قومی تعلیمی پالیسی2020 اقلیتوں کے تعلیمی امور پر خاموش ہے: ایف ایم ای آئی آئی

نئی دہلی، ستمبر 6: فیڈریشن آف مسلم ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز-انڈیا (ایف ایم ای آئی آئی) کے زیر اہتمام ’’اقلیتی تعلیمی اداروں پر نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے اثرات‘‘ کے عنوان سے ایک ویبنار میں مختلف شرکا نے آئین کی دفعہ 30 کے تحت اقلیتی تعلیمی اداروں کی حیثیت پر خاموشی کو لے کر تشویش کا اظہار کیا۔ نئی تعلیمی پالیسی کا حتمی مسودہ آئین کی دفعہ 30  پر خاموش ہے اور مدرسوں اور تعلیمی اداروں میں داخلے میں ریزرویشن کے بارے میں بھی خاموش ہے۔

ایف ایم ای آئی آئی کے نائب صدر جناب نصرت علی نے کہا کہ نئی پالیسی میں ملک میں تعلیم کے لیے ایک مرکزی اتھارٹی بنانے کی بات کی گئی ہے، لیکن اس نے آئین کی دفعہ 30 پر مکمل خاموشی برقرار رکھی ہے جس کے تحت اقلیتوں کو تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

نئی تعلیمی پالیسی کے تحت چھوٹے اسکولوں کے بڑے اداروں میں ضم کرنے کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس میں یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ اقلیتی اسکولوں کا کیا ہوگا؟ کیوں کہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے زیر انتظام اسکولوں کی بڑی تعداد چھوٹی ہے۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ حکام کو ان تمام چیزوں کو مبہم رکھنے کے بجائے ان کو واضح کرنا چاہیے تھا۔

نئی تعلیمی پالیسی سے لفظ ’’مدرسہ‘‘ کے ذکر کو ترک کرنے کے ساتھ ساتھ ریزرویشن پر خاموشی کو لے کر بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اقلیتی طبقوں کی ایک بڑی تعداد ریزرویشن کے تحت آتی ہے۔ نئی پالیسی میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ ’’مدرسوں‘‘ اور ریزرویشن کا کیا ہوگا۔

یہ بتاتے ہوئے کہ NEP 2020 نے دنیا کی 100 اعلی جامعات کو ہندوستان میں اپنے کیمپس قائم کرنے کی اجازت دینے کے بارے میں بات کی ہے لیکن ان میں ریزرویشن پالیسی پر خاموش ہے۔

بچوں کو مادری زبان میں پانچویں تک تعلیم دینے اور مجموعی گھریلو مصنوعات کا 6 فیصد تک تعلیم پر خرچ کرنے کے ارادے کی تعریف کرتے ہوئے مسٹر علی نے نشان دہی کی کہ ملک میں قرون وسطی کے تعلیمی دور، برطانوی دور اور آزادی کے بعد کی تعلیمی پیش رفتوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، جو تشویش کا باعث ہے۔

نئی پالیسی سے متعلق اپنے ’’نظریاتی خدشات‘‘ بیان کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی نشان دہی کی کہ ہندوستان میں اقلیتوں کی اپنی متمول تاریخ ہے اور تعلیمی ترقی میں ان کا اہم کردار رہا ہے لیکن بدقسمتی سے ان کے کارناموں کو نئی تعلیمی پالیسی کے مسودے میں جگہ نہیں ملی۔

وہیں ہیرا لال جین سینئر سیکنڈری اسکول کی پرنسپل ڈاکٹر نرمل جین نے NEP 2020 کو اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی بتاتے ہوئے کہا کہ 62 صفحات پر مشتمل پالیسی دستاویز میں ایک بار بھی ’’مدرسوں‘‘ پر بات نہیں کی گئی۔‘‘

اس ویبینار میں دہلی اقلیتی کمیشن (ڈی ایم سی) کے سابق چیئرمین کمال فاروقی، دہلی یونی ورسٹی کے ریٹائرڈ کنٹرولر امتحانات ڈی ایس جگّی اور سابق ڈی ایم سی ممبر ہرویندر کور اور دیگر اہم ماہرین تعلیم اور تعلیمی اداروں کے منتظمین نے حصہ لیا۔