لغات القرآن سیریز(قسط۔ 1)

عربی اردو الفاظ و معنی تلاوت کی ترتیب سےسورہ فاتحہ تا سورہ البقرہ آیت 10

ابن مولانا عبداللطیف آئمی

{سورہ الفاتحہ }

سورہ البقرہ کی آیت نمبر 10تک

سورہ الفاتحہ کے ’’مضمون‘‘ کے بارے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں: دراصل یہ سُورہ ایک دُعا ہے جو اﷲ تعالیٰ نے ہر اُس انسان کو سکھائی ہے جو اُس کی کتاب کا مطالعہ شروع کررہا ہو ۔ کتاب کی ابتدا میں اِس کو رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم واقعی اِس کتاب سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہو تو پہلے اﷲ تعالیٰ نے یہ دُعا کرو۔(تفہیم القران)

عربی الفاظ                                               اردو معنی

اﷲ: ۔یہ لفظ اِلٰہ سے بنا ہے جس کے معنی معبود کے آتے ہیں ۔عربی قاعدے کے مطابق اِس لفظ میں سے الف (ہمزہ) کو گرا کر ’’الف لام‘‘ داخل کر دیا گیا ہے تو یہ لفظ ’’اﷲ‘‘ بن گیا ۔ ’’اﷲ‘‘ اِسم ذات ہے یعنی اﷲ وہ ہے کہ جس کی ذات اور صفات میںکوئی شریک نہیں ہے۔ نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اُس سے کوئی پیدا ہوااورنہ کوئی اُس کے برابر ہے۔

حَمْدٌ:۔تعریف کرنا ، شکر ادا کرنا ،حمد و ثنا کرنا

رَبٌّ:۔ربکے معنی بہت وسیع ہیں ۔ مختصر یہ ہے کہ ’’رَبٌّ‘‘ اُس کو کہتے ہیں جو ہر چیز کو آہستہ آہستہ پرورش کرکے اُس کو کمال کی حد تک پہنچا دیتا ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ ہے ۔اﷲ ہر ایک کا رب ہے بلکہ ساری کائنات کا رب ہے ۔ اﷲ ہر ایک کو اپنی نعمتیں برابر عطافرما رہا ہے چاہے وہ فرماں بردار ہو یا نافرمان ۔اﷲ ہر ایک کو پال رہا ہے۔

اَلْعَالَمِیْنَ:۔اَلْعَالَم کی جمع ہے دنیا ، جہان۔ اﷲنے جتنے جہان یا عَالَم پیدا کئے ہیں ۔وہ ہمیں معلوم ہیں یا نہیں معلوم ہیں ۔ اﷲ اُن تمام جہانوں کو پالنے والا اور اُن کی دیکھ بھال کرنے والا ہے ۔اِس کائنات میں کتنے جہان ہیں اِس کا علم صرف اﷲ تعالیٰ کو ہی ہے۔

اَلرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ:۔رحمن اور رحیم یہ دو الفاظ مبالغہ والے ہیں ۔ مبالغہ یعنی کسی بات یا حقیقت کے اظہار کے لئے اس کو اہمیت دینے کے لئے بڑھا چڑھا کر بیان کرنا۔’’رَ حْمَۃٌ‘‘  کے لفظ سے رحمن اوررحیم بنائے گئے ہیں ۔ اِن کے معنی ہیں ہر مخلوق پر بے انتہا مہربانیاںکرنے والا اﷲ جس کے فضل و کرم سے یہ دنیا قائم ہے۔بعض علماء کے مطابق ’’رحمن‘‘ کا تعلق دنیا میں بسنے والی تمام مخلوق سے ہے  جن میں تمام انسان شامل ہیں ۔انسان چاہے مسلمان ہو یا کافر ۔اﷲ تعالیٰ دنیامیں سب پر ’’رحم‘‘ فرماتا ہے اور سب کواپنی نعمتیں عطا فرماتا ہے اور سب کو پالتاہے۔’’ رحیم‘‘ کا تعلق آخرت کے انسانوں سے ہے ۔اﷲ تعالیٰ آخرت میں صرف ایمان والوں پر ’’رحم‘‘فرمائے گا اور کافروں پر ’’رحم‘‘ نہیں فرمائے گا۔

یَوْم الدِّیْنِ:۔جزا اور سزا کا دن ، بدلہ کا دن ، حساب کادن

اِیَّاکَ:۔تیری ہی ، تجھ سے ہی ، تُو نے ہی۔ ’’اِیَّا‘‘کے معنی ’’ ہی‘‘ ہیں ۔ کَ کے معنی ’’تیرا، تُو نے‘‘ ہیں ۔اصل میں اِیَّا’’کلمۂ حصر‘‘ ہے ۔ یعنی’’ اِیِّا‘‘ جس لفظ پر آتا ہے تو اُس کے تمام معنی اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔

نَعْبُدُ:۔ہم عبادت و بندگی کرتے ہیں۔

نَسْتَعِیْنُ:۔ہم استعانت (مدد) مانگتے ہیں

اِھْدِنَا:۔ہمیں ہدایت دیجیئے ، ہمیں راستہ دکھایئے، ہمیں منزل تک پہنچا دیجیئے۔

اَلصِّرَاطَ:۔راستہ

اَلْمُسْتَقِیْمُ:۔سیدھا ، سچا ۔’’صراط مستقیم‘‘ یعنی سیدھا سچاراستہ

اَلْذِیْنَ:۔وہ لوگ ، اُن لوگوں

اَنْعَمْتَ:۔تُو نے انعام کیا

عَلَیْھِمْ:۔اُن لوگوںپر ، جن لوگوں پر

غَیْرِ:۔ نہ ، سوا ، دوسرے

مَغْضُوْبِ :غضب کئے گئے، جن پر غضب کیا گیا

وَلَا:۔اور نہیں

اَلضَّآلِیْنَ :۔گمراہ ، بہکے ہوئے ، بھٹکے ہوئے

{سورہ البقرہ }

لَارَیْبَ :۔شک نہیں ہے ۔ یعنی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے

ھُدًی:۔ہدایت ، راستہ دکھانے اور منزل تک پہنچانے کو بھی ’’ہدایت‘‘ کہتے ہیں

تَقْوٰیٰ :۔بچنا ، ڈرنا۔گناہوں سے بچنا ، اﷲ کی سزاکے ڈر سے گناہوں سے بچنا

اَلْمُتَّقِیْنَ:۔متقی کی جمع ۔تقویٰ اختیار کرنے والے،اﷲ کی سزا سے ڈرنے والے،گناہوں سے پرہیز کرنے والے ،بچنے والے،ایمان کی حفاظت کرنے والے

اِیْمَانٌ:۔زبان سے اﷲ کے معبود ہونے کا اقرار کرنا اور دل سے یقین کرنا

غَیْبٌ:۔انسان کے پانچوں حواس (سُونگھنا ، چکھنا ، دیکھنا ، سُننا ، محسوس کرنا) سے باہر ۔جس کو صرف اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہی اﷲ کی مرضی سے بتا سکتے ہیں

اَلصَّلوٰۃٌ:۔ لفظی معنی ’’دعا‘‘ ہیں ۔ اَسے عام طور پر ’’نماز‘‘ کے معنی میں لیا جاتا ہے ۔’’نماز‘‘ اﷲ کی عبادت کرنے کا وہ مخصوص طریقہ جس کو جس طرح سے رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے بتایا ہے ۔اُس کواُسی طرح سے ادا کرنا ۔

اِنْفَاقٌ:۔خرچ کرنا ۔ اپنے مال اور صلاحیتوں کواﷲ اور اُس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق خرچ کرنا

اٰ خِرَۃٌ:۔اِس دنیا کی عارضی زندگی کے بعد ہمیشہ رہنے والی زندگی کو ’’آخرت‘‘ کہا جاتا ہے

فَلَاحٌ:۔کامیاب ، کامیابی ، اہل ایمان کی خصوصیت

کَفَرُوْا :۔انہوں نے کفر کیا ،اﷲ کو معبود ماننے سے انکار کیا

سَوَائٌ :۔برابر ہے ، یکساں ہے ، ایک جیسا ہے

ئَ:۔خواہ ، چاہے

اَنْذَرْتَھُمْ:۔تُو (آپ) انہیں ڈرائیں،اِسی سے’’نذیر‘‘ بنا ہے

لا:۔نہیں ، نہ

خَتَمَ:۔اُس نے مُہرلگا دی ۔ جب کسی چیز پر ’’مُہر‘‘ یا ’’سِل ‘‘لگا دی جاتی ہے تو اِسکا مطلب ہوتا ہے کہ اب باہر سے کوئی چیز اندر اور اندر سے باہر نہیں آسکتی ۔دلوں پر ’’مہر‘‘ لگنے کا مطلب یہ ہے کہ اب حق اُن کے دلوں میں داخل نہیںہوسکتا ہے اوراُن کے دلوں کا کفرباہرنہیں آسکتا ہے

قُلُوْبٌ:۔دلوں۔قلب (دل) کی جمع

سَمْعٌ:۔سننے کی طاقت ،سننے کی اہلیت ،ترجمہ ’’ کان ‘‘ کیا جاتا ہے

اَبْصَارٌ:۔دیکھنے کی طاقت ۔ آنکھیں ۔ بصر (آنکھ) کی جمع ہے

غِشَاوَۃٌ:۔پردہ ، رُکاوٹ ، حجاب۔یہ لفظ ’’ غشی ‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی ڈھانپنے اوررکاوٹ ڈالنے کے آتے ہیں

عَذَابٌ:۔تکلیف ، مصیبت

عَظیْمٌ:۔بہت بڑا ، عظیم

اَلنَّاسُ:۔لوگ ، انسان ، آدمی

یَقُوْلٌ:۔وہ کہتا ہے ،آگے ’’آمنَّا‘‘ کا لفظ ہونے کی وجہ سے اردو میں اِس طرح ترجمہ کیا جائے گا ’’وہ کہتے ہیں‘‘

اٰمَنَّا :۔ہم ایمان لے آئے

یَوْمِ اٰخِرْ:۔آخری دن ، قیامت کا دن

یَخْدَعُوْنَ:۔دھوکہ دیتے ہیں ، خُدْعٌ ٌسے بنا ہے دھوکہ دینا ، دل میں بری بات چھپا کربظاہر اچھا بننے کی کوشش کرنا تاکہ دوسرے اُس سے دھوکہ کھا جائیں

اَنْفُسُ:۔نفس کی جمع ہے ،جان ،ذات شخصیت

مَا یَشْعُرُوْنَ :۔وہ شعور نہیں رکھتے ، انہیں سمجھ نہیں ہے ، بے خبر ہیں۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی حماقت میں مبتلا ہیں مگر اُن کو اِس کااحساس اور خبر نہیں ہے۔

مَرَضٌ:۔بیماری،بیماری ایک تو وہ ہوتی ہے جوانسان کی بے اعتدالیوںکی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جس کو محسوس کیا جاسکتا ہے لیکن عام طور پر روحانی بیماری سے انسان آنکھیں بند کئے رکھتا ہے یہاںروحانی بیماری سے مراد ہے۔

زَادَ :۔ زیادہ کیا

اَلِیْمٌ :۔ دردناک ، انتہائی تکلیف دہ چیز۔ لفظ الم سے بنا ہے

یَکْذِبُوْنَ :۔ جھٹلاتے ہیں ۔ ’’کذب‘‘ جھوٹ ،  غلط بیانی ، حقیقت کے خلاف ، نقصان پہنچانے والا

سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۰؎ مکمل ہوئی ۔ باقی انشاء اﷲ اگلی قسط میں پیش کریں گے۔