’’لو جہاد‘‘: یوپی کی ایک عدالت نے ثبوت کی عدم فراہمی کی بنا پر مسلم شخص اور اس کے بھائی کی رہائی کا حکم دیا

اترپردیش، دسمبر 19: اتر پردیش کے ضلع مراد آباد کی ایک عدالت نے نئے انسداد تبدیلیِ مذہب قانون کے تحت گرفتار دو افراد کی رہائی کا حکم دیا ہے، کیوں کہ پولیس ان کے خلاف کوئی بھی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی۔

ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق راشد علی نامی ایک مسلمان شخص اور اس کے بھائی کو 4 دسمبر کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ رجسٹرار کے دفتر شادی کا رجسٹریشن کروانے کے لیے گئے تھے۔ اسی وقت دائیں بازو کے گروپ بجرنگ دل کے اراکین نے رجسٹرار آفس پہنچ کر جوڑے پر ’’لو جہاد‘‘ کے الزامات لگائے اور انھیں پولیس کے حوالے کردیا۔

اس کے بعد راشد کی حاملہ بیوی، جس کی شناخت پنکی کے نام سے ہوئی ہے، کو ضلع مراد آباد کے ایک شیلٹر ہوم میں بھیج دیا گیا تھا جہاں اس کا زبردستی اس کا اسقاط حمل کردیا گیا۔ ٹائمس آف انڈیا کے مطابق الٹراساؤنڈ نے تصدیق کی کہ اس کا اسقاط حمل کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ 13 دسمبر کو عہدیداروں نے اس سے انکار کیا تھا کہ اس عورت کو اسقاط حمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اسپتال کی چیف میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نرملا پاٹھک نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ خاتون کی الٹراساؤنڈ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ جنین نظر آتا ہے لیکن اس کے دل کی دھڑکن نہیں ہے۔

اس دوران اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (دیہی) ودیا ساگر مشرا نے بتایا کہ اس خاتون کے شوہر اور بہنوئی کو 50 ہزار روپے کے ذاتی مچلکوں پر رہا کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ اترپردیش حکومت کے ذریعے اس آرڈیننس کی منظوری کے بعد سے متعدد مسلمان مردوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی طرح کے ایک اور معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی ایک شخص کی گرفتاری پر روک لگادی اور اسے ’’بالغوں کو حاصل حقوق‘‘ کے خلاف قرار دیا۔