’’لو جہاد‘‘: مدھیہ پردیش نے اپنے مجوزہ بل میں 10 سال قید کی سزا کی تجویز پیش کی
مدھیہ پردیش، 26 نومبر: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق مدھیہ پردیش حکومت نے بدھ کے روز "لو جہاد” (Love Jihad) کے خلاف اپنے مجوزہ بل میں شادی کے لیے جبراً مذہبی تبادلوں پر قید کی سزا پانچ سال سے دوگنا کر کے دس سال کر دی۔
"لو جہاد” ہندوتوا تنظیموں کی ایک خود ساختہ اصطلاح ہے جس کے تحت وہ مسلم مردوں پر شادی کے نام پر ہندو خواتین کا مذہب تبدیل کروانے کا الزام لگاتے ہیں۔
مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے کہا کہ مذہبی آزادی بل 2020، 28 دسمبر سے شروع ہونے والے اجلاس کے دوران ریاستی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نے بین المذاہب شادی کے خواہاں لوگوں کو درکار اجازت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’اس مجوزہ قانون کے تحت متعلقہ فریقوں کو شادی سے قبل ضلع مجسٹریٹ کو درخواست جمع کروانا ہوگی۔‘‘
مشرا نے مزید کہا ’’شادی کے لیے دوسرا مذہب قبول کرنے والے فرد اور اس عمل میں شامل مذہبی افراد کو ایک ماہ قبل ہی ضلع مجسٹریٹ سے اجازت لینا لازم ہو گا۔‘‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ نئے قانون کے تحت کیا گیا کوئی بھی جرم ناقابال ضمانت ہوگا۔
مشرا نے کہا کہ اس بل میں ان مذہبی پیشواؤں کے لیے بھی پانچ سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے، جو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر بین المذاہب شادیاں کرواتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت ایسی شادیوں میں سہولت فراہم کرنے والی تنظیموں کا رجسٹریشن بھی منسوخ کردے گی۔
مدھیہ پردیش حکومت کا یہ اعلان اتر پردیش کابینہ کے ذریعے ’’لو جہاد‘‘ کے معاملات کی جانچ کے لیے ایک آرڈیننس کی منظوری کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔ اس آرڈیننس میں زبردستی مذہبی تبادلوں پر 15000 روپے جرمانے کے ساتھ 1 سے 5 سال تک قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ جب کہ شیڈول ذات اور قبیلے کی نابالغ لڑکیوں اور خواتین کا مذہب تبدیل کرنے پر 10 سال تک کی قید ہے۔
مدھیہ پردیش نے 17 نومبر کو اعلان کیا تھا کہ وہ زبردستی مذہبی تبدیلی کے خلاف ایک قانون جلد متعارف کرائے گا۔ مشرا نے تب کہا تھا کہ حکومت پانچ سال قید کی سزا پر غور کر رہی ہے۔
کرناٹک اور ہریانہ جیسی دوسری بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر اقتدار ریاستوں نے بھی "لو جہاد” کے خلاف قانون متعارف کروانے کی بات کی ہے۔ حالاں کہ مرکز نے 4 فروری کو لوک سبھا کو بتایا تھا کہ ملک میں موجودہ قوانین کے تحت "لو جہاد” کی کوئی تعریف نہیں کی جا سکتی۔