اعلیٰ پرفل پٹیل نے اپنے آپ کو امیت شاہ کا پکا وارث ثابت کر دیا ہے۔ اتفاق سے ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ کا نام ولبھ بھائی پٹیل تھا۔ ۱۹۴۸ میں انہوں نے نیوی کے ذریعہ لکشدیپ کے ۳۶ جزیروں کو ہندوستان سے جوڑ کر وہاں کی عوام کو محب وطن بنایا اب پرفل پٹیل وہاں کے باشندوں کا دل توڑ کر انہیں ملک دشمن بنا رہا ہے۔ لنکا کو فتح کرنے سے قبل جلانے کی روایت بہت قدیم ہے۔ فی الحال لکشدیپ میں نفرت کی شعلے بھڑکائے جا رہے ہیں۔ رامائن میں یہ کام رام نے نہیں ہنومان نے کیا تھا مگر اس کے لیے اس کی دم میں آگ لگوانے والے راون کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اسی طرح لکشدیپ کو آگ لگانے کا کام پرفل پٹیل کر رہے ہیں لیکن اس کی ذمہ داری وزیر اعظم پر آتی ہے کیونکہ یونین ٹریٹری کے نظماء کا تقرر انہیں کی مرضی سے ہوتا ہے۔ کٹھ پتلی منتظم یوں بھی اپنے آقا کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا اور اگر کر بھی دے تو اس کو روکنا آسان ہوتا ہے۔ بے لگام پرفل پٹیل کو یقیناً اس کے آقا کا آشیرواد حاصل ہے۔
پرفل پٹیل کو امیت شاہ کا جا نشین قرار دینے پر حیرت کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے بھی انہیں کو امیت شاہ کا عہدہ تھمایا تھا۔ یہ صرف ۱۱ سال پرانی بات ہے۔ اس وقت مودی جی گجرات کے بے تاج بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے وزیر داخلہ کا اہم عہدہ تیز طرار امیت شاہ کو دے رکھا تھا۔ امیت شاہ کے کارنامہ پڑھنے کے لیے سی بی آئی کے ذریعہ ان کے خلاف داخل کی جانے والی چارج شیٹ پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے۔ خیر سہراب الدین قتل کے واحد چشم دید گواہ پرجاپتی کے فیک انکاونٹر پر گجرات کے سابق وزیر داخلہ کو گرفتار کرلیا گیا اور مودی جی کو مجبوراً ان کا استعفیٰ لینا پڑا۔ اس وقت شاہ جی کی جگہ لینے کے لیے مودی جی کی نظر عنایت کسی اور پر نہیں پرفل پٹیل پر پڑی تھی۔ ۲۰۰۷ میں پہلی بار پرفل پٹیل ہمت نگر سے منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچے تھے۔ ان کو سرے سے کسی وزارت کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود وزارت داخلہ کا اہم ترین عہدہ ان کو سونپ دیا گیا کیونکہ اس وقت بھی یہی معاملہ تھا ’مودی ہے تو ممکن ہے‘۔
وزیر اعظم مودی کے کام کرنے کا یہ پرانا طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنے برابر کے کسی رہنما کو آگے نہیں آنے دیتے۔ گجرات کے اندر امیت شاہ کو وزیر داخلہ بنانا بھی ایسا ہی قدم تھا۔ نا اہل اور نا تجربہ کار افراد کو اہم ذمہ داریاں سونپ دینے سے ملک وقوم کا تو یقیناً بڑا نقصان ہوتا ہے لیکن رہنماوں کے لیے یہ بڑی مفید حکمت عملی ہے۔ ایسے لوگ اپنے آقا کے لیے کبھی چیلنج نہیں بنتے بلکہ ان کی مدد سے حریفوں کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ بندہ بے دام ہونے کے سبب یہ لوگ بے چوں چرا ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ ان کی وفا داری اٹوٹ ہوتی ہے اور موجودہ سیاست میں یہی سب سے اہم صفت ہے۔ پرفل پٹیل جیسے نوزائیدہ سیاستداں کو وزیر داخلہ بنانے کے پیچھے یہی عوامل کارفرما تھے لیکن یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی کیونکہ ۲۰۱۲ کے صوبائی انتخاب میں بی جے پی کی زبردست کا میابی کے باوجود یہ وزیر داخلہ 12 ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے ہار گیا۔ مودی جی سمجھ گئے یہ شخص مجھے بھی لے ڈوبے گا اس لیے اسے دودھ میں سے مکھی کی مانند نکال کر پھینک دیا اس کو ہرانے والے سنگھ چاوڑا کو بی جے پی میں شامل کر لیا۔ اس طرح پرفل پٹیل کی سیاسی اہمیت صفر ہو گئی اور بی جے پی کے ساتھ ساتھ انتخابی سیاست سے بھی اس کی دلچسپی ختم ہو گئی۔
پرفل پٹیل کا جنم سنگھ پریوار میں ہوا۔ اس کے والد کھوڈا بھائی رنچھوڑ داس پرانے سنگھ سیوک تھے اس لیے زہریلے سنگھی سنسکار تو اسے وراثت میں مل گئے۔ کھوڈا بھائی نے نہ جانے کیوں اپنے بیٹے کا نام پر فل رکھ دیا حالانکہ انگریزی میں ’فول‘ کا مطلب احمق ہوتا ہے اور اس کی حالیہ حرکتوں نے اسے اسم بامسمیٰ ثابت کر دیا ہے۔ ویسے گوگل پر مودی جی کے ساتھ پرفل پٹیل کی جو تصاویر نظر آتی ہیں ان میں سے بیشتر میں وہ جھک کر پھول یا پھولوں کا گلدستہ دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح شاید یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ وہ انگریزی کے فول نہیں بلکہ ہندی کے پھول والے ہیں حالانکہ لکشدیپ میں اس کے کارناموں نے تو کانٹوں کو بھی شرمسار کردیا ہے۔ مشہور تو یہی ہے کہ سنگھ سے تعلق کے سبب مودی جی کا کھوڈا بھائی کے یہاں آنا جانا تھا۔ پرفل پٹیل کے وزیر بنانے میں ممکن ہے اس تعلق کا عمل دخل ہو۔ اقربا پروری صرف خاندانی نہیں بلکہ تنظیمی بھی ہوتی ہے لیکن جب اسے صالحیت وصلاحیت پر فوقیت حاصل ہو جائے تو وہ تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔
وزیر اعظم بنتے ہی مودی جی کے تو اچھے دن آگئے مگر پرفل پٹیل کو اس کے لیے دو سال انتظار کرنا پڑا۔ سب سے پہلے انہیں گجرات سے متصل مرکز کے زیر نگرانی علاقہ دادرہ نگر حویلی کا منتظم بنایا گیا۔ یہ دراصل گورنر شپ سے بھی ہلکا عہدہ ہے لیکن پٹیل نے اس کو بھاگتے بھوت کی لنگوٹی سمجھ کر لپک لیا۔ رافیل بدعنوانی سے پریشان مودی جی جس وقت دوبارہ منتخب ہونے کے لیے ہاتھ پاوں مار رہے تھے تو پرفل پٹیل نے حق نمک ادا کرنے کی خاطر دادرہ نگر حویلی کے کلکٹر کنن گوپی ناتھ کے خلاف محاذ کھول دیا جو بربنائے عہدہ الیکشن کے ریٹرننگ آفیسر بھی تھے۔ کنن جیسے افسر پر اپنی من مانی ممکن نہیں تھی اس لیے ان کو وجہ بتاو نوٹس دے کر دھمکی دی گئی کہ کوتاہی کے سبب کارکردگی کی رپورٹ کو کیوں نہ متاثر کیا جائے۔ کنن نے اس کے خلاف الیکشن کمیشن تک اپنا اعتراض پہنچایا۔ اس پر پٹیل کو پھٹکار پڑی اور نوٹس واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ الیکشن کے دوران پرفل پٹیل بی جے پی کے دو مرتبہ الیکشن جیتنے والے امیدوار ناتو بھائی گومن بھائی پٹیل کو کامیاب کرنے میں ناکام رہے اور انہیں موہن ڈیلکر نے ۸ ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے ہرا دیا۔ منتظم اعلیٰ کے لیے یہ دوہری ذلت تھی۔ پہلے تو کنن کے سامنے منہ کی کھانی پڑی، پھر ڈیلکر نے اٹھا کر پٹخ دیا۔
پرفل پٹیل نے ان دونوں سے انتقام لینے کا فیصلہ کیا۔ کنن گوپی ناتھن کو اس قدر پریشان کیا کہ بالآخر اگست ۲۰۱۹ میں انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ اس طرح ملک ایک نہایت باصلاحیت آئی اے ایس افسر کی خدمات سے محروم ہو گیا لیکن پٹیل کی اس حماقت نے این آر سی اور سی اے اے کی تحریک کو ایک نہایت نڈر اور قابل رہنما سے نواز دیا۔ کنن گوپی ناتھ نے اس تحریک کے فروغ میں جو کردار نبھایا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ گوپی ناتھ کو بھگانے کے بعد پرفل پٹیل کا دوسرا شکار موہن ڈیلکر تھا۔ ۱۹۶۷ میں پہلی بار دادرہ نگر حویلی کو الگ سے حلقہ انتخاب بنایا گیا اور وہاں سے پہلی بار موہن ڈیلکر رکن پارلیمان منتخب ہوئے۔ آگے چل کر ۲۰۰۴ تک جملہ ۷ مرتبہ انہوں نے اپنی کامیابی کا پرچم لہرایا۔ اس دوران وہ ۳ مرتبہ بی جے پی اور دو مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے نیز دو مرتبہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے بھی جیتے۔
موہن ڈیلکر کو پٹیل نے اتنا پریشان کیا کہ انہوں نے مارچ ۲۰۲۱ میں ممبئی آکر خودکشی کرلی اور اپنے سوسائیڈ نوٹ میں جن ۹ لوگوں کو نامزد کیا ان میں سرِ فہرست وزیر اعظم کے چہیتے پرفل پٹیل کا نام تھا۔ ڈیلکر کے بیٹے ابھینو کا الزام ہے کہ پرفل پٹیل نے ان کے والد پر دباو ڈال کر ۲۵ کروڑ کی خطیر رقم کا مطالبہ کیا تھا۔ وہ ان کے تعلیمی اداروں پر غاصبانہ قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ پرفل پٹیل ان کو جھوٹے الزامات میں پھنسا کر جیل بھیجنے کی سازش رچ رہے تھے تاکہ آئندہ الیکشن لڑنے سے روکا جا سکے۔ کسی طاقتور منتظم کے خلاف ایسے سنگین الزامات عائد کرنا اپنی جان کو جوکھم میں ڈالنے جیسا ہے اس کے باوجود ابھینو ڈیلکر نے کمال جرأتمندی کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کیا کہ ہر کوئی بی جے پی کی دھونس دھمکی میں نہیں آتا۔ ابھینو نے کہا کہ موہن ڈیلکر نے اس لیے ممبئی کے ہوٹل میں جا کر خود کشی کی تاکہ پٹیل اس معاملے کو رفع دفع نہ کرسکے۔ اس مقصد کی حد تک موہن ڈیلکر کامیاب رہے اور پرفل پٹیل کے خلاف ممبئی کے اندر ایف آئی آر درج ہو گئی۔ وہ تو خیر مہاراشٹر میں بی جے پی برسرِ اقتدار نہیں ہے ورنہ بیچارے موہن ڈیلکر کو راجستھان جانا پڑتا کیونکہ دہلی کی پولیس بھی امیت شاہ کے تابع ہے اور مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ کو ہٹایا جا چکا ہے۔
پرفل پٹیل کے ماضی کو تفصیل سے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے تاکہ اس کے تناظر میں اس کی حالیہ بد بختیوں کا جائزہ لیا جائے۔ کیرالا کے پاس لکشدیپ نامی جزیروں کا مجموعہ ہے۔ ملیالم زبان میں اس کا مطلب ایک لاکھ جزیرے ہوتا ہے۔ یہاں ایک لاکھ تو نہیں جملہ ۳۶ جزیرے ہیں جن میں سے صرف دس میں لوگ رہتے ہیں باقی ۲۶ غیر آباد ہیں۔ اس کا کل علاقہ ۳۲ مربع کلومیٹر ہے اور ۲۰۱۱ کی رائے شماری کے مطابق آبادی ۶۵ ہزار سے کم ہے۔ یہ ایک یونین ٹریٹری ہے اس لیے وہاں کا انتظام صدر مملکت کے ذریعہ ایڈمنسٹریٹر چلاتا ہے۔ پہلے چونکہ وہاں کا انتظام آئی اے ایس افسر سنبھالتے تھے اس لیے وہ علاقہ پرسکون تھا۔ دسمبر ۲۰۲۰ میں اچانک لکشدیپ کے منتظم اعلیٰ دنیشور شرما کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد شرما کی جگہ کوئی نیا قابل افسر مقرر کرنے کے بجائے پرفل پٹیل کو وہاں کی اضافی ذمہ داری سونپ دی گئی اور اس کو ایک پرامن علاقہ میں بدامنی پھیلانے کا موقع مل گیا۔
پرفل پٹیل نے نئی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے کورونا سے متعلق پیش رو شرما کے نافذ کردہ سخت ضوابط کو ختم کر دیا۔ اس ناعاقبت اندیش فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلی لہر میں جہاں کورونا کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا تھا وہاں اس کے منحوس قدموں نے ۷ ہزار سے زیادہ لوگوں کو وبا سے متاثر کیا۔ اب بھی ان جزائر میں ۲۳۲۰ لوگ کورونا سے لڑ رہے ہیں جبکہ ۲۶ افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ موہن ڈیلکر کی مانند ان سب کا بلا واسطہ قاتل بھی یہی پٹیل ہے۔ اس قتل عام کے بعد ایک ایسے جزیرے پر ہندوتوا کا ایجنڈا نافذ کرنے کا مذموم منصوبہ بنایا گیا جس کی ۹۶ فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اس کی ابتداء اسکول میں مڈ ڈے میل سے گوشت، مرغی اور انڈے کو نکالنے سے کی گئی۔ اب اس نے بڑے جانور کے گوشت پر پابندی لگانے کی تجویز بھی پیش کر دی۔ بی جے پی کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ شمال مشرقی صوبے اروناچل پردیش، آسام، میزورم، میگھالیہ، ناگالینڈ اور تریپورا کے اندر یہ پارٹی حکومت میں شریک ہے مگر بیف پر پابندی کی بات نہیں کرتی۔
لکشدیپ کی طرح بحیرہ عرب کے ساحل پر گوا میں بھی اپنے رائے دہندگان کو خوش رکھنے کے لیے بی جے پی سرکار بڑے کے گوشت کا اہتمام کرتی ہے۔ بنگال اور کیرالا میں جہاں ابھی حال میں انتخابات ہوئے بی جے پی ایک بار بھی یہ مسئلہ اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکی کیونکہ اس میں سیاسی نقصان ہے۔ مرکزی وزیر کرن رجیجو اور آسام کے سابق وزیر اعلیٰ سربانند کھلے عام بیف کھانے کی وکالت کرتے ہیں مگر انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کیرالا کے ضمنی پارلیمانی انتخاب ( ۲۰۱۷) کے اندر بی جے پی امیدوار سری پرکاش اعلیٰ درجہ کا حلال بیف مہیا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور انہیں پھر سے ٹکٹ دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں گوشت کھانے والے بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں مگر لکشدیپ کے اندر بی جے پی کی حالت بہت خراب ہے۔ بی جے پی کو ۲۰۰۹ کے پارلیمانی انتخاب میں ۲۴۵ ووٹ ملے۔ اس کے بعد ۲۰۱۴ میں یہ تعداد ۱۸۷ پر آگئی اور ۲۰۱۹ میں جبکہ بی جے پی ایوان پارلیمان میں ۳۰۳ نشستیں جیت گئی تو لکشدیپ میں اسے صرف ۱۲۵ ووٹ ملے اور جو موقع پرست اس کے قریب آئے تھے اب وہ بھی الٹے پیروں بھاگ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح کمل کا سپڑا صاف ہو گیا ہے۔ ممبئی میں اس کو کہتے ہیں کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ۔
لکشدیپ کے دس آباد جزیروں میں سے ایک کا نام بنگارام ہے جہاں شراب کی چھوٹ ہے، باقی ۹ میں شراب ممنوع ہے۔ پرفل پٹیل اس پابندی کو پوری طرح ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس کے آبائی وطن گجرات میں پچھلے ۷۰ سال سے شراب پر پا بندی ہے اور چوتھائی صدی حکومت کرنے کے باوجود بی جے پی اسے ختم نہیں کر سکی۔ دین اسلام میں تو یہ ام الخبائث حرام ہی ہے لیکن آدرش گجرات کے وزیر اعلیٰ وجئے روپانی نے ابھی مارچ میں فخر کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ گجرات کی خواتین شراب پر پابندی کے سبب محفوظ ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ گجرات کی خواتین کے لیے جو پابندی امن و تحفظ کی ضامن ہے وہی شئے لکشدیب کی عورتوں کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود پرفل پٹیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے مقامی خواتین کو طاقتور بنانےکی خاطر میونسپل کارپوریشن کی ۵۰ فیصد نشستیں ان کے لیے مختص کردی ہیں۔ اس کے ساتھ پٹیل نے دو بچوں سے زیادہ کے والدین کو انتخاب میں حصہ لینے سے روکنے کا قانون بھی بنا دیا۔ یہ قانون نہ کرناٹک میں ہے اور نہ اتر پردیش میں۔ اتر اکھنڈ میں تو اس پر عدالت نے روک لگا دی ہے لیکن پرفل پٹیل جیسا ان پڑھ یہ سب نہیں جانتا۔ جہاں تک خواتین کی قوت کا سوال ہے گجرات اسمبلی کے ۱۸۰؍ ارکان میں صرف ۱۴ یعنی ۸ فیصد خواتین ہیں۔
پرفل پٹیل کو لکشدیپ کی ترقی میں بھی خاص دلچسپی ہے لیکن وہ بھول گیا کہ جس وکاس کا نعرہ بی جے پی نے ۷ سال قبل لگایا تھا وہ دو سال قبل گجرات میں فیل ہو چکا ہے۔ لکشدیپ کے ماہی گیر ساحل پر اپنے جال اور دیگر سازو سامان رکھتے تھے پٹیل نے برسوں سے قائم وہ عارضی شیڈز توڑ ڈالے۔ اس احمق نے سرکاری دفاتر میں ٹھیکے پر کام کرنے والے کئی لوگوں کو بیروزگار کر دیا۔ یہ کون سی ترقی ہے جس میں عام لوگوں سے ان کی روزی روٹی چھینی جارہی ہے؟ اس احمق نے سرکاری ڈیری بند کروادی۔ مہینے کے آخر تک تمام مویشیوں کو فروخت کرنے کا فرمان صادر کر دیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ وہ گجرات کی امول ڈیری کے فروغ کی خاطر یہ کر رہا ہے۔ ممکن اس میں دلالی کھانا چاہتا ہو۔ لکشدیپ میں صحت کی سہولت محدود ہے اس لیے وہاں زیادہ بیمار لوگوں کی خاطر سرکاری ہیلی کاپٹر فراہم کیے جاتے تھے۔ پرفل اس خدمت کو بھی محض چند لوگوں تک محدود کرنا چاہتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عصر حاضر میں جبکہ معمولی سیاسی رہنما ہیلی کاپٹر میں اڑتے پھرتے ہیں یہاں مجبور مریضوں کو اس سہولت سے محروم کیا جا رہا ہے۔
لکشدیپ کے لوگوں کی زبان ملیالم اور تہذیب کیرالا سے مماثل ہے۔ وہاں کی ساری در آمد کیرالا کی بندرگاہوں سے ہوتی ہے لیکن یہ چاہتا ہے کہ کیرالا سے رشتہ توڑ کر کرناٹک کے منگلور سے جوڑ دیا جائے کیونکہ وہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ اپنے آپ کو دیش بھگت کہنے والا اس حقیقت سے غافل ہے کہ کیرالا میں کسی بھی حکومت ہو تب بھی وہ ہندوستان کا ایک حصہ رہے گا۔ اس فیصلے کی وجہ سے کیرالا کی معیشت پر برا اثر پڑ رہا ہے اور وہاں زبردست احتجاج شروع ہو گیا ہے۔ کیرالا کے اندر گزشتہ اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کو ایک سیٹ کیا ملی تھی کہ سبری مالا کے بہانے وہ اقتدار میں آنے کا خواب دیکھنے لگی۔ اس بار میٹرو مین کو میدان میں اتارا گیا اس کے باوجود وہ ایک سے صفر پر آگئی۔ اب پرفل پٹیل کی اس حرکت کے بعد تو ان کا کیرالا میں گھسنا مشکل ہو جائے گا۔ بی جے پی کو پرفل پٹیل جیسے دوچار اور بہی خواہ مل جائیں تو وہ ۲۰۲۴ تک اس کا کریا کرم کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ موہن ڈیلکر کے اداروں کو ہتھیانے کا ملزم اب عوام کی جائیداد پر قبضہ کرنے کے لیے ایک نیا قانون وضع کر رہا ہے جس کی رو سے عوامی زمینوں پر سرکار قبضہ کر سکے گی۔ جموں وکشمیر میں جو ناکام ہو گیا اسے یہ لکشدیپ میں نافذ کرنا چاہتا ہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوگا۔ غالب گمان تو یہ ہے کہ اس نے کچھ ایسے سرمایہ داروں سے سانٹھ گانٹھ کرلی ہے جو عوام کی زمینوں پر قبضہ کر کے سیاحتی مراکز بنانا چاہتے ہیں لیکن مقامی لوگ اس کو قبول نہیں کریں گے۔ وہ مزاحمت کریں گے اسی کو دبانے کی خاطر وہاں پاسا یعنی غنڈہ ایکٹ لانا چاہتا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے ادارے این آر سی بی کے مطابق لکشدیپ میں جرائم نا کے برابر ہیں۔ سنگین جرائم کا تو نام ونشان نہیں ہے جیلیں خالی ہیں۔ اس قانون کے تحت لکشدیپ میں این آر سی اور سی اے اے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ یہ قانون دراصل سرکاری دھاندلی کی مخالفت کرنے والوں کو دبانے کے لیے تجویز کیا گیا ہے لیکن اس کے نتیجے میں اگر وہاں بد امنی پھیل جائے تو نہ سرمایہ کاری ہو گی اور نہ سیاح آئیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ کنن معاملے کی طرح اگر پٹیل نے یہ قوانین واپس لیے تو لوگ اسے ماننے سے انکار کر دیں گے۔ ویسے موہن ڈیلکر کا معاملہ بھی ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے جلد یا بدیر پرفولش پٹیل کو اس معاملے میں جیل کی ہوا کھانی پڑے گی کیونکہ اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔
***
کیرالا کے اندر گزشتہ اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کو ایک سیٹ کیا ملی تھی کہ سبری مالا کے بہانے وہ اقتدار میں آنے کا خواب دیکھنے لگی۔ اس بار میٹرو مین کو میدان میں اتارا گیا اس کے باوجود وہ ایک سے صفر پر آگئی۔ اب پرفل پٹیل کی اس حرکت کے بعد تو ان کا کیرالا میں گھسنا مشکل ہو جائے گا۔ بی جے پی کو پرفل پٹیل جیسے دوچار اور بہی خواہ مل جائیں تو وہ ۲۰۲۴ تک اس کا کریا کرم کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 6 جون تا 12 جون 2021